پسماندہ ممالک کیوں ترقی نہیں کر پاتے؟ سوال میں کسی قسم کا الجھاؤ باقی نہیں رہا ۔ جواب سادہ سا ہے۔ ان تمام ممالک کے حکمران‘ ایک جعلی نظام کے ذریعے عام لوگوں کی گردن پر سوار ہو جاتے ہیں۔ جذباتیت‘ مذہب پرستی اور جنونیت کی وہ فضا قائم کر دیتے ہیں جس سے عوام کے سنجیدہ مسائل پس منظر میں چھپ جاتے ہیں۔ بلکہ ایسے مسائل بیان کیے جاتے ہیں جن سے عوام کی براہ راست بھلائی کا کوئی تعلق نہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی فہرست ترتیب دیجیے ۔ ان کے معاملات مکمل طور پر یکساں بگاڑ کا شکار ہیں۔ یوں کہنا چاہیے۔ کہ یہ ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہیں۔
اگر آپ مسلمان ممالک کے الجھاؤ کو دیکھیے تو وہ جھوٹ‘ لوٹ مار اور جعلی تاویلوں کے اس گرداب میں ڈوب چکے ہیں۔ جس میں سے نکلنا قطعاً ممکن نہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں میں یہ عذاب سر چڑھ کر رقصاں ہے۔ کیونکہ یہاں تقلید اور ہمہ وقت بزرگی کا وہ سرمہ بیچا گیا ہے۔ جس نے ہمیں نابینا کر ڈالا ہے۔ پاکستان‘ جن مغربی تعلیم یافتہ لوگوں نے ترتیب دیا تھا۔ انھیں اور ان کی سوچ کو‘ ملک بننے کے تھوڑے ہی عرصہ میں‘ غتر بود کر دیاگیا۔
منظم طریقہ سے ‘ ہماری جدوجہد آزادی ‘ کی اہم سیاسی شخصیات کو متنازعہ بنایا گیا ۔ چند اداروں نے مبالغہ آرائی کی ناؤ میں سوار ہو کر ملک کی دخانی کشتی کو ڈبو کر رکھ ڈالا ۔ یہ صورت حال آج بھی موجود ہے۔ مگر ایک معاملہ تمام ’’شاہسواروں‘‘ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ ہے سوشل میڈیا کی دیو مالائی طاقت۔ اب حکومتوں کے لیے نازک معاملات پر کوئی قومی بیانیہ بنانا مشکل تر ہو چکا ہے۔
عام لوگوں کے سامنے ہر تصویر کے متعدد متضاد رخ ‘ پل بھر میں سامنے آ جاتے ہیں۔ ہر پاکستانی کے ہاتھ میں چلتا پھرتا‘ ابلاغ کا طاقتور ذریعہ ‘ فون کی صورت میں موجود ہے۔ جس کے سامنے کوئی من گھڑت دلیل‘ قائم نہیں رہ سکتی۔ حکومتوں کے لیے یہ صورت حال ایک گھمبیر رخ اختیار کر چکی ہے۔
اس کشمکش میں کیا ملک میں ترقی کے امکانات ہیں۔ جواب آپ خود بخوبی جانتے ہیں۔ پہلے یہ بھی سمجھ لیجیے۔ کہ ترقی کے معنی کیا ہیں؟۔ مطلب کیا ہے؟ طالب علم کی نظر میں اگر عام لوگوں کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کی بنیادی ضروریات احسن طریقے سے مہیا ہو رہی ہیں ۔ تو جان لیجیے کہ ملک اور قوم ترقی کے زینہ پر اوپر چڑھ رہی ہے۔
اس کے برعکس اگر عوام کی اولین ضروریات صرف خواہشات کی حد تک ہی رہ جائیں۔ تو پھر گھبرانے‘ سوچنے اور شرمسار ہونے کا مرحلہ ہے۔ سوال وہی ‘کہ کیا ہم ایک مہیب جھوٹ کا شکار تو نہیں ؟
یہی وہ گورکھ دھندہ ہے ۔ جسے ہر شہری کو سوچنا چاہیے۔ تعصب سے مبرا ہو کر سچ تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہم جس بگاڑ کا شکار ہیں۔ وہ 1947 سے شروع نہیں ہوا۔ بلکہ برصغیر میں مسلمانوںکی بظاہر طاقتور حکومتوں کے دوران میں شروع ہو چکا تھا۔ چار صدیاں پہلے کے مسلمان حکمران طبقات اپنی جہالت پر نازاں تھے۔
آج کے حد درجہ تخلیقی دور میں بھی ان کے رویہ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ذرا سوچیے۔ سن 1096عیسوی میں ‘ آکسفورڈ یونیورسٹی قائم ہو چکی تھی۔ بارہویں صدی میں پیرس میں بھی اعلیٰ یونیورسٹی بن چکی تھی۔ اس زمانہ میں ‘ برصغیر میں ‘ دہلی سلطنت کے سلاطین کی حکومت تھی۔ تین سو برس کی ان حکومتوں کے معاملات کو تفصیل سے پرکھیے۔
قتل و غارت‘ شاہی رقابتیںاور ان گنت خواتین پر مبنی حرم سرا کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حرام ہے کہ کسی ایک سلطان نے اپنے اس زمانے کے حساب سے کسی اعلیٰ تعلیم گاہ کے قیام پر توجہ دی ہو۔ہاں۔ اپنے قد کوبڑھانے کے لیے عمارتیں بہر حال تعمیر ضرور ہوئیں۔ جن کا عوامی بہبود سے کوئی جزوی تعلق بھی نہیں تھا۔
ذرا سوچیے۔ایسا کیوں تھا۔ وجہ صرف ایک معلوم پڑتی ہے ۔ کہ ہر بادشاہ کو صرف اپنے دور کو طویل کرنے کا خبط سوار تھا۔ کہنے کو تو وہ مسلمان ہی تھے۔ مگر ہمارے عظیم مذہب کی انقلابی روح سے ناشناس تھے۔ نتیجہ یہ ہواکہ پورا برصغیر ‘ جدید علوم سے دور ہوتا چلا گیا۔ بعینہ یہی معاملہ مغلوں کے دور میں بھی روا رہا۔ مغل بادشاہ‘ ظل الٰہی کہلوانے میں مگن رہے۔
دنیا کے امیر ترین بادشاہ بن گئے۔ مگر انھوں نے جدت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی لہر برپا ہو چکی ہے۔ صنعتی انقلاب آ چکا ہے۔ تحقیق ‘ سائنس اور ایجادات زندگی کا چلن بن چکی ہیں۔ یورپ‘ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا خطہ بن گیا اور برصغیر ‘ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ قیامت یہ ہے کہ ہمارے ‘ یعنی مسلمانوں کے جوہری حالات آج بھی یہی ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہوا کہ تقلید نے ہمارے ذہنوں کو اس طرح قابو کر لیا کہ سوال پوچھنے کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔ مذہبی علم کو ‘ واحد علم قرار دے دیا گیا۔ غیر ملکی زبانیں ‘ جیسے ترکی‘ فارسی اور عربی پر عبور ‘ عالم کی پہچان بن گیا۔ دھڑا دھڑ شعراء اکرام‘ داستان گو اور قصیدہ گو اہمیت اختیار کر گئے۔ جدید علوم کی ہوا تک ہمارے خطے تک نہ پہنچ پائی۔ ذہن کی سرخیزی کو جرم قرار دے دیا گیا۔
لسانیات اور جمالیات کو زندگی کا محور قرار پایا گیا۔ جدید علوم کا حصول کفر تک پہنچانا ہماری فاش غلطی تھی۔ جب ہم اکبر اعظم ‘ شاہ جہاں اور اورنگ زیب جیسے بادشاہوں کے دور کی ورق گردانی کرتے ہیں تو چند معاملات سامنے آتے ہیں۔محض اپنے دور کی تحقیقی تخلیق کاری سے نفرت‘ مبالغہ پر مبنی طرز زندگی اور جاہلیت کی ترویج سکہ رائج الوقت تھا۔
کبوتربازی ‘ بٹیروں کی جنگ اور حد درجہ احمقانہ طویل القابات پر مزین زندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ خطہ‘ جس میں ٹیکسلا کی عظیم درس گاہ ‘ ہزاروں برس پہلے قائم کی گئی تھی۔ منافرت میں غوطہ زن اورتحقیق سے گھبراہٹ‘ جیسے رویے میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ کیا یہ نکتہ قیامت نہیں ڈھاتا۔ کہ برصغیر میں ہمارے حکمرانوں کے پاس محیر العقول دولت تھی۔ مگر وہ اتنے کند ذہن تھے کہ مغرب کے معاملات سے بھرپور بے خبر رہے۔ ماضی کا کیا ماتم کرنا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے عمومی حالات اور پاکستان میں خصوصی حالات حد درجہ نازک اور قدامت پسند ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیے ۔ یورپ چودھویں صدی سے لے کر سترویں صدی تک‘ نشاۃ ثانیہ کے عمل سے گزر رہا تھا۔ اس میں انسان کی برابری‘ روزگار کے عدم توازن اور انسانی حقوق کی مناسبت پر بات ہونی شروع ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ‘ محققین نے ‘ ریاستوں کے مذہبی جواز کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔پاپایت کے سفاکانہ دور پر‘ضرب کاری لگ چکی تھی۔ علمیت کی اس روش نے اس صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ جو 1760 سے پہلے دنیا نے قطعاً نہیں دیکھا تھا۔
1840 تک ‘ یورپ میں حقیقی انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ سائنس اور دلیل نے معاشروں کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ یورپ وہ طاقت بن کر ابھرا تھا‘ جس کے سامنے تمام دنیا سرنگوں ہو گئی۔برصغیر میں‘ برطانوی ‘ پرتگالی اور فرانسیسی طاقتیں نئی جہتیں لے کر آئے۔ ہندوستان میں مسلمان اتنے تساہل پسند اور پسماندہ تھے کہ ایک تجارتی کمپنی کی عسکری طاقت کا مقابلہ نہ کر پائے۔ ہمارے ہیرو‘ خس و خاشاک کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی سے گھائل ہوتے گئے۔ مگر بحیثیت قوم‘ مسلمانوں نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔
مغرب سے تعلیم یافتہ افراد‘ جب برصغیر میں واپس آئے۔ تو انھوںنے آزادی ‘ جدید علوم ‘ انسانی حقوق پر واشگاف بات کی۔ مگر انھیں‘ مسلمانوں کے مذہبی طبقہ نے دائرہ اسلام ہی سے خارج کر دیا۔ ان میں سرسید‘ علامہ اقبال اور محمد علی جناح ‘ سب شامل تھے۔ اگر یہ اکابرین ‘نہ ہوتے تو آج بھی ہم ‘ بادشاہوں کے درباروں میں کورنش بجا لانے کے علاوہ مزید کچھ نہیں کر سکتے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنے ملک میں وہی قدیم رویہ برپا کر رکھا ہے۔ جو ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ طاقتور آزادی سے ‘ کمزور پر حکومت کر رہے ہیں۔ نظام انصاف میں کوئی توانائی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا چلن بالکل وہی ہے۔ جو دہلی سلاطین کے زمانہ میں روا تھا۔ مذہب کے نام پر فرقہ پرستی‘ جذباتیت اور شدت پسندی کو ریاست بذات خود ‘ توانائی دے رہی ہے۔
چند مذہبی جماعتیں ‘ قبائلی عصیبت کو ہوا دے رہی ہیں۔ دہشت گرد‘ بھی مذہبی تاویلیں استعمال کر کے تسلی سے قتل عام کر رہے ہیں۔ عوام اسی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو صدیوں پہلے تھا۔ سوال اٹھانے کی اجازت آج بھی نہیں ہے۔ کفر کے فتوے‘ توانائی سے جاری و ساری ہیں۔ لگتا ہے ہم مسلمانوں نے قسم کھا رکھی ہے۔
کہ ہم ہر طریقے سے ترقی سے دور رہیں گے۔ پست معیار تعلیم‘ جعلی ریاستی بیانیہ‘ ہر دم جنگ و جدل کی باتیں ‘ عدم تحفظ‘ ہمارا قومی شعار ہیں۔ تحقیق سے آج بھی اجتناب کیا جا رہا ہے۔ اگر میری باتوں پر یقین نہیں آتا ۔ تو ذرا ! کوئی بھی سنجیدہ سوال پوچھ کر دیکھیے ۔لوگ خوشی سے ‘آپ کی گردن زنی کر دیں گے۔ اور وہ ایک نیکی قرار ہو گی۔ دراصل ہم سوال پوچھنے کے عمل ہی سے خوف زدہ ہیں۔ تمام معاملات ‘ پسماندگی کی شاہراہ پر بھاگ رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے ضعف سے حد درجہ خوش ہیں!
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکومتوں کے جدید علوم جاتے ہیں رہے ہیں کر دیا آج بھی
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی چندے کے لیے میرے پاس آتے تھے، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سیاست میں آنے سے پہلے چندہ مانگنے کے لیے ان کے پاس آتے تھے۔
امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 2014 میں 126 دن کا دھرنا دیا، جس سے معاشی نقصان ہوا۔ اگر کوئی مقبول لیڈر ہے تو اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ سیکیورٹی تنصیبات پر حملہ کرے۔
یہ بھی پڑھیے عمران خان کی ٹوئٹ پر اسحاق ڈار کا کرارا جواب
اسحاق ڈار نے کہا کہ نواز شریف نے دہشتگردی کے خلاف بہترین کام کیا۔ بعد میں آنے والی حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے بارڈرز کھول دیے۔ بانی پی ٹی آئی کی حکومت نے 100 سے زائد مجرم رہا کیے۔ سرحدیں کھولیں تو 30 سے 40 ہزار طالبان پاکستان میں آ گئے۔ وہ پھر سے زندہ ہوگئے۔ یہ فیصلہ بہت افسوس ناک تھا، سرحدیں نہیں کھولنی چاہیے تھیں۔
یہ بھی پڑھیے فتنے سے کوئی ڈیل نہیں ہوگی، بات چیت کے لیے سرنڈر کرنا ہوگا، اسحاق ڈار
انہوں نے کہا کہ سانحہ9مئی کے واقعے پر قانون اپنا راستہ لے گا، بانی پی ٹی آئی کے خلاف کیسز سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی دہائیوں سے امریکہ میں امریکی قانون کے تحت قید ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسحاق ڈار عمران خان