وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا قانونی تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے کے حکومتی عزم کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جون2025ء) وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بدھ کوچیئرمین لیگل ایجوکیشن کمیٹی قلب حسن شاہ اور ڈائریکٹر لیگل ایجوکیشن پاکستان بیرسٹر اسامہ ملک کے ساتھ ایک اعلی سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں یونیورسٹی آف لندن کی انڈر گریجویٹ لاز کی ڈین پیٹریشیا میک کیلر بھی موجود تھیں۔
اجلاس کے ایجنڈا میں قانونی تعلیم میں معیارات کو بڑھانے اور نافذ کرنے خاص طور پر بیرونی قانون کے پروگرام پیش کرنے والے اداروں پر توجہ مرکوز کرناتھا۔ میک کیلر نے اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹی آف لندن پاکستان بار کونسل اور ڈائریکٹوریٹ آف لیگل ایجوکیشن (ڈی ایل ای )کی طرف سے مقرر کردہ تمام ریگولیٹری معیارات کی مکمل تعمیل کو یقینی بناتی ہے تاہم چیئرمین سید قلب حسن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کوئی بھی بین الاقوامی یونیورسٹی پاکستان بار کونسل کی پیشگی منظوری کے بغیر پاکستان میں بیرونی قانون کے پروگرام پیش نہیں کر سکتی۔(جاری ہے)
انہوں نے امتحانات کو اسائنمنٹس سے بدلنے والے اداروں پر نکتہ چینی کی اورزور دیا کہ اس طرح کے طرز عمل سے تعلیمی سالمیت کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اسے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ بیرسٹر اسامہ ملک نے ایسے اسائنمنٹ پر مبنی قانون ڈگری پروگراموں کو روکنے کی ضرورت پر مزید زور دیا۔وفاقی وزیر قانون نے پاکستان میں قانونی تعلیم کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پیشے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے اقدامات بشمول ڈگریوں کی فروخت، اوپن بک فارمیٹس اور اسائنمنٹ پر مبنی نظام کی اجازت نہیں دیں گے ۔ گذشتہ دو سالوں میں، لیگل ایجوکیشن کمیٹی اور ڈائریکٹوریٹ آف لیگل ایجوکیشن نے تقریبا 50 ایسے اداروں کو بند کر دیا ہے جو طے شدہ معیارات پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ نئے ضوابط کے تحت پاکستان بار کونسل کی باضابطہ منظوری کے بغیر کسی کالج کو بیرونی قانون کے پروگراموں سے الحاق کی اجازت نہیں ہوگی۔ وزیر قانون نے تمام شراکت داروں کو آئندہ تعلیمی سیشن کے آغاز سے قبل فوری کارروائی کیے جانے کایقین دلایا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
مغربی تعلیم زوال پذیر کیوں ہے؟
ریچل مارسڈن کی تحریر سے ماخوذ
مغربی دنیا کے تعلیمی نظام کو درپیش بحران اب محض خدشہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ ریچل مارسڈن، جو کہ ایک معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں، نے اپنی حالیہ تحریر میں کینیڈا اور فرانس جیسے ممالک میں تعلیمی انحطاط کی گہرائی سے نشاندہی کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ’احساسات کو مقدم رکھنے‘ والی تعلیم نے علمی معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انفرادی کارکردگی سے اجتماعی ہم آہنگی تکمارسڈن کے مطابق تعلیمی ادارے اب انفرادی کارکردگی کے بجائے ’اجتماعی تعاون‘ کو ترجیح دے رہے ہیں۔
کامیاب طلبہ کی تصاویر ہٹا کر ان کی جگہ مختلف اقلیتوں کے پرچم اور سروے نتائج لگا دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا کہ طلبہ بیت الخلا تک جانے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کا سابقہ نعرہ ’ہم برتری کے طالب ہیں‘ اب بے معنی دکھائی دیتا ہے۔
معیار کے بجائے نرمی کا غلبہبرٹش کولمبیا (کینیڈا) جیسے علاقوں نے ریاضی، کیمیا، فزکس جیسے مضامین کے معیاری ٹیسٹ ختم کر دیے ہیں۔ ان کی جگہ صرف لٹریسی اور نمبریسی کے عمومی ٹیسٹ باقی رہ گئے ہیں۔
ٹیسٹ کے سوالات بچوں کو چیلنج کرنے کے بجائے ان کی سطح سے نیچے رکھے جا رہے ہیں۔
سوالات اتنے آسان ہیں کہ گویا 7 سال کے بچے سے پوچھے جا رہے ہوں، نہ کہ کسی یونیورسٹی میں داخلے کے امیدوار سے۔
گریڈنگ سسٹم میں تبدیلیاب گریڈز کی جگہ مختلف الفاظ نے لے لی ہے مثلاً ’ابھرتا ہوا، ترقی کرتا ہوا، ماہر، یا آگے بڑھتا ہوا، وغیرہ۔
یہ تبدیلی کسی کی کمی کو اجاگر نہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ لیکن اصل دنیا میں ایسی نرمی کی کوئی جگہ نہیں۔ مارچسن کے بقول، یہی طالبعلم بعد میں سوشل میڈیا پر ’احمق‘ کہلا کر شدید تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔
فرانسیسی تجربہ: ناکامی کے بعد واپسیفرانس نے بھی 2019 میں ہائی اسکول کے لیے ریاضی کو نصاب سے نکال دیا، مگر نتائج اتنے خراب آئے کہ حکومت کو 2023 میں فیصلہ واپس لینا پڑا۔
حالیہ امتحانات میں ہدایات دی گئیں کہ املا اور گرامر کی غلطیوں پر مکمل نمبر نہ کاٹے جائیں بلکہ صرف سمجھ آنے پر توجہ دی جائے۔
تنقیدی سوچ کی کمیمارسڈن طنزیہ انداز میں بتاتی ہیں کہ جب طلبہ فلسفے کے پرچے میں ’ preponderant ‘ جیسے عام الفاظ کے معانی بھی نہیں سمجھ پاتے، تو پھر ان کی علمی بنیادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔
آخر یہ طلبہ گریجویشن کے بعد کس معیار پر کھڑے ہوں گے؟
’محفوظ جگہ‘ مگر کمزور علممارسڈن کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب میں تعلیم اب حقیقت سے زیادہ احساسات کے گرد گھومنے لگی ہے۔ سختی اور معیار کو ظلم سمجھا جانے لگا ہے۔ نتیجتاً ہم ایسے گریجویٹس دیکھ رہے ہیں جو دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے صرف ’سیف اسپیس‘ کی تلاش میں رہتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا برٹش کولمبیا فرانس کینیڈا مغربی تعلیم