Express News:
2025-06-22@01:29:52 GMT

اسرائیل کے امدادی قافلوں پر حملہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

غزہ فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس پر 2002ء سے حماس کی حکومت قائم ہے اس وقت سے اسرائیل نے اس علاقے کا بری، بحری اور فضائی محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل اس محاصرے کو حماس کو اسلحے کی فراہمی روکنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے جب کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 80 فی صد سے زائد لوگ خوراک، ادویات، ایندھن اور پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

اسرائیل نے 2010 میں بھی فوجی حملہ کرکے ماوی مرمرہ نامی کشتی پر سوار 10 ترک امدادی کارکنوں کو شہید کر دیا تھا جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا مگر اسرائیل کی کوئی سرزنش نہیں کی گئی اور یہ محاصرہ بدستور جاری ہے اب پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔

اسرائیل نے فریڈم فلوٹیلا کولیشن میں شامل غزہ کے لیے امداد لے جانے والی برطانوی پرچم بردار کشتی میڈلین فلوٹیلا کو کھلے سمندر میں یرغمال بنا کر اس میں سوار 12 امدادی کارکنوں کو جن میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن شامل ہیں گرفتار کر لیا۔

یہ امدادی جہاز یکم جون کو اٹلی کے شہر سسلی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا تھا جس کو 9 جون کو اسرائیلی بحریہ نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ بحری جہاز غزہ کے محصورین کو امدادی سامان پہنچانے کے لیے روانہ ہوا تھا جس میں کھانے پینے کا سامان، بچوں کا دودھ، ادویات، جنریٹر، خیمے، گرم کپڑے، پانی کی صفائی کے آلات وغیرہ شامل تھے، کشتی کا مشن جنگی نہیں خالصتاً انسانی تھا۔ اس میں نہ راکٹ تھے نہ بارود، صرف وہ اشیا ضروریہ تھیں جو تباہ حال اور بے خانماں والدین اپنے بیمار، زخمی اور بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے مانگ رہے تھے۔

اس جہاز پر سوار امدادی کارکنوں کا واحد مقصد سسکتی انسانیت کی مدد اور فاقہ کشی کے شکار، بے سرو سامانی میں مبتلا فلسطینی عوام تک امداد پہنچانا تھا۔ ایسے میں اسرائیل کا اس کشتی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانا، کارکنوں کو گرفتار کرنا اور امدادی سامان ضبط کر لینا غیر قانونی، غیر انسانی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی بدترین مثال ہے۔ اس کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مسلح شہریوں کو اغوا کرنا، امدادی سامان کو ضبط کرنا غیر قانونی عمل ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر، سمندری قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی ضابطوں کے تحت بین الاقوامی پانیوں میں کسی غیر مسلح امدادی کشتی کو روکنا جارحیت کے زمرے میں آتا ہے۔ امدادی رضاکاروں کو زبردستی حراست میں لے لینا اغوا کے مترادف ہے، انسانی امداد کو روکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یرغمال بنائی گئی کشتی پر سوار گریٹا تھنبرگ اور ریما حسن کو تو رہا کرکے ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ مگر باقی 10 کارکنان، امدادی سامان اور کشتی بدستور اسرائیلی تحویل میں ہیں۔

گریٹا تھنبرگ نے اٹلی سے روانگی کے وقت پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم یہ کام اس لیے کر رہے ہیں کہ چاہے کتنے خطرات ہوں ہمیں آگے بڑھنا ہے، اگر ہم کوشش چھوڑ دیں گے تو اپنی انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہ مشن کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو وہ عالمی خاموشی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

اسرائیل کی یہ ظالمانہ کارروائیاں واضح طور پر عالمی قوانین اور اخلاقیات کو پیروں تلے روندنے کے مترادف ہیں، جس پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی خاموشی قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ اقوام متحدہ ہر واقعے کے بعد بجائے کسی عملی اقدام کے محض ایک واجبی سے مذمتی بیان پر ہی اکتفا کرتی ہے اگر ماوی مرمرہ نامی کشتی پر حملے کا نوٹس لے لیا جاتا تو آج میڈلین فلوٹیلا بوٹ پر حملے کا واقعہ پیش آتا نہ خان یونس میں ظلم و بربریت و سفاکی کا مظاہرہ پیش آتا جس میں اسرائیلی توپ خانے نے ان فلسطینیوں پر گولہ باری کردی جو انسانی امداد خاص طور پر آٹے کے تھیلے کے انتظار میں کھڑے ہوئے تھے۔

اس حملے میں 60 افراد لقمہ اجل بن گئے اور 220 سے زائد زخمی ہوئے جن میں کئی ایک کی حالت نازک ہے۔ اس واقعے کے بعد جائے وقوعہ پر لاشیں بکھری پڑی تھیں لوگوں نے شدید زخمیوں اور لاشوں کو گدھا گاڑیوں کے ذریعے اسپتالوں میں منتقل کیا، کیونکہ شہری نظام تباہی سے دوچار ہو چکا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق رواں سال امداد کے حصول کے دوران پیش آنے والے واقعات میں 400 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت نے غزہ میں محصور 20 لاکھ شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں 80 فی صد سے زائد لوگ ادویات، ایندھن اور پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہیں اگر امداد کی فراہمی فوری طور پر بحال نہ کی گئی تو صحت، صفائی، پانی و دیگر بنیادی سہولیات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ہے۔

اسرائیل کا منافقانہ موقف یہ ہے کہ وہ انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ صرف یہ بات یقینی بنانا چاہتا ہے کہ امداد عسکری گروہوں تک نہ پہنچ پائے اس کا یہ طویل محاصرہ حماس کو اسلحے کی سپلائی روکنے کے لیے ضروری ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس موقف کو رد کرتے ہوئے اسے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔ جب شہری کھلے عام امداد کے حصول کے لیے جمع ہوں تو ان پر حملہ کرنا انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی ہے۔

یہ حملے کسی غلطی یا غلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ہدفی و دانستہ حملے ہیں۔ اگر یوکرین پر حملے کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے تو کیا غزہ کے سترہ ہزار بچوں سمیت ساٹھ ہزار نہتے و بے گناہ شہریوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ حتیٰ کہ عید کے دنوں میں سیکڑوں شہریوں کو بمباری کرکے شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعات اسرائیل کے انسانیت سوز عزائم، سیاسی منافقت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں کو عیاں کرتے ہیں، وہ بار بار ثابت کر رہا ہے کہ اسے نہ بین الاقوامی قوانین کی پرواہ ہے نہ انسانی وقار کی۔ بقول گریٹا تھنبرگ کیا ہم انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں؟ غزہ کے محصورین ہمیں پکار رہے ہیں، اگر آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہمیں بھی ظالموں کی صف میں شمار کرے گی۔

غزہ کی صورت حال انسانی المیہ کی نشان دہی کرتی ہے اگر فوری جنگ بندی اور محاصرہ ختم کرنے کے ساتھ انسانی امداد کی ترسیل نہ کھولی گئی تو صورت حال مزید دگرگوں ہو جائے گی۔ عالمی برادری کو اسرائیل کے طرز عمل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرنا چاہیے اور اس کو انسانیت سوز اقدام پر عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے محض مذمت و تنقید سے اسرائیل کی اخلاقی و سفارتی حیثیت تو کمزور ہو سکتی ہے مگر اس ظلم و بربریت و سفاکی کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی قوانین کی انسانی حقوق کی گریٹا تھنبرگ اقوام متحدہ غزہ کے کے لیے

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ مزید بڑھی تو کسی کے قابو میں نہیں رہے گی، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جینو( مانیٹرنگ ڈیسک )اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایران اسرائیل کشیدگی پر اہم ہنگامی اجلاس شروع ہوگیا جس کا افتتاح سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے فوی جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کے ایرانی ہم منصب کے ساتھ 3 گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا‘ایران پر تمام فریقوں سے مذاکرات پرزور‘ایران جوہری پروگرام سمیت تمام معاملات پر بات چیت پرآمادہ ۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے کہا کہ ایران بارہا جوہری ہتھیار نہ بنانے کی یقین دہانی کروا چکا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ایران میں ایٹمی تنصیبات اور عوامی مراکز پر حملے کیے گئے۔ عوامی مقامات اور طبی مراکز پر حملے عالمی قوانین کے خلاف ہیں۔ انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ ایران اسرائیل کشیدگی کو صرف اور صرف سفارت کاری کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے یورپی ممالک اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ آج کے سلامتی کونسل اجلاس سے بھی امن کا واضح پیغام جانا چاہیے۔سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے خبردار کیا کہ ایران اسرائیل کشیدگی کو بڑھاوا دیا گیا تو پھر یہ جنگ کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔ اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے کہا کہ اسرائیل ایران کشیدگی میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو اب مزید بڑھنے نہیں دیا جاسکتا۔ فوری جنگ بندی وقت کی ضرورت ہے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگران ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رافیل گروسی نے کہا کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں سے سنگین خطرات لاحق ہوئے، اگرچہ اب تک اس حوالے سے عوام پر منفی اثرات نہیں دیکھے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ایک ہفتے قبل ایران پر حملے شروع کیے تھے، اائی اے ای اے صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے، آئی اے ای اے جوہری اور ریڈولاجی تحفظ کا عالمی مرکز ہے، اور ہم کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔رافیل گروسی نے کہا کہ آئی اے ای اے کو دستیاب معلومات کی بنیاد پر ایران کی جوہری مراکز پر موجودہ صورتحال ہم نے سیکورٹی کونسل کو پیش کی تھی، مزید کہنا تھا کہ 13 جون کو مرکزی پلانٹ پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا، جس میں بجلی کا نظام تباہ ہو گیا تھا، جس میں الیکٹریکل سب اسٹیشن، مرکزی بجلی فراہم کرنے والی عمارت، ایمرجنسی پاور سپلائی جنریٹرز شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح دوسری سہولت، فیول انرچمنٹ پلانٹ، جو زمین سے اوپر اور زمین کے اندر تنصیبات پر مشتمل ہے، 13 جون کو زمین کے اوپری حصے پر موجود تنصیبات فنکشنل طور پر تباہ ہو گئی تھی، جبکہ زیر زمین تنصیبات کوئی بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔انہوں نے کہا کہ باہر موجود ریڈی ایشن کی صورتحال پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا، جس کا مطلب تھا کہ عوام پر کسی بھی قسم کے کوئی منفی اثرات نہیں ہوئے، تاہم تنصیبات کے احاطے میں ریڈیولاجیکل اور کیمیکل اثرات ممکن تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران میں اصفہان جوہری تنصیبات پر گزشتہ جمعہ کے حملے میں 4 عمارتوں کو نقصان پہنچا، جس میں مرکزی کیمیکل سہولت، یورینیم منتقل کرنے کا پلانٹ، تہران ری ایکٹر فیول مینوفیکچرنگ پلانٹ اور افزدرہ یورینیم میٹل پروسیسنگ سہولت شامل ہے، جو زیر تعمیر تھی، جبکہ تابکاری کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے جنوبی ایٹمی پلانٹ بوشہر پر اسرائیلی حملہ علاقائی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اب تک اس تنازع میں کسی قسم کی تابکاری کا سراغ نہیں ملا۔رافیل گروسی نے بتایا کہ خطے کے ممالک نے گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران اپنے خدشات کا اظہار کرنے کے لیے مجھ سے براہ راست رابطہ کیا ہے، اور میں اسے بالکل اور مکمل طور پر واضح کر دینا چاہتا ہوں، بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ پر حملے کی صورت میں، براہ راست حملے کے نتیجے میں ریڈیو ایکٹیویٹی بہت زیادہ نکلے گی۔دریں اثنا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے عاصم افتخار احمد نے ایران-اسرائیل تنازع پر اقوام متحدہ کے سربراہ کے بیانات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی امن کی اپیل کے حوالے سے پاکستان نے ایک بار پھر اپنی حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے اور آپ کی اس اپیل سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ امن کو موقع دیا جائے، اسی تناظر میں، آپ کی جنگ ختم کرنے اور مذاکرات کی طرف واپسی کی اپیل کی ہم مکمل حمایت کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران پاکستان کے اقوام متحدہ میں سفیر نے کہا کہ پاکستان اسرائیل کی بلاجواز اور غیرقانونی جارحیت کی شدید مذمت کرتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایرانی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور اسرائیل کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، جو نہ صرف پورے خطے بلکہ اس سے آگے بھی امن، سلامتی اور استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کے ایرانی ہم منصب کے ساتھ 3 گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس ملاقات کے بعد مختصر بیانات دیے ہیں تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ آیا مذاکرات میں کوئی ٹھوس پیش رفت ہوئی یا نہیں۔فرانسیسی وزیر خارجہ ڑاں نوئل بارو نے توقع ظاہر کی کہ ایران کو امریکا سمیت تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ کھلے دل سے بات چیت کرنا چاہیے تاکہ جنگی صورتحال کا سفارتی حل نکالا جا سکے۔انھوں نے مزید بتایا کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی جوہری پروگرام سمیت دیگر معاملات پر بات چیت جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔جرمنی کے وزیر خارجہ یوان وادیفْل کے بقول اس بات زور دیا کہ جنگ کے حل کے لیے امریکا کی شمولیت نہایت ضروری ہے۔برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے بھی اسی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ ایران پر زور دیتا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ بات چیت جاری رکھے۔یورپی وزرائے خارجہ اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا کہ آنے والے دنوں میں ایران کے ساتھ مزید بات چیت کے لیے تیار ہیں اور امریکا کی شمولیت کو بھی ایک لازمی قدم سمجھتے ہیں۔جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کی برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی سربراہ سے ہونے والے مذاکرات کو ایران میں سراہا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • کالام: شاہی باغ میں کشتی ڈوبنے سے ایک ہی فیملی کی 2 خواتین سیاح جاں بحق
  • مسلم ممالک متحد ہو کر عملی اقدامات کریں، انسانی جانوں کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار
  • پاکستان کا یو این سلامتی کونسل سے اسرائیلی جارحیت رکوانے کا مطالبہ
  • ایران اسرائیل جنگ مزید بڑھی تو کسی کے قابو میں نہیں رہے گی، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق جواب دے رہے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ کا انسانی حقوق کونسل میں خطاب
  • ایران پر جوہری تنصیبات پر حملے سنگین جنگی جرائم ہیں ، عباس عراقیچی
  • غزہ: امدادی اداروں کے خدشات گھنٹوں میں حقیقت بننے کا خطرہ
  • غزہ میں امداد کیلئے جمع افراد پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ، 11فلسطینی شہید
  • مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ، اقوام متحدہ