Express News:
2025-07-29@15:49:01 GMT

اسرائیل کا ایران پرحملہ، عالمی امن پرکاری وار

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

اسرائیل نے 200 لڑاکا طیاروں کے ساتھ ایران کی 100 سے زیادہ تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے جس میں پاسداران انقلاب کے سربراہ، آرمی چیف سمیت متعدد اہم کمانڈرز اور 6 جوہری سائنسدان شہید ہوئے ہیں، جس کی ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نے تصدیق کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا، تو امریکا اسرائیل کا مکمل دفاع کرے گا۔

 بلاشبہ اسرائیل کے ایران پر اچانک بلاجواز حملے کے پیچھے امریکا کی آشیر آباد شامل ہے، جب کہ ایران کو کوئی بھی جوابی اقدام اٹھانے سے پہلے کئی پہلو مدِ نظر رکھنا ہوں گے۔ اس کی دفاعی صلاحیت کی اپنی محدودات ہیں پھر پابندیوں کے باعث بحرانوں میں گھری معیشت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک جانب تو علاقائی اور عالمی امن کے چیمپیئن بننا چاہتے ہیں اور دوسری جانب اسرائیلی بربریت کی سرپرستی کرکے علاقائی اور عالمی امن کو خود تاراج کر رہے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اسرائیل کی اس تازہ کارروائی نے خطے میں ہمہ گیر جنگ کے خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ امریکا کی پیشگی منظوری اور اعانت سے ایران پر اسرائیلی حملے نے تیسری اور سب سے خطرناک عالمی جنگ کی بنیاد رکھ دی ہے۔

پاکستان، سعودی عرب، ملائیشیا اور بعض دوسرے ممالک نے اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھیں ایران کی علاقائی خود مختاری، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی مجرمانہ خلاف ورزی قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے اسرائیل کو عالمی امن خطرے میں ڈالنے سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکا جس طرح دہشت گرد اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود مہیا کر کے اسے شہہ دے رہا ہے، اس سے یہ پوری طرح واضح ہورہا ہے کہ امریکا عالمی امن کے خلاف ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل دونوں کی حالت کٹھ پتلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور مسلسل قراردادوں کے منظور ہونے کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہ کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ مسلم ممالک اگر ہمت کرسکتے ہیں تو خود ہی ہتھیار اٹھا کر اسرائیل کو سبق سکھا دیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران کھوکھلے بیانات جاری کرنے کے سوا کچھ نہیں کررہے ہیں اور ان کی اسی بے عملی کی وجہ سے صورتحال اس حد تک بگاڑ کا شکار ہوگئی ہے کہ اب یہ جنگ غزہ سے نکل کر پورے مشرقِ وسطیٰ میں پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔

 ایک جانب تو امریکا نے ایران پر ایک نئے جوہری معاہدے کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈال رکھا تھا جس پر ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کہہ چکے ہیں کہ امریکا کی طرف سے بھیجی گئی نئی جوہری معاہدے کی تجویز ’مبہم اور سوالات‘ پر مشتمل ہے اور اس تجویز کے کئی نکات واضح نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایرانی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی جاری رکھنا ہماری سرخ لکیر ہے اور ان کا ملک آیندہ چند دنوں میں امریکی تجویز کا جواب دے گا جو کہ ایران کے اصولی موقف اور ایرانی عوام کے مفادات پر مبنی ہو گا۔‘‘

دراصل یورینیم کی افزودگی ان مذاکرات میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان ایک کلیدی اختلافی نکتہ بنی ہوئی ہے۔ ایران کا مؤقف ہے کہ اسے پرامن جوہری توانائی کے حصول کا حق حاصل ہے جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ ایران کو ممکنہ معاہدے کی صورت میں یورینیم کی کوئی بھی افزودگی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

IAEA کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے 60 فیصد تک خالص یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے، جو کہ تقریباً 90 فیصد کی سطح کے قریب ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ مغربی ممالک، بشمول امریکا، طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے رہے ہیں، جب کہ ایران مسلسل یہ مؤقف دہراتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

 دوسری جانب کچھ عرصہ قبل امریکی صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تھا۔ ٹرمپ کے دورہ پر سعودیہ اور امریکا میں 142ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے ہوئے۔ اس دورہ کے دوران ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ اگر ایرانی قیادت نے زیتون کی شاخ اٹھانے کے بجائے جوہری بندش کی ڈیل سے انکار کیا تو نہ صرف یہ کہ مزید پابندیاں لگیں گی بلکہ تہران کی آئل برآمدات زیرو کردیں گے اور یہ ایشو جنگ تک جا سکتا ہے۔ اور پھر یہی بات ٹرمپ کی سچ ثابت ہوئی ہے کہ انھوں نے امریکا کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اسرائیل کو آگے کر کے ایران پر حملے کی شہہ دی ہے۔

 حالانکہ ٹرمپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ میں جنگوں کو روکنا چاہتا ہوں، روس اور یوکرین کی جنگ روکنے کے لیے کوشاں ہوں، لیکن عملی طور پر وہ صرف اتنا کرسکے کہ یوکرین کے صدر کو امریکا بلا کر ڈانٹ پلا دی، جب کہ روس کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ناکام رہے۔

اسی طرح ان کا سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا فتنہ پروری اور مسلم دنیا کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے مترادف ہے، نجانے کیوں امریکی صدر کی نظر ابھی تک غزہ کی طرف نہیں اٹھ رہی جہاں اسرائیلی بمباری اور خوراک کی بندش کے باعث ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، بمباری بھوک اور بیماریاں تیزی سے انسانوں کی زندگیاں چھین رہی ہیں، اس کی براہ راست ذمے داری اسرائیل اور امریکا پر عائد ہوتی ہے، ایک طرف ٹرمپ کہتے ہیں ’’مجھے جنگیں پسند نہیں، دنیا میں امن کی خواہش رکھتا ہوں‘‘ دوسری طرف اسلحہ فروخت کے معاہدے کیے جا رہے ہیں جو تشویشناک عمل ہے ایک طرف امن کی باتیں اور دوسری طرف دورے کے دوران دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر ایران نے ان کی یہ پیشکش مسترد کی تو پھر وہ اس پر دباؤ میں اضافہ کر دیں گے اور تہران کی تیل کی برآمدات زیرو کر دیں گے، امریکا امن کے قیام کے لیے فوجی طاقت استعمال کر رہا ہے۔

 امریکا اپنے دوستوں اور شراکت داروں کا تحفظ جاری رکھے گا جب کہ ٹرمپ کو صرف یوکرین میں مظالم نظر آ رہے ہیں کشمیر اور غزہ کے معاملے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں جس سے امریکا کی دروغ گوئی عیاں ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو ریاستی منصوبے کی حمایت بڑھ رہی ہے مگر اسرائیل زبردستی فلسطین کے زرعی رقبے کو مسلسل غصب کر رہا ہے وہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے یہودیوں کو آباد کر رہا ہے۔ غزہ کے نیم خود مختار علاقے کو بھی اس نے تباہ و برباد کر کے ایک ویران کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے، لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔

 ہزاروں شہید ہوئے، ہزاروں معذور ہوئے، غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہیں نہ ہی ادویات میسر ہیں، اسرائیل نے محاصرہ کرکے تمام راستے بند کردیے ہیں تاکہ فلسطینی وہاں سے نکل جائیں۔ ان حالات میں امن کی کنجی صرف امریکا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر امریکا عرب ممالک کے ساتھ واقعی باہمی امن و احترام اور دوستی کا رشتہ قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے اسرائیل کو پٹہ ڈالنا ہوگا۔

 فلسطینیوں کی ریاست اور خود مختاری کا احترام کرنا ہوگا، القدس شریف پر فلسطینیوں کا حق تسلیم کرکے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے، عرب ممالک بھی اس سے کم کسی اور بات پر راضی نہیں ہونگے، ٹرمپ اگر واقعی جنگوں کے مخالف ہیں تو سب سے پہلے شروعات غزہ سے کریں کشمیریوں کو ان کا حق دلائیں کیونکہ ایک طرف ظلم کا بازار گرم ہو تو دوسری طرف امن کا دعویٰ نہیں جچتا۔

 اس وقت صورتحال مسلسل کشیدہ ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل اور ایران نے تحمل کا مظاہرہ نہ کیا تو خطہ ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ عالمی برادری اس وقت سخت تشویش کا شکار ہے اور کئی ممالک نے فریقین سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کو اس صورتحال کے تدارک کے لیے عملی طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے، ورنہ دنیا میں قیامت سے پہلے قیامت برپا ہوسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورینیم کی امریکی صدر اسرائیل کو عالمی امن امریکا کی کہ ایران ایران نے رہے ہیں ہے اور رہا ہے کہ اگر کے لیے

پڑھیں:

فلسطین کو دنیا سے نقشے سے مٹانے کے آرزو مند اسرائیل کے دیگر عزائم کیا ہیں؟

7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے واقعات ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے، جس کے بعد اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے فلسطینی مسئلے کے مکمل خاتمے کا راستہ اختیار کیا۔

وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت نے قومی سلامتی اور حماس کے حملوں کا بہانہ بنا کر غزہ پر بھرپور فوجی حملے شروع کیے، لیکن اس فوجی مہم کے پیچھے اصل مقصد فلسطینی خودمختاری کا خاتمہ اور آبادی کی جبری نقل مکانی یعنی ایک طرح کی نسل کشی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نیتن یاہو نے کس کے دباؤ میں آکر غزہ چرچ پر گولہ باری کو ’غلطی‘ قراردیا

غزہ میں تباہ کن انسانی بحران کے باوجود، جس میں  ہزاروں اموات، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، اور انسانی امداد پر پابندی شامل ہے، اسرائیلی حملے جاری ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، مگر اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی پروا کیے بغیر اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔

نتیجتاً یہ تنازع ایک ایسی سطح تک جا پہنچا ہے جہاں شدت اور ظلم اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔

18 جولائی 2024 کو اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ایک قرارداد منظور کی، جس کے مطابق فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے ایک ’وجودی خطرہ‘ ہے۔

اس قرارداد میں دعویٰ کیا گیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام دہشتگردی کو انعام دینا، تنازع کو مزید بڑھانا، اور خطے کو غیر مستحکم کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران جنگ کے 40 دن بعد، ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے قوم کے لیے نئے اہداف کا اعلان کردیا

ان کا خیال ہے کہ اگر فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو وہ جلد حماس کے قبضے میں آ جائے گی اور ایران کے زیر اثر ایک ’دہشتگرد مرکز‘ بن جائے گی۔

اس کے بعد 23 جولائی 2025 کو کنیسٹ نے ایک اور سخت قرارداد منظور کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ پورے مغربی کنارے (ویسٹ بینک) پر اسرائیلی حاکمیت قائم کی جائے گی اور ان علاقوں کو قانونی و انتظامی طور پر اسرائیل کا حصہ بنایا جائے گا۔

یہ اقدام اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسرائیل اب مغربی کنارے کے الحاق کو ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کے طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔

اس میں یہ بھی شامل ہے کہ یہودی بستیوں کو مزید وسعت دی جائے گی، فلسطینیوں کو بےدخل کیا جائے گا اور فوجی قبضے کو مزید سخت کیا جائے گا، چاہے بین الاقوامی قوانین اور احتجاج کچھ بھی کہیں۔

اسرائیل اب تنازع کو روکنے کی پالیسی چھوڑ کر پورے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی و سیاسی حقیقت کو یکطرفہ طور پر بدلنے کے درپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی پاور پلانٹ سے زہریلی گیس کا اخراج، شہری گھروں محصور ہونے پر مجبور

صرف اندرونی اقدامات ہی نہیں، اسرائیل اب اپنے علاقائی مخالفین کے خلاف بھی فوجی و سیاسی اقدامات کر رہا ہے، جن میں ایران، حزب اللہ، حوثی اور ترکی شامل ہیں۔

ستمبر 2024 میں اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا، جو اس گروہ کی مزاحمت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

اس کے بعد اسرائیل نے لبنان میں متعدد حملے کیے اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

اسرائیل نے امریکا کی مدد سے لبنان کی نئی حکومت کو حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے پر آمادہ کرنے کی سفارتی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں۔

یمن میں اسرائیل نے حوثیوں کے خلاف بھی کئی کارروائیاں کی ہیں، خاص طور پر ان کے میزائل مراکز اور اسلحہ کے ذخائر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حملوں میں امریکا اور برطانیہ کی افواج بھی شامل رہی ہیں تاکہ بحیرہ احمر میں جہاز رانی کو محفوظ رکھا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی فوج کے لیے دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی فیکٹری ہیک کر لی گئی

اسی طرح شام میں اسرائیل نے اپنے روایتی فضائی حملے جاری رکھے ہیں، لیکن اب وہ دروز اور کرد گروپوں کو علیحدگی کی تحریکوں کے لیے خاموش حمایت دے رہا ہے تاکہ شام میں ایران اور ترکی کا اثر کم کیا جا سکے۔

موسمِ بہار 2025 میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کئی دہائیوں کا سب سے بڑا تنازع سامنے آیا، جسے ’12 روزہ جنگ‘ کہا جا رہا ہے۔

اس میں ایران نے اسرائیل پر میزائل حملے کیے، جس کے بدلے اسرائیل نے ایران کے ایئر ڈیفنس، نیوکلیئر تنصیبات اور عسکری مراکز کو نشانہ بنایا۔

یہ جنگ امریکی اور قطری سفارتی کوششوں سے رکی، لیکن یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیل اب کھلے فوجی تصادم کے لیے بھی تیار ہے تاکہ ایران کے اثر کو ختم کیا جا سکے۔

تاہم اسرائیل کی یہ پالیسی امریکا کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہی ہے، خاص طور پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے لیے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل میں بجلی کے نظام میں خلل، دھماکے اور آتشزدگیوں کے مشتبہ واقعات

ٹرمپ نے انتخابی مہم میں غزہ تنازع ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر اسرائیل کی جارحیت نے امریکا کو ایک نازک پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔

اسرائیل نے حال ہی میں ایک اور متنازع منصوبہ پیش کیا ہے، جس کے مطابق غزہ کے تمام فلسطینیوں کو بےدخل کر کے اسے ایک سیاحتی علاقے، ’غزہ ریویرا‘ میں تبدیل کیا جائے گا، جہاں خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری سے جدید منصوبے بنائے جائیں گے۔

ٹرمپ نے اسے ’عملی‘ اور ’جدید سوچ‘ قرار دیا، لیکن اس پر کوئی عملی اقدام نہیں ہوا۔

مجموعی طور پر اسرائیل اب ایک جامع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے جس کا مقصد فلسطینی مسئلے کا مکمل خاتمہ اور پورے مغربی کنارے و غزہ پر مستقل قبضہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران، ترکی، حزب اللہ اور حوثیوں جیسے مخالفین کو بھی کمزور کرنے میں مصروف ہے۔

اس مقصد کے لیے فوجی طاقت، سفارت کاری، لابنگ اور پروپیگنڈا سبھی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل

مگر اس منصوبے کے مکمل ہونے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا میں، فلسطین کے مسئلے پر اختلاف موجود ہے۔ کچھ حلقے 2 ریاستی حل کے حامی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت عرب ممالک میں نفرت بڑھا رہی ہے، اور اس سے خطے میں بڑا تصادم پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

دنیا کے بدلتے حالات اور عدم استحکام میں، مشرق وسطیٰ کی یہ صورتحال کسی بڑے عالمی تنازع میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

اس بحران کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر سفارتی مداخلت کی ضرورت ہے، اگرچہ حقیقت میں ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پہلے ہی ایک بےقابو تباہی کی طرف بڑھ چکے ہیں۔

تجزیہ نگار : مراد صادق زادہ، صدر مشرق وسطیٰ مطالعاتی مرکز، وزیٹنگ لیکچرر، ایچ ایس ای یونیورسٹی (ماسکو)۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران حزب اللہ حسن نصراللہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ مشرق وسطیٰ

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں شدید غذائی قلت، عالمی اداروں نے نئی وارننگ جاری کردی
  • ایران نے امریکا و اسرائیل کی 12 روزہ ہائبرڈ جنگ کی تفصیلات جاری کر دیں
  • غزہ کا انسانی المیہ اور اقوام عالم کی بے حسی
  • ٹرمپ کی روس کو یوکرین جنگ ختم کرنے کیلئے مختصر مہلت، ایران کو بھی دھمکی دیدی
  • کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان جنگ بندی مذاکرات آج، چین اور امریکا بھی شامل
  • یورپی یونین اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ، 15 فیصد ٹیرف پر اتفاق
  • نہیں معلوم غزہ میں آئندہ کیا ہونے والا ہے، اب فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • یورپی یونین 30 فیصد امریکی ٹیرف سے بچ گیا، امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے گیا
  • فلسطین کو دنیا سے نقشے سے مٹانے کے آرزو مند اسرائیل کے دیگر عزائم کیا ہیں؟
  • تھائی لینڈ، کمبوڈیا لڑائی نے پاک بھارت تنازع کی یاد دلا دی، جنگ بندی کا خواہاں ہوں، ٹرمپ