اب یا تو امن ہوگا یا پھر ایران کیلئے سانحہ ہوگا: ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اب یا تو ایران امن کا راستہ اختیار کرے گا یا پھر ایک بڑے سانحے کا سامنا کرے گا۔
واشنگٹن میں اپنے خطاب کے دوران صدر ٹرمپ نے بتایا کہ امریکا نے ایران کی فردو، نطنز اور اصفہان میں واقع جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، اور ان حملوں کا مقصد ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنا تھا، جو ان کے بقول اب تباہ کی جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج رات کے آپریشن میں سب سے مشکل اہداف کو نشانہ بنایا گیا، اگر ایران امن کی طرف نہیں آتا تو باقی بچ جانے والے اہداف پر بھی درستگی کے ساتھ حملے کیے جائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ ایران کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ امن کا راستہ اختیار کرے، بصورت دیگر مستقبل میں ہونے والے حملے کہیں زیادہ شدید ہوں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے میں ’الجزیرہ‘ کے پانچ صحافی ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اگست 2025ء) اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے انس الشریف کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے یہ الزام لگایا کہ وہ حماس کے ایک سیل کے سربراہ تھے اور اسرائیل پر راکٹ حملوں میں ملوث تھے۔
الجزیرہ نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے جبکہ اپنی موت سے قبل انس الشریف نے بھی اسرائیل کے اس الزام کو رد کیا تھا کہ ان کا حماس سے کوئی تعلق تھا۔
غزہ پٹی کے حکام اور الجزیرہ کے مطابق 28 سالہ انس الشریف مشرقی غزہ سٹی میں الشفاء اسپتال کے قریب ایک خیمے پر کیے گئے حملے میں مرنے والے چار الجزیرہ صحافیوں اور ایک معاون میں شامل تھے۔ ہسپتال کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حملے میں مزید دو دیگر افراد بھی مارے گئے۔
(جاری ہے)
الجزیرہ نے انس الشریف کو ’’غزہ پٹی کے سب سے بہادر صحافیوں میں سے ایک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ ’’غزہ پٹی پر قبضے سے قبل آوازوں کو خاموش کرنے کی ایک مایوس کن کوشش‘‘ ہے۔
الجزیرہ کے مطابق دیگر ہلاک ہونے والے صحافیوں میں محمد قریقیہ، ابراہیم ظاہر اور محمد نوفل شامل ہیں۔
انس الشریف ماضی میں خبر رساں ادارے روئٹرز کی اس ٹیم کا حصہ بھی رہے تھے، جس نے 2024 میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کی کوریج پر بریکنگ نیوز فوٹوگرافی کے لیے پولٹزر انعام جیتا تھا۔
صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے اس ہلاکت خیز اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے کیا کہا؟اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ انس الشریف حماس کے ایک سیل کے سربراہ تھے اور’’اسرائیلی شہریوں اور آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) پر راکٹ حملوں کی منصوبہ بندی کے ذمہ دار تھے۔‘‘ اس دعوے کے ثبوت کے طور پر فوج نے غزہ سے ملنے والی انٹیلیجنس اور دستاویزات کا حوالہ دیا ہے۔
گزشتہ اکتوبر میں اسرائیلی فوج نے انس الشریف کو غزہ کے ان چھ صحافیوں میں شامل کیا تھا، جنہیں اس نے حماس اور فلسطینی تنظیم اسلامی جہاد کا رکن قرار دیا تھا اور ایسی دستاویزات بھی دکھائی تھیں جن میں مبینہ طور پر تربیتی کورس مکمل کرنے والوں کے ناموں اور تنخواہوں کی فہرست تھی۔
الجزیرہ نے اس وقت ایک بیان میں کہا تھا، ’’الجزیرہ ہمارے صحافیوں کو دہشت گرد قرار دینے اور جھوٹے شواہد استعمال کرنے کی اسرائیلی قابض افواج کی کوششوں کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایرین خان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اسرائیل کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
پریس فریڈم گروپ اور اقوام متحدہ کے ایک ماہر نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ غزہ پٹی سے رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے انس الشریف کی جان کو خطرہ ہے۔
صحافتی تنظیموں کی جانب سے مذمتکمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس، جس نے جولائی میں بین الاقوامی برادری سے انس الشریف کے تحفظ کی اپیل کی تھی، نے کہا کہ اسرائیل انیس کے خلاف اپنے الزامات کے ثبوت دینے میں ناکام رہا۔
سی پی جے کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ڈائریکٹر سارہ قداح نے کہا، ’’بغیر معتبر شواہد کے صحافیوں کو جنگجو قرار دینے کا اسرائیلی طریقہ اس کے ارادے اور پریس کی آزادی کے احترام پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔
‘‘غزہ پٹی پر حکمرانی کرنے والے فلسطینی مسلح گروہ حماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ قتل ممکنہ طور پر اسرائیلی حملے کے آغاز کا اشارہ ہے۔ ’’صحافیوں کا قتل اور باقی ماندہ کو خوفزدہ کرنا اس بڑے جرم کی تیاری ہے جو قابض افواج غزہ شہر میں کرنے والی ہیں۔‘‘
انس الشریف کا آخری پیغامالجزیرہ نے کہا کہ انس الشریف نے اپنی موت کی صورت میں شائع کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک پیغام چھوڑا تھا، جس میں لکھا تھا: ’’میں نے کبھی سچ کو بغیر توڑ مروڑ کے بیان کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں کی، اس امید پر کہ خدا ان لوگوں کا گواہ ہو، جو خاموش رہے۔
‘‘انس الشریف، جن کے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر پانچ لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے، نے اپنی موت سے چند منٹ پہلے پوسٹ کیا تھا کہ تب اسرائیل دو گھنٹے سے زائد دیر سے غزہ شہر پر شدید بمباری کر رہا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ میں حماس کے مضبوط گڑھ ختم کرنے کے لیے ایک نیا حملہ شروع کریں گے، جہاں 22 ماہ کی جنگ کے بعد اب بھوک کا بحران شدید ہو چکا ہے۔
الجزیرہ ٹی وی نے کہا، ’’انس الشریف اور ان کے ساتھی دنیا کو غزہ پٹی کی المناک حقیقت دکھانے والی آخری آوازوں میں شامل تھے۔‘‘
حماس کے زیر انتظام غزہ پٹی کی حکومت کے میڈیا آفس کے مطابق، سات اکتوبر 2023 سے جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 237 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ غزہ کے تنازعے میں اب تک کم از کم 186 صحافی مارے جا چکے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک، شکور رحیم