data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا اس وقت آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا میں داخل ہو چکی ہے، جہاں انسانوں کے فیصلے، گفتگو اور حتیٰ کہ حکومتیں بھی اب ڈیجیٹل دماغوں کے رحم و کرم پر ہیں۔

جدید ٹیکنالوجی کے اس انقلابی دور میں ایک حیران کن تجربہ منظر عام پر آیا ہے جہاں دنیا کی پہلی مکمل طور پر اے آئی پر مبنی حکومت قائم کی گئی ہے۔ یہ حکومت کسی خواب یا سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں بلکہ ایک حقیقی جزیرے پر وجود میں آ چکی ہے، جس کا نام ہے ’’سنسے آئی لینڈ‘‘۔

فلپائن کے قریب واقع اس چھوٹے مگر ٹیکنالوجی سے بھرپور جزیرے کو سنسے (Sensei) نامی کمپنی نے خرید کر ایک ایسا منصوبہ شروع کیا ہے جس نے دنیا بھر کے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ جزیرہ جو پہلے Cheron Island کہلاتا تھا، اب اسے باضابطہ طور پر ’’سنسے آئی لینڈ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ سنسے ایک ایسی کمپنی ہے جو تاریخی شخصیات کی ڈیجیٹل نقول بنانے میں مہارت رکھتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حقیقی انسانی شخصیات کی سوچ، فیصلوں اور اصولوں کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔

اس وقت جزیرے کی حکومت میں 17 تاریخی شخصیات شامل ہیں، جنہیں اے آئی ماڈلز کے طور پر تیار کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخصیت کسی نہ کسی اہم حکومتی عہدے پر فائز ہے۔ مثال کے طور پر روم کے عظیم فلسفی بادشاہ مارکوس اوریلیوس کو ریاست کا صدر منتخب کیا گیا ہے جب کہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ونسٹن چرچل وزیراعظم کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ قدیم چین کے عظیم فوجی رہنما سن زو کو وزیر دفاع کا کردار دیا گیا ہے اور جنوبی افریقی لیڈر نیلسن منڈیلا وزیر انصاف کے طور پر ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

کمپنی کے مطابق ان تمام ڈیجیٹل شخصیات کو ان کی اصل زندگی، فکر و فلسفہ، تقاریر، تحریریں اور تاریخی پس منظر کی بنیاد پر تربیت دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ان کے ہزاروں صفحات پر مشتمل خطبات، خطوط اور سوانح عمری کا ڈیٹا استعمال کیا گیا، تاکہ ان کی سوچ کا عکس ڈیجیٹل طور پر پیش کیا جا سکے۔ یوں ایک مکمل کابینہ تیار کی گئی ہے جو انسانی سیاست دانوں کی طرح فیصلے کرتی ہے، مگر بغیر کسی سیاسی مفاد، ذاتی تعصب یا جذباتی دباؤ کے۔

سنسے کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی قیادت کے لیے کس قدر مفید اور مؤثر ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول ایسی حکومت جو جذبات اور مفادات سے پاک ہو، زیادہ شفاف، جلد فیصلہ کن اور عملی ثابت ہو سکتی ہے۔ نہ وہاں بیوروکریسی کی تاخیر ہے، نہ پارلیمانی جوڑ توڑ، نہ ہی کوئی ووٹ بینک۔ صرف ڈیٹا، منطق اور اخلاقیات کی بنیاد پر پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔

جزیرے کا رقبہ 3.

4 کلومیٹر پر مشتمل ہے، جہاں برساتی جنگلات، ساحلی پٹی اور فطری خوبصورتی موجود ہے۔ اگرچہ وہاں کوئی مستقل انسانی آبادی یا ترقی یافتہ انفرااسٹرکچر نظر نہیں آتا، مگر گوگل میپس پر اس کا مقام دیکھا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جزیرے کی ٹورازم مینیجر بھی ایک اے آئی شخصیت ہے، جس کا نام Marisol Reyes رکھا گیا ہے۔

اگر کوئی اس منصوبے سے متعلق جاننا چاہے تو وہ سنسے آئی لینڈ کی ویب سائٹ پر اس ’’ڈیجیٹل مینیجر‘‘سے بات کر سکتا ہے۔

فی الوقت وہاں سیاحت کی اجازت دی جا رہی ہے، یعنی آپ اس انوکھے اے آئی ملک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ وہاں سفر نہ کر سکیں، تو بھی سنسے آئی لینڈ نے ’’ای ریزیڈنسی‘‘کا تصور متعارف کرایا ہے، جس کے تحت کوئی بھی فرد خود کو ڈیجیٹل شہری کے طور پر رجسٹر کرا سکتا ہے۔ اس حیثیت میں صارفین حکومت کو نئی پالیسیاں تجویز کر سکتے ہیں، ان پر رائے دے سکتے ہیں اور ڈیجیٹل دنیا کا ایک حصہ بن سکتے ہیں۔

سنسے کے بانی اور چیف ایگزیکٹو ڈین تھامسن کے مطابق یہ منصوبہ صرف مصنوعی ذہانت کو نئی سمت میں لے جانے کی کوشش نہیں بلکہ انسانی سماج کی اگلی نسل کی تیاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ایسے وقت میں داخل ہو رہے ہیں جہاں سیاست، قانون سازی اور حکمرانی کے روایتی ماڈلز تیزی سے غیر مؤثر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اے آئی جیسے ٹیکنالوجی پر مبنی ماڈلز ہی مستقبل کے بہتر، شفاف اور مؤثر نظام کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

یقیناً یہ منصوبہ کئی سوالات بھی جنم دیتا ہے۔ کیا اے آئی حکومت انسانی حساسیت، جذبات اور زمینی حقائق کو سمجھ سکے گی؟ کیا یہ ڈیجیٹل حکمران غلطی سے مبرا ہوں گے؟ کیا ان کے فیصلے جمہوری اقدار سے ہم آہنگ ہوں گے یا صرف ڈیٹا کی زبان میں بات کریں گے؟ ان سب سوالات کے جواب ابھی باقی ہیں، مگر سنسے آئی لینڈ نے دنیا کو ایک نئی بحث اور نئی سمت میں دھکیل دیا ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سنسے آئی لینڈ کے طور پر سکتے ہیں رہے ہیں اے ا ئی گیا ہے

پڑھیں:

پاکستان سولر پینلز سے 25 فیصد بجلی بنانے والا دنیا کا پہلا بڑا ملک بن گیا

لاہور(نیوز ڈیسک)پاکستان سولر پینلز سے 25 فیصد بجلی بنانے والا دنیا کا پہلا بڑا ملک بن گیا۔عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سولر پینلز کے تیز ترین پھیلاؤ نے نہایت اہم شعبہ توانائی کے بین الاقوامی ماہرین کو حیران کر دیا ۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک میں دنیا کا پہلا ملک بن گیا جہاں کل بجلی میں 25 فیصد سے زیادہ سولر پینل پیدا کر رہے ۔

رپورٹ کے مطابق جنوری تا اپریل 25ء کے چار مہینوں میں پاکستان میں سب سے زیادہ بجلی سولر پینلوں نے ہی بنائی ، 2202ء میں پاکستان نے 3500 میگاواٹ بجلی بناتے سولر پینل چین اور دیگر ممالک سے درآمد کئے تھے، 2024 ء میں 16600 میگاوٹ بجلی بناتے پینل امپورٹ کئے گئے،رواں سال کے چار ماہ میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی بناتے پینل درآمد کئے جا چکے ہیں۔

رپورٹ میں اس امر کو سراہا گیا کہ پاکستان میں شمسی توانائی فروغ پا رہی ہے جو فوسل فیولز کی نسبت آلودگی نہ پیدا کرتی بجلی بناتی ہے ، فی الوقت یورپی ملک لکسمبرگ اپنی 46 فیصد بجلی سولر پینلوں سے بنا رہا۔ اس کے بعد لیتھونیا(43.6فیصد)، اسٹونیا(41.9فیصد)، ہنگری(37.5فیصد) اور ہالینڈ (37فیصد)سولر بجلی بنا رہا ہے۔

دنیا میں صرف بیس ملک سولر پینلز سے 25 فیصد بجلی بنا رہے ہیں جن میں سب سے بڑا پاکستان ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مصنوعی ذہانت انسانوں کی جگہ لے سکتی ہے‘ جیفری ہنٹن
  • دنیا کے سمندر وائرسوں سے بھر رہے ہیں؟ سائنس دانوں کا انکشاف
  • مصنوعی ذہانت انسانوں کی جگہ لے سکتی ہے، اے آئی گاڈ فادر جیفری ہنٹن
  • مصنوعی ذہانت انسانوں کی جگہ لے سکتی ہے: اے آئی گاڈ فادر جیفری ہنٹن
  • پاکستان سولر پینلز سے 25 فیصد بجلی بنانے والا دنیا کا پہلا بڑا ملک بن گیا
  • دنیا  کے سمندرکن وائرسوں سے بھر رہے ہیں؟ سائنس دانوں کا ہولناک انکشاف
  • مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے بدلتے رجحانات کو اپنانا وقت کی ضرورت ہے، خالد مقبول
  • کراچی ایک بار پھر دنیا کے بدترین شہروں میں شامل
  • مسجد الحرام میں ہجوم کو کنٹرول کرنے کیلیے مصنوعی ذہانت کا استعمال