اسرائیل کے امدادی قافلوں پر حملہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
غزہ فلسطین کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جس پر 2002ء سے حماس کی حکومت قائم ہے اس وقت سے اسرائیل نے اس علاقے کا بری، بحری اور فضائی محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل اس محاصرے کو حماس کو اسلحے کی فراہمی روکنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے جب کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کے 80 فی صد سے زائد لوگ خوراک، ادویات، ایندھن اور پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔
اسرائیل نے 2010 میں بھی فوجی حملہ کرکے ماوی مرمرہ نامی کشتی پر سوار 10 ترک امدادی کارکنوں کو شہید کر دیا تھا جس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا مگر اسرائیل کی کوئی سرزنش نہیں کی گئی اور یہ محاصرہ بدستور جاری ہے اب پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔
اسرائیل نے فریڈم فلوٹیلا کولیشن میں شامل غزہ کے لیے امداد لے جانے والی برطانوی پرچم بردار کشتی میڈلین فلوٹیلا کو کھلے سمندر میں یرغمال بنا کر اس میں سوار 12 امدادی کارکنوں کو جن میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن شامل ہیں گرفتار کر لیا۔
یہ امدادی جہاز یکم جون کو اٹلی کے شہر سسلی کی بندرگاہ سے روانہ ہوا تھا جس کو 9 جون کو اسرائیلی بحریہ نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ بحری جہاز غزہ کے محصورین کو امدادی سامان پہنچانے کے لیے روانہ ہوا تھا جس میں کھانے پینے کا سامان، بچوں کا دودھ، ادویات، جنریٹر، خیمے، گرم کپڑے، پانی کی صفائی کے آلات وغیرہ شامل تھے، کشتی کا مشن جنگی نہیں خالصتاً انسانی تھا۔ اس میں نہ راکٹ تھے نہ بارود، صرف وہ اشیا ضروریہ تھیں جو تباہ حال اور بے خانماں والدین اپنے بیمار، زخمی اور بھوک سے بلکتے بچوں کے لیے مانگ رہے تھے۔
اس جہاز پر سوار امدادی کارکنوں کا واحد مقصد سسکتی انسانیت کی مدد اور فاقہ کشی کے شکار، بے سرو سامانی میں مبتلا فلسطینی عوام تک امداد پہنچانا تھا۔ ایسے میں اسرائیل کا اس کشتی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانا، کارکنوں کو گرفتار کرنا اور امدادی سامان ضبط کر لینا غیر قانونی، غیر انسانی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی بدترین مثال ہے۔ اس کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر مسلح شہریوں کو اغوا کرنا، امدادی سامان کو ضبط کرنا غیر قانونی عمل ہے۔
اقوام متحدہ کے چارٹر، سمندری قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی ضابطوں کے تحت بین الاقوامی پانیوں میں کسی غیر مسلح امدادی کشتی کو روکنا جارحیت کے زمرے میں آتا ہے۔ امدادی رضاکاروں کو زبردستی حراست میں لے لینا اغوا کے مترادف ہے، انسانی امداد کو روکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یرغمال بنائی گئی کشتی پر سوار گریٹا تھنبرگ اور ریما حسن کو تو رہا کرکے ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ مگر باقی 10 کارکنان، امدادی سامان اور کشتی بدستور اسرائیلی تحویل میں ہیں۔
گریٹا تھنبرگ نے اٹلی سے روانگی کے وقت پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم یہ کام اس لیے کر رہے ہیں کہ چاہے کتنے خطرات ہوں ہمیں آگے بڑھنا ہے، اگر ہم کوشش چھوڑ دیں گے تو اپنی انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہ مشن کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو وہ عالمی خاموشی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔
اسرائیل کی یہ ظالمانہ کارروائیاں واضح طور پر عالمی قوانین اور اخلاقیات کو پیروں تلے روندنے کے مترادف ہیں، جس پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی خاموشی قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ اقوام متحدہ ہر واقعے کے بعد بجائے کسی عملی اقدام کے محض ایک واجبی سے مذمتی بیان پر ہی اکتفا کرتی ہے اگر ماوی مرمرہ نامی کشتی پر حملے کا نوٹس لے لیا جاتا تو آج میڈلین فلوٹیلا بوٹ پر حملے کا واقعہ پیش آتا نہ خان یونس میں ظلم و بربریت و سفاکی کا مظاہرہ پیش آتا جس میں اسرائیلی توپ خانے نے ان فلسطینیوں پر گولہ باری کردی جو انسانی امداد خاص طور پر آٹے کے تھیلے کے انتظار میں کھڑے ہوئے تھے۔
اس حملے میں 60 افراد لقمہ اجل بن گئے اور 220 سے زائد زخمی ہوئے جن میں کئی ایک کی حالت نازک ہے۔ اس واقعے کے بعد جائے وقوعہ پر لاشیں بکھری پڑی تھیں لوگوں نے شدید زخمیوں اور لاشوں کو گدھا گاڑیوں کے ذریعے اسپتالوں میں منتقل کیا، کیونکہ شہری نظام تباہی سے دوچار ہو چکا ہے۔
اسرائیلی فوج نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق رواں سال امداد کے حصول کے دوران پیش آنے والے واقعات میں 400 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے خوراک، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت نے غزہ میں محصور 20 لاکھ شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں 80 فی صد سے زائد لوگ ادویات، ایندھن اور پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہیں اگر امداد کی فراہمی فوری طور پر بحال نہ کی گئی تو صحت، صفائی، پانی و دیگر بنیادی سہولیات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کا منافقانہ موقف یہ ہے کہ وہ انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ صرف یہ بات یقینی بنانا چاہتا ہے کہ امداد عسکری گروہوں تک نہ پہنچ پائے اس کا یہ طویل محاصرہ حماس کو اسلحے کی سپلائی روکنے کے لیے ضروری ہے۔ جب کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس موقف کو رد کرتے ہوئے اسے اجتماعی سزا قرار دیتی ہیں۔ جب شہری کھلے عام امداد کے حصول کے لیے جمع ہوں تو ان پر حملہ کرنا انسانیت اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی ہے۔
یہ حملے کسی غلطی یا غلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ہدفی و دانستہ حملے ہیں۔ اگر یوکرین پر حملے کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے تو کیا غزہ کے سترہ ہزار بچوں سمیت ساٹھ ہزار نہتے و بے گناہ شہریوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ حتیٰ کہ عید کے دنوں میں سیکڑوں شہریوں کو بمباری کرکے شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعات اسرائیل کے انسانیت سوز عزائم، سیاسی منافقت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں کو عیاں کرتے ہیں، وہ بار بار ثابت کر رہا ہے کہ اسے نہ بین الاقوامی قوانین کی پرواہ ہے نہ انسانی وقار کی۔ بقول گریٹا تھنبرگ کیا ہم انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں؟ غزہ کے محصورین ہمیں پکار رہے ہیں، اگر آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہمیں بھی ظالموں کی صف میں شمار کرے گی۔
غزہ کی صورت حال انسانی المیہ کی نشان دہی کرتی ہے اگر فوری جنگ بندی اور محاصرہ ختم کرنے کے ساتھ انسانی امداد کی ترسیل نہ کھولی گئی تو صورت حال مزید دگرگوں ہو جائے گی۔ عالمی برادری کو اسرائیل کے طرز عمل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرنا چاہیے اور اس کو انسانیت سوز اقدام پر عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے محض مذمت و تنقید سے اسرائیل کی اخلاقی و سفارتی حیثیت تو کمزور ہو سکتی ہے مگر اس ظلم و بربریت و سفاکی کا سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی قوانین کی انسانی حقوق کی گریٹا تھنبرگ اقوام متحدہ غزہ کے کے لیے
پڑھیں:
دنیا اسرائیل کی دھمکیوں سے مرعوب نہ ہو، انتونیو گوتیریس
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا ہے کہ دنیا کو اسرائیل اور اس کے مقبوضہ مغربی کنارے کے ممکنہ الحاق کی دھمکیوں سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:پرتگال سمیت 10 ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کو تیار
انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطین کی حالتِ زار اور غزہ میں تباہی ان کی زندگی میں بدترین منظر ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے قبل ایک انٹرویو میں گوتیریس نے کہا کہ 10 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے، چاہے اسرائیل سخت مخالفت کرے۔
ان کے بقول ہمیں جوابی کارروائی کے خطرے سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں قحط، صحت کی سہولیات کی مکمل تباہی اور لاکھوں بے گھر افراد کا اذیت ناک حال دنیا کی توجہ کا متقاضی ہے۔
ادھر اسرائیل کے انتہا پسند وزیر خزانہ بیزالیل سموترچ نے مغربی کنارے کے بڑے حصوں کے الحاق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن کر دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ انتونیو گوتیریس غزہ فلسطین