Daily Sub News:
2025-06-19@11:54:12 GMT

میدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

میدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح

میدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح WhatsAppFacebookTwitter 0 19 June, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان حالیہ غیر معمولی ملاقات نے عالمی مبصرین، تجزیہ کاروں اور حکومتوں کی بھرپور توجہ حاصل کی ہے۔ یہ محض دو اہم شخصیات کی ایک اعلیٰ سطحی ملاقات نہ تھی، بلکہ ایک تاریخی علامت تھی—پاکستان کو ایک پُرامن، ذمہ دار اور عسکری لحاظ سے قابل ملک کے طور پر تسلیم کرنے کی علامت، اور اس بات کی تصدیق کہ اس کی مسلح افواج دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے جنرل عاصم منیر کو دیا گیا احترام اور اعزاز پاکستان کی بڑھتی ہوئی ساکھ، اس کی اسٹریٹیجک اہمیت اور اخلاقی مقام پر ایک سفارتی مہر تھی۔

یہ ملاقات ہزار پیغامات کا وزن رکھتی تھی۔ اس کا اصل مفہوم یہ تھا کہ دنیا نے تسلیم کر لیا ہے کہ پاکستان کے معاملات میں سنجیدہ اور پیشہ ورانہ عسکری طرزِ عمل کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اس کی تقلید بھی کی جاتی ہے۔ جنرل منیر، جو پاک فوج کے نظم و ضبط، بہادری اور وقار کی علامت ہیں، دنیا کے سامنے ایک ایسے ملک کی تصویر لے کر آئے جو غصے کے بجائے فہم، جلد بازی کے بجائے تدبر، اور بے قابو انتقام کے بجائے ذمہ داری کو ترجیح دیتا ہے۔ جب بھارت نے حالیہ جارحانہ اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا، تب پاکستان نے بالکل اتنی ہی طاقت سے، بالکل مناسب وقت پر جواب دیا—نہ ایک انچ زیادہ، نہ ایک لمحہ کم۔ اس متوازن مگر مضبوط ردِعمل نے نہ صرف بھارت کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ ان حلقوں کے لیے بھی ایک پیغام تھا جو نئی دہلی کی جنگجویانہ پالیسیوں کے پسِ پردہ خاموشی سے سرگرم ہیں۔

تاریخی طور پر جنگیں اور عسکری تصادم اکثر اپنی تباہ کاریوں کے لیے یاد رکھے جاتے ہیں، مگر بہت کم مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں تحمل کو تاریخ نے سراہا ہو۔ پاکستان کا جواب، جو انتقام کے بجائے فہم اور تدبر پر مبنی تھا، جدید تاریخ کے ان نادر لمحات میں شامل ہوگا جب ایک قوم، تباہی پھیلانے کی مکمل صلاحیت رکھنے کے باوجود، عقل مندی اور محدود کارروائی کا راستہ چنتی ہے۔ یہ بذاتِ خود ایک اخلاقی اور عسکری فتح تھی۔

 اور جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ آلِ عمران (3:26) میں فرمایا گیا ہے:

کہو، اے اللہ! بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی عطا کرے، اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے، اور جسے چاہے عزت دے، اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کو اس عالمی مقام پر جو عزت و توقیر ملی، وہ دراصل اسی الٰہی اصول کی عملی تصویر تھی—عزت انہی کو ملتی ہے جو عزت کے اہل ہوں، اور غرور کرنے والے ذلیل کیے جاتے ہیں۔

اس ملاقات کی گونج مشرقی سرحد پار سب سے زیادہ محسوس کی گئی۔ بھارتی سیاسی اور میڈیا حلقے ایک بے یقینی کی خاموشی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو طویل عرصے سے خطے میں بالادستی اور عسکری غلبے کے خواب دیکھتا رہا، اس کے لیے ایک پاکستانی جنرل کو عالمی سطح پر—خصوصاً صدر ٹرمپ جیسے مغربی سیاسی اثر و رسوخ کی علامت سے—عزت و احترام حاصل کرتے دیکھنا ناقابلِ برداشت امر بن گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی وہ حکمتِ عملی، جو پاکستان دشمنی کے بیانیے پر کھڑی تھی، اب دھیرے دھیرے بکھرنے لگی ہے۔ بھارت کی نام نہاد علاقائی برتری کا افسانہ، جنگ سے نہیں بلکہ سفارت کاری، عالمی قبولیت اور سچائی کے ذریعے بے نقاب ہو گیا ہے۔

یہ ملاقات عالمی طاقت کے بدلتے ہوئے رجحانات کی علامت بھی ہے۔ جنرل منیر کا یہ سفارتی قدم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پاکستان نے حال ہی میں چینی دفاعی ساز و سامان کے کامیاب استعمال کا مظاہرہ کیا۔ دنیا کے عسکری تجزیہ کار اس پیش رفت کو بغور دیکھ رہے ہیں۔ سفارت کاری میں جذبات نہیں بلکہ مفادات غالب ہوتے ہیں۔ چین کی دفاعی ٹیکنالوجی کو پاکستان نے جس مہارت سے استعمال کیا، اس نے مشرق و مغرب دونوں کے لیے نئی سوچ کے دروازے کھول دیے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جنرل منیر سے ملاقات کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے—ایک نئی اسٹریٹجک صف بندی، روابط کی بحالی، اور اس اعتراف کے طور پر کہ خطے کا مستقبل پاکستان کو نظر انداز کر کے نہیں بلکہ اس کے ساتھ مل کر طے کیا جا سکتا ہے۔

جنوبی ایشیا سے آگے بڑھ کر، اس ملاقات نے عالمی سطح پر امید کی نئی لہریں پیدا کی ہیں۔ جنرل منیر محض ایک قومی عسکری رہنما نہیں بلکہ اب انہیں ایک ایسے مدبر سیاستدان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کا اثر و رسوخ پاکستان کی حدود سے کہیں آگے ہے۔ سفارتی حلقوں میں یہ بات اب سرگوشیوں میں کہی جا رہی ہے کہ ان کا متوازن رویہ اور تدبر ایران و اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر—جسے طویل عرصے تک یا تو نظرانداز کیا گیا یا محض دو طرفہ مسئلہ سمجھا گیا—اب ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ جب پاکستان کی حیثیت ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھر رہی ہے، تو اس مسئلے پر سنجیدہ عالمی ثالثی کا امکان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

دوسری طرف بھارتی میڈیا، جو عموماً شور، غرور اور بڑھکوں سے بھرا ہوتا ہے، اب الجھن، دفاعی رویے اور تضادات کا شکار ہے۔ دہائیوں سے بنایا گیا بیانیہ پاکستان کی خاموش، پُرعزم اور حکمت پر مبنی سفارت کاری کے سامنے بکھر گیا ہے۔

دنیا نے اس لمحے میں، جب صدر ٹرمپ اور جنرل سید عاصم منیر کی ملاقات ہوئی، صرف ایک مصافحہ نہیں دیکھا—بلکہ ایک تبدیلی دیکھی۔ ایک ایسی تبدیلی جو تاثرات، تعلقات اور جنوبی ایشیا کی سیاست کے بیانیے کو نئی شکل دے گئی۔ یہ ایک غیر اعلانیہ مگر پُراثر اعلان تھا کہ پاکستان، جو کبھی علاقائی کشیدگی اور عالمی بداعتمادی کی آنکھ سے دیکھا جاتا تھا، اب ایک قابلِ اعتماد، سنجیدہ اور ناقابلِ نظرانداز عالمی کردار بن چکا ہے۔

یہ ملاقات صرف اپنی علامتی اہمیت کے لیے یاد نہیں رکھی جائے گی، بلکہ ان امکانات کے لیے بھی جو اس نے پیدا کیے—خطے میں امن، متوازن سفارت کاری، اور سچائی کی فتح کے امکانات۔ اس نے مستقبل کی ایک جھلک دکھائی، جہاں پاکستان کی آواز صرف سنی نہیں جاتی، بلکہ عزت کے ساتھ سنی جاتی ہے۔ اور اس باوقار ابھار میں، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی میراث محض عسکری تاریخ میں نہیں، بلکہ عالمی سفارت کاری اور امن کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے رقم ہو چکی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تاریخ اور تلخیاں دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے مسلم دنیا پر مربوط جارحیت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: سفارت کاری پاکستان کی

پڑھیں:

ایران استقامت کی علامت اور سامراجی بیانیے کا نشانہ

اسلام ٹائمز: ہمیں ایران کو مسائل کا شکار ملک نہیں بلکہ مزاحمت کا مرکز سمجھنا چاہیئے۔ امید نہ ٹرمپ سے ہے، نہ بائیڈن سے۔ امید صرف اللہ کی نصرت، عوام کی استقامت اور مزاحمتی قیادت سے ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت میں دیئے گئے بیانات نے امت مسلمہ کی مشترکہ وحدت کو سہارا دیا ہے اور یہ رویہ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ باقی مسلم ممالک کیلئے بھی قابلِ تقلید ہے۔ پاکستان کو ایران کیساتھ عوامی، سفارتی، تعلیمی اور دفاعی میدانوں میں ربط بڑھانا ہوگا، امت مسلمہ کو ایران کیخلاف سازشوں کے سامنے اتحاد، شعور اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران کی کامیابی صرف ایران کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔ تحریر: آغا زمانی

(یہ کالم ایران کی موجودہ صورتحال، اس کی سفارتکاری، عالمی مظلوموں کی حمایت، مغربی میڈیا کی جانبداری اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔) ایران، مشرق وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو صرف ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ ایک نظریہ، ایک مزاحمتی علامت اور عالمی سامراج کے خلاف امتِ مسلمہ کی تنہاء استقامت کا نام ہے۔ حالیہ عالمی حالات، اسرائیلی جارحیت، امریکہ کی پالیسیوں اور مغربی میڈیا کے بیانیے نے ایران کو ایک بار پھر عالمی تنقید اور سازشوں کے طوفان میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایسے میں بعض تجزیہ کار ایران کے مستقبل کو مایوسی کی غیر یقینی صورتحال میں دیکھ رہے ہیں اور بعض تو امید کا مرکز ایک ایسے شخص کو بنا بیٹھے ہیں، جس نے خود ایران کو بارہا عسکری، اقتصادی اور نظریاتی حملوں کا نشانہ بنایا، یعنی جارح ڈونلڈ ٹرمپ۔

1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران نے عالمی سامراج، صہیونی استعمار اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف واضح اور غیر متزلزل موقف اپنایا۔ اس موقف کی قیمت ایران نے، 8 سالہ مسلط کردہ (ایران۔عراق) جنگ، عالمی پابندیوں، سائنسدانوں کے قتل، سفارتی دباؤ، داخلی بدامنی کی سازشوں اور میڈیا وار کی صورت میں چکائی۔ لیکن اس تمام تر جارحیت کے باوجود ایران نہ جھکا، نہ بکا، نہ ٹوٹا۔ یہی وہ استقامت ہے، جو ایران کو دنیا کی مظلوم اقوام کے دلوں میں ممتاز مقام دیتی ہے۔ آج ایران پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں، وہ اس لیے نہیں کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے بلکہ اس لیے کہ ایران، غاصب اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ فلسطین، لبنان، شام، یمن اور عراق کے مظلوموں کی حمایت کرتا ہے۔ اپنے دفاعی نظام میں خود کفیل ہوچکا ہے اور عالمی معاہدوں کی پابندی کے باوجود اپنی خود مختاری پر سودا نہیں کرتا۔ ایران نے NPT (Non-Proliferation Treaty) پر دستخط کیے، IAEA کے معائنے کی اجازت دی، لیکن صہیونی ریاست اسرائیل نے نہ NPT مانا، نہ کسی معائنے کی اجازت دی، پھر بھی مغربی دنیا کی نظر میں ایران "خطرہ" ہے اور اسرائیل "شراکت دار۔"

یہ انصاف ہے یا سامراجی دوہرا معیار؟
ایران میں چند مظاہرین کی فوٹیج کو "انقلاب مخالف" بنا کر پیش کرنا اور اسرائیل میں لاکھوں کے مظاہرے کو نظرانداز کرنا مغربی صحافت کا معیار ہے۔ مغربی میڈیا ایران کے جوہری پروگرام کو خطرہ کہتا ہے، اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں پر چپ سادھ لیتا ہے۔ ایران کی مزاحمت کو انتہاء پسندی قرار دیتا ہے، اسرائیلی جارحیت کو دفاعی کارروائی کا نام دیتا ہے۔ فلسطینی شہداء کو دہشتگرد اور صہیونی قاتلوں کو آبادکار لکھتا ہے۔ یہ سفید فام تہذیب کی وہ میڈیائی سفاکی ہے، جو آج دنیا کی رائے عامہ کو زہر آلود کر رہی ہے۔ ایران کے بعض ناقدین موجودہ بحران سے نکلنے کی امید ڈونلڈ ٹرمپ سے جوڑتے ہیں، جو بذات خود القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرچکا، جنرل قاسم سلیمانی جیسے عظیم کمانڈر کو شہید کرچکا، JCPOA معاہدے کو یکطرفہ ختم کرچکا، ایران پر سخت ترین پابندیاں لگا چکا۔ ایک ایسا شخص جو عالمی امن کی ہر کوشش کو روندتا رہا ہو، اسے "امن کی فاختہ" قرار دینا نہ صرف فکری سادگی ہے بلکہ اسلامی اصولوں اور مزاحمتی نظریئے سے انحراف بھی ہے۔

ایران نے صرف مزاحمت نہیں کی بلکہ دنیا کے بڑے طاقتور ملکوں سے باوقار تعلقات استوار کیے، چین سے 25 سالہ اسٹریٹیجک معاہدہ، روس کے ساتھ دفاعی تعاون، شنگھائی تعاون تنظیم اور BRICS میں شمولیت، بھارت، ترکی، وینزویلا، برازیل جیسے ممالک سے دو طرفہ معاہدے، جوہری معاہدے پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ سے موثر سفارتکاری۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ ایران سفارتی سطح پر بھی ایک عالمی مؤثر قوت ہے۔ ایران کا سیاسی نظام جمہوری و الٰہیاتی امتزاج پر مبنی ہے، جس میں منتخب صدر، پارلیمنٹ اور بلدیاتی ادارے عوامی نمائندگی کے ترجمان ہیں۔ ولایت فقیہ کی قیادت دینی و اخلاقی رہنمائی کی ضامن ہے۔ عدلیہ، نگہبان کونسل اور خبرگان کی مجلس آئینی استقامت کی مظہر ہیں۔ یہی وہ نظام ہے، جو ایران کو نہ صرف اندرونی طور پر مضبوط بناتا ہے بلکہ نظریاتی مزاحمت کی عالمی علامت بھی بناتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ‌ ای نے اپنے حالیہ خطاب میں فرمایا، "ملت ایران نہ جنگی تسلط کو قبول کرے گی، نہ سیاسی۔ ہم نے مسلط کردہ جنگ میں استقامت دکھائی، مسلط کردہ صلح کے خلاف بھی ڈٹ کر کھڑے ہوں گے۔ ایران کی کامیابی اللہ کی نصرت سے مشروط ہے، نہ کہ کسی سیاسی کمک یا مغربی چال سے۔" ایران بلاشبہ نازک دور سے گزر رہا ہے، مگر یہ وہی ملت ہے، جس نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرکے سامراج کو للکارا۔ صدام، اسرائیل اور امریکہ کو ایک صف میں شکست دی۔ اپنی معیشت، سائنس اور عسکری خود مختاری کے لیے خود انحصاری کی راہ اپنائی۔ ایران آج بھی امتِ مسلمہ کی وہ واحد آواز ہے، جو سامراج کو للکارتی ہے۔

ہمیں ایران کو مسائل کا شکار ملک نہیں بلکہ مزاحمت کا مرکز سمجھنا چاہیئے۔ امید نہ ٹرمپ سے ہے، نہ بائیڈن سے۔ امید صرف اللہ کی نصرت، عوام کی استقامت اور مزاحمتی قیادت سے ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت میں دیئے گئے بیانات نے امت مسلمہ کی مشترکہ وحدت کو سہارا دیا ہے اور یہ رویہ نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ باقی مسلم ممالک کے لیے بھی قابلِ تقلید ہے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ عوامی، سفارتی، تعلیمی اور دفاعی میدانوں میں ربط بڑھانا ہوگا، امت مسلمہ کو ایران کے خلاف سازشوں کے سامنے اتحاد، شعور اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران کی کامیابی صرف ایران کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عاصم منیر–ٹرمپ ملاقات، پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری، بھارت حیران ، ایران کا ساتھ دے گا پاکستان؟
  • ایران استقامت کی علامت اور سامراجی بیانیے کا نشانہ
  • پاکستان پر عالمی اعتماد بحال؛ ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں ریکارڈ اضافہ
  • فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے ملاقات ایک اعزازہے، صدر ٹرمپ
  • آرمی چیف کا دورہ امریکا، صدر ٹرمپ اورفیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی آج ملاقات ہوگی
  • فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی آج امریکی صدرٹرمپ سے ظہرانے پر اہم ملاقات  ہوگی
  • امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ملاقات آج ہوگی، وائٹ ہاؤس
  • فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکہ،اوورسیز پاکستانیوں کاپرتپاک استقبال
  • اوورسیز پاکستانی ہمارا فخر ہیں، ترسیلات و سرمایہ کاری سے پاکستان کا وقار بلند کیا، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر