data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں مصںوعی ذہانت کو اپنانے کی دوڑ سی لگی ہے۔ ہر شعبے میں زیادہ سے زیادہ معاملات مصنوعی ذہانت کی نذر کرنے کا رواج سا چل پڑا ہے۔ کاروباری دنیا اپنے زیادہ سے زیادہ کام مصنوعی ذہانت کی نذر کرکے انسانی وسائل سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر بھرپور کاروباری کامیابی یقینی بنانی ہے تو لازم ہے کہ مصنوعی ذہانت کو زیادہ سے زیادہ اپنایا جائے۔

کیا مصنوعی ذہانت کو اپنانا تمام مسائل کا حل ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بہت سے کام کرسکتی ہے مگر تمام کام نہیں کرسکتی اور دنیا اِس کی طرف کچھ زیادہ ہی لپک رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت میں انسانی ذہن کا عمل دخل تو ہے نہیں اِس لیے معاملات خود کاریت کے تحت طے پاتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے غلط فیصلے ہو جاتے ہیں۔ بہت سے دفاتر میں مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں کام الجھ بھی رہے ہیں۔ جہاں انسانی ذہن کا استعمال ناگزیر ہو وہاں محض مصنوعی ذہانت پر اکتفا کرنا انتہائی نوعیت کی صورتِ حال کو جنم دے رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں انسانوں کا موجود ہونا لازم ہے۔ مصنوعی ذہانت تمام فیصلے پوری قطعیت اور درستی کے ساتھ نہیں کرسکتی۔ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں بہت سے کاروباری اداروں کو شدید نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب اُس پر بہت زیادہ اور غیر ضروری انحصار کیا جاتا ہے۔

بہت سے کاروباری اداروں کو اچھی طرح احساس اور اندازہ ہوچکا ہے کہ ہر معاملے میں مصنوعی ذہانت پر منحصر رہنے کی گنجائش نہیں۔ جہاں انسانی عمل دخل ناگزیر ہو وہاں انسان ہی بہترین نتائج دے سکتا ہے۔ بہت سے معاملات میں مصںوعی ذہانت کا استعمال انسانوں کو دی جانے والی اجرت سے کہیں زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا اور یورپ کے سیکڑوں کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت پر بہت زیادہ انحصار سے گریز کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں۔ بہت سے اداروں نے مصںوعی ذہانت کو اپنانے کے فیصلے کی بنیاد پر انسانوں کو یکسر فارغ کرنے کا جو پروگرام بنایا تھا اُسے بہت حد تک ترک کردیا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت ذہانت کو بہت سے

پڑھیں:

صارفین اور کاروباری طبقے کے لیے بڑی خوشخبری: آن لائن خریداری پر عائد ڈیجیٹل ٹیکس ختم

پاکستان کی وفاقی حکومت نے بیرونِ ملک سے آن لائن منگوائی جانے والی اشیا اور ڈیجیٹل سروسز پر عائد 5 فیصد ڈیجیٹل ٹیکس ختم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق، یہ فیصلہ یکم جولائی 2025 سے نافذالعمل ہو چکا ہے۔

یہ ٹیکس اُن بین الاقوامی کمپنیوں کی مصنوعات اور خدمات پر عائد کیا گیا تھا جن کا پاکستان میں کوئی دفتر یا قانونی نمائندہ موجود نہیں۔ اس سے متاثرہ خدمات میں اسٹریمنگ، سافٹ ویئر، سبسکرپشنز کے علاوہ وہ تمام آن لائن خریداری شامل تھی جو پاکستانی صارفین بیرونِ ملک ویب سائٹس جیسے کہ علی ایکسپریس، ٹیمو، ایمازون اور دیگر چینی و مغربی پلیٹ فارمز سے کرتے تھے۔

“لاکھوں آن لائن خریداروں کو براہِ راست فائدہ ہوگا”
ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے لاکھوں آن لائن صارفین کو براہِ راست ریلیف ملے گا جو پہلے ہی عالمی مہنگائی اور مقامی معاشی دباؤ کے باعث مہنگی اشیا خریدنے پر مجبور تھے۔

معاشی تجزیہ کار راجہ کامران نے نجی ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا:

“یہ صرف سافٹ ویئر یا ایپس کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان میں ایک بڑا طبقہ ہے جو ٹیمو، ایمازون اور علی بابا جیسی ویب سائٹس سے کپڑے، جوتے، گھریلو اشیا اور گیجٹس منگواتا ہے۔ 5 فیصد ٹیکس چیزوں کو عام صارف کی پہنچ سے دور کر رہا تھا۔ اب جب یہ ٹیکس ہٹا دیا گیا ہے، لوگ وہی اشیا کم قیمت پر خرید سکیں گے۔”

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا:

” علی ایکسپریس سےاگر کوئی صارف ایک لاکھ روپے کی گھڑی یا موبائل منگواتا تھا تو اسے اضافی 5 ہزار روپے ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ اب یہ ٹیکس ختم ہو چکا ہے، یعنی براہِ راست 5 فیصد کمی آ گئی ہے۔”

“چھوٹے کاروبار کے لیے عملی ریلیف”
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آن لائن بزنس مین فیصل بٹ، جو چین سے الیکٹرانکس اور گھریلو اشیا درآمد کرتے ہیں، اس فیصلے کو “عملی ریلیف” قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال جب انہوں نے علی بابا سے سامان منگوایا، تو لاکھوں روپے صرف 5 فیصد ٹیکس کی مد میں ادا کرنا پڑے۔

“جب آپ دس یا 20 لاکھ کا سامان منگواتے ہیں تو یہ رقم بڑی ہو جاتی ہے۔ اب جب ٹیکس ختم ہو گیا ہے، تو ہم کم لاگت پر مال منگوا سکیں گے جس سے صارفین کو بھی سستی اشیامل سکیں گی۔ اس سے نہ صرف سیلز میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام کامارکیٹ پر اعتماد بھی بحال ہوگا۔”

فیصل بٹ کے مطابق چھوٹے آن لائن ریٹیلرز کے لیے ہر روپیہ اہم ہوتا ہے، اور یہ فیصلہ ان کے لیے ایک بڑی آسانی ہے۔

“مارکیٹ کے لیے بہتری کا موقع، اگرچہ ٹیکس آمدن میں وقتی کمی ممکن ہے”
ڈیجیٹل مارکیٹنگ کنسلٹنٹ مریم چوہدری نے کہا کہ یہ فیصلہ صرف خریداروں کے لیے نہیں، بلکہ فری لانسرز، چھوٹے کاروبار، یوٹیوبرز اور آن لائن اسٹورز چلانے والوں کے لیے بھی ایک بڑی سہولت ہے۔

“یہ مارکیٹ کی بحالی کی طرف ایک قدم ہے۔ جو لوگ ٹیمو یا علی بابا سے چیزیں خرید کر آگے بیچتے ہیں، اُن کے لیے قیمت میں یہ کمی ایک کاروباری فائدہ بن سکتی ہے۔ نتیجتاً مارکیٹ میں مقابلہ بڑھے گا اور صارف کو بہتر قیمت پر چیزیں ملیں گی۔”

مریم کے مطابق اگرچہ اس فیصلے سے حکومت کو ابتدائی طور پر ٹیکس ریونیو میں کمی محسوس ہو سکتی ہے، لیکن درمیانی مدت میں بڑھتی ہوئی خریداری اور مارکیٹ سرگرمی اس کمی کو پورا کر سکتی ہے۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • تاریخ پر تاریخ رقم، پاکستان سٹاک مارکیٹ نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا
  • گوگل ڈیپ مائنڈ نے جینی 3 لانچ کردیا، خصوصیات کیا ہیں؟
  • مصنوعی ذہانت کے باعث زیادہ متاثر ہونے والی نوکریاں کون سی ہیں؟
  • مصنوعی مٹھاس کینسر کے علاج میں رکاوٹ بن سکتی ہے، تحقیق
  • ’ خود پسندی میں ڈوبا شخص‘۔ٹرمپ کا بھارت پر مزید ٹیرف، گودی میڈیا بوکھلاہٹ کا شکار
  • اس سال یومِ استحصال کی غیر معمولی اہمیت ہے، صدر مملکت
  • بزنس کمیونٹی اور حکومت
  • دل کی نئی امید
  • سیکڑوں برس قبل تہذیب انسانی ہڈیوں سے کیا کرتی تھی؟
  • صارفین اور کاروباری طبقے کے لیے بڑی خوشخبری: آن لائن خریداری پر عائد ڈیجیٹل ٹیکس ختم