ٹرمپ نے ٹک ٹاک پر پابندی 90 دن کےلیے مؤخر کردی
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی کمپنی بائٹ ڈانس سے تعلق رکھنے والی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی اور امریکی اثاثوں کی فروخت یا علیحدگی کےلیے مزید 90 دن کی مہلت دے دی ہے، نئی تاریخ 17 ستمبر 2025ء مقرر کردی گئی۔
یہ تیسری بار ہے کہ صدر ٹرمپ نے ڈیڈلائن میں توسیع کی ہے، اگر یہ توسیع نہ ہوتی، تو ٹک ٹاک پر جمعرات سے پابندی عائد ہو جاتی۔
ٹک ٹاک نے ایک بیان میں کہا کہ ہم صدر ٹرمپ کی قیادت اور حمایت کے شکر گزار ہیں، جس کی بدولت 17 کروڑ امریکی صارفین اور 75 لاکھ کاروبار ٹک ٹاک تک رسائی برقرار رکھ سکیں گے۔
یہ فیصلہ اس قانون کے باوجود کیا گیا ہے جو اپریل 2024ء میں منظور ہوا تھا، جس کے مطابق بائٹ ڈانس کو 19 جنوری 2025ء تک یا تو امریکی اثاثے فروخت کرنا تھے یا ایپ کو بند کرنا تھا۔
اس قانون کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تھا، مگر سپریم کورٹ نے پابندی کو برقرار رکھا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کارولین لیوٹ نے کہا کہ صدر ٹرمپ نہیں چاہتے کہ ٹک ٹاک بند ہو، مگر ڈیٹا سیکیورٹی یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے 3 ماہ میں حکومت فروخت کا عمل مکمل کروانے کی کوشش کرے گی تاکہ امریکی صارفین کا ڈیٹا محفوظ رہ سکے۔
امریکا اور چین میں ایک معاہدہ زیر غور تھا جس کے تحت ٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز کو ایک نئی امریکی کمپنی میں تبدیل کیا جانا تھا، جو امریکی سرمایہ کاروں کے زیرِ کنٹرول ہوتی، تاہم چین نے ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے ٹیرف کے باعث اس ڈیل کو روک دیا۔
ایک سروے کے مطابق امریکا میں بالغ افراد کا ایک تہائی حصہ ٹک ٹاک استعمال کرتا ہے، 30 سال سے کم عمر افراد میں استعمال کی شرح 59 فیصد ہے جبکہ نوجوانوں (ٹین ایجرز) میں استعمال 67 فیصد ہے۔
ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کی جانب سے ڈیڈلائن میں توسیع پر اعتراض کیا اور کہا کہ صدر کو ایسا کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے اور زیر غور معاہدہ قانونی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹک ٹاک
پڑھیں:
ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل غزہ کے لوگوں کو خوراک فراہم کرے، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو خوراک کی فراہمی یقینی بنائے، تاکہ لوگ بھوک اور قحط کا شکار نہ ہوں۔
نیوجرسی میں اپنے گولف ریزورٹ سے واشنگٹن واپسی سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا:
’ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل ان کو خوراک فراہم کرے۔ ہم کافی بڑی امدادی رقم دے رہے ہیں، تاکہ خوراک خریدی جا سکے اور لوگوں کو کھلایا جا سکے۔ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ بھوکے مریں یا فاقہ کشی کریں۔‘
صدر ٹرمپ کے اس بیان سے قبل امریکی مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعہ کو غزہ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے امریکی حمایت یافتہ Gaza Humanitarian Foundation (GHF) کے ایک امدادی مرکز کا معائنہ کیا۔
ٹرمپ نے وٹکوف کے کام کو ’شاندار‘ قرار دیا۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وٹکوف نے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں کسی نسل کشی کے شواہد دیکھے ہیں، تو انہوں نے براہِ راست اس لفظ کو استعمال کرنے سے گریز کیا اور صرف یہ کہا:
’میرا نہیں خیال — یہ افسوسناک ہے، دیکھیں، وہ جنگ کی حالت میں ہیں۔‘
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ امریکا نے غزہ کے لیے 60 ملین ڈالر کی خوراکی امداد فراہم کی ہے، تاہم حالیہ رپورٹس کے مطابق اب تک صرف 3 ملین ڈالر ہی جاری کیے جا سکے ہیں۔
امریکی ایلچی وٹکوف نے جنوبی غزہ میں GHF کے مرکز کے دورے کے بعد کہا کہ ان کا مقصد صدر ٹرمپ کو غزہ میں انسانی بحران کی درست تصویر پیش کرنا اور وہاں خوراک و طبی امداد پہنچانے کے لیے منصوبہ بندی میں مدد دینا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 سے جاری فوجی کارروائیوں میں اب تک 60,800 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ مسلسل بمباری سے غزہ کا بیشتر علاقہ تباہ ہو چکا ہے اور خوراک کی شدید قلت سے لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی مطالبات کے باوجود اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی پر آمادگی کا کوئی اشارہ نہیں دیا جا رہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا بنیامین نیتن یاہو ڈونلڈ ٹرمپ غزہ