پاکستان میں شراکت دار نجی کمپنیوں کااسرائیلی جال پھیلنا شروع
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
مبادلہ انوسٹمنٹ کمپنی ،اسرائیلی کمپنی تامار گیس فیلڈ میں22 فیصد کی حصہ دار ، پاک عرب ریفائنری میں40 فیصد کی شراکت دار ی ، ابو ظہبی پورٹس گروپ اسرائیلی کا شراکت دارکے پی ٹی سے بھی معاہدہ
ڈی پی ورلڈ کا اسرائیل کمپنی ڈوور ٹاور گروپ سے معاہدہ، قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل سمیت دیگر شعبہ جات میں فعال ،اسرائیل میں شراکت دار یواے ای کی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے تیار
رپورٹ / منور علی پیرزادہ
پاکستان میں ابراہیمی معاہدے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے،متحدہ عرب امارات کی اسرائیلی شراکت دار کمپنیوں کا پاکستانی معیشت پر برسوں سے غلبہ ہے مگر اب مزید نئے شعبوں کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے مختلف کمپنیاں سرگرم عمل ہیں۔13 اگست 2020 ء کوامریکی سربراہی میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ابراہیمی معاہدہ طے پایا ،2021 ء سے متحدہ عرب امارات کی کمپنیوں نے اسرائیلی معیشت میں باقاعدہ شراکت داری کا سلسلہ شروع کیا ، ستمبر 2021ء سے ’’یواے ای‘‘ کی مبادلہ انوسٹمنٹ کمپنی ، اسرائیلی تامار گیس فیلڈ میں22 فیصد حصص کی شراکت دار ہے ، اس کے علاوہ 100 ملین کاروباری سرمایہ کاری فنڈ میں سرمایہ لگایا گیا ، جیسے مینگرووکیپٹل پارٹنر ،جو ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں، یہی مبادلہ کمپنی پاکستان میں برسوں سے پاک عرب ریفائنری کمپنی میں 40 فیصد کی حصہ دار ہے ، آئل اینڈ گیس، توانائی ودیگر شعبوں میں مزید توسیعی منصوبے موجود ہیں، اس حوالے سے حکومت پاکستان کے ساتھ مزید معاہدے زیر غور ہیں جبکہ سرمایہ کاری کا حجم 800 ملین ڈالر ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات کی ایک اور کمپنی ڈی پی ورلڈ نے16 ستمبر 2020 ء کو اسرائیل کمپنی ڈوور ٹاور گروپ سے معاہدہ کیا ہے،جس کی سرمایہ کاری 600 ملین ڈالرتک پہنچ سکتی ہے جبکہ ڈی پی ورلڈ 1997 سے قاسم انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل سمیت دیگر شعبہ جات میں فعال ہے ، اس کے علاوہ ڈی پی ورلڈ این ایل سی کے ساتھ 40 فیصد کی حصہ دار بھی ہے ۔ اسی طرح ابو ظہبی پورٹس گروپ نے انڈسٹریل ٹریڈ انوسمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کارپوریشن کے فروغ کے لیے اسرائیل سے تجارتی معاہدہ 9 دسمبر 2020 سے کررکھا ہے اور 22 جون 2023 ء سے اس گروپ نے کراچی پورٹ ٹرسٹ کے کنٹینر ٹرمینل کا 50 سالہ معاہدہ کیا ، 3 فروری 2024 ء کو 25 سالہ معاہدے کے تحت جنرل اور بلک کارگو ٹرمینل کا کنٹرول بھی گروپ نے حاصل کیا، متحدہ عرب امارات کی وہ کمپنیاں جنہوں نے فی الحال پاکستان میںسرمایہ کاری نہیں کی ہے مگر اسرائیل سے شراکت داری میں شامل میںجس میں ای ڈی جی ای گروپ جو دفاعی اور ٹیکنالوجی شعبوں میں کام کرتا ہے ،جی 42 گروپ ڈیٹا سائنس اے آئی پر کا م کرتا ہے،راس ال خامہ اکنامک زون اوردبئی ائرپورٹ فری زون اتھارٹی اسرائیل سے جڑ ے ہوئے ہیں ۔ان میں سے بیشتر پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش رکھتے ہیں،محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے یواے ای سے تقریباً 28 معاہدے ہوچکے ہیں ، جو تجارت ، توانائی ،ثقافت ، دفاع ، بندرگارہ ، خوراک ،لاجسٹک بینکنگ،ریلوے ،معدنیات اور انفراسٹرکچرسمیت دیگر شعبوں میں کیے گئے۔ یاد رہے کہ سرمایہ کاری کی نگرانی کی ذمہ دار خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل ہے ،جس کے چیئرمین وزیر اعظم ہیں ، جنہوںنے ایک 13رکنی اعلی سطحی کمیٹی نائب وزیر اعظم کی زیر صدارت تشکیل دے رکھی ہے کہ وہ ابتدائی طور پر ایسے منصوبے کی نشاندہی کریں جو متحدہ عرب امارات کی قیادت کے سامنے سرمایہ کاری کے لیے پیش کیے جا سکیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
پاکستان کو سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کیلئے کامیاب بولیاں موصول، ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متوقع
دو دہائیوں بعد پاکستان کے آف شور تیل و گیس ذخائر میں کامیاب بولیاں موصول ہو گئی ہیں۔ پہلے مرحلے میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، جو ڈرلنگ کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق، اس بڈنگ راؤنڈ میں 23 بلاکس شامل ہیں جو تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہیں۔ انڈس اور مکران بیسن میں ایک ساتھ ایکسپلوریشن کی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی، اور یہ پاکستانی اپ اسٹریم سیکٹر میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کا ثبوت ہے۔
کامیاب بڈرز میں ترکیہ پیٹرولیم، یونائیٹڈ انرجی، اورینٹ پیٹرولیم، فاطمہ پیٹرولیم کے علاوہ او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز اور پرائم انرجی جیسی مقامی کمپنیاں شامل ہیں۔ امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن کے مطابق پاکستان کے سمندر میں ممکنہ گیس کے ذخائر 100 ٹریلین کیوبک فٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔
یہ پیش رفت پاکستان کی توانائی کی خودکفالت اور مقامی وسائل کی ترقی کے لیے اہم سنگِ میل ثابت ہوگی، جبکہ بین الاقوامی شراکت دار ملک کے سمندری وسائل میں دلچسپی بڑھا رہے ہیں۔ ریٹائرڈ نیوی ایڈمرل فواد امین بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سمندر میں معدنیات اور دیگر وسائل چھپے ہیں، اور اب ہمیں انہیں نکالنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہو گی۔