data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران:ایران نے خطے کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر خلیجی ممالک کو تنبیہ کی ہے کہ اگر ان کی سرزمین سے امریکا نے ایران کے خلاف کوئی عسکری کارروائی کی تو انہیں بھی ممکنہ جوابی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر امریکی حملے ان ممالک کی زمینوں سے کیے گئے تو ایران اسے کھلی جارحیت اور اشتعال انگیزی تصور کرے گا، جس کا فوری اور سخت جواب دیا جائے گا۔

یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی ایک مرتبہ پھر انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حالیہ مبہم بیانات، جن میں انہوں نے ایران پر ممکنہ حملے کا اشارہ دیا، نے خطے کی فضا مزید کشیدہ بنا دی ہے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق یہ انتباہ باضابطہ طور پر قطر کے ذریعے دیگر خلیجی ریاستوں تک پہنچایا گیا ہے۔ تہران نے ان ممالک کو باور کرایا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی زمین یا فضائی حدود امریکا کے حوالے کیں تو وہ ممکنہ حملے کے ہدف بن سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا کی خلیج میں موجودگی طویل عرصے سے جاری ہے اور متعدد خلیجی ممالک میں امریکی افواج کے اہم عسکری اڈے موجود ہیں، جن میں بحرین، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن شامل ہیں۔ ان اڈوں سے امریکا نہ صرف خطے میں نگرانی اور عسکری نقل و حرکت کرتا ہے بلکہ انہیں کسی بھی ہنگامی صورت حال میں حملے کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیانات میں اگرچہ کسی واضح جنگی اقدام کا اعلان نہیں کیا، مگر ان کے لہجے اور الزامات سے یہ تاثر ضرور پیدا ہوا ہے کہ امریکا ایران کے خلاف کسی مرحلے پر عسکری مداخلت کر سکتا ہے۔  دوسری جانب میڈیا ذرائع میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر نے ایران پر حملے کی اجازت دے دی ہے، تاہم اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کر رہا ہے،تاہم امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کو اپنی ہی حکومت کے اندر سے مخالفت کا سامنا ہے اور کئی سینئر مشیروں نے انہیں براہ راست جنگ میں کودنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔

ادھر عالمی جوہری ادارے نے بھی کہا ہے کہ ایران کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔

دوسری طرف ایران نے اپنا مؤقف انتہائی سخت رکھا ہے۔ ایرانی قیادت کئی مواقع پر یہ واضح کر چکی ہے کہ اگر ان کے ملک پر کسی قسم کا براہ راست حملہ کیا گیا تو اس کے نتائج نہ صرف فوری بلکہ دُور رس اور شدید ہوں گے۔

ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ ایران کسی بھی تھوپی گئی جنگ کے خلاف فولاد کی دیوار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ایران کی تاریخ، تہذیب اور مزاحمت کو جانتے ہیں، وہ کبھی بھی دھمکیوں کے ذریعے اس قوم کو جھکا نہیں سکتے۔

خامنہ ای نے اپنی قوم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کا دفاع صرف عسکری طاقت پر منحصر نہیں، بلکہ اس کی بنیاد ایمانی جذبے، قومی اتحاد اور تاریخی خودداری پر قائم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ خطے میں کسی نئی جنگ کا آغاز کرنا اپنے لیے ناقابل تلافی نقصان کو دعوت دینا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایران ماضی میں بھی امریکا کو جواب دے چکا ہے اور اگر اب پھر چھیڑا گیا تو ردعمل کہیں زیادہ سخت ہوگا۔

خامنہ ای کے اس بیان سے 2020ء کا واقعہ یاد آتا ہے، جب ایران نے عراق میں قائم امریکی فوجی اڈے عین الاسد کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ یہ کارروائی ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے بعد کی گئی تھی۔ ایران نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اس کا ردعمل صرف آغاز ہے اور اگر امریکا نے دوبارہ ایسی کوئی مہم جوئی کی تو وہ محدود دائرے تک نہیں رہے گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اب ایک بار پھر خلیجی ریاستیں کشیدگی کے مرکز میں آ چکی ہیں۔ اگر ان ریاستوں نے امریکا کو حملے کے لیے لاجسٹک یا زمینی سہولت دی تو وہ خود بھی تنازع کا حصہ بن جائیں گی اور ایران انہیں دشمن کا معاون تصور کرے گا۔ یہ پیغام قطر کے ذریعے پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ایران باضابطہ سفارتی چینلز سے خلیجی ممالک کو خبردار کر رہا ہے تاکہ کوئی غلط فہمی باقی نہ رہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کی یہ حکمت عملی ایک واضح پیغام ہے کہ وہ خطے میں صرف امریکا سے نہیں بلکہ اس کے ممکنہ علاقائی سہولت کاروں سے بھی نمٹنے کو تیار ہے۔ خلیجی ممالک کے لیے یہ صورتحال بہت نازک ہے، کیونکہ ایک طرف ان کی عسکری وابستگی امریکا سے ہے اور دوسری طرف ایران ان کا قریبی ہمسایہ ہے، جس کے ساتھ تنازع کی صورت میں انہیں اندرونی اور بیرونی دونوں نوعیت کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ایران کی یہ حکمت عملی بظاہر دباؤ کی سیاست ہے، مگر اس کا مقصد واضح ہے کہ خلیجی ممالک کو غیر جانب دار رہنے پر مجبور کرنا۔ تہران چاہتا ہے کہ اگر امریکا جنگ کی جانب بڑھتا ہے تو عرب ریاستیں اس میں شریک نہ ہوں۔ اگر انہوں نے امریکا کا ساتھ دیا تو انہیں بھی جنگی کارروائیوں کے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: خلیجی ممالک امریکا کو ہے کہ اگر کا سامنا انہوں نے ایران نے کہ ایران ایران کی ممالک کو کا کہنا ہے اور اگر ان

پڑھیں:

ایران پر اسرائیلی حملہ اور اسکے نتائج

اسلام ٹائمز: ایران پر اسرائیلی حملے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا ایران پر حملہ کے نتیجہ میں جنگ مختصر ہوگی یا طویل؟ عرب ممالک کا کیا ردعمل ہوگا؟ پاکستان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ بڑی طاقتوں روس اور چین کا رول کیا ہوگا؟ کیا ایران فلسطین کی مانند تنہا رہ جائیگا؟ کیا ایران بھی اسرائیل کی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بنائے گا؟ ایران پر اسرائیلی حملے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ و اسرائیل ایران پر طویل جنگ مسلط کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، طویل جنگ میں اسرائیل کا نقصان زیادہ ہوگا۔ تحریر: اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ

تین ماہ قبل ہم نے اپنے مضمون بعنوان "کیا اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتاہے" میں یہ بیان کیا تھا کہ "اسرائیل امریکہ کی مدد کے بغیر تن تنہا ایران پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا، آج سے تین ماہ پہلے حالات و واقعات کسی بھی طرح امریکہ کے حق میں نہیں تھے کہ امریکہ اسرائیل کی خواہش پر ایران پر حملہ آور ہوجائے۔ تازہ ترین صورتحال میں بھی بظاہر تو یہی لگ رہا تھا کہ یہ جنگ ٹل بھی سکتی ہے۔ امریکی سفیر سٹیو کاف اور ایران کے وزیر خارجہ عباس آررچائی کی مسقط میں ملاقات طے تھی جس کا بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ ایران کو یورنیم کی افزودگی سے روکا جائے تاکہ جنگ کے خطرہ کو ٹالا جاسکے۔ امریکی و ایرانی حکام کی یہ ملاقات اس پس منظر میں ہورہی تھی جب بین الاقوامی ایٹمی ایجینسی کے حالیہ اجلاس میں یہ اعلامیہ سامنے آیا کہ ایران یورنیم کی افزودگی کو روکنے میں تعاون نہیں کر رہا۔ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی یہ کوشش سامنے آئی کہ ایران اگر یورنیم کی افزودگی کو روکنے پر آمادہ ہوجائے تو ایران پر حملہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف گزشتہ تین دنوں میں امریکی حکام کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے ایران پر امریکی حملے کے خطرات بڑھ گئے۔

امریکہ نے بحرین، کویت اور عراق کے سفارتخانوں میں تعینات غیر ضروری اسٹاف کو نکلنے کا پیغام دیتے ہوئے ان کیلئے ٹریول ایڈوائزری جاری کردی۔ مزیدبراں امریکی و برطانوی حکام نے اپنے شہریوں کیلئے الرٹ بھی جاری کردئیے۔ برطانوی میری ٹائم تجارتی اپریشنز میں شریک بحری جہازوں کو بھی آگاہ کیا گیا کہ وہ احتیاط کیساتھ سفر کریں۔ امریکہ و برطانیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کا اگر سائنسی تجزیہ کیا جائے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسرائیل امریکہ کیساتھ مل کر ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ امریکی و بین لاقوامی ذرائع ابلاغ بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو عراق پر حملے کے موقع پر دکھائی دیتا تھا۔ اسرائیلی نقطہ نظر سے اسرائیل خود کیلئے اس موقعہ پر حملہ کرنے کے وقت کو آئیڈیل سمجھتا ہے کیونکہ اسکے نزدیک ایران کے اتحادی کمزور ہو چکے ہیں۔ حماس لبنان اور شام میں ایران کی پراکسیز ختم ہوچکی ہیں جبکہ عالمی سیاست میں ایران کا سب سے بڑا حلیف روس خود یوکرائن جنگ میں الجھا ہوا ہے۔

ایران پر اسرائیلی حملے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا ایران پر حملہ کے نتیجہ میں جنگ مختصر ہوگی یا طویل؟ عرب ممالک کا کیا ردعمل ہوگا؟ پاکستان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ بڑی طاقتوں روس اور چین کا رول کیا ہوگا؟ کیا ایران فلسطین کی مانند تنہا رہ جائیگا؟ کیا ایران بھی اسرائیل کی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بنائے گا؟ ایران پر اسرائیلی حملے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ و اسرائیل ایران پر طویل جنگ مسلط کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، طویل جنگ میں اسرائیل کا نقصان زیادہ ہوگا۔ دوسری طرف ایران کو تباہ کرنا خود امریکہ کیلئے کوئی فائدہ مند نہیں کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران شیعہ کمیونٹی کی نمائندگی کرتا رہے اور اس طرح سنی و وہابی کمیونٹی کی نمائندگی کرنیوالے ملک سعودی عرب کے مقابلے میں برقرار رہے لہذا امریکہ کی بھرپور کوشش ہوگی کہ حملہ کے نتیجہ میں ایران کی موجودہ رجیم کو تبدیل کرتے ہوئے عرب ممالک کی طرح حلیف حکومت کو سامنے لایا جائے۔ ایران پر حملہ کے خلاف عرب ممالک کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ردعمل سامنے آنے کی کوئی توقع نہیں اور وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے کیونکہ تمام اہل عرب اس وقت امریکی پلڑے میں ہیں۔

پاکستان کی پوزیشن انتہائی اہم ہے اور اسی وجہ سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو واشنگٹن بلایا گیا ہے جہاں سینٹ کام کے جنرل کوریلہ نے انکی قیادت کی تعریفوں کے بڑے پل باندھے ہیں۔ اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے، ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیئے کہ ہماری خوشامد کرنے کا واحد مقصد ایران کیخلاف مدد حاصل کرنا ہے۔ ہمیں قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے دوٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے کہ ہم ایران پر حملے میں امریکہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے، ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ ایران کیخلاف امریکہ کی مدد کی صورت میں وطن عزیز میں شیعہ کمیونٹی کی جانب سے احتجاج کی نئی لہر سامنے آسکتی ہے جس کے ساتھ سنی شیعہ فسادات بھی پھوٹ سکتے ہیں جو قومی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

کمزور معیشت کی وجہ سے ہم اندرونی خلفشار کے کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قومی سوچ اور قومی یکجہتی کو پروان چڑھانے پر کام کریں۔ مندرجہ بالا صورتحال میں اسرائیلی حملے کے پیش نظر ایران کا ردعمل کیا ہوگا یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ وہ اسرائیل کی فوجی و ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور وہ ایسا کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ بلاشبہ ایران کے 1200 کلومیٹر تک مار کرنے والے قاسم سیلمانی بیلسٹک میزائیل فوری اور بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایران S.300 کے خود کار مضبوط دفاعی نظام سے بھی لیس ہے۔ ایران پر حملے کا ردعمل فوری اور شدید نوعیت کا ہوا ہے۔ جس سے نہ صرف مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا متاثر ہوسکتا ہے بلکہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔

موجودہ دور میں ایران وہ واحد آزاد ملک ہے جس نے آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے بعد سے آج تک امریکہ و اسرائیل کے آگے جھکنے سے انکار کر رکھا ہے۔ امریکہ نے عراق کی پشت پناہی کرتے ہوئے 8 سال تک ایران پر جنگ مسلط کئے رکھی تاہم ایران نے جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ گزشتہ 20 برسوں میں ایران نے چین اور روس کی مدد کیساتھ اپنی فوجی ودفاعی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر تے ہوئے خود کو بڑی جنگ کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ امریکہ و اسرائیل کی جانب سے ایران کو کمزور تصور کرنا سنگین غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ کیا امریکہ روس سے یوکرائن جنگ ہارنے اور تجارتی جنگ میں چین سے شکست کھانے کے بعد اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ایران کو زیر کر سکے؟ اس سوال کا جواب ایران پر حملے کے ردعمل میں مل چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کی خلیجی ممالک کو تنبیہ، امریکا کوحملے کیلئے سرزمین دی تو آپ بھی نشانہ بن سکتے ہیں
  • ایران پر امریکی حملے کے ناقابلِ پیش گوئی نتائج ہو سکتے ہیں: نیویارک ٹائمز
  • ایران پر ممکنہ فوجی حملے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں، سینئر امریکی حکام
  • ایران کیخلاف اسرائیل کی فوجی مدد کرنے کا سوچے بھی نہیں؛ روس نے امریکا کو خبردار کردیا
  • دنیا بھول جائے ایران کبھی سرنڈر کرے گا، امریکی فوجی کارروائی کے نتائج تباہ کن ہونگے:سپریم لیڈر خامنہ ای کا سخت انتباہ
  • ایران اسرائیل جنگ میں امریکا کی شمولیت پر چین کا سخت بیان، نتائج کیا ہوں گے؟
  • روس نے امریکا کو خبردار کر دیا
  • ایران پر اسرائیلی حملہ اور اسکے نتائج
  • اسرائیلی حملوں میں ساتھ دینے والے نتائج کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہیں: ایران نے خبردار کر دیا