Daily Ausaf:
2025-11-02@17:27:32 GMT

موت پر خوشی نہ مناؤ، کیونکہ سب کو مرنا ہے

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

موت ایک یقینی اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان اس کا ذائقہ چکھے گا۔ جو پیدا ہوا ہے، اسے ایک دن مرنا ہے۔ کوئی طاقت، کوئی دولت، کوئی دعا یا احتجاج اسے اُس وقت سے روک نہیں سکتا جب اُس کی گھڑی آن پہنچے۔ یہ وہ انجام ہے جو انسانیت کو یکساں طور پر جوڑتا ہے—بادشاہوں سے لے کر فقیروں تک، طاقتوروں سے لے کر کمزوروں تک۔
پنجاب کے عظیم صوفی شاعر، میاں محمد بخش نے اس عالمگیر حقیقت کو نہایت سادہ اور پُراثر الفاظ میں بیان کیا:
’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جانا‘‘
یعنی ’’دشمن کے مرنے پر خوشی نہ کر، تیرے پیارے بھی مر جائیں گے‘‘۔
یہ اشعار ایک لازوال پیغام لیے ہوئے ہیں کہ موت، چاہے کسی کی بھی ہو، خوشی کا موقع نہیں بلکہ ہماری اپنی فانی حیثیت کا دردناک احساس ہے۔
گزشتہ روز بھارت کے شہر احمد آباد کے ہوائی اڈے کے قریب ایک نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایک مسافر طیارہ، جو سینکڑوں انسانوں کو لیے ہوئے تھا، زمین سے ٹکرا گیا۔ تباہی بے پناہ اور بے رحم تھی۔ نہ صرف جہاز میں سوار تمام افراد لقمہ اجل بنے، بلکہ قریبی گھروں میں رہنے والے کئی افراد بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تصور کیجیے وہ مناظر—کوئی خاندان دوپہر کا کھانا کھا رہا ہو، کوئی بچہ کھلونوں سے کھیل رہا ہو، کوئی شخص کام سے واپس آ رہا ہو—اور ایک لمحے میں سب کچھ آگ اور تباہی کی نذر ہو جائے۔ کچھ مسافر شاید اپنے پیاروں سے ملنے جا رہے ہوں، کچھ روزگار کی تلاش میں نکلے ہوں۔ لیکن سب کو ایک ہی لمحے میں خاموش کر دیا گیا۔
ایسے سانحات کا دکھ بے حد ہوتا ہے، اور اس کا درد اُن تمام لوگوں تک پہنچتا ہے جو ان مرنے والوں سے جڑے ہوتے ہیں—والدین، شریکِ حیات، بچے، دوست۔ ان کے گھروں پر چھا جانے والا غم ایسا ہے جسے کوئی زبان پوری طرح بیان نہیں کر سکتی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ دور بیٹھے مشاہدین کی حیثیت سے ہم اکثر ان خبروں پر محض ایک سانس لے کر گزر جاتے ہیں، جب تک کہ یہ سانحہ ہمارے ملک یا ہمارے لوگوں کو نہ چھوئے۔
یہی وہ تنگ نظری ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ دکھ کسی ایک قوم، مذہب یا نسل تک محدود نہیں۔ یہ وہ دھاگہ ہے جو ہر زندگی کو آپس میں باندھتا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں، تو کیا ہمارا طرزِ عمل مختلف نہ ہو؟ اگر ہمیں اجنبی چہروں میں اپنے پیاروں کی جھلک نظر آئے، تو کیا ہم زیادہ شدت سے نہ بولیں، اور زیادہ گہرائی سے نہ محسوس کریں؟
ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ظلم اور ناانصافی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے کئی علاقوں میں لوگ مسلسل خطرے میں جی رہے ہیں—چاہے وہ جنگ ہو، ظلم ہو یا قدرتی آفت۔ فلسطین میں روز بمباری ہوتی ہے۔ بچے ملبے کے درمیان پلتے ہیں، اور کتابوں سے پہلے ڈرون کی آواز پہچاننا سیکھتے ہیں۔ کشمیر میں خاندان دہائیوں سے دباؤ، کرفیو اور جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ دنیا کی نظریں اکثر ان پر سے ہٹ جاتی ہیں، یا تو اس لیے کہ یہ خبریں معمول بن گئی ہیں، یا پھر سیاسی مصلحت کی وجہ سے۔
لیکن کیا ہمیں ان کے دکھ کو ویسے ہی محسوس نہیں کرنا چاہیے جیسے احمد آباد کے طیارے کے حادثے کے متاثرین کا؟ کیا غزہ میں روتی ماں کے آنسو احمد آباد کی ماں کے آنسوؤں سے کم اہم ہیں؟ کیا کشمیر میں بیٹے یا بیٹی کو دفناتے ہوئے باپ کا دکھ دہلی، لاہور یا لندن میں کسی باپ کے دکھ سے کم مقدس ہے؟ اگر ہمارا جواب ’’نہیں‘‘ہے—اور ہونا چاہیے—تو پھر ہمارے دلوں کو ہر دکھ کے لیے کھلا رہنا ہوگا، اور ہماری آوازوں کو ہر ناانصافی کے خلاف بلند ہونا ہوگا، جہاں کہیں بھی ہو۔
انسانیت کا سب سے اعلیٰ درجہ یہی ہے کہ انسان دوسروں کے لیے محسوس کرے۔ یہی جذبہ ہے جو ہمیں تسلی دینے، بچانے اور دوسروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر مجبور کرتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ دنیا کو آج اسی انسانیت کی شدید ضرورت ہے۔ صرف مرنے والوں کے لیے دعا کافی نہیں، بلکہ ایک ایسی دنیا بنانے کی جدوجہد ضروری ہے جہاں کم لوگ بے گناہ مریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ظلم کی مذمت کریں اور رحم و شفقت کو فروغ دیں۔ جو لوگ دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں—چاہے وہ تشدد، نفرت یا لاپرواہی کے ذریعے ہو—وہ وقتی طاقت تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن وہ کبھی عزت سے یاد نہیں کیے جاتے۔ تاریخ ظالم کے ساتھ مہربان نہیں ہوتی، بلکہ وہ اُنہیں یاد رکھتی ہے جو زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، سچ بولتے ہیں، اور خاموشی کے دور میں حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
ہر سانحے میں ایک انتخاب ہوتا ہے۔ ہم چاہیں تو منہ موڑ لیں، یا پھر ایک دوسرے کی طرف بڑھیں۔ ہم بے حس بن سکتے ہیں، یا مہربان ہو سکتے ہیں۔ ہم چیخوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں، یا اُنہیں آواز دے سکتے ہیں جب تک انصاف نہ ہو جائے۔ احمد آباد کا حادثہ، غزہ کی بمباری، کشمیر کی خاموشی —یہ سب الگ الگ کہانیاں نہیں، بلکہ ایک ہی انسانی داستان کے ابواب ہیں۔ اور اس داستان میں ہم سب کا کردار ہے۔
لہٰذا آئیں صرف جینے کی نہیں، بلکہ جینے دینے کی کوشش کریں۔ صرف اپنے لیے سہولت نہ چاہیں، بلکہ دوسروں کے لیے آسانی پیدا کریں۔ کسی کے گرنے پر فخر نہ کریں، بلکہ کسی کو اٹھانے میں عزت تلاش کریں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں موت ایک اٹل حقیقت ہے، ہماری زندگی کو نرمی سے مزین ہونا چاہیے، نہ کہ سختی سے؛ رحم سے، نہ کہ دشمنی سے۔
اور جب ہماری اپنی آخری گھڑی آئے—اور وہ ضرور آئے گی—تو یہ کہا جائے کہ ہم نے صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے جیا۔ ہم نے اندھیرے میں روشنی بانٹی، اور درد میں تسلی دی۔ یہی ہے ایک اچھی زندگی کا اصل پیمانہ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دوسروں کے سکتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان

کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز

ملتان(سب نیوز)کالعدم ٹی ایل پی کے جنوبی پنجاب کے ٹکٹ ہولڈرز نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا اور کہا ہے کہ ٹی ایل پی کے پاس احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا، احتجاج کی کال دینا نامناسب عمل تھا۔
ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کالعدم ٹی ایل پی کے جنوبی پنجاب کے ٹکٹ ہولڈر نے کہا کہ ہم تحریک لبیک سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور ہم پر کوئی دبا نہیں، ٹی ایل پی کے پاس فلسطین کے نام پر احتجاج کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، فلسطینی خود معاہدے پر مطمئن تھے مگر یہاں احتجاج کی کال دی گئی۔انہوں نے کہا کہ احتجاج کا کوئی جواز نہیں تھا، بیرونی چیلنجز ہوتے ہوئے ملک میں احتجاج کی کال دینا نامناسب عمل تھا، ٹی ایل پی کے لانگ مارچ سے ملک کو نقصان پہنچا، ہم تحریک لبیک سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں۔
ٹکٹ ہولڈرز نے کہا کہ پاکستان کلمہ کے نام پر حاصل کیا گیا، دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنائیں گے، پاکستان تاقیامت قائم رہے گا کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔محمد حسین بابر نے کہا کہ کالعدم ٹی ایل پی سے بغیر کسی دباو کے علیحدہ ہورہے ہیں۔ راو عارف سجاد نے کہا کہ پاکستان انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرافغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے،پاکستان افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے،پاکستان چیئرمین سی ڈی اے کی زیر صدارت اجلاس،سی ڈی اے اور سپارکو کے درمیان بہتر شہری منصوبہ بندی کے حوالے سے سیٹلائٹ امیجز کی... پی پی کشمیر کاز کی علمبردار،کبھی حقوق پر سودا نہیں کریں گے،بلاول بھٹو پاک افغان تعلقات کے حوالے سے نیا فورم دستیاب ہوگا،وزیر اطلاعات بھارتی پراپیگنڈہ بے بنیاد، اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعاون زیر غور ہے: پاکستان شیخ رشید کی بیرون ملک جانے کی درخواست منظور TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • نفرت انگیز بیانیہ نہیں وطن پرستی
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • ماتلی ، ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ ، کوئی اقدامات نہیں کیے گئے
  • پی ٹی آئی کی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں ہورہی، بیرسٹر گوہر
  • کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے نام کا اعلان اسلام آباد سے نہیں بلکہ کشمیر سے ہوگا، بلاول بھٹو
  • خواجہ نظام الدین کا تاریخ میں نام سنہری حرفوں میں درج ہے، وسیم شیخ
  • اسموگ اور اینٹی اسموگ گنز