Express News:
2025-08-07@00:41:02 GMT

اسرائیل کے امدادی قافلوں پر حملہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

غزہ فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس پر 2002ء سے حماس کی حکومت قائم ہے اس وقت سے اسرائیل نے اس علاقے کا بری، بحری اور فضائی محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل اس محاصرے کو حماس کو اسلحے کی فراہمی روکنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے جب کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 80 فی صد سے زائد لوگ خوراک، ادویات، ایندھن اور پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

اسرائیل نے 2010 میں بھی فوجی حملہ کرکے ماوی مرمرہ نامی کشتی پر سوار 10 ترک امدادی کارکنوں کو شہید کر دیا تھا جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا مگر اسرائیل کی کوئی سرزنش نہیں کی گئی اور یہ محاصرہ بدستور جاری ہے اب پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔

اسرائیل نے فریڈم فلوٹیلا کولیشن میں شامل غزہ کے لیے امداد لے جانے والی برطانوی پرچم بردار کشتی میڈلین فلوٹیلا کو کھلے سمندر میں یرغمال بنا کر اس میں سوار 12 امدادی کارکنوں کو جن میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن شامل ہیں گرفتار کر لیا۔

یہ امدادی جہاز یکم جون کو اٹلی کے شہر سسلی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا تھا جس کو 9 جون کو اسرائیلی بحریہ نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ بحری جہاز غزہ کے محصورین کو امدادی سامان پہنچانے کے لیے روانہ ہوا تھا جس میں کھانے پینے کا سامان، بچوں کا دودھ، ادویات، جنریٹر، خیمے، گرم کپڑے، پانی کی صفائی کے آلات وغیرہ شامل تھے، کشتی کا مشن جنگی نہیں خالصتاً انسانی تھا۔ اس میں نہ راکٹ تھے نہ بارود، صرف وہ اشیا ضروریہ تھیں جو تباہ حال اور بے خانماں والدین اپنے بیمار، زخمی اور بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے مانگ رہے تھے۔

اس جہاز پر سوار امدادی کارکنوں کا واحد مقصد سسکتی انسانیت کی مدد اور فاقہ کشی کے شکار، بے سرو سامانی میں مبتلا فلسطینی عوام تک امداد پہنچانا تھا۔ ایسے میں اسرائیل کا اس کشتی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانا، کارکنوں کو گرفتار کرنا اور امدادی سامان ضبط کر لینا غیر قانونی، غیر انسانی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی بدترین مثال ہے۔ اس کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مسلح شہریوں کو اغوا کرنا، امدادی سامان کو ضبط کرنا غیر قانونی عمل ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر، سمندری قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی ضابطوں کے تحت بین الاقوامی پانیوں میں کسی غیر مسلح امدادی کشتی کو روکنا جارحیت کے زمرے میں آتا ہے۔ امدادی رضاکاروں کو زبردستی حراست میں لے لینا اغوا کے مترادف ہے، انسانی امداد کو روکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یرغمال بنائی گئی کشتی پر سوار گریٹا تھنبرگ اور ریما حسن کو تو رہا کرکے ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ مگر باقی 10 کارکنان، امدادی سامان اور کشتی بدستور اسرائیلی تحویل میں ہیں۔

گریٹا تھنبرگ نے اٹلی سے روانگی کے وقت پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم یہ کام اس لیے کر رہے ہیں کہ چاہے کتنے خطرات ہوں ہمیں آگے بڑھنا ہے، اگر ہم کوشش چھوڑ دیں گے تو اپنی انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہ مشن کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو وہ عالمی خاموشی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

اسرائیل کی یہ ظالمانہ کارروائیاں واضح طور پر عالمی قوانین اور اخلاقیات کو پیروں تلے روندنے کے مترادف ہیں، جس پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی خاموشی قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ اقوام متحدہ ہر واقعے کے بعد بجائے کسی عملی اقدام کے محض ایک واجبی سے مذمتی بیان پر ہی اکتفا کرتی ہے اگر ماوی مرمرہ نامی کشتی پر حملے کا نوٹس لے لیا جاتا تو آج میڈلین فلوٹیلا بوٹ پر حملے کا واقعہ پیش آتا نہ خان یونس میں ظلم و بربریت و سفاکی کا مظاہرہ پیش آتا جس میں اسرائیلی توپ خانے نے ان فلسطینیوں پر گولہ باری کردی جو انسانی امداد خاص طور پر آٹے کے تھیلے کے انتظار میں کھڑے ہوئے تھے۔

اس حملے میں 60 افراد لقمہ اجل بن گئے اور 220 سے زائد زخمی ہوئے جن میں کئی ایک کی حالت نازک ہے۔ اس واقعے کے بعد جائے وقوعہ پر لاشیں بکھری پڑی تھیں لوگوں نے شدید زخمیوں اور لاشوں کو گدھا گاڑیوں کے ذریعے اسپتالوں میں منتقل کیا، کیونکہ شہری نظام تباہی سے دوچار ہو چکا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق رواں سال امداد کے حصول کے دوران پیش آنے والے واقعات میں 400 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت نے غزہ میں محصور 20 لاکھ شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں 80 فی صد سے زائد لوگ ادویات، ایندھن اور پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہیں اگر امداد کی فراہمی فوری طور پر بحال نہ کی گئی تو صحت، صفائی، پانی و دیگر بنیادی سہولیات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ہے۔

اسرائیل کا منافقانہ موقف یہ ہے کہ وہ انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ صرف یہ بات یقینی بنانا چاہتا ہے کہ امداد عسکری گروہوں تک نہ پہنچ پائے اس کا یہ طویل محاصرہ حماس کو اسلحے کی سپلائی روکنے کے لیے ضروری ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس موقف کو رد کرتے ہوئے اسے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔ جب شہری کھلے عام امداد کے حصول کے لیے جمع ہوں تو ان پر حملہ کرنا انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی ہے۔

یہ حملے کسی غلطی یا غلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ہدفی و دانستہ حملے ہیں۔ اگر یوکرین پر حملے کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے تو کیا غزہ کے سترہ ہزار بچوں سمیت ساٹھ ہزار نہتے و بے گناہ شہریوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ حتیٰ کہ عید کے دنوں میں سیکڑوں شہریوں کو بمباری کرکے شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعات اسرائیل کے انسانیت سوز عزائم، سیاسی منافقت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں کو عیاں کرتے ہیں، وہ بار بار ثابت کر رہا ہے کہ اسے نہ بین الاقوامی قوانین کی پرواہ ہے نہ انسانی وقار کی۔ بقول گریٹا تھنبرگ کیا ہم انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں؟ غزہ کے محصورین ہمیں پکار رہے ہیں، اگر آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہمیں بھی ظالموں کی صف میں شمار کرے گی۔

غزہ کی صورت حال انسانی المیہ کی نشان دہی کرتی ہے اگر فوری جنگ بندی اور محاصرہ ختم کرنے کے ساتھ انسانی امداد کی ترسیل نہ کھولی گئی تو صورت حال مزید دگرگوں ہو جائے گی۔ عالمی برادری کو اسرائیل کے طرز عمل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرنا چاہیے اور اس کو انسانیت سوز اقدام پر عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے محض مذمت و تنقید سے اسرائیل کی اخلاقی و سفارتی حیثیت تو کمزور ہو سکتی ہے مگر اس ظلم و بربریت و سفاکی کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی قوانین کی انسانی حقوق کی گریٹا تھنبرگ اقوام متحدہ غزہ کے کے لیے

پڑھیں:

مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی وزراء کا دھاوا انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر حملہ ہے: وزیراعظم  

ویب ڈیسک: پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیلی وزراء کی جانب سے مسجد اقصیٰ پر دھاوے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر حملہ ہے۔

 مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ میں اسرائیل کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے وزراء، صیہونی قبضہ گیروں اور پولیس اہلکاروں کے ہمراہ یہودی دعا کا عوامی طور پر انعقاد کیا تھا، یہ ایک انتہائی متنازع اقدام ہے جو اس مقام پر طے شدہ پرانے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

قومی کرکٹر فخر زمان دورہ ویسٹ انڈیز سے باہر

ایکس پر ایک بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کی یہ بے حرمتی نہ صرف ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے عقیدے کی توہین ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر بھی براہ راست حملہ ہے۔

Pakistan unequivocally condemns, the recent act of storming of the Al-Aqsa Mosque by Israeli ministers, accompanied by settler groups and shielded by Israeli police.

This sacrilege against one of Islam’s holiest sites is not only an affront to the faith of over a billion…

— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) August 4, 2025

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ قابض طاقت کی طرف سے اس طرح کی منظم اشتعال انگیزیاں امن کے امکانات کو نقصان پہنچاتی ہیں، اسرائیل کے بےشرمانہ اقدامات جان بوجھ کر فلسطین اور وسیع خطے میں تناؤ کو ہوا دے رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ کو مزید عدم استحکام اور تنازعات کے قریب دھکیل رہے ہیں۔

عازمین حج سے واجبات کی وصولی کا آغاز آج ہوگا

 پاکستانی وزیراعظم نے ایک بار پھر بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق غزہ میں فوری جنگ بندی، تمام جارحیت کے خاتمے اور ایک قابل اعتماد امن عمل کی کوششوں پر زور دیا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب نے بھی اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں کی مسجد اقصٰی میں بار بار کی جانے والی اشتعال انگیز حرکات کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات خطے میں تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔

روس میں 6.8 شدت کا خوفناک زلزلہ

واضح رہے کہ مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے، جبکہ یہودیوں کے نزدیک بھی یہ سب سے مقدس جگہ ہے، جہاں ان کے پہلے اور دوسرے ہیکل واقع تھے، یہاں یہودی مذہبی رسومات کی ادائیگی اسرائیل اور اس مقام کے متولی اردن کے درمیان طے شدہ پرانے معاہدے کے تحت ممنوع ہے۔

حالیہ برسوں میں یہودیوں بشمول اسرائیلی پارلیمان کے ارکان کی جانب سے بار ہا اس معاہدے کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں، تاہم اتمار بن گویر کا دورہ پہلا موقع ہے کہ کسی سرکاری وزیر نے یہاں عوامی طور پر دعا کی ہے۔

شہداءپولیس کی لازوال قربانیوں کوہمیشہ یادرکھاجائیگا؛آئی جی پنجاب

اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ ٹیمپل ماؤنٹ (مسجد اقصیٰ) پر سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ بدستور برقرار رہے گی۔

اتمار بن گویر نے مسجد کے احاطے میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ  پوری غزہ کی پٹی پر اسرائیلی خودمختاری نافذ کی جائے جیسے یہ ٹیمپل ماؤنٹ (مسجد اقصیٰ) پر کی گئی۔

اسرائیل نے 1967 میں مشرقی مقبوضہ بیت المقدس پر قبضہ کر کے اسے ضم کر لیا تھا، جسے بین الاقوامی برادری کی بڑی تعداد نے تسلیم نہیں کیا۔

کوہستان؛ برف پوش پہاڑوں سے 28 سال قبل گمشدہ ہونیوالی لاش صحیح حالت میں برآمد

متعلقہ مضامین

  • سلامتی کونسل فلسطینیوں کی ناقابل تصور تکالیف ختم کرانے کیلئے اقدامات کرے.پاکستان کا مطالبہ
  • یمنی ساحل کے قریب پناہ گزینوں کی کشتی الٹنے سے 56 افراد ہلاک، 132 لاپتہ
  • غزہ: خوراک کی تلاش میں بھوکے فلسطینیوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری
  • سوڈان خانہ جنگی میں ہلاکتوں اور انسانی بحران میں اضافہ، اوچا
  • اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملے، امداد کے منتظر 36 افراد سمیت مزید 74 فلسطینی شہید
  • مسجد اقصی پر اسرائیلی وزرا کا دھاوا عالمی قانون، انسانی ضمیر پر براہ راست حملہ ہے، پاکستان
  • امدادی سامان سے بھرا ٹرکوں کا ایک قافلہ غزہ کی پٹی میں داخل ہو گیا
  • مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی وزراء کا دھاوا انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر حملہ ہے: وزیراعظم
  • مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی وزراء کا دھاوا انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر حملہ ہے: وزیراعظم  
  • اسرائیل نے 22 ہزار امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا