مصنوعی ذہانت کو اپنانے میں غیر معمولی عجلت پسندی پر پچھتاوا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں مصںوعی ذہانت کو اپنانے کی دوڑ سی لگی ہے۔ ہر شعبے میں زیادہ سے زیادہ معاملات مصنوعی ذہانت کی نذر کرنے کا رواج سا چل پڑا ہے۔ کاروباری دنیا اپنے زیادہ سے زیادہ کام مصنوعی ذہانت کی نذر کرکے انسانی وسائل سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر بھرپور کاروباری کامیابی یقینی بنانی ہے تو لازم ہے کہ مصنوعی ذہانت کو زیادہ سے زیادہ اپنایا جائے۔
کیا مصنوعی ذہانت کو اپنانا تمام مسائل کا حل ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت بہت سے کام کرسکتی ہے مگر تمام کام نہیں کرسکتی اور دنیا اِس کی طرف کچھ زیادہ ہی لپک رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت میں انسانی ذہن کا عمل دخل تو ہے نہیں اِس لیے معاملات خود کاریت کے تحت طے پاتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے غلط فیصلے ہو جاتے ہیں۔ بہت سے دفاتر میں مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں کام الجھ بھی رہے ہیں۔ جہاں انسانی ذہن کا استعمال ناگزیر ہو وہاں محض مصنوعی ذہانت پر اکتفا کرنا انتہائی نوعیت کی صورتِ حال کو جنم دے رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض معاملات میں انسانوں کا موجود ہونا لازم ہے۔ مصنوعی ذہانت تمام فیصلے پوری قطعیت اور درستی کے ساتھ نہیں کرسکتی۔ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں بہت سے کاروباری اداروں کو شدید نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب اُس پر بہت زیادہ اور غیر ضروری انحصار کیا جاتا ہے۔
بہت سے کاروباری اداروں کو اچھی طرح احساس اور اندازہ ہوچکا ہے کہ ہر معاملے میں مصنوعی ذہانت پر منحصر رہنے کی گنجائش نہیں۔ جہاں انسانی عمل دخل ناگزیر ہو وہاں انسان ہی بہترین نتائج دے سکتا ہے۔ بہت سے معاملات میں مصںوعی ذہانت کا استعمال انسانوں کو دی جانے والی اجرت سے کہیں زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا اور یورپ کے سیکڑوں کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت پر بہت زیادہ انحصار سے گریز کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں۔ بہت سے اداروں نے مصںوعی ذہانت کو اپنانے کے فیصلے کی بنیاد پر انسانوں کو یکسر فارغ کرنے کا جو پروگرام بنایا تھا اُسے بہت حد تک ترک کردیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت ذہانت کو بہت سے
پڑھیں:
نیا کورونا ویرینٹ نِمبس چین سے امریکا تک پھیل گیا
کورونا وائرس کا نیا ویرینٹ جسے NB.1.8.1 یا نِمبس کہا جا رہا ہے، چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں کووڈ-19 کے کیسز میں اضافے کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔
اب یہ ویرینٹ امریکا میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے، جہاں یہ جون کے آغاز تک نئے کیسز کا تقریباً ایک تہائی حصہ بن چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق نِمبس ویرینٹ کی علامات زیادہ تر سابقہ ویرینٹس جیسی ہی ہیں، جیسے کہ زکام جیسی علامات، بخار، گلا خراب، تھکن، سردرد، بدن درد، کھانسی، سانس لینے میں دشواری متلی یا الٹی آنا۔
ابھی تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ ویرینٹ زیادہ شدید بیماری کا باعث بنتا ہے، لیکن اس کے زیادہ پھیلنے کی صلاحیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
ابتدائی معلومات کے مطابق نِمبس ویرینٹ میں کچھ امیون ایسکیپ (یعنی مدافعتی نظام سے بچنے کی صلاحیت) دیکھی گئی ہے۔
جس کی وجہ سے موجودہ ویکسینز کی افادیت کچھ حد تک کم ہو سکتی ہے تاہم یہ ویرینٹ اومیکرون خاندان سے ہی ہے، اس لیے ویکسین مکمل طور پر بے اثر نہیں۔
ڈاکٹر لیانا وین کے مطابق ایک نئی لہر ممکن ہے، خاص طور پر گرمیوں کے مہینوں میں جب لوگ زیادہ سفر کرتے ہیں اور احتیاط کم کرتے ہیں، پہلے بھی موسم گرما میں کووڈ کی لہریں آ چکی ہیں۔
65 سال سے زائد عمر کے افراد، وہ لوگ جو دائمی بیماریوں میں مبتلا ہیں یا ایسے افراد جنہوں نے 25-2024 کی ویکسین اب تک نہیں لی ان کو فوری ویکسین کی نئی خوراک لینی چاہیے، عوامی مقامات پر احتیاط اب بھی ضروری ہے، نئی ویکسین کی ممکنہ دستیابی خزاں (Fall) میں متوقع ہے۔
Post Views: 4