خلیجی ممالک خبردار!امریکا کو فوجی اڈے دیے تو نتائج بھگتیں گے؛ ایران کی تنبیہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران:ایران نے خطے کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر خلیجی ممالک کو تنبیہ کی ہے کہ اگر ان کی سرزمین سے امریکا نے ایران کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کی تو انہیں بھی ممکنہ جوابی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر امریکی حملے ان ممالک کی زمینوں سے کیے گئے تو ایران اسے کھلی جارحیت اور اشتعال انگیزی تصور کرے گا، جس کا فوری اور سخت جواب دیا جائے گا۔
یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی ایک مرتبہ پھر انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حالیہ مبہم بیانات، جن میں انہوں نے ایران پر ممکنہ حملے کا اشارہ دیا، نے خطے کی فضا مزید کشیدہ بنا دی ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق یہ انتباہ باضابطہ طور پر قطر کے ذریعے دیگر خلیجی ریاستوں تک پہنچایا گیا ہے۔ تہران نے ان ممالک کو باور کرایا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی زمین یا فضائی حدود امریکا کے حوالے کیں تو وہ ممکنہ حملے کے ہدف بن سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کی خلیج میں موجودگی طویل عرصے سے جاری ہے اور متعدد خلیجی ممالک میں امریکی افواج کے اہم عسکری اڈے موجود ہیں، جن میں بحرین، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن شامل ہیں۔ ان اڈوں سے امریکا نہ صرف خطے میں نگرانی اور عسکری نقل و حرکت کرتا ہے بلکہ انہیں کسی بھی ہنگامی صورت حال میں حملے کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیانات میں اگرچہ کسی واضح جنگی اقدام کا اعلان نہیں کیا، مگر ان کے لہجے اور الزامات سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوا ہے کہ امریکا ایران کے خلاف کسی مرحلے پر عسکری مداخلت کر سکتا ہے۔ دوسری جانب میڈیا ذرائع میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر نے ایران پر حملے کی اجازت دے دی ہے، تاہم اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کر رہا ہے،تاہم امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کو اپنی ہی حکومت کے اندر سے مخالفت کا سامنا ہے اور کئی سینئر مشیروں نے انہیں براہ راست جنگ میں کودنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔
ادھر عالمی جوہری ادارے نے بھی کہا ہے کہ ایران کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔
دوسری طرف ایران نے اپنا مؤقف انتہائی سخت رکھا ہے۔ ایرانی قیادت کئی مواقع پر یہ واضح کر چکی ہے کہ اگر ان کے ملک پر کسی قسم کا براہ راست حملہ کیا گیا تو اس کے نتائج نہ صرف فوری بلکہ دُور رس اور شدید ہوں گے۔
ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ایران کسی بھی تھوپی گئی جنگ کے خلاف فولاد کی دیوار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ایران کی تاریخ، تہذیب اور مزاحمت کو جانتے ہیں، وہ کبھی بھی دھمکیوں کے ذریعے اس قوم کو جھکا نہیں سکتے۔
خامنہ ای نے اپنی قوم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کا دفاع صرف عسکری طاقت پر منحصر نہیں، بلکہ اس کی بنیاد ایمانی جذبے، قومی اتحاد اور تاریخی خودداری پر قائم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ خطے میں کسی نئی جنگ کا آغاز کرنا اپنے لیے ناقابل تلافی نقصان کو دعوت دینا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران ماضی میں بھی امریکا کو جواب دے چکا ہے اور اگر اب پھر چھیڑا گیا تو ردعمل کہیں زیادہ سخت ہوگا۔
خامنہ ای کے اس بیان سے 2020ء کا واقعہ یاد آتا ہے، جب ایران نے عراق میں قائم امریکی فوجی اڈے عین الاسد کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ یہ کارروائی ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے بعد کی گئی تھی۔ ایران نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اس کا ردعمل صرف آغاز ہے اور اگر امریکا نے دوبارہ ایسی کوئی مہم جوئی کی تو وہ محدود دائرے تک نہیں رہے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اب ایک بار پھر خلیجی ریاستیں کشیدگی کے مرکز میں آ چکی ہیں۔ اگر ان ریاستوں نے امریکا کو حملے کے لیے لاجسٹک یا زمینی سہولت دی تو وہ خود بھی تنازع کا حصہ بن جائیں گی اور ایران انہیں دشمن کا معاون تصور کرے گا۔ یہ پیغام قطر کے ذریعے پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ایران باضابطہ سفارتی چینلز سے خلیجی ممالک کو خبردار کر رہا ہے تاکہ کوئی غلط فہمی باقی نہ رہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی یہ حکمت عملی ایک واضح پیغام ہے کہ وہ خطے میں صرف امریکا سے نہیں بلکہ اس کے ممکنہ علاقائی سہولت کاروں سے بھی نمٹنے کو تیار ہے۔ خلیجی ممالک کے لیے یہ صورتحال بہت نازک ہے، کیونکہ ایک طرف ان کی عسکری وابستگی امریکا سے ہے اور دوسری طرف ایران ان کا قریبی ہمسایہ ہے، جس کے ساتھ تنازع کی صورت میں انہیں اندرونی اور بیرونی دونوں نوعیت کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایران کی یہ حکمت عملی بظاہر دباؤ کی سیاست ہے، مگر اس کا مقصد واضح ہے کہ خلیجی ممالک کو غیر جانب دار رہنے پر مجبور کرنا۔ تہران چاہتا ہے کہ اگر امریکا جنگ کی جانب بڑھتا ہے تو عرب ریاستیں اس میں شریک نہ ہوں۔ اگر انہوں نے امریکا کا ساتھ دیا تو انہیں بھی جنگی کارروائیوں کے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خلیجی ممالک امریکا کو ہے کہ اگر کا سامنا انہوں نے ایران نے کہ ایران ایران کی ممالک کو کا کہنا ہے اور اگر ان
پڑھیں:
گورننگ کونسل میں ایران کیخلاف قرارداد کے 1 روز بعد ہی تہران پر حملہ محض اتفاق نہیں، ماسکو
اپنی ایک آنلائن پریس کانفرنس میں میخائل اولیانوف کا کہنا تھا کہ ایران کو پُرامن جوہری توانائی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے اور اس پر شک کرنا احمقانہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ویانا میں قائم بین الاقوامی تنظیموں میں روس کے مستقل نمائندے "میخائیل اولیانوف" نے اُن یورپی ممالک کے ایرانی جوہری پروگرام پر موقف کو بالکل غیرمنطقی قرار دیا جو JCPOA میں شامل ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یورپی ممالک کا یہ برتاو ایران پر حملے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایک آنلائن پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ E3 کہلانے والے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعات کے بارے میں موقف، سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ موقف غیرمنطقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کو پُرامن جوہری توانائی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے اور اس پر شک کرنا احمقانہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپی ممالک 2022ء سے JCPOA کی بحالی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں اور مذاکرات کے آخری مراحل میں عملاً معاہدے کے عمل کو روک دیا۔ یہ رویہ قابل جواز نہیں۔ روسی نمائندے نے IAEA کی گورننگ کونسل میں ایران کے خلاف قرارداد کی منظوری اور فوجی مہم جوئی کے درمیان تعلق کی جانب اشارہ کیا۔ اس بارے میں انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا کہ E3 کے دباؤ میں ایران کے خلاف ایک قرارداد منظور ہونے کے صرف ایک دن بعد، اسرائیل کے ایران پر حملے محض اتفاق تھے۔
اگرچہ وہ ان حملوں میں کسی طرح کی مداخلت سے انکار کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ ایسا ماحول بنا رہے ہیں جس سے ایسے حملوں کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ میخائل اولیانوف نے ان پالیسیوں کے ممکنہ نتائج کے بارے میں خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ رجحان خطے میں تناؤ کو بڑھا رہا ہے اور جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ (NPT) یا JCPOA جیسے کثیر الجہتی فریم ورکس کو کمزور کر رہا ہے۔ انہوں نے یورپی ممالک سے تعمیری اور بات چیت پر مبنی نقطہ نظر اپنانے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس امر کی یاد دہانی کروائی کہ صحیح راستہ وہی ہے جو 2015ء کے ابتدائی معاہدے میں طے کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ Joint Comprehensive Plan of Action ایران کے ساتھ ہونے والی وہ nuclear deal ہے جس میں امریکہ کے ساتھ ساتھ تین یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ معاہدہ اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ طے پایا تاہم "ڈونلڈ ٹرامپ" کے پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد، امریکہ یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔