Islam Times:
2025-06-17@16:43:31 GMT

کیا ایران آبنائے ہرمز بند کرسکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

کیا ایران آبنائے ہرمز بند کرسکتا ہے؟

اسلام ٹائمز: اس راستے کی حفاظت کے لیے امریکا کا پانچواں بحری بیڑہ مستقل بحرین کی بندرگاہ مناما میں لنگرانداز رہتا ہے۔ قطر میں امریکی کا سب سے بڑا علاقائی فضائی اڈہ العدید اور امریکی سینٹرل کمان کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ اگر آبنائے ہرمز کے تجارتی بہاؤ میں کسی بھی جانب سے کوئی بھی بڑی رکاوٹ پڑتی ہے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب اردگرد کی تیل اور گیس سے مالامال ریاستوں کے علاوہ ان تمام چھوٹے بڑے ممالک سے براہِ راست مخاصمت مول لینا ہے جن کا دار و مدار آبنائے ہرمز سے گذرنے والی انرجی پر ہے۔ تحریر: وسعت اللہ خان

ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے ملک کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں امریکا اور آس پاس کے ممالک کی معاونت جاری رہی تو پھر ایران ’’حتمی بقائی اقدام‘‘ کے طور پر ان ممالک کی حساس فوجی و اقتصادی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے علاوہ خلیجِ فارس کو خلیجِ اومان سے ملانے والی آبنائے ہرمز کو بھی بند کرنے کی کارروائی کر سکتا ہے۔ کیا آبنائے ہرمز کو بند کرنا اتنا ہی آسان ہے؟ یہ سوال یوں اہم ہے کیونکہ خلیجِ فارس کو خلیجِ اومان کے ذریعے بحرِ ہند سے ملانے والے اس تنگ راستے کو عالمی اقتصادی شہہ رگ کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک سرے پر ایران اور دوسرے سرے پر اومان ہے۔ اومان اور ایران کے علاوہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، کویت اور عراق کا تیل اور گیس بھی باقی دنیا تک اسی تنگ سے راستے سے پہنچتے ہیں۔

اگرچہ آبنائے ہرمز کی کم ازکم چوڑائی تینتیس کلومیٹر ہے مگر اس سے گذرنے والی شپنگ لائن محض تین کلومیٹر چوڑی ہے جس سے تیل اور گیس لے جانے والے سپر ٹینکر گذر سکتے ہیں۔ یعنی یہ تین کلومیٹر چوڑائی سب سے گنجان تجارتی گذرگاہ ہے جس سے عالمی ضروریات کا بیس فیصد تیل ( ڈھائی کروڑ بیرل روزانہ ) اور ایک تہائی مایع گیس گذرتی ہے۔ خلیجِ فارس کے حصہ دار تمام ممالک بشمول ایران تیل پیدا کرنے والی تنظیم اوپیک کے رکن ہیں۔ جب کہ اس علاقے میں سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا ملک قطر ایران کے ساتھ نہ صرف کچھ گیس فیلڈز شئیر کرتا ہے بلکہ خلیج میں ایران کا سب سے قریبی دوست بھی سمجھا جاتا ہے۔

اس راستے کی حفاظت کے لیے امریکا کا پانچواں بحری بیڑہ مستقل بحرین کی بندرگاہ مناما میں لنگرانداز رہتا ہے۔ قطر میں امریکی کا سب سے بڑا علاقائی فضائی اڈہ العدید اور امریکی سینٹرل کمان کا ہیڈ کوارٹر قائم ہے۔ اگر آبنائے ہرمز کے تجارتی بہاؤ میں کسی بھی جانب سے کوئی بھی بڑی رکاوٹ پڑتی ہے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب اردگرد کی تیل اور گیس سے مالامال ریاستوں کے علاوہ ان تمام چھوٹے بڑے ممالک سے براہِ راست مخاصمت مول لینا ہے جن کا دار و مدار آبنائے ہرمز سے گذرنے والی انرجی پر ہے۔ آبنائے ہرمز سے گذرنے والا سڑسٹھ فیصد تیل بھارت، چین، جاپان اور جنوبی کوریا کو جاتا ہے۔ دس فیصد تیل امریکا اور تئیس فیصد یورپ پہنچتا ہے۔

ایسا نہیں کہ آبنائے ہرمز سے گذرنے والی ٹریفک کبھی تعطل کا شکار نہیں ہوئی۔ انیس سو اسی سے اٹھاسی تک عراق ایران جنگ کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا تیل لے جانے والے جہازوں کو نشانہ بنایا۔ اس امر کے باوجود کہ تب اومان کو چھوڑ کے تمام خلیجی ریاستیں صدام حسین کی دامے درمے پشت پناہی کر رہی تھیں آبنائے ہرمز بند نہیں ہوئی۔ انیس سو اٹھاسی میں ایرانی بحری حدود کے اندر امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس ونسنٹ نے ایران کے سویلین طیارے کو مار گرایا جس میں دو سو نوے مسافر سوار تھے۔ اس واقعہ کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔

عراق ایران جنگ کے بعد بھی انفرادی حملے اور دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے۔ مثلاً دو ہزار دس میں القاعدہ نے خلیجِ فارس میں ایک جاپانی جہاز کو نشانہ بنایا۔ دو ہزار بارہ میں مغربی ممالک بشمول امریکا نے ایران کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی لگائی تب بھی ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ مئی دو ہزار انیس میں آبنائے ہرمز کے نزدیک دو سعودی آئل ٹینکرز سمیت چار جہازوں کو تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا مگر ایران نے اس واردات میں ملوث ہونے کی تردید کی۔ اس واقعہ کے اگلے ماہ خلیج میں دو اور آئل ٹینکرز کو بارودی سرنگوں سے نقصان پہنچا۔ گزشتہ برس اپریل میں جب دمشق میں ایرانی سفارتخانے کو اسرائیلی فضائیہ نے تباہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار میزائیلوں کا تبادلہ ہوا تو ایران نے خلیج میں ایک کنٹینر شپ کو اسرائیل کے لیے رسد لے جانے کے الزام میں عارضی ضبط کر لیا۔

بحیرہ روم اور بحیرہ قلزم کو ملانے والی نہر سویز انیس سو سڑسٹھ اور انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگوں کے درمیانی عرصے اور بعد میں بھی کئی برس تباہ شدہ جہازوں سے اٹی رہی۔ آج کل بحیرہ قلزم اور بحرِ ہند کو ملانے والی گذرگاہ باب المندب یمنی حوثیوں کی ناکہ بندی کی زد میں ہیں مگر بین الاقوامی جہاز رانی کا بہاؤ تب بھی جاری ہے۔ بس اتنی دقت ہے کہ اب یورپ اور ایشیا کے درمیان سفر کرنے والے جہاز بحیرہ قلزم کے پر خطر راستے کو استعمال کرنے کے بجائے افریقہ کے گرد گھومنے والے طویل مگر مہنگے راستے سے آ جا رہے ہیں۔ اسی طرح آگر وسطی امریکا کو کاٹ کر بحیر اوقیانوس اور بحرالکاہل کو ملانے والے پاناما کینال بند ہو جائے تو جہاز جنوبی امریکا کا طویل چکر کاٹ کے نکل سکتے ہیں۔ اگر جنوب مشرقی ایشیا کی آبنائے ملاکا کسی سبب بند ہو جائے تو بحری ٹریفک ملیشیا اور سماٹرا کے درمیان والا بحری راستہ استعمال کر سکتی ہے۔

مگر آبنائے ہرمز اس اعتبار سے نازک راہداری ہے کہ اس کا کوئی متبادل نہیں۔ البتہ آبنائے کے دھانے پر واقع تین ممالک نے کسی ناگہانی کی صورت میں تیل کی ترسیل بحال رکھنے کے لیے آبنائے ہرمز سے بالا بالا جزوی انتظام ضرور کر لیا ہے۔ مثلاً سعودی عرب نے مشرق تا مغرب ایک متبادل پائپ لائن تعمیر کی ہے جس کی ترسیلی گنجائش ستر لاکھ بیرل روزانہ تک ہے۔ یہ پائپ لائن تیل سے مالامال مشرقی پٹی سے خلیج اومان تک بچھائی گئی ہے۔ سعودیوں نے خلیج فارس سے بحیرہ قلزم تک آر پار ایمرجنسی پائپ لائن بھی بچھائی ہے جس کی گنجائش پانچ لاکھ بیرل روزانہ تک ہے۔

جب کہ متحدہ عرب امارات نے بھی خلیجِ اومان سے متصل فجیرہ آئل ٹرمنل تک ایک پائپ لائن بچھائی ہے جس کی گنجائش پندرہ لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ جب کہ ایران نے آبنائے ہرمز کے تنگ راستے کی ممکنہ ناکہ بندی کے اثرات سے خود کو بچانے کے لیے خلیجِ اومان کے دہانے پر قائم جسک کی بندرگاہ تک ایک پائپ لائن بچھائی ہے جس کی روزانہ گنجائش پینتیس لاکھ بیرل روزانہ ہے۔ تاہم ایران اس پائپ لائن کو فی الحال اپنی پوری گنجائش کے اعتبار سے استعمال نہیں کر رہا۔

ایران، امارات اور سعودی عرب تو آبنائے ہرمز کی کسی ناکہ بندی کے دوران تیل کی ترسیل جزوی طور برقرار رکھ پائیں گے۔ عراق بھی ترکی اور شام کے راستے اپنے تیل کی پیداوار کسی حد تک باہر نکال سکتا ہے۔ مگر بحرین، قطر اور کویت تو پوری طرح خلیجِ فارس کے پنجرے میں قید ہیں۔ اسی لیے تو ان سب کا دار و مدار امریکا کی حفاظتی چھتری پر ہے۔ جس کے عوض امریکا ان سے مختلف اشکال میں بھاری معاوضہ وصول کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: لاکھ بیرل روزانہ ا بنائے ہرمز کے سے گذرنے والی تیل اور گیس پائپ لائن ایران نے کے علاوہ ایران کے کے لیے ا ہے جس کی تیل کی

پڑھیں:

تائیوان کے سابق صدر ماینگ چین میں منعقد فورم میں شریک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جو نے آبنائے تائیوان کے پار تبادلوں کو بڑھانے کے لیے چین میں ایک فورم میں شرکت کی ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق چین نے فوجیان صوبے کے شہر شیامین میں سالانہ آبنائے فورم کا انعقاد کیا۔ شیامین تائیوان کے مغرب میں واقع ہے۔ چین سرکاری میڈیا کے مطابق تائیوان سے ما ینگ کے ساتھ 7ہزار سے زیادہ لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا، جن کا تعلق تائیوان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کواومنتانگ سے ہے۔ دوسری جانب چینی کمیونسٹ پارٹی کی جماعت عاملہ کی قائمہ کمیٹی کے رکن اور پارٹی کے نمبر 4 عہدیدار وانگ ہْنِنگ نے تائیوان کی آزادی اور بیرونی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرنے اور آبنائے تائیوان کے امن و استحکام کے تحفظ پر زور دیا۔اس بیان کا اشارہ بظاہر تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی طرف تھا، جسے بیجنگ آزادی کا حامی سمجھتا ہے۔ اس موقع پر ماینگ نے کہا کہ تائیوان کی آزادی کے خلاف مشترکہ بنیاد کے تحت تعاون کو گہرا کرنے سے امن اور باہمی فائدے کا ایک مرحلہ تخلیق کرنے میں مدد ملے گی۔بیجنگ بظاہر ما کے ذریعے بات چیت پر زور دے کر صدر لائی چِنگ تے کی ماتحت تائیوان کی حکمران جماعت کو انتباہ دینا چاہتا ہے۔تائیوان کے حکام نے کہا کہ یہ فورم چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے تائیوان کو نشانہ بنانے والے متحدہ محاذ کا پلیٹ فارم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل اور امریکا کا اگلا ٹارگٹ پاکستان ہے: حافظ نعیم الرحمان
  • آبنائے ہرمز میں 3 بحری جہازوں میں تصادم، امارات نے 24 افراد کو ریسکیو کرلیا
  • تائیوان کے سابق صدر ماینگ چین میں منعقد فورم میں شریک
  • کیا ایران آبنائے ہرمز بند کر سکتا ہے؟
  • ایران اسرائیل کشیدگی میں آبنائے ہرمز کی اہمیت اور عالمی معیشت پر اثرات
  • ٹرمپ انتظامیہ کا مزید 36 ممالک پر سفری پابندی لگانے کا منصوبہ
  • ایران اسرائیل جنگ، خلیج تعاون کونسل کا ہنگامی اجلاس آج طلب
  • ٹرمپ انتظامیہ کا مزید 36 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی عائد کرنے پر غور
  • ایرانی فوج نے برطانوی بحریہ کے جہاز کو خلیج فارس میں داخلے سے روک دیا