نیو ورلڈ آرڈر،کمزور ممالک کا وجود خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
امریکی صدر ٹرمپ نے ایران سے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کردیا ہے، انھوں نے ایرانی شہریوں کو تہران خالی کرنے کا انتباہ بھی کیا ہے۔ ادھر ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے پر بڑے حملے کیے، ایران نے اسرائیل کے متنازعہ دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب میں بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے حملے کیے۔
صدر ٹرمپ کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور خطے میں ایک بڑی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ سپر پاور امریکا نے اسرائیل کے ذریعے ایران کے خلاف جارحیت کرا کر عالمی قوانین کی پامالی کی ہے، اسرائیل اور امریکا دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لے آئے ہیں، حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا تھا، جس کے منشورکے مطابق معاشی اور اقتصادی طور پرکمزور چھوٹے ملکوں کو بڑے ملکوں کی جارحیت سے بچانا تھا۔
امریکا نے جوہری مذاکرات کو اسرائیل کے ذریعے سبوتاژکرایا ہے اور اب امریکی صدر جنگ میں براہ راست شامل ہونے کی خواہش کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں، جب کہ ایران کو اقوام متحدہ کے آرٹیکل 51کے تحت دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان ’’ تباہ کن جنگ‘‘ پناہ گزینوں کا بحران پیدا کرسکتی ہے۔ اسرائیل نے کوئی پہلی دفعہ یہ جنگی جرم نہیں کیا ہے بلکہ اپنے متنازعہ قیام سے لے کر آج تک مسلسل کرتا چلا آرہا ہے۔
اسرائیل نے اب تک اقوام متحدہ کی 69 قراردادوں کی کوئی پرواہ نہیں کی ہے۔ اسرائیل نے جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے غزہ میں اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔ اسکول اورکالجوں پر میزائل داغے ہیں۔ اب ایران میں بھی جارحیت کی نئی مثال قائم کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ ’’ رچرڈ گولڈ اسٹون‘‘ نے چشم دید واقعات، شواہد، معلومات اور عینی شاہدین کے انٹرویوزکی روشنی میں جو نتائج نکالے گئے، وہ یہ تھے اسرائیل جنگی جرائم میں پوری طرح ملوث ہے۔
اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد جنیوا میں ’’ انسانی حقوق کونسل‘‘ کے رکن ممالک کا خصوصی اجلاس ہوا۔ 25 ملکوں نے گولڈ اسٹون رپورٹ کی توثیق کی، لیکن اس کے بعد کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ اس کی پشت پر ’’ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ پر عمل پیرا وہ طاقت ہے جو دنیا بھر سے دہشت گردی ختم کرنے کی بظاہر دعویدار ہے مگر درحقیقت وہ دہشت گردوں کی سرپرست ہے، امریکا انسانی حقوق کا قاتل ہے۔
مشرق وسطی کی صورتحال سے متعلق ایک کانفرنس میں بات چیت کرتے ہوئے سابق امریکی جنرل مارک ملی نے کہا تھا کہ تاریخ میں امریکا اور اسرائیل نے زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے۔مارک ملی نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ صرف عراق میں 10 لاکھ افراد مارے گئے ۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازعہ، ایران اور امریکا کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی، شام اور یمن میں خانہ جنگی جیسے مسائل کسی بھی وقت ایک بڑے جنگی معرکے کو جنم دے سکتے ہیں، اگر یہ علاقائی جنگیں بڑی طاقتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں، تو ایک عالمی جنگ کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ چین، تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے، جب کہ امریکا، تائیوان کی آزادی کی حمایت کر رہا ہے، اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا اور امریکا نے مداخلت کی، تو یہ ایک بڑی جنگ کو جنم دے سکتا ہے جو دیگر طاقتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
آج کے دور میں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، اگر کسی بھی طاقت نے جوہری حملہ کیا، تو اس کے ردعمل میں دیگر ممالک بھی جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں، جس سے دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی، اگرچہ عالمی طاقتیں سفارتی سطح پر کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں، لیکن دنیا میں موجودہ حالات کے پیش نظر تیسری جنگ عظیم کے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اگر نیٹو یا دیگر بین الاقوامی اتحاد کمزور ہو جاتے ہیں، تو اس سے چھوٹے ممالک کا اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے، جو ایک بڑے تنازعے کو جنم دے سکتا ہے۔
اسی طرح اگر عالمی سطح پر معاشی بحران شدت اختیار کرتا ہے، تو مختلف ممالک جنگ کے ذریعے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جیسے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہوا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں اندازاً 7 کروڑ لوگ مارے گئے تھے، جب کہ آج کے جدید ہتھیاروں کے ساتھ جنگ ہوئی تو اس کا نقصان کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔
جنگ کے نتیجے میں عالمی تجارتی نظام درہم برہم ہو جائے گا، مہنگائی آسمان کو چھونے لگے گی اور خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ جنگ میں جوہری ہتھیار استعمال ہوئے، تو دنیا کا بڑا حصہ ناقابلِ رہائش ہو سکتا ہے اور لاکھوں لوگ فوری طور پر ہلاک ہو جائیں گے۔ جنگ میں استعمال ہونے والے بم، کیمیکل ہتھیار اور ایٹمی حملے زمین کی فضا کو آلودہ کر سکتے ہیں، جس سے موسمیاتی تبدیلیوں میں تیزی آ سکتی ہے اور زمین پر زندگی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ایران کو نہ صرف بیرونی دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ خود اسلامی دنیا میں بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایران کے اندرونی معاملات، سیاسی تناؤ اور عوامی احتجاج کی خبریں مغربی میڈیا میں اچھالی جاتی ہیں۔ اس کے نیوکلیئر پروگرام پر مسلسل قدغنیں لگائی جاتی ہیں، مگر ان سب کے باوجود ایران نے اسرائیل کے مقابل نہ صرف دلیری دکھائی بلکہ ایک بڑی حقیقت بھی واضح کی۔ اسرائیل کے پاس گنتی کے چند شہر ہیں جب کہ ایران اس سے کئی گنا زیادہ رقبہ رکھتا ہے اور یہی اسے تزویراتی برتری عطا کرتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ایران کے اپنے عوام، سیاسی دھڑوں اور مغربی لابیوں کی موجودگی نے ہمیشہ اس کی پالیسیوں کو کمزورکرنے کی کوشش کی۔ خود ایرانی عوام کی بڑی تعداد ایران کی خارجہ پالیسیوں سے متفق نہیں ہوتی اور کئی مرتبہ اندرونی خلفشار کے باعث ریاست کو دباؤ کا سامنا رہا، لیکن ایک بات طے ہے کہ ایران میں وہ قوت اور مزاحمت اب بھی زندہ ہے جو صرف زندہ قوموں کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ عالمی سیاست میں طاقتور ممالک کی جانب سے کمزور اقوام کے خلاف جارحیت اور پراکسی جنگوں کا سلسلہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ حکمت عملی نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی پامالی کی ہے بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ ان ممالک کی جانب سے جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائیوں نے خطے میں عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری تنصیبات پر حملے اور امریکا کی سیاسی اور فوجی حمایت نے ایران کے جوہری پروگرام کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایران نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مزید تیزی دکھائی ہے، جس سے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز ہو چکا ہے۔
درحقیقت بین الاقوامی قوانین کی پامالی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں کی جانے والی کارروائیاں اور امریکا کی خاموش حمایت نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس میں اسرائیل کے اقدامات کو جنگی جرائم قرار دیا گیا ہے، لیکن عملی طور پر ان ممالک کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی، حالانکہ عالمی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے تھے۔
امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اسرائیل نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں، جس سے عالمی سطح پر جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کے تحت کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ امریکا کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں اور سیاسی دباؤ نے مذاکراتی عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ان تمام مسائل کے پیش نظر عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مؤثر اقدامات کرے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کے خلاف کارروائی کریں جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، عالمی سطح پر جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کی پاسداری کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ عالمی امن کو برقرار رکھا جا سکے، اگر امریکا اور اسرائیل اسی طرح جنگی جرائم میں ملوث رہے تو عالمی امن تباہ ہو جائے گا۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کے خلاف مؤثر اقدامات کرے تاکہ عالمی امن کو برقرار رکھا جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکا اور اسرائیل جوہری ہتھیار بین الاقوامی کرنے کی کوشش عالمی سطح پر اقوام متحدہ اسرائیل نے اسرائیل کے اور امریکا اسرائیل کی جنگی جرائم کی جانب سے ہو سکتا ہے قوانین کی کے درمیان عالمی امن کہ عالمی نے ایران ان ممالک سکتے ہیں کہ ایران ایران کے نہیں کی کے خلاف جب کہ ا جنگ کے کو جنم دیا ہے ہے اور کیا ہے
پڑھیں:
جنگی جرائم پر اسرائیل کو کوئی رعایت نہں دی جائے؛ قطراجلاس میں مسلم ممالک کا مطالبہ
قطر میں ہونے والے عرب اسلامی ممالک کے سربراہ اجلاس میں اسرائیلی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی اور گریٹر اسرائیل کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق قطر میں اسلامی ممالک کے سربراہان کے اجلاس کے افتتاحی خطاب میں امیر قطر نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
انھوں نے اسرائیلی جارحیت کی کھلے الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے گریٹر اسرائیل ایجنڈے کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔
اسرائیل کو نسل کشی اور جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے؛ عرب لیگ
سیکریٹری جنرل عرب لیگ احمد ابوالغیط نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اس وقت خطے کو بہت چیلینجز درپیش ہیں جس سے عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
انھوں نے عالمی برادری سے جنگی جرائم کے ارتکاب پر اسرائیل کی جوابدہی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی کی مرتکب ہورہی ہے۔
احمد ابو الغیظ نے مزید کہا کہ اسرائیلی جارحیت نے خطے میں صورتحال کو گمبھیرکردیا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آواز بلند کریں۔
اسرائیل کے توسیع پسندانہ عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکے ہیں؛ ترکیہ
ترک صدر طیب اردوان نے کہا کہ آنے والی نسلوں کو محفوظ مستقبل دینے کے لیے ہم سب یہاں جمع ہیں جس کے لیے ہمیں باہمی تعاون کو بڑھانا ہوگا۔
صدر اردوان نے اسرائیل کے دوحہ حملے پر قطرکے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہارکرتے ہوئے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ اسرائیل کے یہ عزائم مشرق وسطیٰ اورعالمی امن کیلئے شدید خطرہ ہیں، اسرائیل کی یہ غلط فہمی دور کرنا ہوگی کہ اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
انھوںے مزید کہا کہ اسرائیل کی کھلی جارحیت، سفاکانہ دہشت گردی اور جنگی جرائم پر نیتن یاہو کی حکومت کو کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔
صدر طیب اردوان نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ اور غاصبانہ پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کی جا رہی ہے۔
ترک صدر نے اتحاد نین المسلمین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مسلم ممالک اپنی صفوں میں اتحاد کو مضبوط کریں۔
اسرائیلی جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی معنی خیز ہے؛ عراق
اس بات کی تائید کرتے ہوئے عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیلی دہشت گردی سے خطے میں نئے خطرات نے جنم لیا اور پرانے مسائل مزید سنگین ہوگئے۔
عراقی وزیر اعظم اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پرعالمی برادری کی معنی خیز خاموش پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری کو اب یہ دہرا معیارترک کرنا ہوگا۔
عراقی وزیراعظم غزہ میں بھوک، تباہ حال انفرا اسٹرکچر اور زندگی کی شدید مشکلات کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے ایسے مظالم اور تکلیف دہ مناظر شاید ہی پہلے کبھی دیکھے ہوں۔
اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی پر اسرائیل سے بازپرس کی جائے؛ مصر
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی صورت اسرائیل کے جارحانہ اقدامات پر خاموش نہیں رہ سکتے۔
عبدالفتاح السیسی نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے انسانی حقوق اور اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں۔
انھوں نے بھی عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہوگا اور بتانا ہوگا کہ جارحیت کسی صورت قابل قبول نہیں۔ چاہے ہو کوئی بھی کرے۔
مصری صدر نے غزہ میں قحط اور بنیادی سہولیات کی کمی پر کہا کہ فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے اور افسوس اس پر کوئی اسرائیل کو جوابدہ نہیں ٹھہراتا، اس کے خلاف اقدامات نہیں اُٹھاتا۔ اسرائیل کو استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ جبر اور تشدد کے ذریعے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل دانستہ طور پر خطے کا امن تباہ کرنے سے باز رہے۔
1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کا قیام ہی امن کا راستہ ہے، فلسطین اتھارٹی
فلسطین کے صدرمحمود عباس نے بھی کہا کہ اسرائیل جنگی جرائم کی تمام حدیں پارکرچکا ہے اور اس جارحیت کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
محمود عباس نے فلسطینی نسل کشی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 1967کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام ہی امن کا راستہ ہے۔