کیا ایران آبنائے ہرمز بند کرسکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس راستے کی حفاظت کے لیے امریکا کا پانچواں بحری بیڑہ مستقل بحرین کی بندرگاہ مناما میں لنگرانداز رہتا ہے۔ قطر میں امریکی کا سب سے بڑا علاقائی فضائی اڈہ العدید اور امریکی سینٹرل کمان کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ اگر آبنائے ہرمز کے تجارتی بہاؤ میں کسی بھی جانب سے کوئی بھی بڑی رکاوٹ پڑتی ہے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب اردگرد کی تیل اور گیس سے مالامال ریاستوں کے علاوہ ان تمام چھوٹے بڑے ممالک سے براہِ راست مخاصمت مول لینا ہے جن کا دار و مدار آبنائے ہرمز سے گذرنے والی انرجی پر ہے۔ تحریر: وسعت اللہ خان
ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے ملک کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں امریکا اور آس پاس کے ممالک کی معاونت جاری رہی تو پھر ایران ’’حتمی بقائی اقدام‘‘ کے طور پر ان ممالک کی حساس فوجی و اقتصادی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے علاوہ خلیجِ فارس کو خلیجِ اومان سے ملانے والی آبنائے ہرمز کو بھی بند کرنے کی کارروائی کر سکتا ہے۔ کیا آبنائے ہرمز کو بند کرنا اتنا ہی آسان ہے؟ یہ سوال یوں اہم ہے کیونکہ خلیجِ فارس کو خلیجِ اومان کے ذریعے بحرِ ہند سے ملانے والے اس تنگ راستے کو عالمی اقتصادی شہہ رگ کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک سرے پر ایران اور دوسرے سرے پر اومان ہے۔ اومان اور ایران کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، کویت اور عراق کا تیل اور گیس بھی باقی دنیا تک اسی تنگ سے راستے سے پہنچتے ہیں۔
اگرچہ آبنائے ہرمز کی کم ازکم چوڑائی تینتیس کلومیٹر ہے مگر اس سے گذرنے والی شپنگ لائن محض تین کلومیٹر چوڑی ہے جس سے تیل اور گیس لے جانے والے سپر ٹینکر گذر سکتے ہیں۔ یعنی یہ تین کلومیٹر چوڑائی سب سے گنجان تجارتی گذرگاہ ہے جس سے عالمی ضروریات کا بیس فیصد تیل ( ڈھائی کروڑ بیرل روزانہ ) اور ایک تہائی مایع گیس گذرتی ہے۔ خلیجِ فارس کے حصہ دار تمام ممالک بشمول ایران تیل پیدا کرنے والی تنظیم اوپیک کے رکن ہیں۔ جب کہ اس علاقے میں سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا ملک قطر ایران کے ساتھ نہ صرف کچھ گیس فیلڈز شئیر کرتا ہے بلکہ خلیج میں ایران کا سب سے قریبی دوست بھی سمجھا جاتا ہے۔
اس راستے کی حفاظت کے لیے امریکا کا پانچواں بحری بیڑہ مستقل بحرین کی بندرگاہ مناما میں لنگرانداز رہتا ہے۔ قطر میں امریکی کا سب سے بڑا علاقائی فضائی اڈہ العدید اور امریکی سینٹرل کمان کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ اگر آبنائے ہرمز کے تجارتی بہاؤ میں کسی بھی جانب سے کوئی بھی بڑی رکاوٹ پڑتی ہے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب اردگرد کی تیل اور گیس سے مالامال ریاستوں کے علاوہ ان تمام چھوٹے بڑے ممالک سے براہِ راست مخاصمت مول لینا ہے جن کا دار و مدار آبنائے ہرمز سے گذرنے والی انرجی پر ہے۔ آبنائے ہرمز سے گذرنے والا سڑسٹھ فیصد تیل بھارت، چین، جاپان اور جنوبی کوریا کو جاتا ہے۔ دس فیصد تیل امریکا اور تئیس فیصد یورپ پہنچتا ہے۔
ایسا نہیں کہ آبنائے ہرمز سے گذرنے والی ٹریفک کبھی تعطل کا شکار نہیں ہوئی۔ انیس سو اسی سے اٹھاسی تک عراق ایران جنگ کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا تیل لے جانے والے جہازوں کو نشانہ بنایا۔ اس امر کے باوجود کہ تب اومان کو چھوڑ کے تمام خلیجی ریاستیں صدام حسین کی دامے درمے پشت پناہی کر رہی تھیں آبنائے ہرمز بند نہیں ہوئی۔ انیس سو اٹھاسی میں ایرانی بحری حدود کے اندر امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس ونسنٹ نے ایران کے سویلین طیارے کو مار گرایا جس میں دو سو نوے مسافر سوار تھے۔ اس واقعہ کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔
عراق ایران جنگ کے بعد بھی انفرادی حملے اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے۔ مثلاً دو ہزار دس میں القاعدہ نے خلیجِ فارس میں ایک جاپانی جہاز کو نشانہ بنایا۔ دو ہزار بارہ میں مغربی ممالک بشمول امریکا نے ایران کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی لگائی تب بھی ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ مئی دو ہزار انیس میں آبنائے ہرمز کے نزدیک دو سعودی آئل ٹینکرز سمیت چار جہازوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا مگر ایران نے اس واردات میں ملوث ہونے کی تردید کی۔ اس واقعہ کے اگلے ماہ خلیج میں دو اور آئل ٹینکرز کو بارودی سرنگوں سے نقصان پہنچا۔ گزشتہ برس اپریل میں جب دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو اسرائیلی فضائیہ نے تباہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار میزائیلوں کا تبادلہ ہوا تو ایران نے خلیج میں ایک کنٹینر شپ کو اسرائیل کے لیے رسد لے جانے کے الزام میں عارضی ضبط کر لیا۔
بحیرہ روم اور بحیرہ قلزم کو ملانے والی نہر سویز انیس سو سڑسٹھ اور انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگوں کے درمیانی عرصے اور بعد میں بھی کئی برس تباہ شدہ جہازوں سے اٹی رہی۔ آج کل بحیرہ قلزم اور بحرِ ہند کو ملانے والی گذرگاہ باب المندب یمنی حوثیوں کی ناکہ بندی کی زد میں ہیں مگر بین الاقوامی جہاز رانی کا بہاؤ تب بھی جاری ہے۔ بس اتنی دقت ہے کہ اب یورپ اور ایشیا کے درمیان سفر کرنے والے جہاز بحیرہ قلزم کے پر خطر راستے کو استعمال کرنے کے بجائے افریقہ کے گرد گھومنے والے طویل مگر مہنگے راستے سے آ جا رہے ہیں۔ اسی طرح آگر وسطی امریکا کو کاٹ کر بحیر اوقیانوس اور بحرالکاہل کو ملانے والے پاناما کینال بند ہو جائے تو جہاز جنوبی امریکا کا طویل چکر کاٹ کے نکل سکتے ہیں۔ اگر جنوب مشرقی ایشیا کی آبنائے ملاکا کسی سبب بند ہو جائے تو بحری ٹریفک ملیشیا اور سماٹرا کے درمیان والا بحری راستہ استعمال کر سکتی ہے۔
مگر آبنائے ہرمز اس اعتبار سے نازک راہداری ہے کہ اس کا کوئی متبادل نہیں۔ البتہ آبنائے کے دھانے پر واقع تین ممالک نے کسی ناگہانی کی صورت میں تیل کی ترسیل بحال رکھنے کے لیے آبنائے ہرمز سے بالا بالا جزوی انتظام ضرور کر لیا ہے۔ مثلاً سعودی عرب نے مشرق تا مغرب ایک متبادل پائپ لائن تعمیر کی ہے جس کی ترسیلی گنجائش ستر لاکھ بیرل روزانہ تک ہے۔ یہ پائپ لائن تیل سے مالامال مشرقی پٹی سے خلیج اومان تک بچھائی گئی ہے۔ سعودیوں نے خلیج فارس سے بحیرہ قلزم تک آر پار ایمرجنسی پائپ لائن بھی بچھائی ہے جس کی گنجائش پانچ لاکھ بیرل روزانہ تک ہے۔
جب کہ متحدہ عرب امارات نے بھی خلیجِ اومان سے متصل فجیرہ آئل ٹرمنل تک ایک پائپ لائن بچھائی ہے جس کی گنجائش پندرہ لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ جب کہ ایران نے آبنائے ہرمز کے تنگ راستے کی ممکنہ ناکہ بندی کے اثرات سے خود کو بچانے کے لیے خلیجِ اومان کے دہانے پر قائم جسک کی بندرگاہ تک ایک پائپ لائن بچھائی ہے جس کی روزانہ گنجائش پینتیس لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ تاہم ایران اس پائپ لائن کو فی الحال اپنی پوری گنجائش کے اعتبار سے استعمال نہیں کر رہا۔
ایران، امارات اور سعودی عرب تو آبنائے ہرمز کی کسی ناکہ بندی کے دوران تیل کی ترسیل جزوی طور برقرار رکھ پائیں گے۔ عراق بھی ترکی اور شام کے راستے اپنے تیل کی پیداوار کسی حد تک باہر نکال سکتا ہے۔ مگر بحرین، قطر اور کویت تو پوری طرح خلیجِ فارس کے پنجرے میں قید ہیں۔ اسی لیے تو ان سب کا دار و مدار امریکا کی حفاظتی چھتری پر ہے۔ جس کے عوض امریکا ان سے مختلف اشکال میں بھاری معاوضہ وصول کرتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لاکھ بیرل روزانہ ا بنائے ہرمز کے سے گذرنے والی تیل اور گیس پائپ لائن ایران نے کے علاوہ ایران کے کے لیے ا ہے جس کی تیل کی
پڑھیں:
روس میں 8.8 شدت کا زلزلہ، سونامی کی لہریں، امریکا سمیت بحرالکاہل کے ساحلی ممالک میں ہنگامی الرٹس
ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک)روس کے مشرقی علاقے کامچاتکا میں بدھ کے روز 8.8 شدت کا شدید زلزلہ آیا جس کے نتیجے میں عمارتوں کو نقصان پہنچا، کئی افراد زخمی ہوگئے اور سونامی کی 4 میٹر (13 فٹ) تک بلند لہریں اٹھیں۔ زلزلے اور سونامی کے باعث بحرالکاہل کے گرد واقع کئی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئیں اور انخلا کے احکامات جاری کیے گئے۔
خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کے مطابق کامچاتکا کے گورنر ولادیمیر سولودوف نے اپنے پیغام میں کہا، ’آج کا زلزلہ دہائیوں میں سب سے شدید تھا، صورتحال سنجیدہ ہے۔‘
ریجنل ایمرجنسی منسٹر سرگئی لیبیڈیف کے مطابق ساحلی علاقوں میں 3 سے 4 میٹر تک سونامی کی لہریں ریکارڈ کی گئیں۔ جس کلے باعث عوام کو ساحلی علاقوں سے دور رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
زلزلے کی شدت اور مقام
امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی گہرائی صرف 19.3 کلومیٹر تھی، اور مرکز پیٹروپاولوسک-کامچاتسکی شہر سے 119 کلومیٹر جنوب مشرق میں تھا۔ بعد ازاں 6.9 شدت کا ایک آفٹر شاک بھی محسوس کیا گیا۔ زلزلے کے بعد ہوائی، جاپان، چلی، ایکواڈور، جزائر سلیمان اور امریکا کے مغربی ساحل سمیت کئی علاقوں میں سونامی کی وارننگز جاری کر دی گئیں۔
جاپان میں خطرے کی گھنٹیاں
2011 کے تباہ کن زلزلے و سونامی سے سبق لیتے ہوئے جاپان کے محکمہ موسمیات نے ساحلی علاقوں کے لیے فوری انخلا کا حکم دے دیا۔ جزیرہ ہوکائیدو میں شہری چھتوں پر خیمے لگا کر پناہ لیتے دیکھے گئے جبکہ ماہی گیری کشتیاں محفوظ مقامات کی طرف نکل گئیں۔
فوکوشیما نیوکلیئر پاور پلانٹ کو خالی کرا لیا گیا، جہاں 2011 میں زلزلے کے بعد تابکار مواد کے اخراج کا بحران پیدا ہوا تھا۔ جاپانی حکام کے مطابق اب تک کسی جانی نقصان یا جوہری تنصیبات میں کسی خرابی کی اطلاع نہیں ملی۔
امریکی وارننگ اور ہوائی کی تیاری
امریکی سونامی وارننگ سینٹر نے خبردار کیا ہے کہ تین گھنٹوں کے اندر خطرناک لہریں کئی ساحلی علاقوں سے ٹکرا سکتی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا، ’بحرالکاہل میں آنے والے زلزلے کے بعد ہوائی میں سونامی وارننگ جاری ہے، امریکا کی مغربی ساحلی پٹی اور الاسکا بھی خطرے کی زد میں ہیں، لوگ محفوظ رہیں۔‘
ہوائی کی ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی نے کہا کہ نشیبی علاقوں میں رہنے والے فوری طور پر بلند مقامات یا عمارتوں کی چوتھی منزل تک چلے جائیں۔
روس میں زخمی، عمارتوں کو نقصان
روسی وزیر صحت اولیگ میلنیکوو نے بتایا کہ کئی افراد زلزلے سے زخمی ہوئے، کچھ لوگ بھاگنے کے دوران گرے، ایک شخص کھڑکی سے چھلانگ لگا بیٹھا، جب کہ ایک خاتون نئے ایئرپورٹ ٹرمینل میں زخمی ہوئیں۔ تاہم تمام مریضوں کی حالت تسلی بخش ہے۔
ایمرجنسی سروسز کے مطابق سخالین کے قصبے سیویرو-کورلسک میں بندرگاہ اور ایک فش فیکٹری سونامی کی زد میں آ کر جزوی طور پر زیرِ آب آگئیں۔ علاقے کو مکمل طور پر خالی کرا لیا گیا ہے۔ ایک کنڈرگارٹن کو بھی نقصان پہنچا، تاہم کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی۔
’رِنگ آف فائر‘ پر واقع خطرناک علاقہ
کامچاتکا خطہ بحرالکاہل کے ’رِنگ آف فائر‘ پر واقع ہے جو زمین کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز اور آتش فشانی خطوں میں سے ایک ہے۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز کے مطابق یہ 1952 کے بعد کا سب سے شدید زلزلہ تھا۔
کامچاتکا جیوفزیکل سروس کے ڈائریکٹر ڈینیلا چیبروف کے مطابق زلزلے کی شدت بلند ضرور تھی، مگر مرکز کے مخصوص خدوخال کے باعث جھٹکوں کی شدت قدرے کم رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہے گا، مگر مزید بڑے زلزلے کا خطرہ فی الحال نہیں۔
Post Views: 4