لاہور:

محکمہ سیاحت پنجاب کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں آم میلے کا انعقاد کیا گیا جہاں آم کی 50 سے زائد اقسام نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔

دو روزہ نمائش میں شہریوں، سیاحوں، کسانوں، زرعی ماہرین، فوڈ انڈسٹری سے وابستہ افراد اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آموں کی خوشبو، روایتی رقص، لوک موسیقی، دستکاری کے اسٹالز اور آم سے بنی منفرد ڈشز نے میلے کو ثقافت، ذائقے اور زراعت کا حسین امتزاج بنا دیا۔

نمائش کا افتتاح سیکریٹری سیاحت پنجاب فرید احمد تارڑ اور منیجنگ ڈائریکٹر ٹورازم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب (ٹی ڈی سی پی) ڈاکٹر ناصر محمود نے کیا۔ اس موقع پر شہریوں، مہمانوں، بچوں اور غیر ملکی مہمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

فرید احمد تارڑ نے کہا کہ یہ میلہ نہ صرف آم کا تہوار ہے بلکہ پنجاب کے محنتی کسانوں، زراعت اور ثقافت کے فروغ کا ذریعہ بھی ہے۔ ڈاکٹر ناصر محمود کے مطابق آم میلہ نہ صرف مقامی صنعتوں اور زراعت کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ سیاحت، ثقافت اور مہمان نوازی کو فروغ دینے کا بھی موثر ذریعہ ہے۔ 

نمائش میں 5 ٹن ایکسپورٹ کوالٹی آم رکھے گئے، جنہیں کھیت کے نرخوں پر شہریوں کو پیش کیا گیا۔ زرعی ماہر رانا آصف حیات ٹیپو کا کہنا تھا کہ عوام کی شکایت رہی ہے کہ انہیں برآمدی معیار کے آم بازار میں دستیاب نہیں ہوتے، اس لیے نمائش میں براہ راست کسانوں سے یہ آم فراہم کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں، شدید گرمی، آندھی اور پانی کی کمی کے باعث آم کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس سال پیداوار میں 40 سے 50 فیصد کمی کا سامنا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں آم کی اوسط سالانہ پیداوار 18 لاکھ میٹرک ٹن ہے، جس میں سب سے بڑا حصہ پنجاب کا ہے جو ملک کی پیداوار کا 70 فیصد پیدا کرتا ہے۔

سندھ 29 فیصد اور خیبر پختونخوا ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ تاہم 2025 میں پیداوار کم ہو کر 14 لاکھ میٹرک ٹن تک رہنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے رواں سیزن میں برآمدات کا ہدف بڑھا کر ایک لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن مقرر کیا ہے، جس سے 10 کروڑ امریکی ڈالر یعنی تقریباً 28 ارب روپے کا زر مبادلہ حاصل ہونے کی توقع ہے۔ پچھلے سال صرف 13,681 میٹرک ٹن آم برآمد ہوئے تھے، جن سے 4 کروڑ 67 لاکھ ڈالر کی آمدنی ہوئی۔

نمائش میں شریک خواتین اور نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ عام طور پر مارکیٹ میں چند اقسام کے آم ہی دیکھتے تھے، لیکن یہاں ایک ہی جگہ اتنی بڑی تعداد میں مختلف اقسام کو دیکھنا ایک نایاب تجربہ تھا۔ ایک ہوٹلنگ ادارے کی نمائندہ نمرہ نے بتایا کہ ان کے اسٹال پر آم سے بننے والی ڈشز جیسے کیک، شیک، جوس، چٹنی اور آئس کریم بنانا سکھایا گیا، تاکہ لوگ آم کو صرف ٹھنڈا پھل سمجھنے کے بجائے اسے متنوع غذاؤں میں استعمال کر سکیں۔ نوجوان آرٹسٹ سارہ محمد حسین اور ان کی ٹیم نے آموں کی پینٹنگز بنا کر ان رنگوں اور خوشبوؤں کو تصویری شکل دی۔

پاکستان میں آم کی 200 سے زائد اقسام کاشت کی جاتی ہیں جن میں سے بیس اقسام تجارتی بنیادوں پر اگائی جاتی ہیں اور انہیں دنیا بھر میں برآمد کر کے زرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان اقسام میں چونسا، سندھڑی، نیلم، انور رٹول، لنگڑا، دوسہری، بیگن پھلی، گلاب خاصہ، سرولی اور زعفران شامل ہیں۔ پاکستانی آم ذائقے، خوشبو، رنگت اور غذائیت کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز سمجھے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آم کو "پھلوں کا بادشاہ" کہا جاتا ہے۔

ٹی ڈی سی پی حکام کے مطابق آم میلہ نہ صرف مقامی سیاحت، زراعت اور ثقافت کو فروغ دیتا ہے بلکہ کسانوں اور برآمدکنندگان کے درمیان براہ راست رابطے کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میٹرک ٹن

پڑھیں:

انڈس ڈیلٹا: صفحہ ہستی سے مٹتے گاؤں، سمندر کی نذر ہوتی ایک بھرپور ثقافت، وجہ کیا ہے؟

سندھ کے علاقے کھاروچھان کے گاؤں عبداللہ میر بہر سے تعلق رکھنے والے حبیب اللہ کھٹی اپنی والدہ کی قبر پر آخری دعا کرنے پہنچے تو ان کے قدموں تلے نمک کی سفید تہہ چٹخنے لگی۔ وہ اور ان کے اہلِ خانہ اب اس بنجر اور دلدلی زمین کو خیر باد کہنے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی عدم توجہی یا مافیا کا راج، کراچی میں ماحول دوست مینگرووز کا تیزی سے خاتمہ کیوں ہو رہاہے؟

اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈس ڈیلٹا کا علاقہ، جہاں دریائے سندھ بحیرہ عرب سے جا ملتا ہے، تیزی سے سمندری پانی کے رحم و کرم پر آتا جا رہا ہے۔ زمین کھاری ہو چکی ہے، پانی پینے کے قابل نہیں رہا اور ایک قدیم طرز زندگی جو زراعت اور ماہی گیری سے جڑی تھی، قصۂ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔

حبیب اللہ کھٹی کہتے ہیں کہ ہم چاروں طرف سے کھارے پانی میں گھر چکے ہیں۔ کھاروچھان کبھی 40 کے قریب گاؤں پر مشتمل ہوا کرتا تھا مگر اب ان میں سے بیشتر سمندر کی نذر ہو چکے ہیں۔ سنہ 1981 میں یہاں کی آبادی 26 ہزار تھی جو 2023 میں صرف 11 ہزار رہ گئی۔

انسانی المیہ: لاکھوں لوگ بے گھر

پاکستان فشر فولک فورم کا کہنا ہے کہ اب تک ہزاروں خاندان انڈس ڈیلٹا کے ساحلی علاقوں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ جِناح انسٹیٹیوٹ کی سنہ 2024 کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 2 دہائیوں میں 12 لاکھ سے زائد افراد اس علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

کھاروچھان اور کیٹی بندر جیسے علاقوں کے باسی اب کراچی جیسے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں پہلے ہی معاشی مہاجرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

پانی کی کمی، زمین کی بربادی

دریائے سندھ کا پانی سنہ 1950 کے بعد سے 80 فیصد کم ہو چکا ہے جس کی بڑی وجوہات نہری نظام، پن بجلی کے منصوبے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے میں کمی ہیں۔

ایک امریکی-پاکستانی تحقیق کے مطابق سنہ 1990 کے بعد سے علاقے کے پانی میں نمک کی مقدار 70 فیصد تک بڑھ چکی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف کھیتی باڑی ناممکن ہو گئی ہے بلکہ جھینگے اور کیکڑے جیسی آبی حیات بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: تھرپارکر میں آسمانی بجلی اتنی زیادہ کیوں گرتی ہے؟

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مقامی ماہر محمد علی انجم نے کہا کہ ’ڈیلٹا اب ڈوب بھی رہا ہے اور سکڑ بھی رہا ہے‘۔

سفید نمک کی تہہ اور نایاب میٹھا پانی

کیٹی بندر میں زمین پر نمک کی سفید تہہ جمی ہوئی ہے۔ پینے کا پانی کئی کلومیٹر دور سے کشتیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے اور لوگ اسے گدھوں پر گھر لے کر جاتے ہیں۔

حاجی کرم جت کاکہنا ہے کہ کون اپنی سرزمین چھوڑتا ہے؟ انہوں نے نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ’جن کا گھر سمندر کی بڑھتی سطح نگل چکا ہے اب وہ اندرون ملک ایک نئی جگہ بس چکے ہیں اور دوسروں کو بھی وہی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں‘۔

قدیم طرز زندگی کا خاتمہ

موسمیاتی کارکن فاطمہ مجید کہتی ہیں کہ انڈس ڈیلٹا کے ساتھ صرف زمین نہیں بلکہ ایک ثقافت بھی ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین جو نسلوں سے ماہی گیری کے جال بُنتی اور مچھلیاں صاف کرتی تھیں، اب شہروں میں روزگار کے لیے تگ و دو کرتی نظر آتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

فاطمہ نے کہا کہ ہم نے صرف زمین نہیں کھوئی، ہم نے اپنا رنگ، رسم اور رشتہ بھی کھو دیا ہے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ جن کا خاندان کھاروچھان سے کراچی کے مضافات میں منتقل ہو چکا ہے۔

سیاسی و عالمی خطرات

دریائے سندھ کا پانی صرف قدرتی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ بھارت، جس نے سنہ 1960 کا انڈس واٹر ٹریٹی ’منسوخ‘ کرنے کا اعلان کیا ہے، اوپری علاقوں میں ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستان نے اس اقدام کو اعلان جنگ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے پانی کی فراہمی مزید متاثر ہوگی۔

بحالی کی کوششیں: امید کی کرن؟

ماحولیاتی تباہی کے باوجود کچھ اقدامات بھی جاری ہیں۔ سال 2021 میں حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ نے ’لِونگ انڈس انیشیٹو‘ کا آغاز کیا جس کا مقصد انڈس بیسن کو بچانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مٹی کی زرخیزی بہتر بنانے، زراعت کو سہارا دینے اور ماحولیاتی نظام کی بحالی پر کام کیا جا رہا ہے۔

سندھ حکومت کی جانب سے مینگروو جنگلات کی بحالی کا ایک الگ منصوبہ بھی جاری ہے جو سمندری پانی کے خلاف قدرتی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر ایک طرف جنگلات لگائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف لینڈ مافیا اور رہائشی منصوبے ان قیمتی علاقوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

انجام کے دہانے پر ایک خزانہ

دریائے سندھ جو تبت سے شروع ہو کر کشمیر اور پھر پاکستان کے طول و عرض سے گزرتا ہے، ملک کی 80 فیصد زرعی زمین کو سیراب کرتا ہے۔ اسی کے کنارے بسنے والے لاکھوں افراد کی زندگیاں، روایات اور روزگار اس دریا سے جڑے ہیں۔ مگر اب یہ سب کچھ رفتہ رفتہ ڈوب رہا ہے۔

اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو انڈس ڈیلٹا محض ایک ماحولیاتی بحران نہیں، بلکہ ایک قومی سانحہ بن جائے گا۔

ماہرین کے مطابق اگر پانی کی منصفانہ تقسیم، زمین کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو انڈس ڈیلٹا محض ایک ماحولیاتی سانحہ نہیں بلکہ خطے کے استحکام کے لیے خطرہ بن جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈس ڈیلٹا ختم ہوتے گاؤں سمندر کھاروچھان کیٹی بندر

متعلقہ مضامین

  • کاغان کے ہوٹل میں گیس سلنڈر پھٹ گیا، 3 بچوں سمیت 7 افراد زخمی
  • خیبرپختونخوا میں پھلوں، سبزیوں، چائے اور فصلوں کے نئے بیج کی کاشت کی منظوری
  • اربعین حسینیؑ مارچ کا روٹ تبدیل، گورنر سندھ قائدین سے نمائش چورنگی پر ملاقات کرینگے
  •  انتظار ختم! لاہور میں جدید ترین اربن الیکٹرک ٹرین "SRT" کا آغاز
  • لاہور میں پاکستان کی پہلی اربن الیکٹرک ٹرین ایس آر ٹی کا کامیاب تجربہ
  • بل بورڈ 4افرادکی جان لے گیا،پنجاب کے سب سے بڑے شہرسے انتہائی افسوسناک خبر آگئی
  • انڈس ڈیلٹا: صفحہ ہستی سے مٹتے گاؤں، سمندر کی نذر ہوتی ایک بھرپور ثقافت، وجہ کیا ہے؟
  • تحریک انصاف کا لاہور سے 300سے زائد کارکنان کی گرفتاری کادعویٰ
  • تحریک انصاف کی بزرگ رہنماء ریحانہ ڈار ایوان عدل سے گرفتار
  • پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداران کا پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان