Jasarat News:
2025-06-22@01:28:08 GMT

ایران ہی فاتح ہے اس جنگ میں

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آج کل اسرائیل اور ایران کے درمیان جو جھڑپیں ہورہی ہیں ان کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اصل فاتح ایران ہی ہے۔ یہ اس لیے کہ جو Victim Card اسرائیلی پچھلی 7 دہائیوں سے کھیل رہا ہے پچھلے چار دنوں میں وہ ایران نے کھیل کر دنیا بھر کے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرلی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ عام انسان کی ہمدردی جس ملک یا سائڈ کے ساتھ ہوگی وہی فاتح ہوگا۔ اس کے علاوہ ایران نے توقع سے بڑھ کر اسرائیل کو جواب دیا ہے اور مسلسل دے رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت امریکا کی یہی کوشش ہے کہ وہ اس جھگڑے میں ملوث نہ ہو۔ کیونکہ ایران ان کی توقعات سے زیادہ نکلا۔ اسرائیل کو اپنے iron dome (دفاعی نظام) پر جتنا ناز تھا وہ سب چکنا چور ہوگیا، اب مسئلہ یہ ہے کہ ایران ایک کافی وسیع اور عریض ملک ہے جس کی وجہ سے ایران کی 90 ملین آبادی آرام سے نقل مکانی کرچکی ہے۔ چونکہ ایران کا انفرا اسٹرکچر بھی اچھا ہے، سڑکیں موجود ہیں تو یہ مرحلہ آسانی سے طے ہوگیا۔ مگر اسرائیل اتنا خوش قسمت نہیں، انتہائی چھوٹا سا ملک ہے کہ اسرائیل کی ایک سرحد سے دوسری سرحد تک کا سفر ایک اندازے کے مطابق صرف دو ڈھائی گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ یہاں آبادی صرف 9 ملین ہے۔ (یعنی آبادی کراچی سے بھی کم ہے) تمام بارڈر بند ہیں اور اسرائیلی عوام ملک سے باہر جا بھی نہیں سکتی۔ اب اسرائیلوں کو اندازہ ہورہا ہے کہ کس طرح فلسطینیوں نے اتنے سال ایک بغیر چھت کی جیل میں گزارے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ خود اسرائیلی سربراہ بھاگ کے یونان چلا گیا ہے۔
اسرائیل اس وقت ایک شدید کشمکش کا شکار ہے ایک طرف تو یہ دنیا جہاں کی ہمدردی بٹورنے کے لیے ایرانی مظالم کی تشہیر کررہا ہے مگر اس تشہیر سے خود اس کے اپنے عوام کے حوصلے پست ہورہے ہیں اور کسی بھی جنگی حالات میں یہ سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔ قارئین کو شاید یاد ہو جب عراق پہ امریکا نے حملہ کیا تھا تو عراقی ٹی وی میں آخر وقت تک یہی نشریات جاری تھیں کہ عراق جنگ جیت رہا ہے۔ جبکہ امریکی بغداد تک جاچکے تھے۔
نیتن یاہو جس کو اقتدار کی بھوک ہے بری طرح حکومت میں رہنے کے لیے ہر طرح کے جتن کررہا ہے وہ خود کو war prime minister دکھانا چاہتا ہے مگر اسرائیلی عوام بھی اتنے بے وقوف نہیں۔ وہ بھی یہ سیاست سمجھتے ہیں۔ اس وقت ایران ہی صحیح معنوں میں فاتح اس لیے بھی ہے کہ بنگلا دیش سے لے کر مراکش تک ہر مسلمان ایران کے لیے دعا گو ہے۔ خلیجی بادشاہتوں، اردنی سادات حکومت اور مراکز کے بادشاہ سب فکر مند ہیں اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ بغاوت کا کافی اندیشہ ہے۔ بحرین جہاں پہلے ہی 1.

70 فی صد شیعہ آباد ہیں سب سے زیادہ حساس ملک ہے لہٰذا جب کبھی یہ جنگ بند ہوگی ایران ہی تمام مسلم دنیا کا غیر متنازع رہنما بن کر نکلے گا۔ لہٰذا پہلے ہی ان ریاستوں نے یا تو غیر جانبدارانہ پالیسی اپنالی ہے یا ایران کے حق میں بات شروع کردی ہے۔ جبکہ یاد رہے یہ متحدہ عرب امارات ہی تھا جس نے فلسطینی بچے مرنے دیے اور اسرائیل کی کوئی مذمت نہیں کی۔ جب کبھی بھی خلیج میں حالات خراب ہوئے ہیں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اور بھی ایران کے حق میں جارہا ہے۔ جتنا حالات خراب ہوں گے اتنا ہی تیل کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔ ایران کی کمائی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایران ہی ایران کے

پڑھیں:

کیا اردن اور سعودی عرب اسرائیل کا دفاع کر رہے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جون 2025ء) اگرچہ سعودی عرب اور اردن نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی عوامی سطح پر مخالفت کی ہے لیکن اردن نے اپنی فضائی حدود میں اسرائیل پر حملہ آور ایرانی میزائل اور ڈرون مار گرائے جبکہ اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب نے ایران پر حملوں کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی میں 21 عرب اور مسلم اکثریتی ممالک نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس ہفتے جاری ایک مشترکہ بیان میں ان ممالک نے ''اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کی قطعی مذمت اور مخالفت‘‘ کی۔ بیان میں ''اسرائیلی جارحیت‘‘ فوری روکنے اور خطے کے امن و استحکام کو درپیش خطرات پر ''گہری تشویش‘‘ کا اظہار بھی کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس بیان پر اردن اور سعودی عرب دونوں نے ہی دستخط کیے تھے۔

مگر عوامی سطحپر مخالفت کے باوجود اردن اور سعودی عرب نے بظاہر اس تنازعے میں بالواسطہ مداخلت کی ہے۔ مثال کے طور پر اردن نے ایران سے اسرائیل کی طرف آنے والے میزائل مار گرائے۔

اردنی فوج نے تصدیق کی کہ فضائی حدود میں داخل ہونے والے میزائل اور ڈرون گنجان آباد علاقوں پر گرنے کا خطرہ رکھتے تھے، جس کے باعث یہ کارروائی کی گئی۔

کہا گیا تھا کہ خود مختار ریاست کے طور پر کسی بھی میزائل یا غیر مجاز شے کی فضائی حدود میں دراندازی، ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

سعودی عرب نے اس حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں کو سعودی فضائی حدود میں میزائل گرانے کی اجازت دی گئی اور ممکنہ طور پر نگرانی میں بھی تعاون کیا گیا۔

اردن میں سیاسی ہلچل کا خدشہ

مگر جیسا کہ ماضی میں بھی ہوا، ایسی فوجی کارروائیاں داخلی سطح پر تنازعات کو جنم دے سکتی ہیں۔ دونوں ملکوں کی عوام میں اسرائیل کے خلاف ماضی کی جنگوں اور کشیدگی کی وجہ سے شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ بالخصوص اردن میں تو غم و غصہ نمایاں ہے کیونکہ اس ملک کا پانچ میں سے ایک شہری (بشمول ملک کی ملکہ) فلسطینی نژاد ہے۔

اسی لیے اردن کی حکومت کے لیے ایران کے اسرائیل کی جانب داغے گئے میزائل مار گرانے کا جواز دینا مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس اقدام کو ''دفاع‘‘ قرار دیا گیا۔ کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن عمان کے سربراہ ایڈمنڈ راتکا کے مطابق، ''ہر چینل پر یہی پیغام دیا جا رہا ہے کہ 'ہم صرف اپنے دفاع‘ کے لیے یہ کر رہے ہیں۔‘‘

راتکا نے اس بات کی تصدیق کی کہ اردن کسی طور اسرائیل کا محافظ نظر نہیں آنا چاہتا کیونکہ عوام کی اکثریت اسرائیل کو جارح تصور کرتی ہے۔

البتہ ایران کے بارے میں بھی عوامی رائے اچھی نہیں ۔ سالہا سال کے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کو ایک ایسا ملک سمجھا جاتا ہے، جو عرب معاملات میں مداخلت کر کے خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

جرمن تجزیہ کار اسٹیفن لوکاس کے مطابق اردن کی حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ ایرانی میزائل گرانے کو اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے طور پر نہ دکھائے، حالانکہ یہ اقدام کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گا۔

اردن کے لیے یہ اقدام کرنے کی ایک اور وجہ امریکہ کے ساتھ سن 2021 میں ہونے والا دفاعی معاہدہ بھی ہے، جس کے تحت امریکی افواج، طیارے اور گاڑیاں اردن میں آزادانہ نقل و حرکت کر سکتی ہیں۔ اردن مالی اور سکیورٹی لحاظ سے امریکہ اور کسی حد تک اسرائیل پر بھی انحصار رکھتا ہے۔

سعودی عرب کی حکمت عملی کیا ہے؟

سعودی عرب بھی ایک نازک صورتحال کا شکار ہے۔

اس نے بھی دیگر 20 مسلم ممالک کے ساتھ وہی اعلامیہ جاری کیا اور اس سے پہلے بھی ایران کو ''برادر ملک‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی تھی۔

مگر اصل صورتحال مختلف ہے۔ اسٹیفن لوکاس کے مطابق سعودی عرب غیر رسمی طور پر ایران مخالف کارروائیوں میں شریک ہے، ''سعودی عرب اسرائیل کو ریڈار ڈیٹا فراہم کرتا ہے اور اپنی فضائی حدود کے شمالی حصے میں اسرائیلی طیاروں کی موجودگی نظر انداز کرتا ہے، خاص طور پر اس حصے میں جہاں سے ایرانی میزائل گزرتے ہیں۔

‘‘

سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بھی بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے مگر اب بھی ان کا رشتہ کمزور ہے۔ کسی بھی غیر یقینی صورت میں سعودی عرب امریکہ ہی کی طرف دیکھے گا۔

ادارت: شکور رحیم

یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • ایران، اسرائیل جنگ
  • کیا اردن اور سعودی عرب اسرائیل کا دفاع کر رہے ہیں؟
  • ایران-اسرائیل جنگ میں روس کی سفارتی ناکامی بے نقاب
  • ایران اسرائیل جنگ اور پاکستان
  • امریکا، ایران اسرائیل جنگ کا حصہ نہ بنے: روس کا ایک بار پھر انتباہ
  • ایران اسرائیل جنگ کس طرف جا رہی ہے؟
  • تو ایران کا کیا ہوگا؟
  • ایران ،اسرائیل جنگ،عرب و عجم ، تقسیم ،نیا شاخسانہ
  • غیرت ہے بڑی چیز