خلیج میں ایران کے نشانے پر موجود امریکی فوجی تنصیبات، کون کون سے ملک لپیٹ میں آئیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ایران، اسرائیل و امریکا کے درمیان جاری محاذ آرائی کے تناظر میں ایک سوال مسلسل سامنے آ رہا ہے: خلیج میں امریکا کی عسکری موجودگی کس حد تک مؤثر اور خطرناک ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں خطے میں امریکا کے وسیع فوجی ڈھانچے اور اس کی اسٹریٹجک تیاریوں میں ملتا ہے۔
پانچ فضائی ونگز: خلیج کے آسمان پر امریکی گرفت
امریکی فضائیہ کے پانچ ”ایکسپیڈیشنری ونگز“ خلیج میں تعینات ہیں، جن میں دو کویت میں، اور ایک ایک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر میں موجود ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ونگز جدید F-15 اور F-16 جنگی طیاروں سے لیس ہیں، جو بوقتِ ضرورت فوری فضائی حملے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
قطر کا خاموش ونگ: ہدف، نگرانی اور ایندھن
قطر میں موجود پانچواں فضائی ونگ اگرچہ براہِ راست حملے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن اس کی اہمیت اس سے کسی طور کم نہیں۔ یہ ونگ فضائی نگرانی، انٹیلیجنس جمع کرنے اور ہوا میں ایندھن بھرنے کی سہولیات فراہم کرتا ہے، جو خطے میں دیگر امریکی فضائی یونٹس کی کارکردگی کا لازمی جزو ہیں۔
دفاعی ڈھالیں: خلیج میں میزائل ڈیفنس کا پھیلاؤ
گزشتہ 18 ماہ کے دوران، خلیجی ریاستوں میں امریکی فضائی دفاعی تنصیبات کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ کویت میں نئے ائر ڈیفنس سائٹس بنائے گئے ہیں جبکہ قطر میں ایک اور جدید میزائل ڈیفنس نظام نصب کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ یہ دفاعی ڈھانچے نہ صرف ایران بلکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کا پیشگی مقابلہ کرنے کے لیے تیار رکھے گئے ہیں۔
پانچواں بحری بیڑہ: سمندر پر امریکی گرفت
امریکا کا طاقتور ففتھ فلیٹ بحرین میں تعینات ہے، جو خلیج، بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر کے بڑے حصے پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس بیڑے کا حصہ یو ایس ایس کارل ونسن کیریئر اسٹرائیک گروپ ہے، جس کے پاس اپنا علیحدہ فضائی ونگ اور میزائل بردار بحری جہازوں کا ایک بیڑہ موجود ہے۔ یہ بیڑہ یمن سے ایران تک کسی بھی زمینی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسٹریٹجک نتائج: خطرے کی گھنٹی یا توازن کی ضمانت؟
خلیج میں امریکی عسکری موجودگی نہ صرف ایران بلکہ دیگر علاقائی طاقتوں کے لیے ایک اسٹریٹجک پیغام ہے کہ امریکا نہ صرف اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے تیار ہے، بلکہ کسی بھی جارحیت کا فوری اور مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں جہاں خطے میں جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں، امریکا کی یہ فوجی موجودگی ایک طرف طاقت کا مظاہرہ ہے، تو دوسری طرف خطرناک تصادم کی صورت میں بڑے پیمانے پر تباہی کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ کیونکہ ان ٹارگٹس پر ایرانی حملے دیگر ممالک کو بھی جنگ میں گھسیٹ لیں گے۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ عسکری طاقت روک تھام کا ہتھیار بنے گی یا تصادم کا ایندھن۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بھارت تاجکستان میں فضائی اڈے سے بے دخل، واحد غیر ملکی فوجی تنصیب چِھن گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دوشنبے:۔ پاکستان اور چین سے بارہا منہ کی کھانے کے بعد بھارت کو اب خطے کے دیگر ممالک بھی آنکھیں دکھانا شروع ہو گئے۔ خطے کا ٹھیکیدار بننے کا شوق رکھنے والے بھارت سے تاجکستان نے عینی فضائی اڈے کا مکمل کنٹرول واپس لے لیا ہے۔ یہ اقدام روسی اور چینی دبا ﺅکے بعد عمل میں آیا، جس کے نتیجے میں بھارت اپنی واحد غیر ملکی فوجی تنصیب سے دو دہائیوں بعد بے دخل کر دیا گیا۔
عالمی دفاعی جریدوں کے مطابق اس فیصلے نے وسطی ایشیا میں بھارت کی پوزیشن کو شدید دھچکا پہنچایا۔ عینی ایئربیس بھارت کے لیے پاکستان اور افغانستان پر فضائی نگرانی کا ایک اہم مرکز تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ماسکو اور بیجنگ نے تاجکستان پر دبا ﺅڈال کر بھارت کے ساتھ لیز معاہدہ ختم کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ روس کے 7000 سے زائد فوجی پہلے ہی تاجکستان میں تعینات ہیں جبکہ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ملک میں بھاری سرمایہ کاری اور فوجی تعاون بڑھا رکھا ہے۔
تاجکستان کا بھارت سے یہ فاصلہ، ماہرین کے مطابق، وسطی ایشیا میں روس اور چین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بڑھتے اثرورسوخ کی علامت ہے۔ بھارت نے عینی ایئربیس پر 2002ءمیں 70سے 100ملین ڈالر کی لاگت سے سرمایہ کاری کی تھی۔
اس ایئربیس پر بھارتی فضائیہ کے Mi-17 ہیلی کاپٹرز اور Su-30 طیارے تعینات رہے۔ اب انخلا کے بعد بھارت وسطی ایشیا میں اپنی عسکری موجودگی سے محروم ہو گیا۔ نئی دہلی میں اپوزیشن جماعتوں نے اسے خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دیا ہے جبکہ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ واقعہ بھارت کے لیے ایک اسٹریٹجک ویک اپ کال ہے۔