لاہور کے مقامی ہوٹل میں آم میلہ، 50 سے زائد اقسام کی نمائش
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
لاہور:
محکمہ سیاحت پنجاب کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں آم میلے کا انعقاد کیا گیا جہاں آم کی 50 سے زائد اقسام نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔
دو روزہ نمائش میں شہریوں، سیاحوں، کسانوں، زرعی ماہرین، فوڈ انڈسٹری سے وابستہ افراد اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آموں کی خوشبو، روایتی رقص، لوک موسیقی، دستکاری کے اسٹالز اور آم سے بنی منفرد ڈشز نے میلے کو ثقافت، ذائقے اور زراعت کا حسین امتزاج بنا دیا۔
نمائش کا افتتاح سیکریٹری سیاحت پنجاب فرید احمد تارڑ اور منیجنگ ڈائریکٹر ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب (ٹی ڈی سی پی) ڈاکٹر ناصر محمود نے کیا۔ اس موقع پر شہریوں، مہمانوں، بچوں اور غیر ملکی مہمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
فرید احمد تارڑ نے کہا کہ یہ میلہ نہ صرف آم کا تہوار ہے بلکہ پنجاب کے محنتی کسانوں، زراعت اور ثقافت کے فروغ کا ذریعہ بھی ہے۔ ڈاکٹر ناصر محمود کے مطابق آم میلہ نہ صرف مقامی صنعتوں اور زراعت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ سیاحت، ثقافت اور مہمان نوازی کو فروغ دینے کا بھی موثر ذریعہ ہے۔
نمائش میں 5 ٹن ایکسپورٹ کوالٹی آم رکھے گئے، جنہیں کھیت کے نرخوں پر شہریوں کو پیش کیا گیا۔ زرعی ماہر رانا آصف حیات ٹیپو کا کہنا تھا کہ عوام کی شکایت رہی ہے کہ انہیں برآمدی معیار کے آم بازار میں دستیاب نہیں ہوتے، اس لیے نمائش میں براہ راست کسانوں سے یہ آم فراہم کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں، شدید گرمی، آندھی اور پانی کی کمی کے باعث آم کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس سال پیداوار میں 40 سے 50 فیصد کمی کا سامنا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں آم کی اوسط سالانہ پیداوار 18 لاکھ میٹرک ٹن ہے، جس میں سب سے بڑا حصہ پنجاب کا ہے جو ملک کی پیداوار کا 70 فیصد پیدا کرتا ہے۔
سندھ 29 فیصد اور خیبر پختونخوا ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ تاہم 2025 میں پیداوار کم ہو کر 14 لاکھ میٹرک ٹن تک رہنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے رواں سیزن میں برآمدات کا ہدف بڑھا کر ایک لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن مقرر کیا ہے، جس سے 10 کروڑ امریکی ڈالر یعنی تقریباً 28 ارب روپے کا زر مبادلہ حاصل ہونے کی توقع ہے۔ پچھلے سال صرف 13,681 میٹرک ٹن آم برآمد ہوئے تھے، جن سے 4 کروڑ 67 لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی۔
نمائش میں شریک خواتین اور نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ عام طور پر مارکیٹ میں چند اقسام کے آم ہی دیکھتے تھے، لیکن یہاں ایک ہی جگہ اتنی بڑی تعداد میں مختلف اقسام کو دیکھنا ایک نایاب تجربہ تھا۔ ایک ہوٹلنگ ادارے کی نمائندہ نمرہ نے بتایا کہ ان کے اسٹال پر آم سے بننے والی ڈشز جیسے کیک، شیک، جوس، چٹنی اور آئس کریم بنانا سکھایا گیا، تاکہ لوگ آم کو صرف ٹھنڈا پھل سمجھنے کے بجائے اسے متنوع غذاؤں میں استعمال کر سکیں۔ نوجوان آرٹسٹ سارہ محمد حسین اور ان کی ٹیم نے آموں کی پینٹنگز بنا کر ان رنگوں اور خوشبوؤں کو تصویری شکل دی۔
پاکستان میں آم کی 200 سے زائد اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن میں سے بیس اقسام تجارتی بنیادوں پر اگائی جاتی ہیں اور انہیں دنیا بھر میں برآمد کر کے زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان اقسام میں چونسا، سندھڑی، نیلم، انور رٹول، لنگڑا، دوسہری، بیگن پھلی، گلاب خاصہ، سرولی اور زعفران شامل ہیں۔ پاکستانی آم ذائقے، خوشبو، رنگت اور غذائیت کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آم کو "پھلوں کا بادشاہ" کہا جاتا ہے۔
ٹی ڈی سی پی حکام کے مطابق آم میلہ نہ صرف مقامی سیاحت، زراعت اور ثقافت کو فروغ دیتا ہے بلکہ کسانوں اور برآمدکنندگان کے درمیان براہ راست رابطے کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میٹرک ٹن
پڑھیں:
لاہور پولیس کا ’مشینی مخبر‘: اب مصنوعی ذہانت چور ڈکیت پکڑوائے گی!
لاہور پولیس نے جرائم کی روک تھام میں ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی جدید سسٹم پنجاب ایمرجنسی اے آئی متعارف کروا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پیشہ فن کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا، لاہور کی خوبصورتی اجاگر کرنے والا آرٹسٹ پولیس اہلکار سب کے لیے مثال
یہ نظام پنجاب سیف سٹی اتھارٹی اور پنجاب آئی ٹی بورڈ کی مشترکہ کاوش ہے جو پولیس کو جرائم کے ممکنہ علاقوں کی بروقت نشاندہی، مؤثر پٹرولنگ اور فوری کارروائی میں مدد دے گا۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے کہا کہ یہ جدیداے آئی سسٹم اسمارٹ پولیسنگ اور اسمارٹ پٹرولنگ کو ممکن بنائے گا جس سے لاہور پولیس کی ورکنگ میں انقلابی تبدیلی آئے گی۔
جرائم کی پیشگوئیاے آئی الگورتھم تاریخی جرائم ڈیٹا، موسم، ٹریفک پیٹرنز اور سوشل میڈیا رجحانات کا تجزیہ کر کے پولیس کو خبردار کرے گا کہ کن علاقوں میں چوری، ڈکیتی یا دیگر واردات کا خطرہ ہے۔
ہاٹ اسپاٹس کی شناختلاہور کے مصروف بازار، سڑکیں، رہائشی علاقے اور دیگر خطرناک مقامات کو ریئل ٹائم میں مانیٹر کیا جائے گا تاکہ ان علاقوں میں فوری اقدامات کیے جا سکیں۔ خطرے والے علاقوں میں پولیس کے گشت کو مؤثر بنایا جائے گا۔
15 ہیلپ لائن بھی اے آئی سے منسلکپہلی بار 15 ایمرجنسی ہیلپ لائن کو بھی اے آئی سے منسلک کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کیخلاف روزانہ درجنوں درخواستیں آرہی ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
اب کال کرنے والوں کو انٹرایکٹو وائس رسپانس سسٹم (آئی وی آر) کے ذریعے خودکار آپشنز دیے جائیں گے۔ خواتین متاثرین براہ راست خاتون پولیس افسران سے رابطہ کر سکیں گی۔
پولیس ڈیٹا سسٹمز سے مکمل ہم آہنگییہ سسٹم پولیس اسٹیشن ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم، ہوٹل ای آئی اور ٹیننٹ رجسٹریشن سسٹم کے ساتھ منسلک ہے جس سے مشتبہ افراد اور مجرمان کی شناخت اور ٹریکنگ مزید آسان ہو جائے گی۔
نظام لاہور کے بعد دیگر شہروں میں بھی نافذ ہوجائے گاپنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے مطابق یہ اے آئی سسٹم پہلے مرحلے میں لاہور میں مکمل طور پر فعال کیا جا رہا ہے اور جلد ہی اسے دیگر شہروں میں بھی نافذ کر دیا جائے گا تاکہ پورے صوبے میں جرائم کی مؤثر نگرانی ممکن ہو۔
مزید پڑھیں: لاہور ٹریفک پولیس نے ایک دن میں 11 بچوں کو پیشہ ور بھکاریوں کے چنگل سے بچالیا
لاہور پولیس کا یہ اقدام پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایک روشن مثال ہے۔ اگر یہ سسٹم مؤثر ثابت ہوتا ہے تو یہ پولیسنگ کے روایتی طریقہ کار میں ایک انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے جہاں جرائم پیش آنے سے پہلے ان کی پیشگوئی ممکن ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب پنجاب ایمرجنسی اے آئی چور پکڑنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال لاہور لاہور پولیس