Express News:
2025-07-28@00:29:37 GMT

خطے میں دہشت گردی کا مشترکہ چیلنج

اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT

 پاکستان کی میزبانی میں ریجنل چیفس آف ڈیفنس اسٹاف کانفرنس کا مقصد سلامتی سے متعلق تعاون کو مزید مستحکم بنانا، تربیتی پروگراموں کو فروغ دینا اور انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفاعی شعبوں میں بہترین عملی تجربات کا تبادلہ کرنا ہے۔ کانفرنس میں امریکا، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے اعلیٰ عسکری رہنماؤں نے شرکت کی اور یہ تاریخی کثیر الملکی اجلاس علاقائی سلامتی، فوجی سفارت کاری اور تزویراتی مکالمے کو فروغ دینے کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوا۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بتایا ہے کہ اسحق ڈار مارکو بیو ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دوطرفہ تعاون بڑھانے پر بات ہوئی، داعش خراسان کے خلاف حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اگست میں اسلام آباد میں پاک امریکا انسداد دہشت گردی مذاکرات ہوں گے۔ دوطرفہ اقتصادی شراکت داری کو بڑھانے کے لیے عملی اقدامات پر بھی مشاورت کی گئی۔

اسلام آباد میں حال ہی میں منعقد ہونے والی ریجنل چیفس آف ڈیفنس اسٹاف کانفرنس بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک اہم تزویراتی اور سفارتی کامیابی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں سیکیورٹی خدشات بڑھ رہے ہیں اور ریاستوں کو داخلی اور خارجی سطح پرکئی محاذوں پر بیک وقت چیلنجز کا سامنا ہے، اس نوعیت کی کانفرنس کا انعقاد نہ صرف بروقت بلکہ غیر معمولی اہمیت کا حامل اقدام ہے۔

پاکستان ہمیشہ سے خطے میں امن و استحکام کا خواہاں رہا ہے اور اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث اسے اس خطے میں ایک مرکزی کردار حاصل ہے۔ پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے۔ ایسے میں پاکستان کی یہ کوشش کہ وہ علاقائی سطح پر فوجی تعاون اور سلامتی کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرے جہاں مختلف ریاستیں نہ صرف اپنے تحفظات بیان کر سکیں بلکہ باہمی اعتماد کو فروغ دے کر تعاون کی راہیں تلاش کر سکیں، ایک سنجیدہ اور بامقصد سفارتی کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔

فوجی سفارت کاری ایک نسبتاً نیا مگر ابھرتا ہوا میدان ہے جس کے ذریعے نہ صرف ریاستوں کے درمیان عسکری سطح پر ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ یہ سفارتی تناؤ کو کم کرنے، اعتماد سازی بڑھانے اور مشترکہ خطرات کا مؤثر طور پر مقابلہ کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔ اس کانفرنس کا مرکزی نکتہ بھی یہی تھا کہ خطے میں مشترکہ چیلنجز جیسے دہشت گردی، سائبر خطرات، منظم جرائم اور پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔

شرکت کرنیوالے ممالک کا مختلف پس منظر اور مختلف سیکیورٹی ضروریات رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کانفرنس محض رسمی کارروائی نہیں تھی بلکہ اس میں واقعی ایسے نکات پر بات چیت کی گئی جو عملی سطح پر ان ریاستوں کے لیے اہم ہیں۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے ایک ایسے وقت میں اس کانفرنس کی میزبانی کی جب دنیا ایک بار پھر بلاک سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے، یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور امریکا چین تناؤ نے دنیا کے کئی خطوں کو متاثر کر رکھا ہے۔

اس کے باوجود پاکستان کا ان غیر معمولی حالات میں مختلف ریاستوں کو ایک میز پر اکٹھا کرنا اور سیکیورٹی، ترقی اور تعاون کے موضوعات پر بامعنی گفتگو کروانا دراصل اس کی متوازن خارجہ پالیسی اور فعال عسکری سفارت کاری کی دلیل ہے۔پاکستان ماضی میں دہشت گردی کا شکار رہا ہے جس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور سیکیورٹی کے مسائل نے معاشرے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔

مگر گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو جس انداز میں لڑا، دنیا نے اس کی تعریف کی۔ اب پاکستان چاہتا ہے کہ یہ تجربہ دوسرے ممالک کے ساتھ شیئر کیا جائے تاکہ علاقائی سطح پر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس میں انسداد دہشت گردی پر خاص زور دیا گیا اور اس ضمن میں مشترکہ تربیتی اقدامات پر اتفاق بھی کیا گیا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ خطے کے ممالک مل کر ترقی کی راہیں تلاش کریں، غربت، جہالت، انتہاپسندی اور پسماندگی کا خاتمہ کریں، اور ایک ایسی دنیا کی تشکیل کریں جہاں اقوام کے درمیان اختلافات بات چیت سے حل ہوں نہ کہ تصادم سے۔

اس کانفرنس کے کئی پہلو مستقبل کے لیے نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔ اول یہ کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہوتے گئے تو ایک علاقائی سیکیورٹی بلاک کی بنیاد پڑ سکتی ہے جو صرف عسکری نہیں بلکہ معاشی، ثقافتی اور سائنسی سطح پر بھی باہمی تعاون کو فروغ دے۔ دوم، اس طرح کی کانفرنسیں اعتماد سازی کے لیے انتہائی موزوں پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں، جن کی آج کے دور میں شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

تیسرے یہ کہ ایسے مواقع پر غیر رسمی ملاقاتیں اور تبادلہ خیال اسٹرٹیجک مفاہمت کو جنم دے سکتے ہیں جس کا دور رس اثر ہوتا ہے۔ادھر ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ کانفرنس کا انعقاد ہی کافی نہیں، بلکہ اس میں کیے گئے فیصلوں اور معاہدوں پر عملدرآمد ہی اصل چیلنج ہے۔ ماضی میں ہم نے کئی علاقائی اجلاسوں اور معاہدوں کو صرف کاغذی حیثیت میں دیکھا ہے، لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

پاکستان کو اس ضمن میں قیادت کا کردار ادا کرنا ہو گا، اور ایک مستقل سیکریٹریٹ یا رابطہ فورم کے قیام پر غور کرنا ہو گا تاکہ اس نوعیت کے اجلاسوں کی نگرانی اور پیش رفت کا مؤثر جائزہ لیا جا سکے۔ اب وقت ہے کہ ان کوششوں کو تسلسل دیا جائے، اور انھیں مزید ادارہ جاتی شکل دی جائے تاکہ آنے والی نسلیں ایک محفوظ، پرامن اور خوشحال خطے میں سانس لے سکیں۔

دوسری جانب اسحق ڈار مارکو بیو ملاقات واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان نئے سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کی سمت میں ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ سفارتی اور سیکیورٹی رابطے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کے لیے نہ صرف سنجیدہ ہیں بلکہ عملی اقدامات پر بھی آمادہ ہیں۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ ملاقات میں جس طرح داعش خراسان کے خطرے، دوطرفہ تعاون اور آیندہ انسداد دہشت گردی مذاکرات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنے کردار کو مستحکم اور مربوط بنانا چاہتا ہے۔

داعش خراسان کا ابھرتا ہوا خطرہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک تشویشناک امر ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے اس گروہ کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کے حملے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سیکیورٹی پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس ملاقات میں اگست میں اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی پر پاک امریکا مذاکرات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو اس ضمن میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔

ان مذاکرات سے توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف اپنی ترجیحات کو واضح کریں گے بلکہ عملی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ادارہ جاتی رابطے اور معلومات کے تبادلے کے طریقہ کار پر بھی بات کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی مشترکہ جنگ ہے۔ اس لیے عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا جیسے اتحادی ممالک کے ساتھ تعاون انتہائی ضروری ہے۔

اسحاق ڈار اور امریکی نمایندے کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ایک اور اہم پہلو دوطرفہ اقتصادی شراکت داری پر مشاورت کا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت کو بھی مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس وقت اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے سرمایہ کاری، تجارت اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہیں۔ امریکا کے ساتھ اس ضمن میں تعاون پاکستان کے لیے نہ صرف اقتصادی لحاظ سے سود مند ہو سکتا ہے بلکہ یہ اعتماد سازی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ 

خطے میں افغانستان کی صورتحال، بھارت کی پالیسی، چین اور امریکا کی کشمکش، اور ایران کے اثرات یہ سب مل کر پاکستان کے لیے ایک پیچیدہ جغرافیائی و سیاسی منظر نامہ تشکیل دیتے ہیں۔ ایسے میں امریکا کے ساتھ متوازن اور باوقار تعلقات وقت کی ضرورت ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف انسداد دہشت گردی میں اپنی حکمت عملی واضح رکھے بلکہ دنیا کے سامنے اپنے موقف اور اقدامات کو مؤثر انداز میں پیش بھی کرے۔ امریکا کے ساتھ حالیہ پیش رفت امید کی ایک کرن ہے۔

اگر یہ رابطے سنجیدہ اقدامات میں تبدیل ہو گئے تو پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مؤثر کردار ادا کرے گا بلکہ خطے میں ایک مضبوط، خود مختار اور خوشحال ملک کے طور پر اپنی پہچان کو بھی اجاگر کرے گا۔ اس راستے میں یقینی طور پر کئی چیلنجز آئیں گے، داخلی مخالفت، علاقائی سازشیں، اور عالمی سیاست کی پیچیدگیاں اس سفر کو دشوار بنا سکتی ہیں، لیکن اگر قیادت نیک نیتی اور حکمت سے کام لے تو پاکستان ایک بار پھر ترقی، امن اور استحکام کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اسی صورت میں پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو گا بلکہ ایک باوقار اور ترقی یافتہ ریاست کی حیثیت سے ابھرے گا۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس

عوامی نیشنل پارٹی کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن، جے یو آئی ف، جماعتِ اسلامی، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے شرکت کی۔ 

شرکاء نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متفقہ قومی بیانیہ تشکیل دینے پر اتفاق کیا اور قیامِ امن کے لیے وفاقی حکومت سے مذاکرات کے لیے نمائندہ کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔

کانفرنس کے شرکاء نے بے امنی کے خلاف احتجاجی تحریک کے تحت اسلام آباد یا راولپنڈی میں دھرنے کے اعلان کا عندیہ بھی دیا۔

پشاور کے باچا خان مرکز میں عوامی نیشنل پارٹی کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔

کانفرنس میں پاکستان تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، جماعتِ اسلامی، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

کانفرنس کے اختتام پر 28 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے گناہ افراد پر قائم مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

کانفرنس کے شرکاء نے زور دیا کہ افغانستان کے ساتھ پُرامن اور تجارتی روابط کو فروغ دیا جائے، قبائلی اضلاع میں تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی ازسرِ نو تعمیر کی جائے اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو خصوصی ترقیاتی پیکیج اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں غیر اعلانیہ کرفیو، مواصلاتی پابندیاں ختم کرنے، انصاف، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کو ہر فرد تک پہنچانے پر زور دیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • ایران سےمتعلق خاموشی سے تعمیری کردار ادا کرنے پر امریکہ نے پاکستان کی تعریف کردی
  • عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس
  • امریکا پاکستان انسداد دہشت گردی ڈائیلاگ اگست میں اسلام آباد میں ہوگا: ٹیمی بروس
  • سوات: پولیس اور سی ٹی ڈی کی مشترکہ کارروائی، 3 دہشت گرد ہلاک
  • غیر ملکی سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستان میں دفاتر کھولنے کی دعوت
  • علاقائی سیاست اور باہمی تعلقات
  • دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو بھرتی کر رہی ہیں، طلال چودھری
  • پاکستان عالمی سطح پر دہشت گردی کیخلاف مضبوط مورچہ ہے، طلال چوہدری
  • چین ہر قسم کی دہشت گردی پر کاری ضرب لگانے میں پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا،چینی وزیر خارجہ