کرکٹرسرفراز احمد کو پی سی بی میں اہم ذمہ داریاں تفویض
اشاعت کی تاریخ: 16th, November 2025 GMT
کراچی (نیوزڈیسک): پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی جتوانے والے سابق کپتان سرفراز احمد کو پی سی بی نے اہم ذمہ داریاں دے دی ہیں۔
پاکستان کو دو آئی سی سی ٹرافیاں جتوانے والے واحد سابق قومی کپتان سرفراز احمد کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اہم ذمہ داریاں تفویض کر دی ہیں۔
سرفراز احمد اب مستقبل کے قومی کرکٹرز کو تیار کریں گے۔ اس کے لیے انہیں پاکستان شاہینز اور پاکستان انڈر 19 کرکٹ کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سرفراز احمد پاکستان شاہینز اور انڈر 19 کے اور دوروں کے معاملات کو دیکھیں گے اور دونوں ٹیموں کے ساتھ بیرون ملک دورے بھی کر سکیں گے۔
پہلی بار 2006 میں انڈر 19 کپ پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں جیتا تھا اور فائنل میں مدمقابل روایتی حریف بھارت تھا۔
سال 2017 میں پاکستان ٹیم کی قیادت سرفراز احمد کے پاس تھی اور انہوں نے گرین شرٹس کو آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی پہلی بار پاکستان کو جتوائی تھی اور اس بار بھی مدمقابل روایتی حریف بھارت ہی تھا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
کیا دہلی بم دھماکے میں افغان طالبان ملوث ہیں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251116-03-6
وجیہ احمد صدیقی
یہ واقعہ نہایت افسوسناک اور انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا، لیکن اس واقعے کی آڑ لے کر بھارت نے ایک بار پھر پاکستان پر ناجائز الزام تراشی کی ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ کہ یہ حملہ جیش محمد کے ذریعے کیا گیا جو پاکستان میں ایک کالعدم تنظیم ہے، حقیقت پسندی سے کوسوں دور ہے۔ جیش محمد کے دفاتر اور تربیتی مراکز افغان طالبان کے زیر نگرانی حکومت میں ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے روابط افغان طالبان کے ساتھ گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ جیش محمد اور افغان طالبان کے تعلقات کا ثبوت بھارتی طیارے کے اغوا اور جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ 1999 میں، ایک بھارتی طیارہ آئی سی آر ایف ایل 814 (IC-814) کو افغان شہر قندھار میں اغوا کر کے لایا گیا تھا۔ انڈین ائر لائنز کی یہ پرواز نمبر 814 کھٹمنڈو سے دہلی جا رہی تھی جسے 24 دسمبر 1999 کو اغوا کیا گیا اور ہائی جیکروں نے ایک ہفتے تک مسافروں کو یرغمال رکھا پہلے یہ جہاز بھارتی شہر امرتسر میں اترا پھر لاہور پھر دبئی اور پھر قندھار میں آکر ٹھیر گیا۔ اس جہاز میں 179 مسافر تھے جن میں پانچ ہائی جیکر بھی شامل تھے۔
اغوا کاروں نے بھارتی حکومت سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بھارتی حکومت نے مذاکرات کے بعد اغواکاروں کی شرائط قبول کیں اور کئی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں مولانا مسعود اظہر بھی شامل تھے۔ مولانا مسعود اظہر نے بھارت میں رہائی کے بعد 2000 میں جیش محمد تنظیم کی بنیاد رکھی، جو بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں عسکری کارروائیوں کے لیے معروف ہے۔ قندھار میں طیارے کا اتارنا اور مولانا مسعود اظہر کی رہائی ایک اہم واقعہ تھا۔ جس نے خطے کی عسکری اور سیاسی صورتحال کو بدل کر رکھ دیا۔ اس واقعے کے بعد جیش محمد نے بھارت میں متعدد حملوں کی ذمے داری قبول کی اور مولانا مسعود اظہر کو بھارت سمیت کئی ممالک نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔ پاکستان نے ان کی تنظیم کو کالعدم بھی کردیا ہے۔ جیش محمد کے طالبان سے تعلقات بھی گہرے ہیں، اور مولانا مسعود ایک عرصہ طالبان کے زیر اثر افغانستان میں مقیم رہے ہیں۔ یہ واقعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ایک سنگین موڑ تھا اور آج بھی دونوں ممالک کے تعلقات پر اثرانداز ہے۔ لیکن آج بھارت نے مسعود اظہر کو پناہ دینے والے افغان طالبان اس سے نہ صرف ہاتھ ملایا ہے بلکہ انہیں گلے لگا لیا ہے۔ جیش محمد اور مولانا مسعود اظہر کی طالبان کے ساتھ قربت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے باعث یہ خطہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس صورت حال میں بھارتی حکومت کو اپنی شکایات افغان حکومت سے کرنی چاہیے تھی، لیکن اس نے بلا ثبوت پاکستان کے اوپر الزام لگا دیا۔
بھارت نے اس واقعے میں جیش محمد کی آڑ لیتے ہوئے کشمیری مسلمانوں اور ان کے خاندانوں کو ملوث کر کے نہایت مکاری اور عیاری کا ثبوت دیا ہے۔ گرفتاریاں بلا ثبوت کشمیری انقلابیوں کی کی گئی ہیں، جن پر جیش محمد کے کارکن ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ یہ الزام بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کے خلاف ایک سیاسی اور عسکری سازش ہے، تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا سکے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ناانصافی کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ بھارت بار بار ایسے جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور اس دوران اپنے شہریوں کی جانوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ ایک بار پھر واضح ہو گیا کہ بھارت خود اپنے عوام کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے اور دہشت گردی کو اپنے لیے سیاسی حربہ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ جبکہ پاکستان نے علاقائی امن کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں، بھارت نے جارحیت اور الزام تراشی کا راستہ اپنایا ہے۔ افغان طالبان کے جیش کے ساتھ مضبوط روابط کی روشنی میں، یہ مسئلہ ایک اعلیٰ سیاسی سطح پر طالبان حکومت کے ساتھ اٹھانا چاہیے تھا تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پیش رفت ممکن ہو سکے۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے اور اس پر صرف الزام تراشی سے کام نہیں چلے گا۔ بھارت، پاکستان اور افغان طالبان کو مشترکہ کارروائی کر کے دہشت گرد نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ عالمی برادری خصوصاً انسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے میں منصفانہ کردار ادا کریں تاکہ بے گناہ کشمیری اور دیگر متاثرین کو انصاف ملے اور علاقائی استحکام بحال ہو۔
دہلی میں ہونے والے اس بم دھماکے کے حوالے سے دستیاب معلومات اور رپورٹس کے مطابق، بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف جو شواہد پیش کیے گئے ہیں، وہ ٹھوس یا قطعی طور پر قائل کرنے والے نہیں سمجھے جاتے۔ متعدد ذرائع نے یہ بتایا ہے کہ تحقیقات ابھی مکمل نہیں ہوئیں اور اہم شواہد اور مواصلاتی ریکارڈز کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔ گرفتاریاں اور بعض اعترافی بیانات تو ہیں، لیکن ان کے علاوہ ایسی کوئی بہت مضبوط اور غیر قابل تردید معلومات سامنے نہیں آئیں جو واضح طور پر پاکستان کو اس واقعے کا ذمے دار تسلیم کریں۔ مزید یہ کہ بھارت کا کشمیری مسلمانوں کو ملوث کرنا ایک سیاسی اور سماجی مسئلہ بن چکا ہے جس پر عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی نظر رکھی ہے، کیونکہ اس طرح کے الزامات کا کوئی ٹھوس ثبوت عام طور پر دستیاب نہیں ہوتا بلکہ تعصبات پر مبنی ثابت ہوتے ہیں۔ بھارت کے دعوے زیادہ تر مبنی ہیں مبینہ فون کالز اور مواصلاتی روابط پر، جو کہ ایک حد تک الزام کی بنیاد تو ہو سکتے ہیں لیکن قانونی اور جامع ثبوت ہونے کے لیے ناکافی ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ تا حال بھارت کی طرف سے پاکستان کو اس حملے سے منسوب کرنے کے لیے پیش کیے گئے شواہد ٹھوس، مکمل اور غیر متنازع نہیں ہیں۔ اس لیے اس معاملے میں بین الاقوامی تحقیقات اور شفافیت کی ضرورت ہے تاکہ اس قسم کے حساس واقعات میں حقائق واضح ہو سکیں اور بے گناہ لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔
دہلی میں لال قلعے بم دھماکے کے سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر تحقیقات میں خاص طور پر ایسی کوئی معروف یا سرکاری بین الاقوامی ٹیمیں شامل ہونے کی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بھارت کی اپنی مختلف اندرونی انٹیلی جنس اور تحقیقاتی ایجنسیوں نے اس پہ مکمل پیمانے پر تحقیقات کیں، لیکن شواہد کی جانچ کے لیے آزاد، غیر جانبدار اور بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کی شمولیت واضح نہیں ہوئی ہے۔ تاکہ بھارت کے دعوے کی تصدیق یا تردید ہو سکے لیکن بھارت کبھی بھی عالمی تحقیقاتی اداروں کو اس معاملے میں شامل نہیں کرے گا کیونکہ یہ سلسلہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر تحقیقاتی رپورٹس اور ماہرین زیادہ تر بھارتی حکومت کی پیش کردہ معلومات کی جانچ پڑتال مستقل بنیادوں پر نہیں کر سکے، اور اس معاملے میں مکمل شفافیت اور شواہد کی آزادانہ جانچ کی اپیل کی جاتی رہی ہے مگر عالمی تحقیقاتی ٹیموں کی شمولیت کا ثبوت سامنے نہیں آیا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے شواہد کی جانچ میں بین الاقوامی ٹیموں کا کردار بہت محدود یا نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیمیں عام طور پر تب شامل کی جاتی ہیں جب معاملہ عالمی سطح پر خاص اہمیت رکھتا ہو یا دو یا زیادہ ممالک کے درمیان تنازع ہو جس میں اقوام متحدہ یا دیگر عالمی ادارے مداخلت کرتے ہوں۔