موت پر خوشی نہ مناؤ، کیونکہ سب کو مرنا ہے
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
موت ایک یقینی اور ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان اس کا ذائقہ چکھے گا۔ جو پیدا ہوا ہے، اسے ایک دن مرنا ہے۔ کوئی طاقت، کوئی دولت، کوئی دعا یا احتجاج اسے اُس وقت سے روک نہیں سکتا جب اُس کی گھڑی آن پہنچے۔ یہ وہ انجام ہے جو انسانیت کو یکساں طور پر جوڑتا ہے—بادشاہوں سے لے کر فقیروں تک، طاقتوروں سے لے کر کمزوروں تک۔
پنجاب کے عظیم صوفی شاعر، میاں محمد بخش نے اس عالمگیر حقیقت کو نہایت سادہ اور پُراثر الفاظ میں بیان کیا:
’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جانا‘‘
یعنی ’’دشمن کے مرنے پر خوشی نہ کر، تیرے پیارے بھی مر جائیں گے‘‘۔
یہ اشعار ایک لازوال پیغام لیے ہوئے ہیں کہ موت، چاہے کسی کی بھی ہو، خوشی کا موقع نہیں بلکہ ہماری اپنی فانی حیثیت کا دردناک احساس ہے۔
گزشتہ روز بھارت کے شہر احمد آباد کے ہوائی اڈے کے قریب ایک نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایک مسافر طیارہ، جو سینکڑوں انسانوں کو لیے ہوئے تھا، زمین سے ٹکرا گیا۔ تباہی بے پناہ اور بے رحم تھی۔ نہ صرف جہاز میں سوار تمام افراد لقمہ اجل بنے، بلکہ قریبی گھروں میں رہنے والے کئی افراد بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تصور کیجیے وہ مناظر—کوئی خاندان دوپہر کا کھانا کھا رہا ہو، کوئی بچہ کھلونوں سے کھیل رہا ہو، کوئی شخص کام سے واپس آ رہا ہو—اور ایک لمحے میں سب کچھ آگ اور تباہی کی نذر ہو جائے۔ کچھ مسافر شاید اپنے پیاروں سے ملنے جا رہے ہوں، کچھ روزگار کی تلاش میں نکلے ہوں۔ لیکن سب کو ایک ہی لمحے میں خاموش کر دیا گیا۔
ایسے سانحات کا دکھ بے حد ہوتا ہے، اور اس کا درد اُن تمام لوگوں تک پہنچتا ہے جو ان مرنے والوں سے جڑے ہوتے ہیں—والدین، شریکِ حیات، بچے، دوست۔ ان کے گھروں پر چھا جانے والا غم ایسا ہے جسے کوئی زبان پوری طرح بیان نہیں کر سکتی۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ دور بیٹھے مشاہدین کی حیثیت سے ہم اکثر ان خبروں پر محض ایک سانس لے کر گزر جاتے ہیں، جب تک کہ یہ سانحہ ہمارے ملک یا ہمارے لوگوں کو نہ چھوئے۔
یہی وہ تنگ نظری ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ دکھ کسی ایک قوم، مذہب یا نسل تک محدود نہیں۔ یہ وہ دھاگہ ہے جو ہر زندگی کو آپس میں باندھتا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں، تو کیا ہمارا طرزِ عمل مختلف نہ ہو؟ اگر ہمیں اجنبی چہروں میں اپنے پیاروں کی جھلک نظر آئے، تو کیا ہم زیادہ شدت سے نہ بولیں، اور زیادہ گہرائی سے نہ محسوس کریں؟
ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ظلم اور ناانصافی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ دنیا کے کئی علاقوں میں لوگ مسلسل خطرے میں جی رہے ہیں—چاہے وہ جنگ ہو، ظلم ہو یا قدرتی آفت۔ فلسطین میں روز بمباری ہوتی ہے۔ بچے ملبے کے درمیان پلتے ہیں، اور کتابوں سے پہلے ڈرون کی آواز پہچاننا سیکھتے ہیں۔ کشمیر میں خاندان دہائیوں سے دباؤ، کرفیو اور جبر کی چکی میں پس رہے ہیں۔ دنیا کی نظریں اکثر ان پر سے ہٹ جاتی ہیں، یا تو اس لیے کہ یہ خبریں معمول بن گئی ہیں، یا پھر سیاسی مصلحت کی وجہ سے۔
لیکن کیا ہمیں ان کے دکھ کو ویسے ہی محسوس نہیں کرنا چاہیے جیسے احمد آباد کے طیارے کے حادثے کے متاثرین کا؟ کیا غزہ میں روتی ماں کے آنسو احمد آباد کی ماں کے آنسوؤں سے کم اہم ہیں؟ کیا کشمیر میں بیٹے یا بیٹی کو دفناتے ہوئے باپ کا دکھ دہلی، لاہور یا لندن میں کسی باپ کے دکھ سے کم مقدس ہے؟ اگر ہمارا جواب ’’نہیں‘‘ہے—اور ہونا چاہیے—تو پھر ہمارے دلوں کو ہر دکھ کے لیے کھلا رہنا ہوگا، اور ہماری آوازوں کو ہر ناانصافی کے خلاف بلند ہونا ہوگا، جہاں کہیں بھی ہو۔
انسانیت کا سب سے اعلیٰ درجہ یہی ہے کہ انسان دوسروں کے لیے محسوس کرے۔ یہی جذبہ ہے جو ہمیں تسلی دینے، بچانے اور دوسروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے پر مجبور کرتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ دنیا کو آج اسی انسانیت کی شدید ضرورت ہے۔ صرف مرنے والوں کے لیے دعا کافی نہیں، بلکہ ایک ایسی دنیا بنانے کی جدوجہد ضروری ہے جہاں کم لوگ بے گناہ مریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ظلم کی مذمت کریں اور رحم و شفقت کو فروغ دیں۔ جو لوگ دوسروں کو تکلیف دیتے ہیں—چاہے وہ تشدد، نفرت یا لاپرواہی کے ذریعے ہو—وہ وقتی طاقت تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن وہ کبھی عزت سے یاد نہیں کیے جاتے۔ تاریخ ظالم کے ساتھ مہربان نہیں ہوتی، بلکہ وہ اُنہیں یاد رکھتی ہے جو زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، سچ بولتے ہیں، اور خاموشی کے دور میں حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
ہر سانحے میں ایک انتخاب ہوتا ہے۔ ہم چاہیں تو منہ موڑ لیں، یا پھر ایک دوسرے کی طرف بڑھیں۔ ہم بے حس بن سکتے ہیں، یا مہربان ہو سکتے ہیں۔ ہم چیخوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں، یا اُنہیں آواز دے سکتے ہیں جب تک انصاف نہ ہو جائے۔ احمد آباد کا حادثہ، غزہ کی بمباری، کشمیر کی خاموشی —یہ سب الگ الگ کہانیاں نہیں، بلکہ ایک ہی انسانی داستان کے ابواب ہیں۔ اور اس داستان میں ہم سب کا کردار ہے۔
لہٰذا آئیں صرف جینے کی نہیں، بلکہ جینے دینے کی کوشش کریں۔ صرف اپنے لیے سہولت نہ چاہیں، بلکہ دوسروں کے لیے آسانی پیدا کریں۔ کسی کے گرنے پر فخر نہ کریں، بلکہ کسی کو اٹھانے میں عزت تلاش کریں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں موت ایک اٹل حقیقت ہے، ہماری زندگی کو نرمی سے مزین ہونا چاہیے، نہ کہ سختی سے؛ رحم سے، نہ کہ دشمنی سے۔
اور جب ہماری اپنی آخری گھڑی آئے—اور وہ ضرور آئے گی—تو یہ کہا جائے کہ ہم نے صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے جیا۔ ہم نے اندھیرے میں روشنی بانٹی، اور درد میں تسلی دی۔ یہی ہے ایک اچھی زندگی کا اصل پیمانہ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دوسروں کے سکتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
فسطائیت کے خلاف فتح سے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل تک’’ کے موضوع پر اسلام آباد میں سیمینار کا کامیاب انعقاد
فسطائیت کے خلاف فتح سے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل تک’’ کے موضوع پر اسلام آباد میں سیمینار کا کامیاب انعقاد WhatsAppFacebookTwitter 0 29 July, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:چائنا میڈیا گروپ اور ایشین انسٹیٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے زیرِ اہتمام اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا: “امن کی جانب سفر: فسطائیت کے خلاف فتح سے بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی تشکیل تک”۔
یہ سیمینار نہ صرف دوسری جنگ عظیم میں فسطائیت کے خلاف چین کی قربانیوں کو اجاگر کرنے کا ذریعہ تھا بلکہ اس کا مقصد عالمی امن، بین الاقوامی شراکت داری، اور “ہم نصیب معاشرے” کے نظریے کو تقویت دینا بھی تھا۔
سیمینار میں نامور حکومتی شخصیات، سفارت کاروں، تھنک ٹینک ماہرین، دانشوروں اور میڈیا نمائندوں نے بھرپور شرکت کی، جنہوں نے چین کی قیادت، خارجہ پالیسی، اور انسان دوست عالمی وژن کو سراہا۔
اس موقع پر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی، کھیل داس کوہستانی نے اپنے خطاب میں کہا: کہ چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون رواداری، شراکت داری اور باہمی احترام ہے۔ چین نے نہ صرف فسطائیت کے خلاف آہنی دیوار بن کر مزاحمت کی بلکہ آج بھی ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف ایک توانا آواز ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاک – چین دوستی دنیا میں اخلاص اور باہمی اعتماد کی اعلیٰ مثال ہے۔”
وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی، رومینہ خورشید عالم نے کہا:کہ چین نے عالمی فلاح و بہبود کے لیے جو قربانیاں دیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ چین نے ہمیشہ انسان دوستی، امن، اور انصاف کو فروغ دیا۔ ‘ہم نصیب معاشرہ کا تصور عصرِ حاضر کے لیے امید کی کرن ہے جو دنیا کو تقسیم نہیں بلکہ جوڑنے کی سوچ پر مبنی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیرِ دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی، نے کہا کہ عظیم میں چین کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس نے جارحیت کے خلاف نہ صرف مزاحمت کی بلکہ بعد ازاں عالمی برادری کو امن، ترقی اور بقاء کا راستہ دکھایا۔ چین کا عزم آج بھی بین الاقوامی استحکام کا ضامن ہے۔”
صدر انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، سابق سیکرٹری خارجہ جوہر سلیم نے کہا کہ کا کردار عالمی امن، خوشحالی اور ترقی کے حوالے سے فیصلہ کن بن چکا ہے۔ اس کی پالیسیاں عالمی نظام کو توازن، شفافیت اور شراکت داری کی جانب لے جا رہی ہیں۔”
چین میں پاکستان کے سابق سفیر، معین الحق نے چین کی امن دوست قیادت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ چین اور پاکستان نہ صرف سٹریٹیجک پارٹنرز بلکہ دلوں سے جُڑے آہنی بھائی ہیں۔ چین کا برادرانہ رویہ اور ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم اسے ایک حقیقی دوست ثابت کرتا ہے۔
شکیل احمد رامے، سی ای او ایشین انسٹیٹیوٹ آف ایکو سولائزیشن، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ چین کی پالیسیوں میں ہمیشہ عوامی فلاح، باہمی تعاون اور مساوی ترقی کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ چین نے عالمی سطح پر کسی بھی ملک کی خودمختاری میں مداخلت کیے بغیر ترقی و دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اور غربت کے خاتمے سے لے کر پائیدار ترقی تک ہر محاذ پر قابلِ تقلید مثالیں قائم کیں۔”
پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے سی ای او، مصطفیٰ حیدر سید نے کہا کہ چین نے ہر دور میں بنی نوع انسان کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اس کی قیادت نے ہمیشہ عالمی امن و استحکام کو ترجیح دی۔ تاریخ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے تو چین کا انسان دوست، متوازن اور طویل المیعاد وژن ہر مرحلے پر واضح نظر آتا ہے
شرکاء نے چین کے شراکت داری پر مبنی بیانیے کو سراہتے ہوئے اس پر اعتماد کا اظہار کیا۔ متعدد شرکاء نے اپنے جذبات “کمنٹس وال” پر تحریری صورت میں بھی ریکارڈ کیے، جن میں چین کی عالمی قیادت، فلاحی اقدامات اور امن کے فروغ میں کردار کی تعریف کی گئی۔
یہ سیمینار محض ایک فکری نشست نہیں تھی بلکہ یہ اس عزم کا اظہار تھا کہ دنیا کو درپیش نئے چیلنجز ،
جیسے انتہا پسندی، یکطرفہ پن اور جبر کا مقابلہ صرف باہمی تعاون، شراکت داری اور امن کے مشترکہ وژن سے ہی ممکن ہے۔
چین کا یہ وژن نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ مستقبل میں انسانیت کے لیے ایک پائیدار، منصفانہ اور پرامن دنیا کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم کا پاکستان اور کرغزستان کے درمیان تعاون میں پیشرفت پر اظہار اطمینان وزیراعظم کا پاکستان اور کرغزستان کے درمیان تعاون میں پیشرفت پر اظہار اطمینان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں: نائب وزیراعظم اسحاق ڈار عدیس ابابا،پاکستانی سفارتی مشن کی کاوش،22پاکستانی وطن واپس توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کل اڈیالہ جیل میں ہوگی بارشوں کا نیا سلسلہ ،این ڈی ایم اے کا ممکنہ موسمی صورتحال پر الرٹ جاری پنجاب اسمبلی،ہنگامہ آرائی پر اپوزیشن رکن خالد نثار ڈوگر اورشیخ امتیاز 15نشستوں کیلئے معطلCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم