کاجول کے بچوں کو ان کے کونسے کردار نہیں پسند؟
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اداکارہ کاجول کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو ان کی رونے دھونے والی فلمیں پسند نہیں ہیں۔
بالی وڈ میں تین دہائیوں سے زائد عرصے سے صفِ اول کی اداکارہ رہنے والی کاجول اب پہلی بار ایک نئے تجربے سے گزر رہی ہیں۔
ان کی آنے والی فلم’ ماں‘ ان کے کیریئر کی پہلی ہارر فلم ہے، کاجول نے اپنے کرئیر میں ہارر کے علاوہ ہر میدان میں طبع آزمائی کی ہے لیکن وہ اب پہلی بار کسی خوف پر مبنی فلم میں کام کرنے جارہی ہیں۔
کاجول گزشتہ 10 برس میں صرف آٹھ فلموں میں نظر آئی ہیں، اس لیے کسی بھی پروجیکٹ کے لیے ہاں کہنا ان کے لیے ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے۔
ایک انٹرویو میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب ’ماں ‘ کا اسکرپٹ ان کے پاس آیا تو وہ مجھے فوراً پسند آگیا کیونکہ انہیں خود بھی ہارر کہانیاں بہت پسند ہیں ۔
فلم کا خوفناک ٹریلر ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی پھیلانے کے لیے کافی ہے، ٹریلر میں فلم کے انتہائی خوفناک ہونے کی کہانی جھلک جاتی ہے۔
فلم ایک ماں کے گرد گھومتی ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو شیطانی قوتوں سے بچاتی ہے۔
کاجول کا کہنا ہے کہ ان کے بچے نیسا اور یوگ فلم کا ٹریلر دیکھ چکے ہیں اور انہیں امید ہے کہ بچے فلم بھی دیکھیں گے۔
تاہم کاجول نے کہا کہ نیسا کو ہارر فلمیں پسند نہیں ہیں لیکن امید ہے وہ یہ فلم ضرور دیکھے گی۔
جب کاجول سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے بچے ان کے کام پر رائے دیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میرے بچے بہت صاف گو ہیں، وہ مجھے روتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، وہ چاہتے ہیں کہ میں ویسی فلمیں کروں جو ان کے پاپا کرتے ہیں جیسے کہ گول مال وغیرہ۔
وہ چاہتے ہیں کہ میں ایسی فلمیں کروں جن میں صرف ہنسی ہو، کوئی نہ روئے، کوئی گلیسرین استعمال نہ ہو، اور میرے ساتھ کچھ بھی نہ ہو، میں سوچتی ہوں کہ پھر یہ کیسی فلم ہوگی جس میں میرے ساتھ کچھ نہ ہو اور مجھے کچھ کرنا ہی نہ پڑے تو پھر میں اس فلم میں کیا کروں گی ؟
ہارر فلم کرنے کی وجہ ؟
کاجول نے کہا کہ وہ 16 برس کی عمر سے ہی فلموں میں کام کررہی ہیں، انہوں نے پوری دنیا گھومی ہے اور انہیں رات 4 بجے بھی سڑکوں پر گھومنے سے ڈر نہیں لگتا ، اس لیے وہ آرام سے کسی بھی ہارر مووی میں کام کرسکتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 90 کی دہائی میں ہارر فلموں کے اچھے اسکرپٹ نہیں ہوتے تھے اس وجہ سے اس دور میں اچھی ہارر فلمیں نہیں بن سکیں، اب چونکہ ہارر فلموں کو پذیرائی مل رہی ہے تو وہ اس یونرا میں کام کررہی ہیں۔
فلم کا ٹائٹل ’ماں‘ کیوں ؟
کاجول کا کہنا تھا کہ اس فلم میں لفظ ماں سے جو کچھ بھی نکل سکتا ہے وہ ملے گا ، چاہے وہ کسی کی ماں ہو، چاہے کالی ماں دیوی ہو یا پھر وہ ماں جو اپنے بچوں کو کسی آفت سے بچاتی ہے، یہی اس فلم کی تھیم ہے اور اسی وجہ سے لفظ ماں جیسا طاقتور لفظ اس فلم کا ٹائٹل رکھا گیا ہے۔
کم فلمیں کرنے کی وجہ:
کاجول کا کہنا تھا کہ وہ صرف ٹائم پاس کرنے کے لیے فلمیں سائن نہیں کرتیں، صرف اس صورت میں فلم سائن کرتی ہیں جب اس کا اسکرپٹ انہیں پسند آئے، بہت سے اداکار ایسے ہیں جو فارغ ہوتے ہیں تو کسی فلم کے لیے ہاں کردیتے ہیں جو ان کے کرئیر پر برا اثر چھوڑتا ہے۔
پاپا رازیوں سے تنگ کیوں ؟
ان کا کہنا تھا کہ پاپارازیوں کی کسی بھی شخص کی پرسنل اسپیس کا احترام کرنا چاہیے، جب ہم کسی شخص کے آخری رسومات میں بھی شرکت کرتے ہیں تو پاپارازی ہمیں مسکراتے ہوئے پوز دینے کا کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کئی پاپارازی مسلسل ہمارا پیچھا کرتے رہتے ہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور کیا کررہے ہیں، اس سے ہماری پرسنل لائف ڈسٹرب ہوتی ہے اور ہم پولیس کو بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں ان پاپارازیوں سے بچائیں
فلم’ ماں‘ حالیہ برسوں میں کاجول کی دوسری فلم ہے جس میں ماں ہونے کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اس سے قبل انہوں نے’ ہیلی کاپٹر ایلا‘ میں ایک پروٹیکٹو ماں کا کردار ادا کیا تھا۔
فلم ’ماں‘، جسے وِشال فریا نے ہدایت دی ہے، اس میں کاجول کے ساتھ رونیت رائے اور اندرنیل سینگپتا بھی شامل ہیں، یہ فلم 27 جون کو سینما گھروں کی زینت بنے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ کاجول کا کہنا ہارر فلم انہوں نے بچوں کو میں کام کے لیے ہیں کہ فلم کا اس فلم
پڑھیں:
فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)
اسلام ٹائمز: رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ
سب برانڈ اس جرم میں شریک ہیں:
رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیاں نہ صرف قابض صیہونی رجیم کے مظالم کے تسلسل کو ہوا دینے کا سبب ہیں بلکہ جنگوں اور محاصرے میں شدت آنے سے یہ عمل ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، جسے ساختیاتی بنیادوں پر فلسطینیوں کی نسل کشی کہا جا سکتا ہے۔ قابض اسرائیل کے سابقہ ہتھیار، جیسے فوجی سازوسامان، ٹیکنالوجی، پانی اور توانائی وغیرہ اب قتل کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور فلسطینی عوام پر ناقابل رہائش حالات مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ البانیز اس منظم کام کو ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" قرار دیتے ہیں، جس میں کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہیں۔ فلسطین پر قبضے کی غیر قانونی نوعیت اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کے 2024 کے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے، کمپنیوں کیطرف سے قابض اسرائیل کیساتھ کسی بھی قسم کا تعاون بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے کی مثال بن سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کمپنیوں کے لیے ذمہ داری کے 3 درجات کی وضاحت کی گئی ہے، یعنی کس طرح ان کمپنیوں نے 3 شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، اور ہر شعبے میں انہیں فوری طور پر اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے اور قابض حکومت کے ساتھ تعاون کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کا خیال ہے کہ کمپنیاں یا تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تخلیق میں براہ راست ملوث رہی ہیں، ایسی صورت میں وہ اپنی سرگرمیاں روکنے اور نقصان کی تلافی کرنے کی پابند ہیں، یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، جن میں ایسے معاملات بھی شامل ہیں جہاں کمپنیوں نے خلاف ورزیوں کے لیے سہولتیں فراہم کی ہیں، یا آخر کار، ان کا انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بالواسطہ تعلق ہے۔
کمپنیوں کیخلاف قانونی کاروائی ممکن ہے:
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کی نسل کشی میں ملوث کمپنیوں پر بھی بین الاقوامی اداروں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟۔ رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔
یہ ذمہ داری نہ صرف جرم میں براہ راست شرکت کے لیے پیدا ہوتی ہے، بلکہ مدد کرنے، اُبھارنے، اور اکسانے کے لیے بھی (جیسے لاجسٹک، مالی، یا آپریشنل سپورٹ فراہم کرنا) بھی اس میں شامل ہے۔ اس ذمہ داری کو ثابت کرنے کے لیے، جرم کے بارے میں کمپنی کا علم اور آگاہی کافی ہے اور مخصوص ارادے کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی کمپنیاں "ڈومیسٹک قانون کی تعمیل" یا "مستعدی کے اصول" کو استعمال کرنے جیسے عذر کے ساتھ خود کو ذمہ داری سے بری کر سکتی ہیں۔ اہم معیار ان کے اعمال کے حقیقی اثرات ہیں۔ ساتھ ہی، بین الاقوامی قانون کے تحت، بین الاقوامی جرائم سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
مقدمات کی تاریخی مثالیں:
اقوام متحدہ کا نمائندہ واضح طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور قومی عدالتوں سے اس میں ملوث ڈائریکٹرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس حوالے سے تاریخی مثالوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ اس طرح کے مقدمات کی فزیبلٹی ثابت ہو سکے۔ پہلی مثال میں، دوسری جنگ عظیم کے بعد نیورمبرگ ٹرائلز کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں کمپنیاں جیسے آئی جی فاربن اور کروپ پر دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرائم میں حصہ لینے پر مقدمہ چلایا گیا۔ جنوبی افریقی سچائی اور انکوائری کمیشن نے نسل پرستی کے نظام میں کمپنیوں کے کردار کا بھی جائزہ لیا۔ یہ ریکارڈز بتاتے ہیں کہ اسی طرح کے حالات میں کمپنیوں اور ان کے ڈائریکٹرز پر مقدمہ چلانا ممکن ہے۔
اسپیشل رپورٹر کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے اور موجودہ حالات میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعاون کا مطلب بین الاقوامی جرائم میں جان بوجھ کر حصہ لینا ہے۔ لہذا، "معمول کے مطابق کاروبار" اب قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ طویل مدتی قبضہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں اس کا منافع تشدد اور کسی قوم کی تباہی پر مبنی ہے، لہٰذا اس صورت حال کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قبضے اور نسل کشی کی حمایت کرنے والے معاشی میکانزم کو منظم طریقے سے بند کیا جائے۔
خصوصی نمائندے کی سفارشات:
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے البانیز نے بھی اس سلسلے میں متعدد فوری اقدامات کی سفارش کی ہے، جس میں صیہونی حکومت اور غزہ میں نسل کشی میں ملوث کمپنیوں کے خلاف ریاستی پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے سفارش کی ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان کمپنیوں پر پابندیاں عائد کریں، تجارتی معاہدوں کی معطلی، ہتھیاروں کی مکمل پابندی، اور اپنے ایجنڈے میں شامل کمپنیوں کے اثاثے منجمد کریں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والی کمپنیاں فوری طور پر اسرائیل سے تعاون بند کریں، یہودی بستیوں میں سرگرمیاں بند کر دیں، اور فلسطینی عوام کو معاوضہ ادا کریں (بشمول ایک منصوبے کے ذریعے جس کا نام "اپارتھائیڈ ویلتھ ٹیکس" ہے)۔
البانیز نے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مینیجرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا بھی مطالبہ کیا ہے اور سول سوسائٹی کو ایک سفارش میں کہا ہے کہ قابض صیہونیوں کے معاشی ڈھانچے پر دباؤ ڈالنے کے لیے بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیاں (BDS) مہموں کو جاری رکھنے پر غور کیا جانا چاہیے۔
کاروبار یا جرائم کی پشت پناہی کا ایک منافع بخش منصوبہ:
اس رپورٹ میں پیش کی گئی مجموعی تصویر، اسرائیلی معیشت کی نہ صرف فلسطین پر فوجی قبضے کی بنیاد پر، بلکہ عالمی سرمایہ داری کے ستونوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی ملی بھگت کو بھی واضح کرتی ہے۔ اس ظالمانہ معاشی کاروباری ڈھانچے نے فلسطین پر صیہونی قبضے کو ایک منافع بخش منصوبے میں بدل دیا ہے، جو سرمائے، ٹیکنالوجی اور سائنس کے عالمی نیٹ ورک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ البانیز کے الفاظ میں، غزہ اور مغربی کنارے میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" ہے۔ یعنی فلسطینیوں کو ختم کرنے کا منصوبہ۔ اسرائیلی حکومت کے لیے جوابدہ ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ان کمپنیوں، بینکوں، یونیورسٹیوں اور ان کے منتظمین کو بھی بین الاقوامی عدالتوں اور عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش ہونا چاہیے اور ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اس قانونی عمل کا حتمی مقصد کارپوریٹ احتساب، نسل کشی کا خاتمہ اور فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی ہے۔