Islam Times:
2025-06-19@13:41:04 GMT

ایران استقامت کی علامت اور سامراجی بیانیے کا نشانہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

ایران استقامت کی علامت اور سامراجی بیانیے کا نشانہ

اسلام ٹائمز: ہمیں ایران کو مسائل کا شکار ملک نہیں بلکہ مزاحمت کا مرکز سمجھنا چاہیئے۔ امید نہ ٹرمپ سے ہے، نہ بائیڈن سے۔ امید صرف اللہ کی نصرت، عوام کی استقامت اور مزاحمتی قیادت سے ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت میں دیئے گئے بیانات نے امت مسلمہ کی مشترکہ وحدت کو سہارا دیا ہے اور یہ رویہ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ باقی مسلم ممالک کیلئے بھی قابلِ تقلید ہے۔ پاکستان کو ایران کیساتھ عوامی، سفارتی، تعلیمی اور دفاعی میدانوں میں ربط بڑھانا ہوگا، امت مسلمہ کو ایران کیخلاف سازشوں کے سامنے اتحاد، شعور اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران کی کامیابی صرف ایران کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔ تحریر: آغا زمانی

(یہ کالم ایران کی موجودہ صورتحال، اس کی سفارتکاری، عالمی مظلوموں کی حمایت، مغربی میڈیا کی جانبداری اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔) ایران، مشرق وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو صرف ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک مزاحمتی علامت اور عالمی سامراج کے خلاف امتِ مسلمہ کی تنہاء استقامت کا نام ہے۔ حالیہ عالمی حالات، اسرائیلی جارحیت، امریکہ کی پالیسیوں اور مغربی میڈیا کے بیانیے نے ایران کو ایک بار پھر عالمی تنقید اور سازشوں کے طوفان میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں بعض تجزیہ کار ایران کے مستقبل کو مایوسی کی غیر یقینی صورتحال میں دیکھ رہے ہیں اور بعض تو امید کا مرکز ایک ایسے شخص کو بنا بیٹھے ہیں، جس نے خود ایران کو بارہا عسکری، اقتصادی اور نظریاتی حملوں کا نشانہ بنایا، یعنی جارح ڈونلڈ ٹرمپ۔

1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران نے عالمی سامراج، صہیونی استعمار اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف واضح اور غیر متزلزل موقف اپنایا۔ اس موقف کی قیمت ایران نے، 8 سالہ مسلط کردہ (ایران۔عراق) جنگ، عالمی پابندیوں، سائنسدانوں کے قتل، سفارتی دباؤ، داخلی بدامنی کی سازشوں اور میڈیا وار کی صورت میں چکائی۔ لیکن اس تمام تر جارحیت کے باوجود ایران نہ جھکا، نہ بکا، نہ ٹوٹا۔ یہی وہ استقامت ہے، جو ایران کو دنیا کی مظلوم اقوام کے دلوں میں ممتاز مقام دیتی ہے۔ آج ایران پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں، وہ اس لیے نہیں کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے بلکہ اس لیے کہ ایران، غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ فلسطین، لبنان، شام، یمن اور عراق کے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے دفاعی نظام میں خود کفیل ہوچکا ہے اور عالمی معاہدوں کی پابندی کے باوجود اپنی خود مختاری پر سودا نہیں کرتا۔ ایران نے NPT (Non-Proliferation Treaty) پر دستخط کیے، IAEA کے معائنے کی اجازت دی، لیکن صہیونی ریاست اسرائیل نے نہ NPT مانا، نہ کسی معائنے کی اجازت دی، پھر بھی مغربی دنیا کی نظر میں ایران "خطرہ" ہے اور اسرائیل "شراکت دار۔"

یہ انصاف ہے یا سامراجی دوہرا معیار؟
ایران میں چند مظاہرین کی فوٹیج کو "انقلاب مخالف" بنا کر پیش کرنا اور اسرائیل میں لاکھوں کے مظاہرے کو نظرانداز کرنا مغربی صحافت کا معیار ہے۔ مغربی میڈیا ایران کے جوہری پروگرام کو خطرہ کہتا ہے، اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر چپ سادھ لیتا ہے۔ ایران کی مزاحمت کو انتہاء پسندی قرار دیتا ہے، اسرائیلی جارحیت کو دفاعی کارروائی کا نام دیتا ہے۔ فلسطینی شہداء کو دہشتگرد اور صہیونی قاتلوں کو آبادکار لکھتا ہے۔ یہ سفید فام تہذیب کی وہ میڈیائی سفاکی ہے، جو آج دنیا کی رائے عامہ کو زہر آلود کر رہی ہے۔ ایران کے بعض ناقدین موجودہ بحران سے نکلنے کی امید ڈونلڈ ٹرمپ سے جوڑتے ہیں، جو بذات خود القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچکا، جنرل قاسم سلیمانی جیسے عظیم کمانڈر کو شہید کرچکا، JCPOA معاہدے کو یکطرفہ ختم کرچکا، ایران پر سخت ترین پابندیاں لگا چکا۔ ایک ایسا شخص جو عالمی امن کی ہر کوشش کو روندتا رہا ہو، اسے "امن کی فاختہ" قرار دینا نہ صرف فکری سادگی ہے بلکہ اسلامی اصولوں اور مزاحمتی نظریئے سے انحراف بھی ہے۔

ایران نے صرف مزاحمت نہیں کی بلکہ دنیا کے بڑے طاقتور ملکوں سے باوقار تعلقات استوار کیے، چین سے 25 سالہ اسٹریٹیجک معاہدہ، روس کے ساتھ دفاعی تعاون، شنگھائی تعاون تنظیم اور BRICS میں شمولیت، بھارت، ترکی، وینزویلا، برازیل جیسے ممالک سے دو طرفہ معاہدے، جوہری معاہدے پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے موثر سفارتکاری۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ ایران سفارتی سطح پر بھی ایک عالمی مؤثر قوت ہے۔ ایران کا سیاسی نظام جمہوری و الٰہیاتی امتزاج پر مبنی ہے، جس میں منتخب صدر، پارلیمنٹ اور بلدیاتی ادارے عوامی نمائندگی کے ترجمان ہیں۔ ولایت فقیہ کی قیادت دینی و اخلاقی رہنمائی کی ضامن ہے۔ عدلیہ، نگہبان کونسل اور خبرگان کی مجلس آئینی استقامت کی مظہر ہیں۔ یہی وہ نظام ہے، جو ایران کو نہ صرف اندرونی طور پر مضبوط بناتا ہے بلکہ نظریاتی مزاحمت کی عالمی علامت بھی بناتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ‌ ای نے اپنے حالیہ خطاب میں فرمایا، "ملت ایران نہ جنگی تسلط کو قبول کرے گی، نہ سیاسی۔ ہم نے مسلط کردہ جنگ میں استقامت دکھائی، مسلط کردہ صلح کے خلاف بھی ڈٹ کر کھڑے ہوں گے۔ ایران کی کامیابی اللہ کی نصرت سے مشروط ہے، نہ کہ کسی سیاسی کمک یا مغربی چال سے۔" ایران بلاشبہ نازک دور سے گزر رہا ہے، مگر یہ وہی ملت ہے، جس نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرکے سامراج کو للکارا۔ صدام، اسرائیل اور امریکہ کو ایک صف میں شکست دی۔ اپنی معیشت، سائنس اور عسکری خود مختاری کے لیے خود انحصاری کی راہ اپنائی۔ ایران آج بھی امتِ مسلمہ کی وہ واحد آواز ہے، جو سامراج کو للکارتی ہے۔

ہمیں ایران کو مسائل کا شکار ملک نہیں بلکہ مزاحمت کا مرکز سمجھنا چاہیئے۔ امید نہ ٹرمپ سے ہے، نہ بائیڈن سے۔ امید صرف اللہ کی نصرت، عوام کی استقامت اور مزاحمتی قیادت سے ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت میں دیئے گئے بیانات نے امت مسلمہ کی مشترکہ وحدت کو سہارا دیا ہے اور یہ رویہ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ باقی مسلم ممالک کے لیے بھی قابلِ تقلید ہے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ عوامی، سفارتی، تعلیمی اور دفاعی میدانوں میں ربط بڑھانا ہوگا، امت مسلمہ کو ایران کے خلاف سازشوں کے سامنے اتحاد، شعور اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران کی کامیابی صرف ایران کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امت مسلمہ کی کی کامیابی اور مزاحمت مزاحمت کا نہیں بلکہ ایران کی کو ایران ایران کو ایران کے کی حمایت ایران نے کے خلاف ہے اور

پڑھیں:

دیسی گھی کھا کے جی

اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے دلاور فگارکی، منفرد لب و لہجہ کے شاعر تھے اور ان جیسا شاعر مشکل ہی سے پیدا ہوگا۔ اس وقت ہمیں ان کا ایک زبردست شعر یاد آرہا ہے جو انھوں نے اس زمانہ میں کہا تھا جب برصغیر کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ پنجاب میل اس دورکی سب سے تیز میل ٹرین ہوا کرتی تھی۔ شعر یوں تھا۔

کھا کے دیسی گھی اگر غالبؔ جیئے تو کیا جیے

ہم کو دیکھو جی رہے ہیں سونگھ کر سرسوں کا تیل

اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لوگوں کو سرسوں کا خالص تیل بھی میسر نہیں ہے۔ بیچارے بناسپتی گھی کھا کر جی رہے ہیں۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ جب بناسپتی گھی آیا تھا تو اس کے بارے میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ بناسپتی گھی کھانے والوں کی چوتھی نسل اندھی ہوگی۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ یہ بات صد فیصد درست تھی۔

اس کا اندازہ اس بات سے باآسانی اور بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج کے بچوں کو نظر کے چشمے لگے ہوئے ہیں۔ ان بیچاروں کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے اور ترس آتا ہے کہ یہ کم نظری کی بیماری میں مبتلا ہیں جس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جا بجا چشمے کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں اور چشمہ فروشوں کا کاروبار زوروں پر ہے اور ان کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔

چشمہ فروشی کا بزنس دوسرے کاروباروں کے مقابلے میں بے حد منافع بخش ہے۔ ہماری صحت کا دار و مدار ہماری روزمرہ کی خوراک پر ہے۔ جیولن تھرو کے پرانے عالمی ریکارڈ کو توڑ کر نیا ریکارڈ قائم کرنے والے عظیم پاکستانی ارشد ندیم اپنے مدمقابل کو شکستِ فاش دے کر عالمی شہرت کے مالک بن گئے۔ ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ اپنی خوراک میں خالص دیسی گھی استعمال کرتے ہیں۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنھیں دیسی گھی میسر ہے۔ اسی لیے تو بچوں کے مشہور شاعر اسماعیل میرٹھی نے اپنی خوبصورت نظم میں جس کا عنوان’’ ہماری گائے‘‘ ہے یہ کہا ہے کہ:

دودھ دہی اور مَٹّھا مسکا

دے نہ خدا تو کس کے بس کا

پاکستان کے عوام صرف آم، قوالی اور قورمے کی خوشبو تک ہی محدود نہیں بلکہ صبح سویرے نانی اماں کے کچن سے اٹھتی ہوئی دیسی گھی کی مہک کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ دیسی گھی کوئی عام چکنائی نہیں بلکہ یہ ہر گھرکی لذت، یادوں اور جذبات سے جڑا ہوا ایک خزانہ ہے۔

ہمارے ہاں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، بجلی آنکھ مچولی کھیلتی رہتی ہے، انٹرنیٹ کا بھی کوئی بھروسہ نہیں لیکن جو چیز نسل در نسل چلی آ رہی ہے وہ ہے دیسی گھی۔ یہ وہ واحد چیز ہے جو نانی اماں سے لے کر ان کی نیوٹرشنسٹ نواسی تک سب کو ہر دلعزیز ہے بس استعمال کا طریقہ جدا جدا ہے۔ نانی اماں گھی چمچے سے ڈالتی تھیں اور نواسی ’’ اسپرے گھی‘‘ استعمال کرتی ہے، تاہم گھی کا چراغ آج بھی جل رہا ہے۔

گھی کا رشتہ پاکستانی دسترخوان سے ایسا ہی ہے جیسے کرکٹ کا موسم بہار سے۔ اگر صبح پراٹھا گھی کے بغیر ہو تو وہ ناشتہ نہیں بلکہ خالی پلیٹ کی بے بسی لگتی ہے۔ دیسی گھروں میں گھی صرف خوراک نہیں بلکہ ایک پیغام بھی ہوتا ہے:

’’محبت سے پکایا ہے، جی بھر کے کھاؤ۔‘‘

 دیسی گھی وہ نعمتِ غیر مترقبہ ہے جس کے بغیر نہ پراٹھا مکمل ہوتا ہے اور نہ کھچڑی میں روح اترتی ہے۔ یہ وہ جادو ہے جو نہ صرف کھانے کو کھانا بناتا ہے بلکہ رشتوں میں مٹھاس بھی گھولتا ہے۔

دیسی گھی کی قیمت اب تقریباً اتنی ہو چکی ہے جتنی ایک نئے فون کی۔ پہلے لوگ گھی چمچے سے نکالتے تھے، اب قطرہ قطرہ گن کر استعمال کرتے ہیں جیسے آبِ زم زم ہو۔

مہنگائی کے اس دور میں گھی کی قیمت دیکھ کر دل کرتا ہے کہ اسے بینک لاکر میں رکھوا دیا جائے۔ ایسے حالات میں اگر کسی کے گھر میں گھی کی بڑی بوتل نظر آجائے تو لوگ رشک سے اسے کہتے ہیں۔

’’ بھائی صاحب کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں‘‘

اور دل میں جلتے ہیں جیسے بغیر گھی کے پراٹھا۔

لیکن پھر بھی جب کبھی گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہو یا مہمان کی آمد ہو تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے۔

’’ کیا گھی والے پراٹھے رکھے ہیں یا بسکُٹ سے کام چلانا پڑے گا؟‘‘

ایک وقت وہ تھا جب نانی اماں گھر میں بیٹھ کر گھی بنایا کرتی تھیں۔ اب بھلا نئی نسل کہاں اتنی محنت کرے؟ کبھی نہیں ! وہ تو ایپ سے’’ آرگینک دیسی گھی‘‘ آرڈرکرتے ہیں جو 3000 روپے فی کلو ہوتا ہے اور ذائقہ ایسا جیسے خالی پلاسٹک چبا رہے ہوں۔

 نوجوان نسل کے لیے توگھی ایک ایسا دشمن بن چکا ہے جو ان کے ’’سکس پیک‘‘ کا راستہ روکتا ہے۔ صبح سویرے جم جانے والے نوجوان جب کسی دعوت میں دیسی گھی والی پتیلی دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں۔

’’ یار! میں تو صرف بوائلڈ چکن پر ہوں۔‘‘

ایسے وقت میں دل کرتا ہے کہ ان کے منہ میں پراٹھا رکھ کر کہوں:

’’ یہ ہے وہ ذائقہ جو تم نے پروٹین بارزکے بدلے قربان کردیا ہے‘‘

نوجوان نسل کا المیہ: ’’ گھی؟ اوہ نو،کیلوریز!‘‘

آج کا نوجوان دو چیزوں سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔ تعلق ختم ہونے سے اور گھی سے حاصل ہونے والی کیلوریز سے۔ اب جم جانے والے نوجوان کہتے ہیں۔ ’’ گھی؟ میں تو ایووکاڈو آئل میں ابلے انڈے کھاتا ہوں۔‘‘ ’’ ارے بیٹا ، اگر تم نے کبھی ناشتہ میں گھی والا پراٹھا ساتھ میں دہی اور آخر میں لسی نہیں پی تو تم کیا جیئے؟‘‘ یہ نوجوان بھول گئے ہیں کہ دیسی گھی وہ چیز ہے جس پر ہماری پوری قوم کی بھوک، محبت اور مزاج کا انحصار ہے۔

کچھ نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ ایک طرف جم جا کر کیلوریز جلاتے ہیں اور دوسری طرف گھر آ کر چپکے سے گھی والا چپاتی لپک لیتے ہیں۔ پوچھو تو جواب ملتا ہے۔ ’’ امی نے زبردستی کھلا دیا ورنہ میں تو صرف اُبلی ہوئی بروکلی پر ہوں!‘‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ’’ گھی کھا کے مکرنا ہماری قومی روایت بن چکی ہے۔‘‘ شہر کے نوجوان چاہے لاکھ کیلوریزگنیں لیکن دیہات میں آج بھی ناشتہ وہی تندورکی روٹی، مکھن کی تہہ اور اوپر سے ایک چمچ دیسی گھی۔ وہاں گھی صحت کا دشمن نہیں بلکہ نظامِ ہاضمہ کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ گاؤں والے تو یہاں تک کہتے ہیں’’ گھی کھاؤ، بلڈ پریشر نیچے لاؤ!۔‘‘ اب سائنس کیا کہتی ہے وہ بعد کی بات ہے۔

دیہی علاقوں میں توگھی کا راج ابھی تک قائم و دائم ہے۔ وہاں نہ کیلوریز کا تصور ہے اور نہ دل کی بیماری کا ڈر۔ وہاں تو صبح گھی والا پراٹھا، دوپہرکو گھی والی دال اور رات کو گھی والا حلوہ کھا کر ہی زندگی گزرتی ہے، لہٰذا گھی کا اصل محافظ اب بھی وہی دیہاتی چچا ہیں جو کہتے ہیں ’’ گھی کھاؤ، صحت پاؤ، ڈاکٹر سے دور رہو۔‘‘

اگرچہ دیسی گھی کے مخالفین بڑھتے چلے جا رہے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ یہ وہ چکنائی ہے جو نسلوں کو جوڑتی ہے۔ مستقبل میں ہو سکتا ہے بازار میں ’’ زیرو فیٹ دیسی گھی، کولیسٹرول کنٹرول گھی یا اسمارٹ گھی جیسی بوتلیں آجائیں لیکن جو خوشبو چولہے سے اُٹھتی ہے وہ تب بھی وہی ہوگی۔ دیسی گھی کا مستقبل اسی وقت ختم ہوگا جب پاکستانیوں کا ذائقہ مرجائے گا اور وہ دن ابھی بہت دور ہے۔ جیسے ’’ بٹر بورڈز‘‘ کا فیشن آیا ہے کل کو ’’ گھی بورڈ‘‘ کا فیشن بھی آئے گا۔ لڑکیاں بوٹیاں گھی میں ڈبونے کی وڈیوز ڈالیں گی اورکیپشن ہوگا ’’ گھی سے زندگی۔‘‘

گھی پاکستان کا وہ ثقافتی ستون ہے جو نہ صرف کھانے بلکہ بول چال میں بھی جڑیں رکھتا ہے۔ یہ محض چکنائی نہیں بلکہ ایک ذائقہ، تعلق اور تہذیب ہے تو یاد رکھیں’’ اگر زندگی میں لذت چاہیے تو پراٹھا گھی سے اور بات نمک سے ہونی چاہیے۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • میدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح
  • امریکہ کا میدان میں آنا صیہونی حکومت کی کمزوری کی علامت ہے، سید علی خامنہ ای
  • دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
  • عالمی بحران کے مقابل یکجہتی کی پکار اور اپیل
  • ایرانی جوہری تنصیبات کو ہلا کر رکھ دینے والا اسرائیلی ’ایم پی آر 500‘ بم کتنا طاقتور ہے؟
  • ٹرمپ کا نیا اعلان: جنگ بندی نہیں بلکہ ’تنازع کا مکمل خاتمہ‘ چاہتے ہیں
  • ایران اور اسرائیل کی جنگ۔۔۔ یقین کیجئے فتح حق کی ہی ہوگی
  • دیسی گھی کھا کے جی
  • ایران پر حملوں کا مقصد مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنا ہے، اسرائیلی صدر