بھارتی پارلیمنٹ کا بجٹ 5 ارب اور پاکستان میں 16 ارب رکھا گیا ہے، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
چیئرمین پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کا بجٹ 5 ارب ہے اور پاکستان میں 16 ارب رکھا گیا ہے۔
قومی اسمبلی بجٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ فنانس بل سال بھر میں سب سے بڑی ذمہ داری ہے جس کا پہلا اصول غیر پُرتعیش اشیا پر ٹیکس نہ لگانا ہے، بجٹ میں عام آدمی کو دیکھا جانا چاہئے، سالانہ 22 لاکھ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ آج بانی چیئرمین کی خدمات کو بھی پس پشت ڈالا جارہا ہے جن کے دور میں جی ڈی پی چھ فیصد سے زائد تھا، آج معیشت کی صورتحال کیا ہوچکی ہے، حال یہ ہے کہ سولہ ارب روپے ٹیکس ٹارگٹ سے کم جمع ہوا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپوزیشن لیڈر کی بجٹ تجاویز کو شامل کرنے کا اعلان کیا تھا، یہاں بھی حکومت بجٹ میں اپوزیشن کی تجاویز شامل کرے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس معاملے پر اپیل کا حق بھی ختم کیا جا رہا ہے، سپریم کورٹ کے شریعت بینچ نے اپنے فیصلہ میں ہر شہری کو اپیل کا حق دیا ہے، کسی معاملے پر کسی بھی شہری کو اپیل سے محروم کرنا خلاف شریعت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر سالانہ 22 لاکھ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہئے، موجودہ بجٹ میں سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، نیب قانون میں ترمیم کی گئی پچاس کروڑ سے کم پر کیس نہیں ہوگا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کے دور میں 98 مقدمات درج ہوئے تھے جبکہ نیب 1130 مقدمات درج کرتی رہی ہے، نیب کا 98 مقدمات کے لئے بجٹ ساڑھے سات ارب روپے اور اسلام آباد کی باقی عدالتوں کا بجٹ ڈیڑھ ارب رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی پارلیمنٹ کا بجٹ 5 ارب ہے اور پاکستان کی پارلیمنٹ کا بجٹ 16 ارب رکھا گیا ہے، بجٹ میں شعبہ صحت و تعلیم کیلئے فنڈز میں کمی کی گئی ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے بھارت کو شکست دی مگر تیاری کی پھر بھی ضرورت ہے، فوج اور قوم نے ملکر بھارت کو شکست دی، ہمیں اے آئی میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویر دفاع کا خیبرپختونخوا میں بچوں کے سب سے زیادہ اسکول سے باہر ہونے کا بیان درست نہیں، اقتصادی سروے وزیر دفاع کی بات کو غلط ثابت کر رہا ہے، پنجاب میں 32 فیصد، خیبر پختونخوا میں 30 فیصد اور سندھ میں 47 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پارلیمنٹ کا بجٹ ارب رکھا گیا ہے انہوں نے کہا کہ بیرسٹر گوہر
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔