City 42:
2025-07-31@23:59:55 GMT

ایران اسرائیل جنگ؛ ایران سے 450 پاکستانی زائرین کا انخلا

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

سٹی 42: ایران اسرائیل جنگ کے پیش نظر  ایران سے 450 پاکستانی  زائرین کا انخلا مکمل ہوگیا 

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نےسماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام دیتے ہوئے بتایا کہ موجودہ علاقائی صورتحال کے پیش نظر، حکومت پاکستان پاکستانی شہریوں کی فلاح و بہبود اور حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کر رہی ہے, ایران سے 450 پاکستانی زائرین کا انخلا گزشتہ روز مکمل کر لیا گیا ہے,ایران میں مقیم پاکستانی طلباء کے محفوظ انخلا کے لیے بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں,پہلے مرحلے میں 154 طلباء کو نکالا جائے گا, عراق میں پاکستانی زائرین، جو فضائی حدود کی بندش کے باعث پھنسے ہوئے ہیں،ایران میں ہمارا سفارت خانہ ان سے مسلسل رابطے میں ہے,  ان کی محفوظ رہائش اور ممکنہ انخلا کے لیے اقدامات جاری ہیں,دفتر خارجہ میں کرائسز مینجمنٹ یونٹ (CMU) چوبیس گھنٹے فعال ہے,

یونیورسٹیوں میں ہزاروں سٹوڈنٹس آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے نقل کرتے پکڑے گئے

رابطہ کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
فون: +92 51-9207887
ای میل: cmu1@mofa.

gov.p, 

اسحاق ڈار نے کہا خطے میں موجود ہمارے سفارت خانے پاکستانی شہریوں اور زائرین کی مدد اور انخلا کے لیے تمام ضروری اقدامات کی مکمل نگرانی کر رہے ہیں,

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

کے پی سے فوج کا انخلا

تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی نے ایک متفقہ قرارداد پا سکی ہے جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت جو فوج تعینات کی گئی ہے، اس نوٹیفکیشن کو پندرہ دن کے اندر واپس لیا جائے۔ ویسے تو شاید تحریک انصاف کی کے پی کی تنظیمی کمیٹی کو یہ علم نہیں کہ وفاق براہ راست کسی صوبے میں فوج کی تعیناتی کے احکامات نہیں دے سکتا۔ پہلے صوبائی حکومت سفارش کرتی ہے، پھر وفاق آٗئین کے آرٹیکل 245کے تحت کسی جگہ فوج تعینات کرتا ہے۔

لہٰذا خیبرپختونخوا میں کہیں بھی فوج تعینات ہے تو وہ صوبائی حکومت کی مرضی سے تعینات ہے۔پی ٹی آئی یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہماری حکومت سے پہلے حکومت نے فوج تعینات کر دی تھی کیونکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی مسلسل تیسری حکومت ہے۔ تحریک انصاف تنظیمی کمیٹی کو اپنی اس قرارداد میں یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ہماری حکومت کی درخواست پر تعینات فوج کو ہماری ہی حکومت واپس بھیجے۔

کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے سویلین اینڈ آرمڈ آرڈیننس کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔ اس آرڈیننس کو قانون کا درجہ تحریک انصاف کی کے پی حکومت نے دیا تھا۔ اس کا دائرہ اختیار پورے کے پی تک بانی تحریک انصاف کے دور وزات عظمیٰ میں کیا تھا۔

پشاور ہا ئی کورٹ نے اس قانون کو ایک درخواست میں ختم کر دیا تھا۔ لیکن بانی تحریک انصاف کی ہدایت پر خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا۔ آج کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے پاک فوج کے پاس جو اضافی اختیارات ہیں، وہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کر دہ قانون اور اس کی حکومت کے حاصل کردہ حکم امتناعی کی وجہ سے ہیں۔

اس میںن لیگ‘ پیپلزپارٹی یا کسی اور سیاسی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ جب تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی اپنی ہی حکومت سے فوج کی تعیناتی ختم کرنے کا کہہ رہی ہے تو وہ کس کا کام کر رہی ہے۔ کیا فوجی انخلاء کا مطالبہ، پی ٹی آئی کا بیانیہ یا دشمن کی زبان نہیں؟کیا دہشت گرد یہ نہیں چاہتے؟ کیا پاکستان کے دشمن یہ نہیں چاہتے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صوبے میں دہشت گردی عروج پر ہے اور پاک فوج روزانہ 190 سے زائد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز میں مصروف ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر قربانیاں دے رہی ہے۔ کیافوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کے مترادف نہیں ہے۔ کیا یہ وہی مطالبہ نہیں جو بھارتی پراکسیز اور دشمن طاقتیں استعمال کررہی ہیں چاہے،فتنہ الخوارج ہو، فتنہ الہندوستان یا بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اب پی ٹی آئی بھی اسی بیانیے کو دہرا رہی ہے۔

تیرہ، بنوں، کرم اور پاراچنار جیسے واقعات دراصل 12 سالہ پی ٹی آئی حکومت کی ناقص حکمرانی اور گورننس کے خلاء کا نتیجہ ہیں۔کیا آج امن وامان کی جو صورتحال ہے اس کی ذمے د اری کے پی حکومت کی نہیں ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔ یہ قربانیاں ان پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو 2021 میں دہشت گردوں کی واپسی اور بحالی سے متعلق پی ٹی آئی حکومت نے اختیار کی اور اب گورننس کے یہ خلاء پاک فوج اپنے خون سے پورا کر رہی ہے جو اصل میں صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی۔ صوبائی حکومت اپنی ناقص کارکردگی کی ذمے داری اب فوج پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

2022 کی پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا CTD اپنا 96 فیصد بجٹ صرف تنخواہوں پر خرچ کرتا ہے۔صرف 4 فیصد بجٹ آپریشنز کے لیے مختص ہے، جب کہ جدید سازوسامان، تربیت اور انفرااسٹرکچر کی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ خیبر پختونخوا میں CTD کے افسران اور ملازمین کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے، مگر یہ عملہ نااہل، کم تعلیم یافتہ اور ناکافی سہولیات سے لیس ہے۔جب آپریشن کے لیے بجٹ ہی نہیں ہے تو سی ٹی ڈی کیاکام کرے گی۔ صرف بھرتیوں سے تو سی ٹی ڈی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ آپ کو دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے انھیں بجٹ اور سہولیات بھی دینی ہیں، اس ضمن میں تحریک انصاف کی کے پی حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ نے اپنی سی ٹی ڈی کی فورس کو کافی مضبوط کیا ہے وسائل اور بجٹ بھی دیے ہیں۔

یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ کے پی کی صوبائی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے لیے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ فوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل پی ٹی آئی کی اپنی کرپشن، نا اہلی خصوصاً 5 اگست کے ناکام احتجاج سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ صوبائی حکومت کا یہ رویہ سیکیورٹی کے حساس ترین معاملات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خطرناک مثال ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ضم شدہ اضلاع سے فوج نکالی گئی تو دہشت گرد یقیناً دوبارہ منظم ہو جائیں گے‘ایسی صورت میں نہ صرف قبائلی علاقے بلکہ پورا پاکستان خطرے میں ہوگا۔

پاک فوج وہ خلا پر کر رہی ہے جوصوبائی سول حکومت اپنی نااہلی کے باعث پیدا کر چکی ہے۔ یہ مطالبات اس بیانیے کی واضح نفی کرتے ہیں جو پی ٹی آئی دے رہی ہے، اور ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مطالبات صرف اندرونی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور دشمن قوتوں کے مقاصد کو تقویت دینے کی ایک کوشش ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے حساس معاملات پر نہ تو سیاست کرنی چاہیے اور نہ ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی چاہیے۔ اگر تحریک انصاف کی اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی ہے بھی تو اس میںیہ خطرناک کھیل نہیں کھیلنا چاہیے۔

لاء اینڈ آرڈر صوبائی حکومت کا کام ہے مگر ملکی سلامتی کی خاطر پاک فوج وہاں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اور ہر روز قربانیاں اپنے خون سے دے رہی ہے لیکن اگر صوبائی حکومت اپنی باقی نا اہلیوں کو چھپانے کے لیے یہ انتہائی خطرناک قدم اٹھانا چاہتی ہے تو صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے بعد فوج ایک دن بھی وہاں نہیں ٹھہرے گی لیکن فوج کے جانے کے بعد خیبر پختونخوا میں جو کچھ بھی ہوگا اس کی ساری ذمے داری گنڈاپور اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر ہوگی۔ پھر ذمے دار بھی وہی ہوںگے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • ایران، عراق کے زائرین کیلئے چارٹر پروازیں چلانے کا فیصلہ
  • ایران اورعراق کے زائرین کو فضائی سفری سہولیات فراہم کرنے سے متعلق اہم فیصلہ
  • بلوچستان کی تجارتی اور سماجی بہتری کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، سینیٹ قائمہ کمیٹیوں کا مطالبہ
  • بہاولپور، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام زمینی راستے کی بندش کے خلاف احتجاجی مظاہرہ 
  • کے پی سے فوج کا انخلا
  • اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے دلیرانہ اقدامات ضروری، گوتیرش
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں،فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت دی جائے، اسحاق ڈار
  • ایران نے امریکا و اسرائیل کی 12 روزہ ہائبرڈ جنگ کی تفصیلات جاری کر دیں
  • پیوٹن کا نیتن یاہو سے ہنگامی رابطہ، پسِ پردہ کیا ہے؟