کراچی:

سندھ پولیس کی جانب سے 16 گریڈ میں تعینات انسپکٹرز کی نئی سینیارٹی لسٹ جاری ہونے کے بعد بھرتی کے عمل میں سنگین بے ضابطگیوں اور قانون شکنی کے انکشافات نے ایک بار پھر سے ادارے میں بھرتیوں میں شفافیت کے بلند و بانگ دعوؤں کو متنازعہ بنا دیا ہے۔

حکومت پاکستان کے "سول سرونٹس (اپائنٹمنٹ، پروموشن اینڈ ٹرانسفر) رولز 1973" کے تحت وفاقی و صوبائی ملازمتوں میں تقرری کے لیے کم از کم عمر کی حد 18 سال مقرر ہے جبکہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں ہوشربا انکشاف سامنے آیا ہے۔

اس فہرست میں شامل متعدد افسران ایسے ہیں جنہوں نے پولیس میں شمولیت کے وقت یا تو کم از کم قانونی عمر یعنی 18 سال کی شرط پوری نہیں کی تھی یا محض چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کے فرق سے انہیں نوکری مل گئی۔

ایک ایسا عمل جو نہ صرف ضابطوں اور قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس میں مبینہ طور پر منظم کرپشن اور ملی بھگت کے عناصر بھی کارفرما دکھائی دیتے ہیں، آئی جی سندھ کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق پولیس افسر محبوب علی مٹھانی ولد علی نواز محض 16 سال 10 ماہ 11 دن کی عمر میں بھرتی ہوئے۔

 بابر علی شیخ ولد بیشر احمد کی عمر صرف 16 سال 3 ماہ 8 دن تھی، امتیاز علی تھیبو، ظہور احمد لاشاری اور شاہ جہاں لاشاری جیسے افسران بھی 17 سال کی عمر میں ہی پولیس فورس کا حصہ بن گئے، جاری کردہ فہرست میں وہ افسران بھی شامل ہیں جن کی عمر بظاہر 18 سال سے کچھ ہی اوپر تھی جیسے ممتاز راہو (18 سال 2 دن) یا قمرالزمان (18 سال 6 دن) کی عمر میں سندھ پولیس کا حصہ بن گئے۔

دوسری جانب سندھ پولیس نے حال ہی میں ایسی ایک فہرست بھی جاری کی ہے جس میں 3 امیدواروں کو محض زائد العمری کی بنیاد پر بھرتی کے لیے نااہل قرار دیا گیا، ان بدقسمت افراد میں شہزاد خان ولد عبدالمالک شامل ہیں جو صرف 5 دن زائد العمر ہونے کی وجہ سے بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی نا ہو سکے، فرحان علی احمد 3 ماہ 12 دن زائد العمر قرار پائے جبکہ نور محمد 1 ماہ زائد العمر ہونے کی وجہ سے سندھ پولیس میں ملازمت حاصل نہیں کر پائے۔

 حاصل کردہ فہرست کے مطابق چند دنوں کے فرق سے نوجوانوں کو ملازمت سے محروم کر دیا گیا لیکن ایسے افسران آج بھی سندھ پولیس کی وردی میں عوام پر حکمرانی کر رہے ہیں جنہوں نے سرے سے قانونی عمر کی حد کو پورا ہی نہیں کیا تھا، عمر کی حد کے اطلاق میں دوہرے معیار کی صورت میں شفافیت، میرٹ اور انصاف کے بلند و بانگ دعوے صرف دعوے ہی رہ جاتے ہیں۔

 سابقہ ادوار میں کی جانے والی بھرتیوں کی جانچ پڑتال اگر حقیقتاً شفافیت کے معیار پر کی جائے تو شاید ایسی فہرستیں درجنوں کے بجائے سیکڑوں ناموں پر مشتمل ہوں اور اگر فہرست میں شامل افراد ریکارڈ کی خامی کے باعث عمر کے تنازع کا شکار ہیں تو یقینی طور پر سنگین نوعیت کی غلطی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہوگئی ہے۔

واضح رہے ایکسپریس نیوز کی جانب سے اس سے قبل 500 افسران کے بطور ڈی ایس پی سنیارٹی لسٹ جاری کی گئی تھی جس میں بڑے پیمانے پر فہرست میں شامل کئی ناموں پر عمر کی حد، تقرری کی تاریخوں میں تضاد اور مبینہ آؤٹ اف ٹرن پروموشنز سامنے آئی تھیں۔

 ایسے افسران جن کی بھرتی کی بنیاد ہی کمزور اور غیر قانونی ہو وہ قانون کی بالادستی کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر 18 سال کی عمر کی شرط آئین اور سرکاری ضوابط میں واضح طور پر درج ہے تو پھر ان افراد کو بھرتی کس بنیاد پر کیا گیا؟ کیا بورڈز اور تقرری کمیٹیوں نے آنکھیں بند کر کے یہ تقرریاں کیں؟ یا ماضی میں بھی سسٹم کی مبینہ کرپشن کا یہ ایک اور نمونہ ہے؟۔

یہی افسران اب نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں بلکہ تنخواہوں، مراعات، گاڑیوں، سیکیورٹی اور دیگر سہولیات کے حامل ہیں، کیا یہ سہولیات ایک غیر قانونی بنیاد پر حاصل کردہ ملازمت کے تحت قومی خزانے پر اضافی بوجھ نہیں؟۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سندھ پولیس کی جانب سے فہرست میں عمر کی حد کی عمر

پڑھیں:

ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والوں کیلئے بڑی خوشخبری

ویب ڈیسک: پاکستانی شہریوں کو قومی اور بین الاقوامی ڈرائیونگ لائسنس کی سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔

  موٹروے پولیس نے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے کوئٹہ میں باقاعدہ طور پر ڈرائیونگ لائسنس اتھارٹی قائم کر دی ہے، جہاں نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی لائسنس کا بھی اجرا کیا جا رہا ہے،یہ اتھارٹی اسلام آباد اور شیخوپورہ کے بعد ملک میں موٹروے پولیس کے تحت قائم کی جانے والی تیسری ڈرائیونگ لائسنس اتھارٹی ہے۔

جرمنی: بلدیہ کا مسجد گرانے کا حکم،مسلم کمیونٹی کا انکار

  ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) موٹروے پولیس اشفاق احمد نے بتایا کہ کوئٹہ میں اس منصوبے پر کام دو سال قبل شروع کیا گیا تھا جبکہ گزشتہ برس سے اتھارٹی نے باقاعدہ کام کا آغاز کر دیا۔ اب تک یہاں سے 2,000 سے زائد ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جا چکے ہیں۔

 ڈی آئی جی موٹروے کا کہنا تھا کہ لائسنس کے اجرا کے لیے مکمل اور جدید ٹیسٹنگ سسٹم موجود ہے، جس کی بدولت جو امیدوار مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے، اسے پہلے ہی دن لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے،انہوں نے مزید بتایا کہ اس اقدام کا مقصد محفوظ ڈرائیونگ کو فروغ دینا اور ناتجربہ کار ڈرائیوروں کی وجہ سے ہونے والے حادثات کی روک تھام ہے۔

تھانیدارکاپولیس اہلکاروں کےہمراہ تاجرکےگھردھاوا،فوٹیج سامنےآ گئی

 اشفاق احمد کے مطابق موٹروے پولیس کی ہائی وے فورس بلوچستان میں کوئٹہ سے قلات اور اوتھل سے حب تک تعینات ہے تاہم صوبے میں صرف 1,000 موٹروے پولیس اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں جو کہ بڑھتے ہوئے ٹریفک کے بوجھ کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ نفری میں اضافے کے لیے کوششیں جاری ہیں تاکہ شاہراہوں پر بہتر نگرانی اور ٹریفک کنٹرول ممکن بنایا جا سکے۔
 
 

متعلقہ مضامین

  • سندھ کے اسپتالوں میں پاکستانیوں سمیت غیرملکیوں کیلیے مفت علاج کی سہولیات جاری ہیں، شرجیل میمن
  • محکمہ جیل سندھ میں 6 ہزار افسران و اہلکار بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • کراچی: ڈی آئی جی ایسٹ زون نے انویسٹی گیشن پولیس میں تعینات 7 پولیس افسران کو معطل کر دیا
  • عمران خان کو قید تنہائی میں رکھنا آئین، قانون اور انسانیت کی توہین ہے، حلیم عادل شیخ
  • ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والوں کے لئے بڑی خبر
  • قواعد سے ہٹ کر بھرتیوں کا کیس: چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر غلام محمد علی کی درخواست ضمانت خارج
  • ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والوں کیلئے بڑی خوشخبری
  • رحیم یار خان: ڈاکوؤں کا پولیس پر حملہ، 5 ایلیٹ اہلکار شہید
  • جبری شادی کی قانون سازی پر سب سے زیادہ سندھ میں عملدرآمد کیا جارہا ہے، ناصر حسین شاہ
  • بھارت کو تشویش ناک ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جائے ، ڈاکٹر آصف محمود