ایران استقامت کی علامت اور سامراجی بیانیے کا نشانہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہمیں ایران کو مسائل کا شکار ملک نہیں بلکہ مزاحمت کا مرکز سمجھنا چاہیئے۔ امید نہ ٹرمپ سے ہے، نہ بائیڈن سے۔ امید صرف اللہ کی نصرت، عوام کی استقامت اور مزاحمتی قیادت سے ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت میں دیئے گئے بیانات نے امت مسلمہ کی مشترکہ وحدت کو سہارا دیا ہے اور یہ رویہ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ باقی مسلم ممالک کیلئے بھی قابلِ تقلید ہے۔ پاکستان کو ایران کیساتھ عوامی، سفارتی، تعلیمی اور دفاعی میدانوں میں ربط بڑھانا ہوگا، امت مسلمہ کو ایران کیخلاف سازشوں کے سامنے اتحاد، شعور اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران کی کامیابی صرف ایران کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔ تحریر: آغا زمانی
(یہ کالم ایران کی موجودہ صورتحال، اس کی سفارتکاری، عالمی مظلوموں کی حمایت، مغربی میڈیا کی جانبداری اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔) ایران، مشرق وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو صرف ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک مزاحمتی علامت اور عالمی سامراج کے خلاف امتِ مسلمہ کی تنہاء استقامت کا نام ہے۔ حالیہ عالمی حالات، اسرائیلی جارحیت، امریکہ کی پالیسیوں اور مغربی میڈیا کے بیانیے نے ایران کو ایک بار پھر عالمی تنقید اور سازشوں کے طوفان میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں بعض تجزیہ کار ایران کے مستقبل کو مایوسی کی غیر یقینی صورتحال میں دیکھ رہے ہیں اور بعض تو امید کا مرکز ایک ایسے شخص کو بنا بیٹھے ہیں، جس نے خود ایران کو بارہا عسکری، اقتصادی اور نظریاتی حملوں کا نشانہ بنایا، یعنی جارح ڈونلڈ ٹرمپ۔
1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران نے عالمی سامراج، صہیونی استعمار اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف واضح اور غیر متزلزل موقف اپنایا۔ اس موقف کی قیمت ایران نے، 8 سالہ مسلط کردہ (ایران۔عراق) جنگ، عالمی پابندیوں، سائنسدانوں کے قتل، سفارتی دباؤ، داخلی بدامنی کی سازشوں اور میڈیا وار کی صورت میں چکائی۔ لیکن اس تمام تر جارحیت کے باوجود ایران نہ جھکا، نہ بکا، نہ ٹوٹا۔ یہی وہ استقامت ہے، جو ایران کو دنیا کی مظلوم اقوام کے دلوں میں ممتاز مقام دیتی ہے۔ آج ایران پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں، وہ اس لیے نہیں کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے بلکہ اس لیے کہ ایران، غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ فلسطین، لبنان، شام، یمن اور عراق کے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے دفاعی نظام میں خود کفیل ہوچکا ہے اور عالمی معاہدوں کی پابندی کے باوجود اپنی خود مختاری پر سودا نہیں کرتا۔ ایران نے NPT (Non-Proliferation Treaty) پر دستخط کیے، IAEA کے معائنے کی اجازت دی، لیکن صہیونی ریاست اسرائیل نے نہ NPT مانا، نہ کسی معائنے کی اجازت دی، پھر بھی مغربی دنیا کی نظر میں ایران "خطرہ" ہے اور اسرائیل "شراکت دار۔"
یہ انصاف ہے یا سامراجی دوہرا معیار؟
ایران میں چند مظاہرین کی فوٹیج کو "انقلاب مخالف" بنا کر پیش کرنا اور اسرائیل میں لاکھوں کے مظاہرے کو نظرانداز کرنا مغربی صحافت کا معیار ہے۔ مغربی میڈیا ایران کے جوہری پروگرام کو خطرہ کہتا ہے، اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر چپ سادھ لیتا ہے۔ ایران کی مزاحمت کو انتہاء پسندی قرار دیتا ہے، اسرائیلی جارحیت کو دفاعی کارروائی کا نام دیتا ہے۔ فلسطینی شہداء کو دہشتگرد اور صہیونی قاتلوں کو آبادکار لکھتا ہے۔ یہ سفید فام تہذیب کی وہ میڈیائی سفاکی ہے، جو آج دنیا کی رائے عامہ کو زہر آلود کر رہی ہے۔ ایران کے بعض ناقدین موجودہ بحران سے نکلنے کی امید ڈونلڈ ٹرمپ سے جوڑتے ہیں، جو بذات خود القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچکا، جنرل قاسم سلیمانی جیسے عظیم کمانڈر کو شہید کرچکا، JCPOA معاہدے کو یکطرفہ ختم کرچکا، ایران پر سخت ترین پابندیاں لگا چکا۔ ایک ایسا شخص جو عالمی امن کی ہر کوشش کو روندتا رہا ہو، اسے "امن کی فاختہ" قرار دینا نہ صرف فکری سادگی ہے بلکہ اسلامی اصولوں اور مزاحمتی نظریئے سے انحراف بھی ہے۔
ایران نے صرف مزاحمت نہیں کی بلکہ دنیا کے بڑے طاقتور ملکوں سے باوقار تعلقات استوار کیے، چین سے 25 سالہ اسٹریٹیجک معاہدہ، روس کے ساتھ دفاعی تعاون، شنگھائی تعاون تنظیم اور BRICS میں شمولیت، بھارت، ترکی، وینزویلا، برازیل جیسے ممالک سے دو طرفہ معاہدے، جوہری معاہدے پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے موثر سفارتکاری۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ ایران سفارتی سطح پر بھی ایک عالمی مؤثر قوت ہے۔ ایران کا سیاسی نظام جمہوری و الٰہیاتی امتزاج پر مبنی ہے، جس میں منتخب صدر، پارلیمنٹ اور بلدیاتی ادارے عوامی نمائندگی کے ترجمان ہیں۔ ولایت فقیہ کی قیادت دینی و اخلاقی رہنمائی کی ضامن ہے۔ عدلیہ، نگہبان کونسل اور خبرگان کی مجلس آئینی استقامت کی مظہر ہیں۔ یہی وہ نظام ہے، جو ایران کو نہ صرف اندرونی طور پر مضبوط بناتا ہے بلکہ نظریاتی مزاحمت کی عالمی علامت بھی بناتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے حالیہ خطاب میں فرمایا، "ملت ایران نہ جنگی تسلط کو قبول کرے گی، نہ سیاسی۔ ہم نے مسلط کردہ جنگ میں استقامت دکھائی، مسلط کردہ صلح کے خلاف بھی ڈٹ کر کھڑے ہوں گے۔ ایران کی کامیابی اللہ کی نصرت سے مشروط ہے، نہ کہ کسی سیاسی کمک یا مغربی چال سے۔" ایران بلاشبہ نازک دور سے گزر رہا ہے، مگر یہ وہی ملت ہے، جس نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرکے سامراج کو للکارا۔ صدام، اسرائیل اور امریکہ کو ایک صف میں شکست دی۔ اپنی معیشت، سائنس اور عسکری خود مختاری کے لیے خود انحصاری کی راہ اپنائی۔ ایران آج بھی امتِ مسلمہ کی وہ واحد آواز ہے، جو سامراج کو للکارتی ہے۔
ہمیں ایران کو مسائل کا شکار ملک نہیں بلکہ مزاحمت کا مرکز سمجھنا چاہیئے۔ امید نہ ٹرمپ سے ہے، نہ بائیڈن سے۔ امید صرف اللہ کی نصرت، عوام کی استقامت اور مزاحمتی قیادت سے ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت میں دیئے گئے بیانات نے امت مسلمہ کی مشترکہ وحدت کو سہارا دیا ہے اور یہ رویہ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ باقی مسلم ممالک کے لیے بھی قابلِ تقلید ہے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ عوامی، سفارتی، تعلیمی اور دفاعی میدانوں میں ربط بڑھانا ہوگا، امت مسلمہ کو ایران کے خلاف سازشوں کے سامنے اتحاد، شعور اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران کی کامیابی صرف ایران کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امت مسلمہ کی کی کامیابی اور مزاحمت مزاحمت کا نہیں بلکہ ایران کی کو ایران ایران کو ایران کے کی حمایت ایران نے کے خلاف ہے اور
پڑھیں:
ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد ( میاں منیر احمد) کیا امریکا اور ایران کے درمیان ڈیل ممکن ہے؟ جسارت کے سوال کے جواب میں سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ایران امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہوسکتا ہے‘ پاکستان مسلم لیگ(ض) کے صدر رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز الحق نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک امریکا سے برابری کی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایران نے سفارتکاری سے کبھی انکار نہیں کیا،مذاکرات کے ذریعے امریکا کو مناسب حل دے سکتا ہے‘ایران نے یورپی ممالک کو منصفانہ اور متوازن جوہری تجویز پیش کی ہے‘ ایران کی لیڈر شپ کہہ چکی ہے امریکا کے ساتھ ہونے والے آئندہ مذاکرات باہمی احترام کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں جس میں کوئی ملک کم یا زیادہ اہمیت پر نہیں شامل ہوگا۔ ایرانی قوم کے بنیادی حقوق پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور نہ کسی کے دباؤ میں آئے گا‘ قومی اسمبلی کے سابق دائریکٹر جنرل طارق بھٹی نے کہا کہ آج کل دونوں کے درمیان کوئی ڈیل ہونا مشکل ہے۔ میرے خیال میں 1980 سے ان کے کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔اگر ایران لبنان میں حزب اللہ کی حمایت بند کر دے تو اسرائیل کے لیے یہ واحد خطرہ ہو سکتا ہے۔ٹرمپ اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے سعودی سمیت عرب ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔مستقبل میں کچھ بھی ہوا۔ تو دیکھتے ہیں ٹرمپ انتظامیہ اس میں کہاں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔اسرائیل کی مستقبل کی حکمت عملی پر بھی انحصار کرتا ہے کہ آیا وہ فلسطین میں خاص طور پر غزہ میں امن قائم کرنے اور بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی اجازت دیتا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو موقع مل سکتا ہے۔تو آئیے انتظار کریں اور دیکھیں۔ تجزیہ کار رضا عباس نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں باالکل بھی ایسا نظر نہیں آرہا مگر یہ کہ ایران کا ولایت فقیہ کا نظام تبدیل کردیا جائے‘ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ ایران نے یورپی ممالک کو ایک منصفانہ اور متوازن جوہری تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز ناصرف حقیقی خدشات کو دور کرے گی بلکہ فریقین کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند بھی ثابت ہوگی۔ بزنس کمیونیٹی کے ممبر اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سینئر ممبر اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ ایران نے ایرانی جوہری تنصیبات پر کی گئی غیر قانونی بمباری کے باوجود انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IAEA کے ساتھ نیا معاہدہ کیا ہے جو تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔