ایران پر حملہ دہشتگردی کا کھلا مظاہرہ ہے، عالمی برادری فوری مداخلت کرے، ملی یکجہتی کونسل
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
ملتان میں خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران میں آنے والے تعزیتی وفد نے کہا کہ اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں کی خاموشی سے بھی کئی سوال جنم لے رہے ہیں، اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اب تک اس حملے پر کوئی موثر قدم اٹھانے میں ناکام رہے ہیں، اگر اب بھی مسلمان ممالک نے خاموشی اختیار کیے رکھی تو کل کسی اور ملک کی باری ہو سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ملی یکجہتی کونسل جنوبی پنجاب کے صدر حافظ محمد اسلم اور جنرل سیکرٹری محمد ایوب مغل کی سربراہی میں وفد نے خانہ فرنگ ایران ملتان کی انچارج خانم زاہدہ بخاری سے ایران پر ہونے والے اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے آرمی سائنسدانوں اور عوام کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور اسرائیل کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایران میں کھلی دہشت گردی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے مسائل اور مشکلات کا سبب بننے والے اسرائیل نے غزہ کے بعد ایران پر حملہ آور ہو کر اپنی شیطانیت کا ثبوت دیا ہے، امریکہ کی سربراہی میں ایران پر اسرائیل کا حملہ خطے کے امن کو برباد کرنے کے مترادف ہے، ایران پر اسرائیلی حملے سے خطے میں قتل و غارت کا نیا باب کھل گیا ہے، مسلم دنیا سمیت پوری دنیا اس حملے کی شدید مذمت کر رہی ہے، اسرائیل کی جانب سے ایران پر حالیہ حملے نے مشرق وسطی کو ایک نئے بحران میں دھکیل دیا ہے۔ اس حملے میں کئی جانیں ضائع ہوئیں اور متعدد تنصیبات کو نقصان پہنچا، جس پر دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران پر حملہ دہشتگردی کا کھلا مظاہرہ ہے، عالمی برادری سے فوری مداخلت کی اپیل ہے۔ یہ حملہ نہ صرف ایران کی خودمختاری کے خلاف ہے بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں اس حملے کے خلاف شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ کئی مسلم رہنماوں اور دانشوروں نے اس واقعے کی اصل ذمہ داری امریکہ پر عائد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی اندھی اسرائیل نوازی اور مسلسل فوجی و سیاسی پشت پناہی ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو آج مشرق وسطی کو بدامنی اور قتل و غارت کے دہانے پر لے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمِ اسلام میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ مسلمانوں کو درپیش بیشتر مسائل خواہ وہ فلسطین ہو، کشمیر ہو یا ایران پر حملہ ان سب کے پیچھے امریکی پالیسیوں کا ہاتھ ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر اسرائیل کے معاملے میں، نہ صرف علاقائی امن کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر مسلم دنیا کو کمزور کر رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور عالمی اداروں کی خاموشی سے بھی کئی سوال جنم لے رہے ہیں اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اب تک اس حملے پر کوئی موثر قدم اٹھانے میں ناکام رہے ہیں، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید تنقید کی ہے۔ اگر اب بھی مسلمان ممالک نے خاموشی اختیار کیے رکھی، تو کل کسی اور ملک کی باری ہو سکتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ ایران پر حملہ متحدہ اور اس حملے رہے ہیں
پڑھیں:
یوکرین کا روس کے بڑے آئل ڈپو پر ڈرون حملہ، شدید آگ بھڑک اٹھی
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں شدت آ گئی ہے، یوکرین کے ایک ڈرون حملے نے روس کے بحیرۂ اسود کے تفریحی شہر سوچی کے قریب ایک بڑے آئل ڈپو کو نشانہ بنایا، جس سے وہاں شدید آگ بھڑک اٹھی۔
روسی حکام کے مطابق، کراسنوڈار ریجن کے گورنر وینیامین کوندراتیو نے ٹیلیگرام پر تصدیق کی کہ ڈرون کا ملبہ ایندھن کے ایک ٹینک سے ٹکرا گیا، جس کے بعد 127 فائر فائٹرز آگ بجھانے میں مصروف ہو گئے۔ واقعے کے باعث سوچی ایئرپورٹ پر پروازیں عارضی طور پر معطل کر دی گئیں۔
ادھر، یوکرین کے جنوبی شہر میکولائیف میں روسی میزائل حملے نے کئی رہائشی گھروں اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں کم از کم 7 شہری زخمی ہوئے جن میں سے 3 افراد کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق، سوچی ریفائنری پر حملہ یوکرین کی جانب سے ایک بڑے ڈرون آپریشن کا حصہ تھا، جس میں ریازان، پینزا اور وورونژ میں کئی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ وورونژ کے گورنر نے بتایا کہ ایک حملے میں 4 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
روسی دفاعی حکام کے مطابق، گزشتہ رات 93 یوکرینی ڈرونز کو روک لیا گیا، جن میں سے 60 بحیرۂ اسود کے علاقے میں تھے۔
یوکرینی فضائیہ نے بھی اطلاع دی کہ روس نے رات کے دوران 83 یا 76 ڈرون اور 7 میزائل فائر کیے، جن میں سے 61 کو تباہ کر دیا گیا۔ تاہم 16 ڈرون اور 6 میزائل اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔
یہ سب اس وقت ہوا جب گزشتہ جمعرات کو کیف پر روس کے ایک شدید حملے میں کم از کم 31 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ اس دن روس نے 300 سے زائد ڈرونز اور 8 کروز میزائل داغے تھے، جو 2022 کے حملے کے بعد سب سے ہلاکت خیز واقعہ قرار دیا گیا۔
اس بڑھتی ہوئی کشیدگی پر یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے عالمی برادری سے روس پر مزید سخت پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ماسکو کے خلاف نئی پابندیوں کا اشارہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے پہلے کہا تھا کہ پیوٹن کے پاس جنگ روکنے کے لیے 50 دن ہیں، ورنہ تیل سمیت روسی برآمدات پر بھاری محصولات عائد ہوں گے۔ پیر کو انہوں نے نیا 10 سے 12 دن کا الٹی میٹم جاری کیا، جس کی آخری تاریخ 8 اگست بتائی گئی ہے۔