اسلام آباد:

اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی بجٹ 26-2025 میں وزارتوں اور ڈویژنوں کے بجٹ پرکٹ لگانے کی سفارش کردی اور اس حوالے سے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں سیکڑوں تحاریک جمع کرادی گئی ہیں۔

اپوزیشن نے 8 وزارتوں اور ڈویژنوں کے بجٹ پر کٹ لگانے کی تحاریک جمع کرائی ہیں اور اب تک مجموعی طور پر 835کٹوتی کی تحاریک قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرادی گئی ہیں۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں اپوزیشن نے سب سے زیادہ کٹوتی کی تحاریک توانائی ڈویژن کے لیے جمع کرائی ہیں، توانائی ڈویژن کے بجٹ میں کٹوتی کی 202تحاریک قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کی گئی ہیں۔

اسی طرح دفاع پر 22، کابینہ ڈویژن بجٹ پر 112، داخلہ ڈویژن پر 168، انسانی حقوق کے بجٹ میں 104، کامرس ڈویژن بجٹ میں کٹوتی کی 69، اور خزانہ ڈویژن کے بجٹ میں کٹوتی کے لیے 60 تحاریک آگئی ہیں۔

اپوزیشن نے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے بجٹ میں کٹوتی کی 98 تحاریک جمع کرا دی ہیں اور اپوزیشن کی جانب سے وزارتوں اور ڈویژنوں کے مطالبات زر کی منظوری کے دوران کٹوتی کی تحاریک پیش کی جائیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: وزارتوں اور ڈویژنوں کے بجٹ میں کٹوتی قومی اسمبلی کے بجٹ میں کی تحاریک کٹوتی کی

پڑھیں:

ماحولیاتی بجٹ میں کٹوتی اور گرین ٹیکنالوجی پر ٹیکس: کیا پاکستان ماحول دوست ترقی سے منہ موڑ رہا ہے؟

پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات کا سامنا کر رہا ہے، گرمی کی شدید لہر، سیلاب، اور فصلوں کی پیداوار میں کمی جیسے مسائل ملک کی زراعت اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختلف پالیسیاں متعارف کرائی ہیں، لیکن بجٹ میں ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں کمی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافے جیسے اقدامات ان پالیسیوں کی افادیت پر سوالیہ نشان ہیں۔

حالیہ بجٹ میں ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں 24 فیصد کی کمی کی گئی ہے، جو کہ ماحولیاتی تحفظ کے ضمن میں تشویش کا باعث ہے، یہ کمی اس وقت کی گئی ہے جب ملک ہیٹ ویوز اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا کر رہا ہے، جو زراعت اور عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے بجٹ 26-2025 میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے مختص فنڈز 3.5 ارب روپے سے 2.7 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے میں رواں مالی سال کے دوران 13 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو نہ صرف معیشت کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ خوراک، کسانوں کی آمدن اور دیہی معیشت کے لیے بھی تشویشناک اشارہ ہے۔

ماہرین کی جانب سے یہ کمی بنیادی طور پر فصلوں کی پیداوار میں کمی، موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی قلت، کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں اضافے، اور حکومتی عدم توجہی کا نتیجہ قرار دی جا رہی ہے۔

 

ماہرین کے مطابق اگر زرعی شعبے کو فوری سہارا نہ دیا گیا تو پاکستان کی خوراک میں خود کفالت مزید متاثر ہوگی۔

تونسہ سے تعلق رکھنے والے کاشتکار حافظ محمد حسین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اس مرتبہ اپنی 40 ایکڑ اراضی پر گندم کاشت نہیں کی کیونکہ گندم کی قیمت میں کمی کی وجہ سے کسانوں کو گزشتہ ایک برس میں شدید مالی نقصان ہوا ہے۔

حافظ محمد حسین کے مطابق گندم کی کاشت کے لیے درکار تمام لوازمات انتہائی مہنگے ہو چکے ہیں، جس میں کھاد، بیج، اسپرے، ڈیزل، ٹریکٹر وغیرہ شامل ہے۔ ’کسان اپنی فصل پر جو پیسہ خرچ کرتا ہے، حکومت نے کسان کو اس کا پورا معاوضہ نہیں دیا، اور اب کی بار  گندم کی قیمت میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے معاشی طور پر تباہ کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ رواں برس کسانوں نے بہت کم گندم کاشت کی، یہی وجہ ہے کہ اس بار گندم کی پیداوار کا ہدف 65 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔

’محکمہ زراعت اور محکمہ آبپاشی گندم کاشت کرنے میں بہت زیادہ ناکام ہوا ہے، کسان کو اب نہ صرف ان پر بلکہ حکومت پر بھی اعتماد نہیں رہا کہ وہ گندم، چنا،گنا یا کپاس کاشت کریں تو انہیں فائدہ ہوگا۔‘

حافظ محمد حسین کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر کسان کاشتکاری کے بجائے اب جانوروں کی پرورش یا پھر سبزیوں کی کاشت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، کیونکہ چاول، گنا، چنا کاشت کر نے کا ان کو فائدہ نہیں ہے کیونکہ انہیں ان اجناس کی مناسب قیمت ہی نہیں ملتی۔

پاکستان کی زراعت ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہی ہے، 2024 میں گرمی کی لہروں اور غیر متوقع بارشوں نے فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا، جس سے کسانوں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا، ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو زراعت کے شعبے میں مؤثر پالیسیاں متعارف کرانا ہوں گی۔

ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہر زراعت ڈاکٹر محمد اشفاق نے اس حوالے سے بتایا کہ زراعت کے شعبے میں 13 فیصد کمی صرف موسمیاتی، مہنگائی یا تکنیکی وجوہات کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ درحقیقت پالیسی کی ناکامی کی ایک علامت ہے۔

’گندم جیسی اسٹریٹیجک فصل میں تقریباً 9 فیصد کمی اس وقت ایک سنگین مسئلہ بن گئی جب کسانوں کو نہ صرف ان کی فصل کی مناسب قیمت نہیں ملی، بلکہ سرکاری خریداری کا عمل بھی متنازع ہو گیا۔‘

ڈاکٹر محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ اس سال کسان گندم لے کر گوداموں کے باہر لائنوں میں کھڑے رہے، لیکن یا تو باربرداری کے بہانے سے انہیں روکا گیا یا پھر درآمد شدہ گندم کی موجودگی کو جواز بنا کر ان کی فصل نہیں خریدی گئی، یہ صرف ناانصافی نہیں، بلکہ کسانوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا عمل ہے۔

’جب کسان کو اس کی محنت کا صلہ نہ ملے، تو وہ آئندہ سال گندم اگانے سے گریز کرے گا، نتیجتاً، ہم غذائی تحفظ کے ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو زرعی شعبہ محض بجٹ یا سروے اور تحقیقی رپورٹوں تک محدود رہ جائے گا۔‘

واضح رہے کہ کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد، مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد ، گنے میں 3.9 فیصد، چاول میں 1.4 فیصد اور گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر محمد اشفاق کے مطابق حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں اور بجٹ میں مختص فنڈز میں ہم آہنگی کی کمی ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص فنڈز میں کمی اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ سے حکومت کی ماحولیاتی پالیسیوں کی مؤثریت پر سوالیہ نشان ہے۔

’حکومت کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی شعبے کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ کرے اور ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کرے تاکہ عوام کو ماحولیاتی تحفظ کے لیے ترغیب دی جا سکے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ 26-2025 میں ہائبرڈ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز شامل کی گئی تھی۔ اس تجویز کے مطابق ہائبرڈ گاڑیوں پر جو پہلے 8.5 فیصد جنرل سیلز ٹیکس  کے تحت تھیں، ان پر یکساں طور پر 18 فیصد ٹیکس عائد کرتے ہوئے کہا گیا یے کہ اس اقدام کا مقصد پیٹرول، ڈیزل، ہائبرڈ اور الیکٹرک تمام اقسام پر ٹیکس میں یکسانیت برقرار رکھنا ہے۔

موسمیاتی امور کے ماہر محمد عثمان علی نے اس حوالے سے بتایا کہ ہائبرڈ گاڑیوں پر 18 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز موسمیاتی تغیرات سے نمٹنے کی قومی حکمت عملی کے بالکل منافی ہے، پاکستان پہلے ہی دنیا کے اُن 10 ممالک میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، چاہے وہ گلیشیئرز کا پگھلنا ہو، شدید گرمی کی لہر ہو یا غیر متوقع بارشیں اور سیلاب۔

’ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی حکومتیں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کو ٹیکس مراعات دے رہی ہیں، پاکستان میں ان پر مزید ٹیکس عائد کرنا نہ صرف ماحولیاتی پالیسی کی ناکامی ہے بلکہ مستقبل کے لیے خطرناک رجحان بھی ہے۔‘

محمد عثمان کے مطابق یہ ہائبرڈ گاڑیاں نہ صرف ایندھن کی بچت کرتی ہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں بھی نمایاں کمی لاتی ہیں، موسمیاتی بحران کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ہمیں ایسی پالیسیاں اپنانی ہوں گی جو صاف توانائی اور پائیدار ذرائع آمد و رفت کی حوصلہ افزائی کریں، نہ کہ اُن پر مالی بوجھ ڈال کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔

’ویسے بجٹ کے بعد حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی، کیونکہ بجٹ میں حکومت نے ہائبرڈ گاڑیوں پر اچھا خاصا ٹیکس لگایا، دوسری جانب کلائمیٹ فنڈز پر کٹوتی کی گئی اور پھر حکومت کہتی ہے کہ وہ ماحولیاتی دوست اقدامات کرنا چاہتی ہے، حکومت کیا کرنا چاہتی ہے، شاید وہ یہ بات خود بھی نہیں جانتی۔‘

سابق وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی، ملک امین اسلم نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بجٹ میں کٹوتیاں نہ صرف تحقیق اور ڈیٹا پر مبنی ترجیحات کو متاثر کریں گی بلکہ ماحولیاتی لچک کے لیے دستیاب فنڈز پر عملدرآمد یعنی ’پروجیکٹائزیشن‘ بھی متاثر ہو گی۔

واضح رہے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سالانہ تقریباً 400 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

محمد توحید ماہر شہری منصوبہ بندی و جغرافیہ دان نے بتایا کہ 2025 کے وفاقی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے فنڈز میں 24 فیصد کمی سے پاکستان جیسے ماحولیاتی خطرات سے دوچار ملک کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

’اس کمی کے نتیجے میں ہیٹ ویوز، سیلاب، پانی کی قلت، گرین کور میں کمی اور زرعی بحران جیسے مسائل مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں، خاص طور پر غریب اور پسماندہ طبقات کے لیے۔ شجرکاری، واٹر مینجمنٹ، کلائمیٹ اسمارٹ زراعت اور فلڈ ریزیلینٹ انفراسٹرکچر جیسے اہم منصوبے متاثر ہوں گے۔‘

ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال میں پاکستان کے بین الاقوامی وعدے بھی خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں کیونکہ فنڈز کی کمی حکومتی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ کی تنزلی کا اشارہ دیتی ہے، جو نجی اور غیر سرکاری شعبے کی دلچسپی کو بھی کم کر سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد چاول چنا حافظ محمد حسین کسان گنا گندم ماحولیاتی آلودگی محمد توحید محمد عثمان ہائبرڈ گاڑیاں

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان اسمبلی: بجٹ پر بحث جاری، نظر انداز کیے جانے پر اپوزیشن اراکین کا واک آؤٹ
  • وفاق کی وزارتوں اور ڈویژنز کے بجٹ پر کٹ لگایا جائے، اپوزیشن جماعتوں کی سفارشات
  • وفاقی بجٹ،اپوزیشن نے سینکڑوں کٹوتی کی تحاریک جمع کروا دیں ، کن وزارتوں کے بجٹ پر کٹ لگانے کی سفارش کی گئی ، تفصیلات سب نیوز پر
  • اپوزیشن کا ملک محمد احمد خان پر مائیک توڑنے کا الزام، اسپیکر کا اظہارِ برہمی
  • معذوروں کی مراعات میں کٹوتی کے منصوبے پر لیبر پارٹی کی رکن وکی فاکسکرافٹ وہِپ کے عہدے سے مستعفی
  • پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن پر بڑی پابندی عائد، پی ٹی آئی نے مسترد کر دی
  • ماحولیاتی بجٹ میں کٹوتی اور گرین ٹیکنالوجی پر ٹیکس: کیا پاکستان ماحول دوست ترقی سے منہ موڑ رہا ہے؟
  • پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں گرما گرمی، ’گھڑی چور‘ کے نعرے
  • ’پاکستان کو دیوار سے لگانے والے مودی خود ناکام ہوگئے‘، انڈین نیشنل کانگریس نے خصوصی ویڈیو جاری کردی