data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یہ عجیب تبدیلی آئی ہے کہ آج جب بھی کوئی آواز اُٹھائے کہ ووٹ کو عزت دو، تو جواب میں نواز شریف بالکل خاموش، جب بھی کوئی یہ بات اٹھائے کہ سویلین بالادستی تو پھر بھی نواز شریف خاموش، کارگل میں کیا ہوا تھا؟ ابھی ماضی قریب کی بات ہے کہ نواز شریف پرویز مشرف کو برطرف کرکے مقدمہ بھی چلانا چاہتے تھے۔ پرویز مشرف پر آرٹیکل سکس کا مقدمہ بھی چلا مگر ایک روز کیا ہوا؟ کہ کوئی انہیں عدالت میں لاتے لاتے اسپتال لے گیا اور جج عدالت میں بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ تب عدالت کو ٹی وی چینل کے ٹکرز سے پتا چلا کہ پرویز مشرف ’’ملزم‘‘ راستے ہی میں رُخ موڑ کر اسپتال پہنچا دیے گئے ہیں۔ عدالت نے کچھ وقت تک انتظار کیا اور پھر سماعت ملتوی ہوگئی۔ اب بھی فیلڈ مارشل کی امریکی صدر سے ملاقات ہوئی ہے تو ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ نواز شریف کے نعرے، دعوے اب کہیں نظر نہیں آرہے۔
بہت پرانی بات ہے راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کو اپنی سیاست کے لیے سعود ساحر جیسے دماغوں کی ضرور ہوا کرتی تھی، دائیں بازو کے یہ صحافی بھی شیخ رشید احمد کے لیے لڑتے مرتے تڑپتے تھے۔ 2002 کے انتخابات کے بعد جب شیخ رشید احمد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنائے گئے تو قبلہ سعود ساحر کے ساتھ ان کے چیمبر میں گیا کہ وزیر اطلاعات سے ملاقات کی جائے۔ یہ ملاقات ایسی تھی کہ دروازے سے نکلتے ہی قبلہ شاہ جی نے کہا میاں صاحب! اب شیخ رشید کو ہماری ضرورت نہیں رہی۔ قبلہ شاہ جی کی بات سو فی صد درست تھی اس لیے کہ اب شیخ رشید مسلم لیگ(ن) کی گردن پر پائوں رکھ کر چاند کے انتخابی نشان پر اسمبلی میں پہنچے تھے۔
2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے کل 70 امیدوار تھے جو چاند کے انتخابی نشان پر قومی اسمبلی میںپہنچے۔ اس وقت بھی راولپنڈی میں ایک عجیب سماں تھا۔ شیخ رشید احمد نے پوری انتخابی مہم میں دو نام تاڑ رکھے تھے ایک نام تھا بگا اور دوسرا تھا گنگو تیلی۔ یہ کون تھے؟ اور راولپنڈی مسلم لیگ(ن) ہر ایک راہنماء سے سوال ہے کہ 2002 اس وقت مسلم لیگ(ن) کے ہم خیال صحافیوں میں کون شیر کے ساتھ اور کون چاند کے ساتھ کھڑا تھا؟ یہ انتخابی مہم بہت نرالی تھی۔ جو امیدوار میدان میں تھے ان میں چاند والوں کو اپنی کامیابی کا یقین تھا۔ جب انتخابات میں کامیابی کا یقین کوئی اور دلائے تو پھر کوئی پاگل ہی ہوگا جو سویلین بالدستی کی بات کرے گا اور نعرہ لگائے گا۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اس وقت شیخ رشید احمد نے اپنی مرضی کی وزارت لی اور اس وقت تک وزارت کے مزے لیے جب اقتدار کی مدت نصف ہوچکی تھی بعد میں شیخ رشید احمد کو میر ظفر اللہ جمالی کی جگہ وزیر اعظم شوکت عزیز سے واسطہ پڑا اور انہیں محمد علی درانی کی دوستی میسر آگئی حالانکہ شیخ رشید احمد نے پرویز مشرف کے دفاع میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی مگر ایوان وزیر اعظم میں جب محمد علی درانی کی انٹری ہوئی تو تبدیلی آگئی۔ بس یہیں سے شیخ رشید احمد وزارت اطلاعات سے نکلے تو وزارت ریلوے میں آگئے۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ اب اخبارات میں ان کی ہر روز فرنٹ پیج پر کہاں تصویر چھپے گی؟ لیکن شیخ رشید احمد جنہیں دائیں بازو کے صحافیوں نے گر سکھائے ہوئے تھے انہوں نے پلٹا کھایا اور راولپنڈی سے ایک نئی ٹرین کا اعلان کیا اور افتتاح بھی بیگم زرین مشرف، پرویز مشرف کی والدہ کے ہاتھوں کرایا، یوں حکومت میں ایک گیم شروع ہوئی۔ ایک جانب شیخ رشید احمد جو پرویز مشرف کے قریب رہنے کی تگ و دو اور دوسری جانب وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کے وزیر اطلاعات، محمد علی درانی لیکن ان دونوں میں سے کسی نے نعرہ نہیں لگایا کہ ووٹ کو عزت دو یا دونوں میں سے کسی نے سویلین بالادستی کے فارمولے نہیں اپنائے۔ آج بھی شیخ رشید کسی اچھے وقت کے انتظار میں ہیں لیکن مشکل میں ہیں کہ سویلین بالادستی کی طرف جھکیں یا اڈیالہ میں پابند سلاسل عمران خان کو خوش رکھیں۔ بہر حال وہ خاموش رہ کر بہت کچھ حاصل کر رہے ہیں کہ بقول اکبر الہ آبادی
مے بھی ہوٹل میں پیو، چندہ بھی دو مسجد میں
شیخ بھی خوش رہیں، شیطان بھی ناراض نہ ہو
چلیے یہ تو شیخ رشید ہیں جیسے تیسے گزارا کر ہی لیں گے۔ کر بھی رہے ہیں مگر یہ ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی کے نعرے اور دعوے کہاں جائیں گے؟ پرویز مشرف کو تو برطرف کردیا تھا آرٹیکل سکس کا مقدمہ بھی بنا دیا لیکن واشنگٹن میں جو اہم ترین ملاقات ہوئی ہے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور صدر ٹرمپ ملے ہیں۔ ظہرانہ دیا گیا ہے۔ فیلڈ مارشل کی تعریفیں کی گئی ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کہاں ہیں؟ عوام کے منتخب نمائندے، آئین پاکستان تو یہی کہتا ہے کہ اس ملک کا نظام عوام چلائیں گے اور اس کے لیے ووٹ کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے یہی منتخب نمائندے فیصلہ کریں گے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ قومی اسمبلی میں اور سینیٹ میں اس وقت بحث ہورہی ہے‘ موضوع ہے بجٹ… سب مست ہیں۔ ترقیاتی اسکیموں میں خوش ہیں، گلیاں بن رہی ہیں، حلقے میں پیسہ ملے گا نالیاں بنیں گی۔ کہیں اسکول بھی بن جائیں گے، اسپتال بھی ہوسکتا ہے کہ مرمت ہو ہی جائیں مگر صدر ٹرمپ جو اس وقت جمہوریت کی مرمت کر رہا ہے اس کا حساب کتاب کون لے گا؟ کیا نواز شریف حساب لیں گے؟ شہباز شریف حساب لیں گے؟ کس پارلیمانی پارٹی میں اتنی جان ہے اور ہمت ہے کہ وہ اٹھے اور پوچھے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ ٹرمپ صاحب کیوں جمہوریت کی کمر دوہری کر رہے ہیں۔ دنیا کے سیاسی نقشے پر اب جمہوریت ہے کہاں؟ شام میں وہ حکمران ہیں جن کے سروں کی قیمت امریکا نے لگائی ہوئی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں بحث جاری ہے کہ کب اور کون سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟ پوری مسلم دنیا ایک جانب کنارے پر کھڑی ایران اسرائیل جنگ دیکھ رہی ہے اور انتظار کس بات کا ہے؟ اس سوال کا جواب مسلم دنیا سے ہی پوچھ لیا جائے تو بہتر ہوگا سات اکتوبر کے بعد مشرق وسطیٰ کے لیے جو نقشہ سوچا گیا ہے۔ اس کا جواب کسی کے پاس ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ بھی منتظر ہوں کہ یہ خطہ بنائے گئے نئے قواعد کے مطابق کب اپنی اصلی حالت میں پہنچے گا۔ مگر ہمیں تو اس سب کے باوجود ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی کے دعویداروں کے منہ سے جواب چاہیے کہ اب ان کی پٹاری میں نئے نعرے کون سے ہیں؟ ہوسکتا ہے نواز شریف اور شہباز شریف اب بھی کسی تبدیلی کے منتظر ہوں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ووٹ کو عزت دو پرویز مشرف نواز شریف کے لیے
پڑھیں:
سرفراز احمد کا قومی ٹیم میں شامل نوجوان کھلاڑیوں سے متعلق بڑا بیان!
سابق ٹیسٹ کپتان سرفراز احمد نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں نئے اور نوجوان کھلاڑیوں کی شمولیت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے بہتر مستقبل کے لیے امیدیں باندھ لیں۔
نیا ناظم آباد میں معرکہ حق جشن آزادی کی تقریبات کے حوالے سے کرکٹ ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ ابھرتے ہوئے باصلاحیت کھلاڑیوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں مواقع ملنا مثبت اور اچھا عمل ہے۔ امید ہے کہ ایشیاء کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی کنڈیشنز پاکستان کے لیے ہمیشہ بہت سازگار اور سود مند رہی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ وہاں کی وکٹوں پر بہترین کھیل پیش کیا ہے۔
معرکہ حق اور جشن آزادی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئےسابق کپتان سرفراز احمد نے پوری قوم کو مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ معرکہ حق کی صورت میں پاکستان کو عزت ملی،اس پر جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے۔ ملک کی سالمیت اور دفاع کے لیے پاک فوج نے بہت قربانیاں پیش کیں۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، پوری قوم جشن آزادی شایان شان طریقے سے منائے گی۔