غیر معمولی حالات میں غیر معمولی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بدھ کے روز امریکی ایوان صدر وائٹ ہائوس کے کیبنٹ روم میں ظہرانے پر ہونے والی ملاقات اور بات چیت کے بارے میں جمعرات کے روز سرکاری طور پر جو وضاحت جاری کی ہے اس کے مطابق ملاقات کے لیے طے شدہ وقت ایک گھنٹہ تھا مگر ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ ٔ خیال اور دو طرفہ خلوص کے باعث یہ ملاقات دو گھنٹے تک وسعت اختیار کر گئی۔ ملاقات کے دوران دیگر امور کے علاوہ دونوں جانب سے ایران اسرائیل تنازعے کے حل پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے مابین انسداد دہشت گردی کے شعبے میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ دونوں رہنمائوں نے تجارت، اقتصادی ترقی، معدنیات، مصنوعی ذہانت، توانائی، کرپٹو کرنسی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو وسعت دینے کے امکانات پر بھی تفصیلی بات چیت کی جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ باہمی مفادات اور ہم آہنگی پر مبنی طویل المدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حالیہ علاقائی بحران کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تعمیری اور نتیجہ خیز کردار کو حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے سراہا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی چیلنجز کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے بصیرت افروز فیصلے کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی پاکستان کی علاقائی امن واستحکام کے لیے کوششوں کو سراہا اور دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں جاری تعاون کو خوش آئند قرار دیا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور اس مسئلے کے پر امن حل پر زور دیا گیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قائدانہ صلاحیتوں اور خطے میں پیچیدہ صورتحال کے دوران ان کے بروقت فیصلوں کو سراہا، اس موقع پر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت دی۔ بتایا گیا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں یہ بھی واضح کیا کہ اگر ایران میں حکومت ختم کی گئی تو پاکستان اور ایران کی سرحد پر موجود علٰیحدگی پسند عناصر اور دہشت گرد گروہ پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو پاکستان اور ایران کی نو سو کلو میٹر طویل سرحد کے دونوں جانب سرگرم عمل ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل کے حملوں کے بعد اسرائیلی حکومتی ذمے داران کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ ایرانی حکومت کو معزول یا کم از کم غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ایسی صورت حال میں ممکنہ بدامنی کے پھیلائو پر تشویش کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس امر پر بھی پریشانی کا سامنا ہے کہ اسرائیل نے ایک اور ملک کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے جو مثال قائم کی ہے وہ مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، خصوصاً اس پس منظر میں کہ پاکستان اور بھارت جو دونوں جوہری طاقتیں ہیں نے بھی گزشتہ ماہ مئی میں چار روزہ جنگ لڑی ہے چنانچہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقات علی خاں بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ ایران پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور ہمارے لیے یہ ایک سنگین معاملہ ہے جو ہمارے برادر ہمسایہ ملک ایران میں ہو رہا ہے اس سے پورے خطے کی سلامتی کی صورت حال خطرات سے دو چار ہو چکی ہے خصوصاً پاکستان اس سے نہایت شدت سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ گزشتہ برس پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر دہشت گرد اور تخریب کار گروہوں کی سرگرمیوں کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت زیادہ کشیدگی آ گئی تھی اور دونوں برادر ملکوں نے ایک دوسرے پر بلوچ شدت پسند گروہوں کو پناہ دینے کے الزامات عائد کیے تھے اور ایک دوسرے کی فضائی حدود کے اندر گھس کر حملے بھی کیے تھے البتہ دونوں ملکوں کی قیادت نے بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کشیدگی پر جلد قابو پا لیا تاہم دونوں ملکوں کی طویل سرحد کے قریب دہشت گرد اور تخریب کار گروہوں کی پاکستان اور ایران دشمن سرگرمیوں پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا اور انہیں ہمارے دشمنوں کی ظاہری اور خفیہ سرپرستی بھی اس فتنہ کا بڑا سبب ہے، اس کے علاوہ عالمی حالات اور بین الاقوامی صورت حال نے بھی دونوں ملکوں کی دوریوں اور فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے چنانچہ پاکستان پر گزشتہ ماہ کی بھارتی جارحیت میں جہاں اسرائیل نے کھل کر بھارت کو ہر طرح کی مدد و تعاون فراہم کیا وہیں بھارت جو کچھ عرصہ پہلے تک ایران کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا، اب دونوں کے مابین دوریاں پیدا ہو چکی ہیں اور بھارت نے ابھی تک ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت تک نہیں کی اور وہ ایران مخالف بین الاقوامی اتحاد کا حصہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس تمام عالمی تناظر میں صدر ٹرمپ سے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بدھ کی ملاقات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جیسا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے واضح کیا گیا ہے کہ پاکستانی سپہ سالار نے امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے حقیقی صورتحال ان کے سامنے رکھی ہے اور ایران اسرائیل تنازعے کے دوسرے رُخ سے انہیں آگاہ کیا ہے اور اس کے منفی پہلوئوں اور عالمی امن کو اس سے درپیش خطرات سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کرتے ہوئے انہیں اس جنگ کا حصہ نہ بننے کا صائب مشورہ دیا ہے توقع کی جانا چاہیے کہ امریکی صدر اس سنجیدہ مشورہ پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور دنیا کو جنگ کی آگ کا ایندھن بننے سے بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے کیونکہ دوسری صورت میں دوسری بڑی طاقتوں کو بھی اس جنگ میں کودنے کا موقع اور جواز فراہم ہو جائے گا جس کا عندیہ روس اور چین اور بعض دیگر ممالک کے فیصلہ سازوں کی جانب سے پہلے ہی دیا جا چکا ہے! امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستانی فوج کے سپہ سالار سے ملاقات کے حوالے سے یہ پہلو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ قرآن کے حکم کہ ’’دشمن کے مقابلے میں اپنے گھوڑے تیار رکھو‘‘ پر پاکستانی فیصلہ سازوں کے عمل اور پاک بھارت جنگ کے دوران اس کے عملی مظاہرہ کا بہت اہم کردار ہے علامہ اقبال نے اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں یوں نمایاں کیا تھا کہ: ’’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘ مئی کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان اپنے ’’عصا‘‘ کی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرتا اور بھارت کو شکست فاش سے دو چار نہ کرتا تو جناب فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات تو بہت بعد کی بات ہے، دورہ امریکا کی دعوت ہی نہ دی جاتی… ورنہ کون نہیں جانتا کہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کا آنکھیں بند کر کے ساتھ دینے اور بے پناہ نقصانات برداشت کرنے کے باوجود امریکا پاکستان سے خوش نہیں ہو سکا تھا اور اس کی نوازشات کا رخ بھارت ہی کی جانب رہا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان اور ایران صدر ڈونلڈ ٹرمپ عاصم منیر کی دونوں ملکوں امریکی صدر اور بھارت کے درمیان کے دوران کی جانب کہ پاک اور اس کے لیے فوج کے ہے اور
پڑھیں:
پاک ایران تعلقات کا نیا باب اور قومی یکجہتی
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان ، وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر پاکستان کے دو روزہ دورے پر ہیں، جو کہ دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے سفارتی، ثقافتی اور اقتصادی روابط کا عکاس ہے۔
ایرانی صدر پزشکیان نے اپنے دورے کا ایک بڑا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران سرحدی بازاروں، فضائی و بحری روابط، اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں شمولیت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پیزشکیان کا دو روزہ دورہ پاکستان محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ خطے میں ایک نئے سفارتی باب کا آغاز ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، بین الاقوامی تعلقات نئے زاویے اختیار کر رہے ہیں اور مسلم دنیا کو انتشار، بیرونی دباؤ اور اندرونی عدم استحکام کا سامنا ہے، ایران اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطح روابط کی بحالی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ صدر پز شکیان کا یہ کہنا کہ ایران پاکستان کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون کو وسعت دینا چاہتا ہے، محض ایک رسمی اعلان نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا تزویراتی وژن کارفرما ہے۔
پاکستان اور ایران دونوں برادر اسلامی ممالک ہیں جن کے درمیان ثقافتی، مذہبی، لسانی اور جغرافیائی رشتے کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ ان کے درمیان 900 کلومیٹر سے زائد طویل سرحد ہے جو بلوچستان کے علاقوں کو ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان سے جوڑتی ہے۔
بدقسمتی سے ماضی میں یہ سرحد غیر قانونی نقل و حرکت، اسمگلنگ اور دہشت گرد عناصر کی آماج گاہ بنی رہی، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کی جانب سے بارڈر مینجمنٹ، کراسنگ پوائنٹس، تجارتی منڈیوں کے قیام اور خفیہ معلومات کے تبادلے سے حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔صدر ایران کا یہ عزم کہ دوطرفہ تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک بڑھایا جائے، پاکستان کے لیے بھی خوش آیند ہے کیونکہ ملک کو اس وقت شدید معاشی بحران کا سامنا ہے، اگر ایران پاکستان کو توانائی، گیس، تیل اور بجلی کی صورت میں مدد فراہم کرتا ہے تو پاکستان کی انڈسٹری کو سہارا مل سکتا ہے۔
ایران کے پاس گیس اور تیل کے بے پناہ ذخائر ہیں اور پاکستان کے پاس ایک بڑی صارف منڈی، اگر دونوں ممالک تجارتی رکاوٹوں کو ختم کر کے ایک دوسرے کے ساتھ بااعتماد اقتصادی شراکت داری قائم کرتے ہیں تو یہ خطے میں ایک نئی معاشی طاقت کے ابھرنے کا آغاز ہو سکتا ہے۔ایران کی پاکستان کے ساتھ قربت صرف معاشی مفاد تک محدود نہیں۔ دونوں ممالک ایک جیسی نظریاتی اساس رکھتے ہیں۔ اسلامی وحدت، فلسطینی کاز کی حمایت اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے آواز بلند کرنا دونوں ملکوں کا مشترکہ نصب العین رہا ہے۔
صدر پزشکیان نے اپنی گفتگو میں واضح طور پر کہا کہ ’’ پاک ایران اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوششیں ناکام ہوں گی‘‘ یہ بیان اس سوچ کی غمازی کرتا ہے کہ ایران اب علاقائی تنازعات کے بجائے اشتراک، مفاہمت اور ترقی کی پالیسی پر گامزن ہونا چاہتا ہے۔ اگر اس پالیسی کو مستقل بنیادوں پر اپنایا گیا تو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک تزویراتی پل کی تشکیل ممکن ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں بھی یہ دورہ اہم ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان نے چین، ترکی، سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی، جب کہ ایران کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ امریکا کی پابندیاں اور ایران سعودی عرب کشیدگی رہی، لیکن جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان چین کی ثالثی سے تعلقات بحال ہوئے، تو پاکستان کے لیے بھی راستہ کھل گیا کہ وہ دونوں اسلامی طاقتوں کے ساتھ بیک وقت بہتر تعلقات قائم کرے۔
دوسری طرف پاکستان کے اندرونی حالات بھی اس وقت غیر یقینی کا شکار ہیں۔ معاشی مشکلات، سیاسی عدم استحکام، عدالتی نظام پر سوالات، عوام میں بے چینی، اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی نفرت انگیزی نے ملک کے سماجی تانے بانے کو شدید متاثر کیا ہے۔
ایسے میں چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا یہ بیان کہ قومی یکجہتی، سول ملٹری ہم آہنگی اور ہائی برڈ خطرات کے مقابلے کے لیے قومی سطح پر اشتراک ضروری ہے، وقت کی ایک اہم ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بیان دراصل ایک پکار ہے کہ اب تمام ریاستی اداروں، میڈیا، عدلیہ، سول سوسائٹی اور عوام کو مل کر ملک کی حفاظت کرنی ہے۔ہائی برڈ وار ایک ایسا جدید خطرہ ہے جس میں دشمن روایتی جنگ کے بجائے نفسیاتی، اقتصادی، معلوماتی اور سائبر حملوں کے ذریعے ریاست کو کمزورکرتا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈہ، مذہبی منافرت، لسانی تعصبات اور قومی اداروں کے خلاف بے بنیاد مہمات اسی ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے عوام ہیں اور ان میں سب سے زیادہ قوت نوجوانوں میں ہے، مگر وہی نوجوان آج مایوسی، بیروزگاری اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ ان کے ذہنوں میں اگر منفی خیالات رچ بس جائیں تو یہی نوجوان قومی وحدت کے بجائے افتراق کا سبب بن سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ نوجوانوں کو مثبت مواقعے فراہم کیے جائیں، ان کی تعلیم و تربیت میں قومی بیانیہ شامل کیا جائے اور انھیں ریاست کی ترقی میں شراکت دار بنایا جائے۔
قومی بیانیہ محض سرکاری سطح پر جاری ہونے والے بیانات کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو ہر شہری کے دل میں گھر کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا ذمے داری سے کام لے، تعلیمی ادارے قومی وحدت کا پیغام دیں، علمائے کرام محبت، برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دیں، اور سیاسی رہنما اپنی تقریروں میں نفرت کے بجائے اتحاد کا پیغام دیں، یہ وہ لائحہ عمل ہے جس سے ہائی برڈ جنگ کے اثرات زائل کیے جا سکتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ برسوں میں کئی مواقعے پر دیکھا گیا کہ بیرونی ایجنسیوں نے اندرونی مسائل کو ہوا دے کر حالات خراب کیے۔ ایسے میں قومی بیانیہ، مثبت سوچ اور حقیقی معلومات کا فروغ ہی اس جنگ کا مؤثر جواب ہو سکتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی اختلافات سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد میں اجتماعی فیصلے کریں۔ پارلیمنٹ کو فعال بنایا جائے، عدلیہ کو آزاد اور غیر جانبدار رکھا جائے ۔
اس وقت پاکستان کو داخلی استحکام کی جتنی ضرورت ہے، شاید تاریخ میں پہلے کبھی نہ رہی ہو۔ بلوچستان، کے پی، اور گلگت بلتستان میں احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے مقامی ترقیاتی منصوبے، روزگار کی فراہمی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔
ایران کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں میں مشترکہ مارکیٹس، ہنر مندی کے مراکز، اور تجارتی راہداریوں کے قیام سے نہ صرف ان علاقوں میں خوشحالی آئے گی بلکہ دہشت گردی اور اسمگلنگ جیسے مسائل بھی خود بخود ختم ہوں گے۔ایران کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون کی بڑی گنجائش ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کئی سالوں سے تعطل کا شکار ہے، اگر دونوں ممالک امریکی دباؤ سے بالاتر ہو کر اس منصوبے پر پیش رفت کرتے ہیں تو پاکستان کو گیس بحران سے نجات مل سکتی ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل نہ صرف ایک معاشی کامیابی ہوگی بلکہ خطے میں ایک آزادانہ پالیسی کی علامت بھی ہوگی۔
اسلامی دنیا کے لیے بھی یہ دورہ ایک پیغام رکھتا ہے کہ مسلم ممالک باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تعاون اور اتحاد کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کی مصالحت، ترکی اور خلیجی ممالک کے درمیان تجارتی تعاون اور اب ایران پاکستان قربت اس بات کا مظہر ہے کہ امت مسلمہ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس عمل میں قائدانہ کردار ادا کرے، کیونکہ ہمارا جغرافیہ، نظریاتی بنیاد، اور عسکری طاقت ہمیں ایک مرکزی کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔قومی یکجہتی محض ایک نعرہ نہیں، یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی تعلیم، میڈیا، سیاسی کلچر اور روزمرہ کی گفتگو میں شائستگی، برداشت اور رواداری کو فروغ دینا ہوگا۔ مذہبی و مسلکی ہم آہنگی، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ، خواتین کی شمولیت اور نوجوانوں کی رہنمائی ایسے پہلو ہیں جو اگر نظرانداز کیے گئے تو اندرونی خلفشار کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔
ایران کے صدر کا دورہ دراصل ایک نئی صبح کی نوید ہے، لیکن یہ نوید اس وقت حقیقت بنے گی جب ہم ان اشاروں کو سنجیدگی سے لیں، عملی اقدامات کریں اور قومی مفاد کو ذاتی، سیاسی اور جماعتی مفادات پر مقدم رکھیں، اگر ہم نے آج فیصلہ نہ کیا، تو کل کا مورخ ہمارے خوابوں کی شکست اور مواقعے کے ضیاع کو ایک افسوسناک باب کے طور پر درج کرے گا۔پاکستان کو اب اتحاد، استحکام، ترقی اور خودمختاری کی راہ پر قدم بڑھانا ہوگا۔ وقت کم ہے، چیلنجز بڑے ہیں، لیکن قوم میں وہ صلاحیت موجود ہے جو پہاڑوں کو سر کر سکتی ہے۔ ہمیں صرف سمت کا تعین اور خلوص نیت کی ضرورت ہے۔