NTUFکے زیر اہتمام احمد حفیظ جمال کی یاد میں تعزیتی ریفرنس
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقلابی مزدور رہنما احمد حفیظ جمال کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کراچی پریس کلب میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان NTUF کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا۔
احمد حفیظ جمال کا انتقال 21 اکتوبر 2025 کو کراچی میں ہوا وہ 1925 کو انڈیا کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے انٹر تک تعلیم بریلی شہر سے حاصل کی تھی،
قبل از تقسیم 1945 میں کلکتہ شہر سے عملی زندگی کا آغاز کیا یہ وہ وقت تھا جب دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ جدوجہد کررہی تھیں، اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا قیام بھی عمل میں آچکا تھا، اس پس منظر میں احمد حفیظ جمال نے نوجوانی میں قدم رکھا تھا اور محنت کش و مظلوم طبقے کی حکمرانی کا خواب لیے عملی جدوجہد کا حصہ بنے اور قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے، کچھ عرصہ رحیم یار خان میں محنت کشوں کے ساتھ کام کیا وہاں شوگر ملز اور یونی لیور کمپنی میں یونین سازی میں اہم کردار ادا کیا، 1970 سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک بار پھر کراچی میں سیاسی کام کا آغاز کیا اور عمر کے آخری حصے تکفعال سیاسی کردار ادا کرتے رہے۔
کامریڈ احمد حفیظ کے تعزیتی ریفرنس کے موقع پر مقررین نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حفیظ جمال نے تمام زندگی ایک فعال سیاسی کارکن کے طورپر گزاری۔ انہوں نے محنت کش عوام کی سیاسی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا اور عملی طور پر محکوم و مظلوم طبقات کے حقوقِ کے لیے ان کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتے رہے، ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
تقریب سے بزرگ مزدور رہنما منظور رضی، عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر اختر حسین ایڈوکیٹ، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور, عوامی آواز کے چیف ایڈیٹر جبار خٹک، سینئر صحافی توصیف احمد خانزادہ، صدر ہوم بیسڈ ورکرز وومن فیڈریشن سائرہ خان، کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر طاہر حسن خان، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین قاضی خضر حیات، حفیظ جمال کے صاحبزادگان رشید جمال، وسیم جمال اور سماجی رہنما و معروف وکیل شوکت حیات اور قادر اعظم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر اختر حسین ایڈووکیٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حفیظ جمال بھائی نے ساری زندگی جدوجہد میں گزاری وہ ایک کمیٹیڈ مارکسسٹ تھے، میں نے زمانہ طالب علمی سے NSF میں شمولیت اختیار کرلی تھی، 1970 میں حفیظ جمال بھائی سے ہماری پہلی ملاقات کراچی میں ہوئی اور پھر زندگی کے آخری وقت تک ان سے تعلق رہا اس پورے عرصہ میں نیشنل عوامی پارٹی سے لے کر عوامی ورکرز پارٹی تک مختلف پارٹیوں کی تشکیل اور جدوجہد میں وہ ہمارے ساتھی تھے، دوستوں نے یہاں کہا کہ وہ بہت نرم مزاج تھے لیکن پارٹی کے اندر وہ ایک بالکل مختلف شخصیت تھے، جس بات کو وہ صحیح نہیں سمجھتے تھے، یا پارٹی میں کوئی غلطی ہو یا پارٹی میں تنقید کے معاملہ میں بہت سخت تھے اور اپنا موقف بہت صاف اور واضح انداز میں پیش کرتے تھے، چاہے اس سے کسی کو بھی اختلاف ہو اور یہ حقیقت ہے کہ پارٹی کی تعمیر اس کے بغیر ممکن بھی نہیں ہوسکتی، اور یہ حفظ جمال کی بہت بڑی کوالٹی تھی۔
بزرگ مزدور رہنما اور مرکزی چیئرمین ریلوے ورکرز فیڈریشن منظور رضی نے کہا کہ حفیظ جمال بہت عظیم انسان تھے، بہت پڑھے لکھے اور سادہ طبیعت انسان تھے، وہ ہمیشہ مجھے یہی ایڈوائس دیتے تھے کہ تم نے مرزا ابراہیم کا ساتھ دینا ہے انہیں نہیں چھوڑنا، اور پھر میں ان کے ساتھ آخری وقت تک رہا، ایک بات جو ان میں نمایاں تھی وہ اپنی بات کسی کے سامنے بھی کرنے سے نہیں گھبراتے تھے، جس زمانہ میں طفیل عباس صاحب کے آگے کوئی بات نہیں کرسکتا تھا، حفظ جمال نے میرے سامنے ان کے ساتھ کئی مرتبہ کھل کر اختلاف کیا، میں نے پہلی بار کسی کو ان سے سخت لہجے میں بات کرتے ہوئے دیکھا تھا، ایسا اس زمانہ میں کرنا بہت مشکل کام تھا۔
عوامی آواز کے چیف ایڈیٹر جبار خٹک نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1973 کا سال تھا پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی، بنگلہ دیش بن چکا تھا، نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی حکومت ختم کردی گئی تھی، میں اور دیگر ساتھی گرفتار کر لیے گئے، بعدازاں ہمیں سینٹرل جیل کراچی بھیج دیا گیا وہاں پہلے سے معراج محمد خان، لعل بخش رند اور عثمان بلوچ موجود تھے، وہاں مجھے ایک انجان چہرا نظر آیا، چہرے پر بڑی مونچھیں اور دراز بال، بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ احمد حفیظ جمال ہیں، ان کے ساتھ جیل میں بہت یادگار وقت گزرا، مجھے حفیظ جمال کے ساتھ انسیت ہوگئی وہ انتہائی پڑھے لکھے، قابل اور عالم شخصیت تھے، کتابیں پڑھنے کا انہیں بہت شوق تھا، لکھتے بھی تھے ساتھ ہی انہیں شعر و شاعری سے بھی رغبت تھی، احمد حفیظ جمال کو چونکہ سندھی زبان سے واقفیت تھی وہاں وہ ایک اسیر ساتھی سے ایک سندھی نظم بہت سنتے تھے، جس کے آخری اشعار مجھے آج بھی یاد ہیں جس کا مفہوم سامراج کی غلامی سے آزادی کا تھا، میں نے اسیری کے درمیان حفیظ جمال کو کبھی پریشان نہیں دیکھا، وہ بہت اچھی کافی بناتے تھے، جیل سے رہائی کے بعد بھی ہمارا رابطہ رہا، حفیظ جمال جیسے اپنے نظریات سے کمیٹیڈ لوگ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ماضی میں بائیں بازوں کے حوالے سے سرگرم رکن اور سینئر وکیل شوکت حیات ایڈوکیٹ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم حفیظ جمال کی یاد کے لیے جمع ہوئے ہیں، حفیظ جمال نے سو سال سے زائد عمر پائی وہ ایک صدی کی چلتی پھرتی تاریخ تھے، دوسری جنگ عظیم کا زمانہ ان کی نوجوانی کا دور تھا، انہوں نے نوجوانی میں قدم رکھا تھا اور اسی دور میں انہوں نے کلکتہ میں مارکسسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی، انگریز سامراج سے آزادی کی جدوجہد کا وہ حصہ رہے، پاکستان بننے کے بعد پہلے وہ کراچی آگئے، پھر کچھ عرصہ بعد رحیم یار خان چلے گئے اور وہاں جدوجہد شروع کی۔1971-72 میں پھر کراچی آگئے، وہ کبھی بھی پلاٹ و پرمٹ کی سیاست کا حصہ نہیں بنے، 1968 اور 1972 کی تحریکوں میں انہوں نے عملی کردار ادا کیا اور گرفتار ہوئے، اسیر رہے، اور شہر بدری کا سامنا بھی کیا، اس دور میں کراچی میں حسن عسکری، سبط حسن سمیت کئی شخصیات تھیں اور ٹریڈ یونین، طلبہ، نوجوانوں میں کام ہو رہا تھا، اس دوران ہی میرا پہلا رابط حفیظ جمال سے ہوا، وہ ہمارے سینئر تھے، وہ محنت کشوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے تھے، اس وقت ان کی گرو مندر پر ٹی وی (مکینک) کی دوکان ہوتی تھی جو ان کا ذریعہ روزگار تھا، لیکن وہ جگہ سیاسی رابطے کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی کیونکہ پاکستان بننے کے فوری بعد کمیونسٹ پارٹی سمیت تمام بائیں بازو کی تنظیموں پر پابندی لگ چکی تھی اور وہ انڈر گراؤنڈ کام کرتی تھیں، البتہ 1970 کے بعد کچھ سیاسی اسپیس ملنا شروع ہوا تھا، حفیظ جمال نہایت ہنس مکھ تھے ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، نہایت نرم گفتار تھے، وہ ہمارے سینئر تھے، ہم ان سے رہنمائی لیتے تھے کیونکہ وہ تجربہ میں، علم میں ہم سے آگے تھے، ہم ان کی رہنمائی میں کراچی میں سرگرمیاں کرتے رہے، وہ اسٹڈی سرکل بھی چلاتے تھے، ان کے اسٹڈی سرکل کا وسیع سلسلہ تھا، مجھے یاد ہے وہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب بالخصوص رحیم یار خان جاتے تھے، جہاں ان کے بہت سے شاگرد تھے، وہ وہاں اسٹڈی سرکل کرتے تھے، ہم ان سے ہندوستان کی تاریخ اور تقسیم سے قبل تحریکوں کے بارے میں پوچھتے تھے کہ وہ کس طرح جدوجہد کرتی تھیں، مجھے یاد ہے ہم نے قصور اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی کانفرس کی تھیں جس میں مولانا بھاشانی بھی شریک ہوئے تھے، اس زمانہ میں ہم نے بہت ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں کیں، کراچی میں یکم مئی کو تمام تنظیمیں جلسہ اور جلوس کرتی تھیں، کراچی شہر اس روز بائیں بازو کے شہر کا منظر پیش کرتا تھا، حفیظ جمال کی جدوجہد ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آئندہ آنے والوں کے لیے بھی ان کی زندگی مشعل راہ ہے، میں انہیں سلوٹ پیش کرتا ہوں، سلام عقیدت پیش کرتا ہوں، جیسا ان کی فیملی نے دکھ محسوس کیا وہیں ہم نے بھی دکھ محسوس کیا ہے، ان کے جانے کے بعد ان کی بہت کمی محسوس کی ہے، یہ شمع جلتی رہنی چاہیے، یہ قافلہ چلتے رہنا چاہیے، چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی، جدوجہد جاری رہے۔
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن، پاکستان کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور نے کہا کہ ہمارے یہ ہیروز ہیں، ہمیں انہیں یاد رکھنا چاہیے، لیکن یہ روایت کمزور ہوتی جارہی ہے، ہمیں اس کو زندہ رکھنا چاہیے، کامریڈ حفیظ جمال سے میں تقریباً 40 سال قبل ملا تھا جب ان کی گرو مندر پر دوکان تھی، وہاں سیاسی بیٹھک ہوتی تھی، ہمارے استاد حسن عسکری کے ساتھ میری پہلی ملاقات ان سے یہاں ہی ہوئی، پھر یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا، حفیظ جمال نے مجھے اس دوران کافی کتابیں پڑھنے کو دیں، میں سندھی اسپیکنگ نہیں تھا لیکن حفیظ جمال جیسے دوستوں نے ہمیں یہ بات سمجھائی کہ زمین کے ساتھ کیسے جڑا جاتا ہے، حفیظ جمال کو سامراج کے خلاف ایک شدید نفرت، اپنے انقلابی نظریات، اپنی دھرتی، اپنے لوگوں سے محبت، لوگوں کے ساتھ جڑت، سے انہیں ایمان کی حد تک عشق تھا، آج شاید اس چیز کا اظہار ہم نہیں کر پارہے ہیں، لیکن ہم کہیں نہ کہیں اس کا عکس ضرور ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین خضر حیات نے کہا کہ حفیظ جمال کی خوبصورت باتیں اور یادیں ہیں، وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے پاس موجود ہوں گی خاص طور پر اسٹیج پر بیٹھے سینئر لوگوں کے پاس، یہ ساری کی ساری جمع کی جائیں اور ان سب کو کتابی شکل دی جائے، اگرچہ میں حفیظ جمال سے نہیں ملا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں جو تربیت انہوں نے کی ہے وہ ہمیں نظر آتی ہے، حفیظ جمال کو یاد کریں تو وسیم جمال کو دیکھیں، دھیمی آواز میں بات کرنا، ایماندار، اپنے کام سے ، کمٹمنٹ وسیم جمال میں ان کی وہ ساری خوبیاں ہیں جو انہوں نے اپنے والد کے زیر سایہ رہنے سے سیکھیں ہیں، جیسے جتنی خوبصورتی سے وہ لوگوں کو جوڑتے ہیں۔
حفیظ جمال کے فرزند ڈاکٹر رشید جمال نے کہا کہ میں اور میری فیملی آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہیں۔ آپ نے آج کے اس پروگرام میں شرکت فرمائی بالخصوص والد محترم کے دوستوں کا جنہوں نے ہمارے ساتھ ان یادیں شیئر کیں، میری خواہش ہے کہ ان کی یادداشتوں کو قلمبند کرسکوں، اس کو کتابی شکل دے سکوں۔ اس سلسلے آپ کا تعاون اور مدد درکار ہو گی کہ ان کی جدوجہد کو قلم بند کیا جاسکے۔
سینئر صحافی توصیف خانزادہ، کراچی یونین آف جرنلسٹ کے صدر طاہر حسن خان، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی صدر سائرہ خان اور قادر اعظم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حفیظ جمال نے پاکستان میں جن سیاسی شخصیات کے ساتھ کام کیا ان میں مولانا بھاشانی، خان عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، ڈاکٹر احسان، فصیح الدین سالار، حسن عسکری، لعل بخش رند، فیض احمد فیض، عابد حسن منٹو، کامریڈ انیس ہاشمی، میاں محمود علی قصوری، کامریڈ جام ساقی، یوسف مستی خان اور دیگر اہم سیاسی شخصیات شامل تھیں۔
وہ کچھ عرصہ انڈر گراؤنڈ بھی رہے، وہ ایک عرصہ پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے دفتر میں قیام پذیر بھی رہے اور نوجوان کامریڈز کی تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دیتے رہے,
پروگرام کے اختتام پر حفیظ جمال کی پوتی اعیرہ وسیم جمال نے کہا کہ میں آپ سب کی مشکور ہوں کہ آپ سب اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر میرے دادا کے تعزیتی ریفرنس میں شریک ہوئے ان کی یادوں کو تازہ کیا، ان کی حیات اور جدوجہد پر روشنی ڈالی اور انہیں خراج تحسین اور سرخ سلام پیش کیا۔
میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ ہم اپنے دادا کے نظریہ اور مشن کو جاری رکھیں گے اور محنت کش عوام اور محکوم طبقات کے حقوقِ کی جدوجہد میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کریں گے اور یہی ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
پروگرام کی نظامت کے فرائض حفیظ جمال کے فرزند سندھ ایمپلائز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن کے ڈائریکٹر، پبلک ریلیشن وسیم جمال نے ادا کیے۔
تعزیتی ریفرنس میں صحافیوں، شہر کی سماجی و سیاسی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جن میں فشر فورک فورم کے جنرل سیکرٹری سعید بلوچ، سیسی کی گورننگ باڈی کے ممبر اور پاکستان یونائیٹڈ ورکرز فیڈریشن کے مرکزی صدر مختار حسین اعوان، عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی عہدیداران بھی شامل تھے۔
شاہد غزالی
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عوامی ورکرز پارٹی کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ حفیظ جمال احمد حفیظ جمال تعزیتی ریفرنس حفیظ جمال نے حفیظ جمال کی حفیظ جمال کو حفیظ جمال کے ٹریڈ یونین پاکستان کے وسیم جمال کراچی میں کی جدوجہد نے کہا کہ کے مرکزی پارٹی کے انہوں نے کے ساتھ کے بعد کی یاد وہ ایک کے لیے
پڑھیں:
شام کا لندن میں سفارتخانہ 12 سال بعد کھول دیا گیا، عمارت پر نیا پرچم لہرا دیا
لندن:شام نے لندن میں قائم اپنا سفارت خانہ 12 سال بعد کھول دیا ہے جہاں وزیرخارجہ نے عمارت پر پرچم بھی لہرادیا۔
شام کے وزیرخارجہ اسد الشیبانی نے لندن میں اپنے سفارت خانے پر شام کا نیا پرچم لہرا دیا اور واضح کردیا کہ برطانیہ کے ساتھ معطل ہونے والے سفارتی تعلقات 12 سال بعد بحال ہو رہے ہیں۔
سرکاری خبرایجنسی نے بتایا کہ وزیرخارجہ لندن میں برطانیہ کے متعدد عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتیں کریں گے اور اس دوران مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوگا۔
اسد الشیبانی نے رواں ہفتے صدر احمد الشرع کے ہمراہ امریکا کے دورے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی ملاقات کی، احمد الشرع پہلے شامی صدر بن گئے ہیں جنہیں وائٹ ہاؤس کی جانب سے دورے کی دعوت دی گئی۔
شام میں گزشتہ برس سابق صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد جنم لینے والی حکومت نیا پرچم تیار کیا، جس میں سفید، سیاہ اور سبز رنگ کے ساتھ تین ستارے بنائے گئے ہیں جبکہ شام کا پرانے پرچم دو ستاروں کے ساتھ سفید، سیاہ اور سرخ رنگ پر مشتمل تھا۔
وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے اپریل میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں بھی لہرایا تھا، جس نے یونائیٹڈ عرب ری پبلک کے پرانے پرچم کی جگہ لی تھی۔
شامی صدر احمد الشرع نے امریکا اور روس سمیت دیگر ممالک کے دورے کیے ہیں اور وہ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں ایک نئے دور کی بنیاد رکھ رہے ہیں، جس کے تعلقات دنیا بھر سے قائم ہوں۔