سندھ پولیس میں کم عمر بھرتیوں نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
کراچی:
سندھ پولیس کی جانب سے 16 گریڈ میں تعینات انسپکٹرز کی نئی سینیارٹی لسٹ جاری ہونے کے بعد بھرتی کے عمل میں سنگین بے ضابطگیوں اور قانون شکنی کے انکشافات نے ایک بار پھر سے ادارے میں بھرتیوں میں شفافیت کے بلند و بانگ دعوؤں کو متنازعہ بنا دیا ہے۔
حکومت پاکستان کے "سول سرونٹس (اپائنٹمنٹ، پروموشن اینڈ ٹرانسفر) رولز 1973" کے تحت وفاقی و صوبائی ملازمتوں میں تقرری کے لیے کم از کم عمر کی حد 18 سال مقرر ہے جبکہ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے جاری کردہ فہرست میں ہوشربا انکشاف سامنے آیا ہے۔
اس فہرست میں شامل متعدد افسران ایسے ہیں جنہوں نے پولیس میں شمولیت کے وقت یا تو کم از کم قانونی عمر یعنی 18 سال کی شرط پوری نہیں کی تھی یا محض چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کے فرق سے انہیں نوکری مل گئی۔
ایک ایسا عمل جو نہ صرف ضابطوں اور قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس میں مبینہ طور پر منظم کرپشن اور ملی بھگت کے عناصر بھی کارفرما دکھائی دیتے ہیں، آئی جی سندھ کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق پولیس افسر محبوب علی مٹھانی ولد علی نواز محض 16 سال 10 ماہ 11 دن کی عمر میں بھرتی ہوئے۔
بابر علی شیخ ولد بیشر احمد کی عمر صرف 16 سال 3 ماہ 8 دن تھی، امتیاز علی تھیبو، ظہور احمد لاشاری اور شاہ جہاں لاشاری جیسے افسران بھی 17 سال کی عمر میں ہی پولیس فورس کا حصہ بن گئے، جاری کردہ فہرست میں وہ افسران بھی شامل ہیں جن کی عمر بظاہر 18 سال سے کچھ ہی اوپر تھی جیسے ممتاز راہو (18 سال 2 دن) یا قمرالزمان (18 سال 6 دن) کی عمر میں سندھ پولیس کا حصہ بن گئے۔
دوسری جانب سندھ پولیس نے حال ہی میں ایسی ایک فہرست بھی جاری کی ہے جس میں 3 امیدواروں کو محض زائد العمری کی بنیاد پر بھرتی کے لیے نااہل قرار دیا گیا، ان بدقسمت افراد میں شہزاد خان ولد عبدالمالک شامل ہیں جو صرف 5 دن زائد العمر ہونے کی وجہ سے بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی نا ہو سکے، فرحان علی احمد 3 ماہ 12 دن زائد العمر قرار پائے جبکہ نور محمد 1 ماہ زائد العمر ہونے کی وجہ سے سندھ پولیس میں ملازمت حاصل نہیں کر پائے۔
حاصل کردہ فہرست کے مطابق چند دنوں کے فرق سے نوجوانوں کو ملازمت سے محروم کر دیا گیا لیکن ایسے افسران آج بھی سندھ پولیس کی وردی میں عوام پر حکمرانی کر رہے ہیں جنہوں نے سرے سے قانونی عمر کی حد کو پورا ہی نہیں کیا تھا، عمر کی حد کے اطلاق میں دوہرے معیار کی صورت میں شفافیت، میرٹ اور انصاف کے بلند و بانگ دعوے صرف دعوے ہی رہ جاتے ہیں۔
سابقہ ادوار میں کی جانے والی بھرتیوں کی جانچ پڑتال اگر حقیقتاً شفافیت کے معیار پر کی جائے تو شاید ایسی فہرستیں درجنوں کے بجائے سیکڑوں ناموں پر مشتمل ہوں اور اگر فہرست میں شامل افراد ریکارڈ کی خامی کے باعث عمر کے تنازع کا شکار ہیں تو یقینی طور پر سنگین نوعیت کی غلطی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہوگئی ہے۔
واضح رہے ایکسپریس نیوز کی جانب سے اس سے قبل 500 افسران کے بطور ڈی ایس پی سنیارٹی لسٹ جاری کی گئی تھی جس میں بڑے پیمانے پر فہرست میں شامل کئی ناموں پر عمر کی حد، تقرری کی تاریخوں میں تضاد اور مبینہ آؤٹ اف ٹرن پروموشنز سامنے آئی تھیں۔
ایسے افسران جن کی بھرتی کی بنیاد ہی کمزور اور غیر قانونی ہو وہ قانون کی بالادستی کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر 18 سال کی عمر کی شرط آئین اور سرکاری ضوابط میں واضح طور پر درج ہے تو پھر ان افراد کو بھرتی کس بنیاد پر کیا گیا؟ کیا بورڈز اور تقرری کمیٹیوں نے آنکھیں بند کر کے یہ تقرریاں کیں؟ یا ماضی میں بھی سسٹم کی مبینہ کرپشن کا یہ ایک اور نمونہ ہے؟۔
یہی افسران اب نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہیں بلکہ تنخواہوں، مراعات، گاڑیوں، سیکیورٹی اور دیگر سہولیات کے حامل ہیں، کیا یہ سہولیات ایک غیر قانونی بنیاد پر حاصل کردہ ملازمت کے تحت قومی خزانے پر اضافی بوجھ نہیں؟۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھ پولیس کی جانب سے فہرست میں عمر کی حد کی عمر
پڑھیں:
سندھ بلڈنگ ،پی ای سی ایچ ایس میں خلاف ضابطہ تعمیرات جاری
رہائشی پلاٹوں کو تجارتی مراکز میں بدلنے سے علاقے کی اصل شناخت تبدیل
اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف شیخ اور بلڈنگ مافیا گٹھ جوڑ ، انسپیکشن کا فقدان
کراچی ضلع شرقی کے معروف رہائشی علاقے پی ای سی ایچ ایس میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف شیخ اور بلڈنگ مافیا گٹھ جوڑ کے بعد رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات کی چھوٹ دے دی گئی ہے ، بلڈنگ قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بلاک 6کے پلاٹ نمبر 61 ۔ای پر خلاف ضابطہ تعمیرات کا سلسلہ، عوامی شکایات کے باوجود جاری ہے ۔جرأت سروے ٹیم سے بات کرتے ہوئے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ متعدد رہائشی پلاٹوں کو من مانے طریقے سے تجارتی مراکز، دفاتر اور ریستورانوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے ، جس سے نہ صرف علاقے کی رہائشی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے بلکہ بنیادی ڈھانچے پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق، غیرقانونی تعمیرات کی وجہ سے پارکنگ کے شدید مسائل، پانی اور بجلی کی قلت، نکاسی آب کے نظام پر دباؤ اور شور کی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایس بی سی اے کے اہلکار وقتاً فوقتاً انہدامی کارروائی کے نام پر آتے ہیں مگر موثر کارروائی کے بغیر مٹھیاں گرم کر کے نمائشی توڑ پھوڑ کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں، جس سے تعمیراتی مافیا کو مزید تقویت ملتی ہے ۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل فوری طور پر ضلع شرقی کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دے کر پی ای سی ایچ ایس سمیت تمام علاقوں میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف مہم چلائیں اور ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے غیر قانونی عمارتوں کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات عمل میں لائیں۔ان کا کہنا ہے کہ محض نوٹس جاری کرنے سے مجرمانہ سرگرمیاں بند نہیں ہوں گی، بلکہ عملی کارروائی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔دوسری جانب، ایس بی سی اے کے ترجمان کے مطابق اتھارٹی خلاف ورزیوں کی شکایات پر مناسب کارروائی کرتی ہے ۔ تاہم، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ پی ای سی ایچ ایس میں جاری تعمیراتی ہلچل کے باوجود مجرمانہ سرگرمیاں روکنے میں ناکامی کی وجہ کیا ہے ۔