امریکا میں ایران اور فلسطین کے حق میں مظاہرہ: اسرائیل کے خلاف بھرپور احتجاج
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
امریکا میں ایران اور فلسطین کے حق میں مظاہرہ: اسرائیل کے خلاف بھرپور احتجاج WhatsAppFacebookTwitter 0 20 June, 2025 سب نیوز
امریکی ریاست وینیزویلا میں ایران اور فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے گئے
خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہزاروں مظاہرین اسرائیل کیخلاف احتجاج کیلیے سڑکوں پر نکل آئے۔
ایرانی اور فلسطینی پرچم تھامے مظاہرین نے ایران اور فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔
مظاہرے میں ایران اور اسرائیل کی جنگ فوری رکوانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سینکڑوں افراد نے اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے دیا۔
دوسری جانب روس نے کہا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں امریکی مداخلت خوفناک ہوگی، امریکا کی شمولیت سے کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ جائے گی۔
روسی ترجمان کے مطابق ایران پر اسرائیلی حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، روس اور چین سمجھتے ہیں کہ ایران اسرائیل جنگ اور جوہری تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، مسئلے کا حل صرف اور صرف سیاسی اور سفارتی سطح پر حاصل کیا جانا چاہیے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان علاقائی کشیدگی میں کمی کیلئے فعال کردار ادا کرتا رہے گا: فیلڈ مارشل ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کےلیے تمام ضروری سامان موجود ہے،ترجمان وائٹ ہاؤس ایران اسرائیل کشیدگی: امریکا کا جنگ میں فوری شامل نہ ہونے کا اشارہ، ٹرمپ دو ہفتوں میں فیصلہ کریں گے ٹرمپ کا ایران پر حملہ کرنے کا فیصلہ مؤخر کرنے کی وجہ سامنے آگئی سپریم لیڈر نے پاسداران انقلاب کی بری فورس کا نیا کمانڈر تعینات کردیا ٹرمپ نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری کی خبرکو مستردکر دیا ایران پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف امریکا میں احتجاج، مظاہرین کا ٹرمپ سے جنگ میں نہ الجھنے کا مطالبہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایران اور فلسطین کے حق میں میں ایران اور
پڑھیں:
اسرائیل کے ساتھی یمن کے نشانے پر
اسلام ٹائمز: یمن کی مسلح افواج کا صیہونی رژیم کے خلاف سمندری محاصرے کا چوتھا مرحلہ محض ایک فوجی آپریشن ہی نہیں بلکہ ایک ایسی محروم لیکن طاقتور قوم کے انقلابی ارادے کی علامت ہے جو صیہونی رژیم کے ظلم کے خلاف گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں ہے۔ حوثی مجاہدین کے اس اقدام نے غاصب صیہونی رژیم کی معیشت اور سلامتی کو متزلزل کر ڈالا ہے اور اس کے حامی مشکل حالات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے سامنے سخت انتخاب ہے: تل ابیب سے تعاون جاری رکھنا یا اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں شکست قبول کر لینا۔ یمن اپنے ایمان، شجاعت اور اسلامی مزاحمت میں اتحاد کی بنیاد پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہے اور یہ جدوجہد انشاءاللہ فلسطین کاز کے مکمل حصول اور قدس شریف کی آزادی تک جاری رہے گی۔ تحریر: رسول قبادی
یمن کی مسلح افواج نے اسرائیل کے خلاف سمندری محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے اور اب اس کے چوتھے مرحلے کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں حوثی مجاہدین نے ایک بار پھر فلسطین کاز سے وفاداری اور غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد کے پختہ عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس مرحلے میں انصاراللہ یمن نے اعلان کیا ہے کہ ایسے تمام بحری جہاز جو کسی بھی طرح سے مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں سے مربوط ہوں گے چاہے وہ کسی بھی اسلامی یا عرب ملک کے ہی کیوں نہ ہوں روک دیے جائیں گے۔ یمن کی مسلح افواج نے سمندری محاصرے کو غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں پر دباو ڈالنے کا ذریعہ قرار دے رکھا ہے۔ یہ حکمت عملی مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کی خاطر اور اسلامی مزاحمت کی ہم آہنگی سے تشکیل پائی ہے اور اب تک اس کے چار مراحل مکمل ہو چکے ہیں جو درج ذیل ہیں:
پہلا مرحلہ: اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا (اکتوبر 2023ء)
غزہ پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے پہلے ہفتے میں ہی تقریباً 10 ہزار کے قریب عام فلسطینی شہری شہید ہو گئے تھے۔ اس کے بعد یمن نے بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیلی بحری جہازوں یا اسرائیلی پرچم کے حامل بحری جہازوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔ اس سلسلے میں حوثی مجاہدین کا پہلا آپریشن "گیلکسی لیڈر" کے خلاف انجام پایا۔ یہ کشتی ایک صیہونی تاجر کی ملکیت تھی اور 19 نومبر 2023ء کے دن یمن کی مسلح افواج نے ہیلی برن کے ذریعے اس کشتی کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ آپریشن انتہائی اعلی سطحی اور درست انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انجام پایا جس نے اسرائیلی حکمرانوں کے چھکے چھڑا دیے اور ثابت کر دیا کہ یمن انتہائی اہم تجارتی راہداریوں پر اسرائیلی بحری جہازوں کی آمدورفت معطل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ایلات بندرگاہ کی جانب بحری جہازوں کی آمدورفت میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی اور صیہونی رژیم سے مربوط بحری جہازوں کی انشورنس اخراجات میں اضافہ ہو گیا۔
دوسرا مرحلہ: آپریشن کا دائرہ وسیع ہو جانا (جنوری 2024ء)
غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ کا ظالمانہ محاصرہ جاری رہنے پر یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ نے اپنے فوجی آپریشنز کا دائرہ بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیلی بحری جہازوں کے علاوہ ایسے تمام ممالک کے بحری جہازوں کو بھی بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب سے آمدورفت کی اجازت نہیں ہو گی جو کسی نہ کسی طرح اسرائیل سے رابطے میں ہیں اور اس کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ یمن نے خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کو وارننگ جاری کر دی۔ اس مرحلے میں مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں کی جانب جانے والے بحری جہازوں کو کروز میزائلوں، ڈرون طیاروں اور خودکش تیز رفتار کشتیوں کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ حوثی مجاہدین کے حملوں کا نشانہ بننے والے بحری جہازوں میں سے ایک یو ایس ایس کارنی تھا جسے 2 جنوری 2024ء کے دن بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔
تیسرا مرحلہ: صیہونی بندرگاہوں سے تعاون کرنے والی کمپنیوں کو نشانہ بنانا (مارچ 2024ء)
اس مرحلے میں انصاراللہ یمن نے اپنی حکمت عملی کا دائرہ مزید وسیع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہر ایسی کمپنی کو نشانہ بنایا جائے گا جو صیہونی بندرگاہوں میں صیہونی رژیم سے تعاون کرنے میں مصروف ہے، چاہے وہ کسی بھی ملک کی ہو۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ یمن کی بارہا وارننگ کے باوجود متحدہ عرب امارات سمیت کچھ بین الاقوامی کمپنیوں نے مقبوضہ فلسطین میں صیہونی بندرگاہوں سے تعاون جاری رکھا۔ 9 اپریل 2024ء کے دن "ایم ایس اورین" نامی بحری جہاز پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ یہ بحری جہاز سوئٹزرلینڈ کی ایک کمپنی کی ملکیت تھا جو مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہ ایلات کی جانب گامزن تھا۔ اس حملے میں جدید ڈرون طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ اس مرحلے کے بعد ایلات بندرگاہ کی آمدن میں 80 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔
چوتھا مرحلہ: صیہونی رژیم کا جامع محاصرہ (جولائی 2025ء)
اس مرحلے کے آغاز کا اعلان حال ہی میں یمن کی مسلح افواج کے ترجمان کرنل یحیی سریع نے کیا ہے۔ یہ مرحلہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف سمندری محاصرے پر مشتمل حکمت عملی کا عروج ہے جس میں ایسی تمام کمپنیوں کے بحری جہازوں کو روکا جائے گا جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں میں سرگرمیاں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اس مرحلے کو "جامع محاصرہ" کا مرحلہ قرار دیا گیا ہے جس میں حتی ان بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا جو دور دراز بندرگاہوں جیسے بحیرہ روم یا بحر ہند میں فعالیت انجام دے رہے ہیں اور ان کے مالکین غاصب صیہونی رژیم سے رابطہ برقرار کیے ہوئے ہیں۔ اس مرحلے کی اہم خصوصیت اعلی سطح کی انٹیلی جنس کے حصول اور جدید ترین جنگی ہتھیار استعمال کرنے پر مشتمل ہے۔
یمن کی مسلح افواج کا صیہونی رژیم کے خلاف سمندری محاصرے کا چوتھا مرحلہ محض ایک فوجی آپریشن ہی نہیں بلکہ ایک ایسی محروم لیکن طاقتور قوم کے انقلابی ارادے کی علامت ہے جو صیہونی رژیم کے ظلم کے خلاف گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں ہے۔ حوثی مجاہدین کے اس اقدام نے غاصب صیہونی رژیم کی معیشت اور سلامتی کو متزلزل کر ڈالا ہے اور اس کے حامی مشکل حالات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے سامنے سخت انتخاب ہے: تل ابیب سے تعاون جاری رکھنا یا اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں شکست قبول کر لینا۔ یمن اپنے ایمان، شجاعت اور اسلامی مزاحمت میں اتحاد کی بنیاد پر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد کی نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہے اور یہ جدوجہد انشاءاللہ فلسطین کاز کے مکمل حصول اور قدس شریف کی آزادی تک جاری رہے گی۔