Daily Mumtaz:
2025-06-21@11:33:52 GMT

نسیم وکی نے اپنی اولاد کو شوبز سے کیوں دور رکھا؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

نسیم وکی نے اپنی اولاد کو شوبز سے کیوں دور رکھا؟

نامور کامیڈین اور تھیٹر آرٹسٹ نسیم وکی نے اپنے بچوں کو ٹی وی اسکرین سے دور رکھنے کی وجہ بتادی۔

ندیم وکی نے ایک پوڈکاسٹ گفتگو کے دوران فنکاروں کی سماجی حیثیت، شوبز انڈسٹری کے رویے اور اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے کھل کر اظہارِ خیال کیا۔

نسیم وکی نے کہا کہ وہ کئی دہائیوں سے کامیڈی، تھیٹر، ڈرامہ اور فلم کے شعبے سے وابستہ ہیں اور دنیا کے مختلف بڑے شہروں میں پرفارم کر چکے ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنی اولاد کو شوبز سے دُور رکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی بیٹی کو میڈیکل کے شعبے میں بھیجا ہے اور بیٹے کو بھی اعلیٰ تعلیم کی طرف راغب کیا ہے۔ میری بھرپور کوشش ہے کہ میرے بچے اس فیلڈ کا رخ نہ کریں۔

اپنے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے نسیم وکی نے کہا کہ اگرچہ شوبز نے انہیں شہرت دی، مگر وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ اس شعبے سے وابستہ افراد کو معاشرے میں وہ عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں فنکار کی عزت صرف اسٹیج تک محدود رہتی ہے، پسِ پردہ ان کے بارے میں نامناسب باتیں کی جاتی ہیں، جو دکھ دیتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، مگر یہاں اسٹارز کو اسٹار بننے ہی نہیں دیا جاتا۔جب بھی کوئی شخص نمایاں ہونے لگتا ہے، لوگ اُس کی ٹانگ کھینچنے لگتے ہیں۔ ہم دوسروں کو بلندی پر دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

نسیم وکی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ نعمان اعجاز جیسے بڑے اور باصلاحیت فنکار کو بھی آج تک وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حق دار ہیں۔ ہمارے ہاں حسد، مخالفت اور عدم پذیرائی کے رجحانات غالب ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی ’کپل شرما شو‘ جیسا کوئی کامیڈی پلیٹ فارم وجود میں نہ آ سکا۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نسیم وکی نے انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

اپنی خود کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں!

آفتا ب احمد خانزادہ

بونی وین(Bronnie Wane) ایک آسٹریلین نرس ہے جس نے کافی عرصہ ایک ایسے ہسپتال میں گزارا جہاں ان افراد کو رکھاجاتا تھاجو بوڑھے تھے۔ بیمار تھے بظاہر بول سکتے تھے سن سکتے تھے ہوش و حواس میں ہوتے تھے لیکن طبی اعتبار سے زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے ،ان کی دیکھ بھال کرتے ، ان سے گفتگو کرتے، ان سے ان کی گذشتہ زندگی کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے وہ ان ”مرتے ہوئے لوگوں” کے پچھتائووں سے واقف ہوئی جو انہوں نے اپنی کتاب The Top Five Regrets of the Dying میں تحریر کیے ہیں۔ Bronnie کے مطابق ان لوگوں کا پہلا اور سب سے بڑا پچھتاوا یہ تھاکہ انہوں نے اپنی زندگی اپنی خواہشات کے مطابق گذارنے کے بجائے دوسروں کی خواہشات کے مطابق گذارنے کی کوشش کی کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ اس طرز عمل کی وجہ سے ان کی زندگی کے بہت سے خواب ادھورے رہ گئے اگر ہم اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گذارتے تو یہ ہمارے لیے بہتر ہوتا۔ ان کادوسرا سب سے بڑا پچھتا وا یہ تھا کہ کاش ہم نے زندگی میں اتنی محنت نہ کی ہوتی ۔ اس محنت کی وجہ سے وہ بیوی اور بچوں اور والدین سے بہت دور چلے گئے اور آج ہمارے پاس ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ صبح و شام کام کی زیادتی نے ہمارے درمیان احساس اور قربت کا کوئی رشتہ قائم ہی نہیں ہونے دیا بس ہم کو ہلو کے بیل تھے۔ ان افراد کا تیسرا پچھتا وا یہ تھا کہ وہ کبھی بھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہ کرسکے ۔ اندر ہی اندر گھٹن کاشکار رہے۔ ”چپ”نے ان کو اندر ہی اندر بیمار کردیا۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے کھل کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہوتا تو ہمیں آج یوں پچھتا نا نہ پڑتا۔ چوتھا پچھتاوا دوسرے پچھتاوے سے ملتا جلتا ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے ہم اپنے پیارے اور مخلص دوستوں کو وقت نہ دے سکے اور ہمارے درمیان ہمیشہ کے لیے دوریاں پیداہوگئیں ۔اگر ہم نے دوستوں کو وقت دیا ہوتا تو آج اس مشکل وقت میں وہ ہمارے ساتھ ہوتے ۔ پانچویں اور آخری پچھتاوے کا تعلق اپنی ذاتی خوشی سے ہے۔ یہ لوگ اب سوچتے ہیں کہ ہم نے کبھی اپنے لیے خوشی تلاش کرنے کی کوشش ہی نہ کی ہمارے اندر اس مقصد کے لیے تبدیلی کی خواہش ہی پیدا نہ ہوسکی ۔ بس ایک لگی بندھی زندگی جی جس میں اپنی خوشی سے زیادہ دوسرں کی خواہشات پوری کرنے اور ان کو خوش کرنے کا عنصر نمایاں تھا۔ ہم نے صرف ان کی توقعات کو پورا کرنے کی کوشش کی اپنی خوشیوں کا ذرا بھی خیال نہ رکھا اور ہم زندگی کی حقیقی خوشیوں سے دور رہے Bronnie نے یہ پچھتاوے بیان کرنے کے بعد اپنے مشاہدات کا نچوڑ یوں بیان کیا ہے اب ہم نے کیا کرنا ہے ؟ ہم نے آئینے کے سامنے کھڑے ہونا ہے اورا س میں جس شخص کا چہرہ نظر آئے اس سے پوچھنا ہے ” کیوں تم نے بھی مرتے دم ایسے ہی پچھتا نا ہے کیا تم بھی مستقبل کی کسی نرس کی کسی ایسی ہی کتاب کاکوئی کردار بننا پسند کرتے ہو؟”وہ چہرہ یقیناکوئی نہ کوئی جواب ضرور دے گا۔
اگر آپ کو دوبارہ زندگی گذارنے اور اپنی ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کا موقع ملے تو آپ اپنی زندگی کیسے مختلف انداز میں گذاریں گے؟ اس بارے میں Viktor Frankl کہتا ہے ” ایسے جیو جیسے تم دوسری بار جی رہے ہو اور جیسے تم نے پہلی بار غلط کام کیا ہو ” Julia Cameron اپنی کتاب Vein of Gold میں لکھتا ہے ” ہمیں یہ یقین کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے کہ ہماری زندگی کو کسی نہ کسی طرح دوسروں کی توقعات کو پورا کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اطمینان کو اسی طرح پائیں گے جیسا کہ انہوں نے پایا ہے اپنے آپ سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ ہم کون ہیں، ہمیںدسروں سے پوچھنا سکھایا جاتاہے۔ ہم در حقیقت دوسروں کے اپنے بارے میں سننے کے لیے تربیت یافتہ ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں پرورش پاتے ہیں جیسا کہ ہمیں کسی اور نے بتا یا ہے جب ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہم نے ایک خواب دیکھا تھا جو چمک رہا تھا کیونکہ ہم یقین رکھتے تھے اور ہمارے آس پاس کے لوگ یقین رکھتے تھے کہ خواب ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ہوتے یا کم از کم ہوچکے ہوتے ، کچھ کرنے کی کوشش کرتے اگر۔ ۔۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہم واقع کون ہیں ”۔
اپنی مرضی کے خلاف اور دوسروں کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے سے زیادہ اذیت ناک کوئی اور چیز نہیں ہے۔ ہر سماج کا یہ ننگا سچ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی جی رہے ہیں۔ دوسروں کی سو چ سوچ رہے ہیں وہ ہمیں توکچھ اور، لیکن نظرآرہے ہیں کچھ اور ۔ دوسروں کی سنئیے ضرور ،لیکن مانئیے صرف اپنے آپ کی ۔ اپنے آپ کو عزت دیجیے اپنے آپ پر بھروسہ کیجیے اپنے آپ سے محبت کیجیے کیونکہ آپ اپنے آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں ۔ کبھی غلط رائے نہیں دے سکتے۔ خوشی کا سارا تعلق انسان کے اندر سے ہے یہ انسان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ آپ کو اپنی زندگی صرف ایک بار جینے کے لیے ملی ہے ۔ اسے دوسروں کی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ اپنی خود کی مرضی کے مطابق جئیں ۔ یاد رکھیں آخر میں صرف آپ ہی اپنے آپ کے پاس ہوں گے۔ اس لیے اپنے آپ کو ناراض مت کیجیے ۔ اپنے اندر کسی اور کو داخل مت ہونے دیجیے۔ آپ اکلوتے اپنے آپ کے مالک ہیں ۔اس لیے مالک بنئیے کرایہ دارنہیں ۔ کیونکہ کرائے دار کبھی بھی نکالے جاسکتے ہیں ۔Anatole Franceکہتا ہے ” جب راستے پر پھول پڑے ہوں تو یہ پوچھنے کی حاجت نہیں کہ وہ کدھر جاتا ہے ؟ میں تمہیں یہ مشورہ اعلیٰ دانشمندی کے موافق اور دانشمندی کے خلاف دے رہاہوں ۔ انسان کے سب مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں۔ میں نے اپنا خود راستہ ہر ایک سے پوچھا ۔ پادری سے ، عالم لوگوں سے، لفظوں کا جادو جگانے والے فلسفیوں سے جو نا معلوم کے جغرافیہ کو جاننے کے دعوے دار ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی مجھے ٹھیک راستہ نہیں بتا سکا۔ اب میں نے جس راستے کو اپنے لیے پسند کیا ہے ،اس میں مسکراتے ہوئے آسمان کے تلے گھنے درخت ہیں جس کا جذبہ مجھے اس راستے پر کشاں کشاں لیے جارہا ہے۔ بھلا حسن سے بہتر رہبر کون مل سکتا ہے ؟

متعلقہ مضامین

  • اپنی خود کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں!
  • سندھ حکومت نے بھی کے فور منصوبے کیلیے عملاً کچھ نہیں رکھا،محمد فاروق
  • ’میں کچھ بھی کرلوں مجھے نوبیل انعام نہیں ملے گا‘، ٹرمپ اس قدر مایوس کیوں؟
  • بلاول بھٹو نے پاکستان کا موقف بھرپور طریقے سے دنیا کے سامنے رکھا، شازیہ مری
  • راشد نسیم جامع مسجد فردوس میں آج خطبہ جمعہ دیں گے
  • حمزہ علی عباسی نے شوبز چھوڑنے سے متعلق بیان پر وضاحت پیش کردی
  • بھائیوں کی طرح مل جل کر رہیں، شیعہ اور سنی کے اختلافات کی باتوں سے کیوں دشمن کو فائدہ پہنچاتے ہیں، آیت اللہ خامنہ ای
  • حمزہ علی عباسی کا 2014 میں پی ٹی آئی لانگ مارچ کے حوالے سے بڑا انکشاف
  • ہانیہ عامر کو شوبز میں کس نے متعارف کروایا؟ اداکارہ کا اہم بیان سامنے آگیا