مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ایران، اسرائیل و امریکا کے درمیان جاری محاذ آرائی کے تناظر میں ایک سوال مسلسل سامنے آ رہا ہے: خلیج میں امریکا کی عسکری موجودگی کس حد تک مؤثر اور خطرناک ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں خطے میں امریکا کے وسیع فوجی ڈھانچے اور اس کی اسٹریٹجک تیاریوں میں ملتا ہے۔

پانچ فضائی ونگز: خلیج کے آسمان پر امریکی گرفت
امریکی فضائیہ کے پانچ ”ایکسپیڈیشنری ونگز“ خلیج میں تعینات ہیں، جن میں دو کویت میں، اور ایک ایک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر میں موجود ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ونگز جدید F-15 اور F-16 جنگی طیاروں سے لیس ہیں، جو بوقتِ ضرورت فوری فضائی حملے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

قطر کا خاموش ونگ: ہدف، نگرانی اور ایندھن
قطر میں موجود پانچواں فضائی ونگ اگرچہ براہِ راست حملے کی صلاحیت نہیں رکھتا، لیکن اس کی اہمیت اس سے کسی طور کم نہیں۔ یہ ونگ فضائی نگرانی، انٹیلیجنس جمع کرنے اور ہوا میں ایندھن بھرنے کی سہولیات فراہم کرتا ہے، جو خطے میں دیگر امریکی فضائی یونٹس کی کارکردگی کا لازمی جزو ہیں۔

دفاعی ڈھالیں: خلیج میں میزائل ڈیفنس کا پھیلاؤ
گزشتہ 18 ماہ کے دوران، خلیجی ریاستوں میں امریکی فضائی دفاعی تنصیبات کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ کویت میں نئے ائر ڈیفنس سائٹس بنائے گئے ہیں جبکہ قطر میں ایک اور جدید میزائل ڈیفنس نظام نصب کرنے کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ یہ دفاعی ڈھانچے نہ صرف ایران بلکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کا پیشگی مقابلہ کرنے کے لیے تیار رکھے گئے ہیں۔

پانچواں بحری بیڑہ: سمندر پر امریکی گرفت
امریکا کا طاقتور ففتھ فلیٹ بحرین میں تعینات ہے، جو خلیج، بحیرہ عرب اور بحیرہ احمر کے بڑے حصے پر نگاہ رکھتا ہے۔ اس بیڑے کا حصہ یو ایس ایس کارل ونسن کیریئر اسٹرائیک گروپ ہے، جس کے پاس اپنا علیحدہ فضائی ونگ اور میزائل بردار بحری جہازوں کا ایک بیڑہ موجود ہے۔ یہ بیڑہ یمن سے ایران تک کسی بھی زمینی ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسٹریٹجک نتائج: خطرے کی گھنٹی یا توازن کی ضمانت؟
خلیج میں امریکی عسکری موجودگی نہ صرف ایران بلکہ دیگر علاقائی طاقتوں کے لیے ایک اسٹریٹجک پیغام ہے کہ امریکا نہ صرف اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے تیار ہے، بلکہ کسی بھی جارحیت کا فوری اور مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں جہاں خطے میں جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں، امریکا کی یہ فوجی موجودگی ایک طرف طاقت کا مظاہرہ ہے، تو دوسری طرف خطرناک تصادم کی صورت میں بڑے پیمانے پر تباہی کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ کیونکہ ان ٹارگٹس پر ایرانی حملے دیگر ممالک کو بھی جنگ میں گھسیٹ لیں گے۔ وقت ہی بتائے گا کہ یہ عسکری طاقت روک تھام کا ہتھیار بنے گی یا تصادم کا ایندھن۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کی صلاحیت خلیج میں

پڑھیں:

روس نے ایٹمی میزائلوں کی تنصیب پر پابندی کے معاہدے کو خیرباد کہہ دیا

روس نے درمیانے اور قلیل فاصلے کے ایٹمی میزائلوں کی تنصیب پر پابندی کے معاہدے کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اس اقدام کو نیٹو کی روس مخالف پالیسی کا نتیجہ قرار دیا ہے، جبکہ سابق صدر دمتری میدویدیف نے خبردار کیا ہے کہ ماسکو مزید اقدامات کرے گا۔

میدویدیف، جو سابق روسی صدر ہیں اور اس وقت روس کی سیکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ ہیں، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا:

’وزارت خارجہ کی جانب سے درمیانے اور قلیل فاصلے کے میزائلوں کی تعیناتی پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان نیٹو کی روس مخالف پالیسی کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک نئی حقیقت ہے جسے اب ہمارے تمام مخالفین کو تسلیم کرنا ہوگا۔وہ ہم سے آئندہ مزید اقدامات کی توقع رکھیں۔‘

معاہدہ کیوں ختم کیا گیا؟

روسی وزارتِ خارجہ کے مطابق، یورپ اور ایشیا پیسیفک خطے میں امریکی میزائلوں کی ممکنہ تنصیب کے پیش نظر، روس کے لیے یکطرفہ پابندی برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھیے روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف، مغرب مخالف بیانیے کا نیا چہرہ

بیان میں کہا گیا ’امریکا نے یورپ اور ایشیا پیسیفک میں درمیانے اور قلیل فاصلے کے زمینی میزائل تعینات کرنے کے عملی اقدامات کیے ہیں، جس کے باعث روس پر ایسی ہی پابندی کا جواز باقی نہیں رہا۔‘

پس منظر: INF معاہدہ کیا تھا؟

1987 میں سابق سوویت رہنما میکائل گورباچوف اور امریکی صدر رونالڈ ریگن کے درمیان Intermediate-Range Nuclear Forces (INF) Treaty پر دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت 500 سے 5,500 کلومیٹر رینج کے زمینی ایٹمی میزائلوں کی تنصیب پر مکمل پابندی کی گئی تھی۔

مگر 2019 میں امریکا نے معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ روس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ روس نے اس وقت کہا تھا کہ وہ تب تک ایسے ہتھیار تعینات نہیں کرے گا جب تک امریکا پہل نہ کرے۔

امریکا اور روس کے درمیان بڑھتی کشیدگی

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ انہوں نے 2 امریکی ایٹمی آبدوزیں حساس علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ بیان میدویدیف کی جانب سے واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان ممکنہ جنگ سے متعلق بیان کے بعد سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیے روس کی امریکا کو وارننگ، ایٹمی جنگ چھیڑی گئی تو نتائج تباہ کن ہوں گے

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے ٹرمپ کے بیان کو کم اہمیت دیتے ہوئے کہا:

’ایسی آبدوزیں پہلے ہی اپنی پوزیشن پر موجود ہوتی ہیں، یہ معمول کی بات ہے۔ ہم اس تنازع میں پڑنا نہیں چاہتے۔ البتہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق بیانات میں سب کو انتہائی احتیاط برتنی چاہیے۔‘

نئی پابندیاں؟

ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے روس اور اس کا تیل خریدنے والے ممالک بشمول بھارت اور چین پر نئی پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے، اگر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعہ تک یوکرین میں فائر بندی پر اتفاق نہ کیا۔

پیوٹن نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ امن مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، مگر روس جنگ میں اب بھی برتری حاصل کیے ہوئے ہے، اور اس کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جوہری میزائل دمتری میدویدیف روس روسی صدر ولادیمیر پیوٹن

متعلقہ مضامین

  • امریکی ریاست جارجیا کے فوجی اڈے پر اندھا دھند فائرنگ؛ متعدد ہلاکتوں کا خدشہ
  • اضافی امریکی ٹیرف کے نفاذپر بھارت کا ردعمل سامنے آگیا
  • امریکہ، فوجی بیس میں مسلح شخص کی فائرنگ، متعدد ہلاکتوں کی اطلاع
  • امریکی فوجی اڈے فورٹ اسٹیورٹ میں مسلح شخص کی فائرنگ، ہلاکتوں کی اطلاع
  • ایپل کا امریکا میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • ’کارز‘ اور افغانستان میں امریکی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کی گیٹ وے جیسی حیثیت
  • 9 مئی کو دفاعی ادارے کی تنصیبات پر حملہ کیا گیا اور یہ ایک حقیقت ہے: رانا ثنااللہ
  • روس نے ایٹمی میزائلوں کی تنصیب پر پابندی کے معاہدے کو خیرباد کہہ دیا
  • امریکی ویزا ہولڈرز کے لیے نئی شرط لاگو
  • امریکا، بھارت اور ٹیرف کی جنگ