بوسنیا ،ایران اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
میری بات/روہیل اکبر
آج ایران اور اسرائیل کی جنگ عروج پر ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں بغیر کسی بیرونی مدد کے ایران نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اسے بتا دیا کہ ایمان کی دولت کیا ہے اور اللہ پر یقین رکھنے والے کسی سے نہیں ڈرتے۔ جب کچھ اسی طرح کی صورتحال بوسنیا میں پیدا کی گئی تھی تو اس وقت بھی مسلم ممالک کی خاموشی آج جیسی تھی لیکن اس وقت پاکستان نے بوسنیا کی مدد کرکے اسے نہ صرف جنگ کی دلدل سے نکالا بلکہ اسے کامیابیاں بھی دلائی ۔یہ کام ہمارے نیشنل ہیرو اور محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انجام دیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگر آج زندہ ہوتے تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بطور سیکریٹری اطلاعات اور پھر انکے ترجمان کے بہت وقت گذارنے کا موقع ملا ۔انکے گھر برآمدے میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تنہائی میں گذرا وقت بہت یادگار ہے اور ان یادوں کو رائو نعمان کبھی کبھی چار چاند لگادیتے ہیں۔ رائو صاحب کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تعلق بہت ہی خاص اور پیار والا تھا اور انکی یاد داشت بھی مجھ سے ہزار گنا بہتر ہے۔ ایران اسرائیل کے تناظر میں رائو صاحب نے مجھے ڈاکٹر صاحب کا ایک کالم بھیجا جو انہوں نے مقامی روزنامہ میں 21 جون 2021 کوبوسنیا۔ درد اور شجاعت کی داستان کے عنوان سے لکھا جو آج کے حالات کی عکاسی کرتا ہے میں اس تحریر کو اسی طرح لکھ رہا ہوں جیسے ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا اور میں خاص طور پر رائو نعمان کاشکر گذار ہوں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی یاد کو فراموش نہیں ہونے دیتے ۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ آج آپ کی خدمت میں بوسنیا کی دردناک مگر شجاعت کی اعلیٰ کہانی پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ابھی پچھلے دنوں اس کی تیسویں سالگرہ منائی گئی ہے۔ بوسنیا(یعنی سرویہ) کو ترکوں نے سلطان محمد فاتح(فاتح استنبول) کے دور میں فتح کیا۔ انہوں نے البانیہ، کریمیا اور سقوطری پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور مسیحیوں کو عبرتناک شکست دی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے ترکوں نے 1539میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا بھی محاصرہ کر لیا تھا۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے یورپی ممالک طاقتور ہوتے گئے اور ترک کمزور ہوتے گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کے ہاتھ سے مشرقی یورپ، عرب ممالک نکل گئے۔ انگریزوں سے مل کر ترکوں کے خلاف غدّاری کی گئی، عرب ممالک ترکی سے تو آزاد ہو گئے مگر انگلستان اور فرانس کی غلامی میں آگئے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل بنا اور یہ ناسور آج بھی عربوں کی غیرت کو للکار رہا ہے۔ ترکی کی فوج کے چند دستے جاں نثاری کے نام سے مشہور تھے۔ یہ اسلام اور اپنی قوم و ملک پر جانیں نثار کرنے میں ماہر تھے، ان کی بہادری سے یورپ کے مسیحی کانپتے تھے۔ ترکوں کی اعلیٰ شان حکومت 1299سے 1923تک قائم رہی۔ مشرقی یورپ کی فتوحات سے البانیہ، سربیا، کوسوْو، بوسنیا اور دوسرے ممالک میں لاتعداد ترک رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ بوسنیا میں ان کی اکثریت تھی۔ کمیونسٹ حکومت تھی، آزادی کا فقدان تھا۔ 1991میں روس کی سلطنت بکھرنے کے بعد تمام وسطی ایشیا کے اسلامی ممالک آزاد ہو گئے اور یوگوسلاویہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشیا کے مسیحیوں نے آزادی کا اعلان کر دیا، سربوں نے ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور پورا نزلہ بوسنیا کے مسلمانوں پر گرا۔ سربوں نے سراجیوو کو محاصرہ میں لے لیا۔ یہ مسلمانوں کی اکثریت کا شہر تھا اور یہاں ونٹر اولمپکس ہوئے تھے، بہت خوبصورت شہر تھا۔ سربوں کو تمام مسیحی اور کمیونسٹوں کی حمایت حاصل تھی صرف کروشیا ان کا مخالف تھا۔ سرب آہستہ آہستہ ٹینکوں کی مدد سے آگے بڑھ رہے تھے، ان کی توپوں سے عمارتیں تباہ ہوتی جا رہی تھیں اور ان کے پاس جو RPG تھے جن کی مار صرف 200 گز تھی اور ٹینک ان کی پہنچ سے دور تھے۔ اخبارات میں، ٹی وی پر سربوں کی وحشیانہ بمباری اور قتل و غارتگری دکھائی جا رہی تھی مگر مغربی ممالک خوش تھے کہ مسلمانوں کا صفایا ہو رہا ہے۔ UNکا سیکریٹری جنرل مصری کٹّر مسیحی بطروس غالی تھا وہ سربوں کی حمایت کر رہا تھا۔ UNفورسز تماشائی بنی ہوئی تھے۔ بیحاج اور سراجیوو میں مسلمان قتل ہو رہے تھے۔ برٹش جنرل روز نے UNفورسز سے حملہ کرنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ انگلستان کے وزیر خارجہ لارڈ کیرنگٹن نے غرور سے کہا کہ ترک جو ممالک تلوار سے نہ لے سکے اب وہ پلیٹ پر ہم سے چاہتے ہیں۔ امریکی بھی تماشائی بنے ہوئے تھے۔ ایک دن میرے نہایت پیارے دوست عبدالجلیل خان(بعد میں کمشنر انکم ٹیکس بن گئے تھے) نے مجھے فون کیا کہ بوسنیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حارث سلاجک آئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے فوراً دعوت دی کہ وہ ان کو لے کر گیسٹ ہاؤس آ جائیں اور لنچ ساتھ کریں۔ جب میں وہاں پہنچا تو چھ فٹ کے دراز قد نہایت خوبصورت ترک نژاد وزیر خارجہ سے ملا۔ کھانے پر میں نے دیکھا کہ ان کے حلق سے نوالہ نہیں اتر رہا تھا انہوں نے ٹینکوں سے ان پر ہونے والے حملوں کی بات بتائی۔ ہم اس وقت نہایت اعلیٰ اینٹی ٹینک، بکتر شکن میزائل بنا رہے تھے اور فوج کو سپلائی کر رہے تھے۔ میں نے نواز شریف صاحب کو تیار کر لیا کہ ہم 200 بکتر شکن(اینٹی ٹینک) میزائل بوسنیا بھیج دیں۔ دو سو میزائل سراجیوو پہنچا دی گئیں۔ دو ہفتے بعد بوسنیا کے سفیر بے حد خوش خوش میرے پاس آئے اور ڈاکٹر حارث کے شکریے کا خط دیا کہ ان کی فوج نے تین دن میں سربوں کے 83ٹینک اڑا دیئے اور وہ بھاگ گئے۔ 50میزائل انہوں نے بیحاج بھیج دیے وہاں بھی انہوں نے تباہی پھیلا دی اور اب جبکہ بوسنیا کا پلہ بھاری ہونے لگا تو سربوں نے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ اس کے بعد بھی سربوں نے ان علاقوں پر حملے کئے جہاں مسلمان محصور ہو گئے تھے اور گوراگا(Goraga)، سریبرینیسا(Srebrenica)، اور زیپا(Zepa) پر حملے شروع کر دیے اور ہزاروں مسلمانوں کو قیدیوں کے مراکز بنا کر فاقہ کشی پر مجبور کر دیا اور ہزاروں مسلمان شہید ہو گئے۔ سرب کمانڈر ملادچ(Mladic) نے Zepa کے مسلمان لیڈر کو میٹنگ کے لئے دعوت دی۔ کافی اور سگریٹ دی اور فوراً حملہ کر کے قتل کردیا۔ سربرینیسا کو دو سال تک محاصرہ میں رکھا۔ UNنے اس کو حفاظتی شہر قرار دیدیا تھا اور یہاں ڈچ فوج تعینات کر دی تھی وہ سربوں سے مل گئے مسلمانوں کو دھوکہ دیا کہ وہ ہتھیار دے دیں تو انھیں سراجیوو بھیج دیا جائے گا۔ جونہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیے ملادچ نے حملہ کر کے 12000مسلمانوں کو ٹرکوں میں ڈال کر لے جا کر قتل کر دیا جن میں مرد اور لڑکے شامل تھے، کئی دن قتل عام جاری رہا اور یورپ کے ممالک تماشائی بن کر خوش ہوتے رہے۔ یہاں یعنی بوسنیا میں جو مسلمانوں کا قتل عام ہوا وہ مسیحیوں کے مسلمانوں کے قتل عام جو مسجدالاقصیٰ میں ہوا تھا، سے بدتر تھا۔ سربوں نے مساجد، لائبریریز، علماء وغیرہ کونشانہ بنایا۔ انہوں نے 800سے زیادہ مساجد مسمار کیں اور تقریباً ساڑھے تین لاکھ مسلمان شہید کئے۔ 60ہزار سے زیادہ خواتین کی عصمت دری کی اور ڈیڑھ لاکھ لوگ پناہ گزیں بن گئے۔ اور دنیائے اسلام تماشہ دیکھتی رہی سوائے ترکی، ملائشیا، پاکستان اور سعودی عرب کے کسی نے مدد نہیں کی۔ سعودی عرب اور ملائیشیا نے مالی مدد کی اور ترکی اور پاکستان نے ہتھیاروں سے مدد کی۔ مغربی ممالک نے ایک خالص اسلامی ملک نہ بننے دیا۔ بوسنیا اب ایسا ملک ہے جہاں باری باری سرب، کروٹ اور بوسنن صدر اور وزیراعظم بنتے ہیں۔ جب بھی بوسنیا کے آرمی چیف، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ پاکستان آئے وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہماری آزادی کے معمار ہیں آپ نے ہمیں بچا لیا۔ ہمارے ایک ہزار طاقتور راکٹوں نے سربوں کی کمر توڑ دی تھی۔ کاش مسلمان متحد ہو کر ایسے حالات کا مقابلہ کریں۔ ویت نام اور افغانستان روشن مثالیں ہیں انہوں نے سْپر پاورز کی کمر توڑ دی اور بہادری کی مثال قائم کر دی۔ مصطفی کمال پاشا نے نہایت نازک اور غیر مناسب حالت میں یونان، انگریزوں، آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کی فوجوں کی کمر توڑ دی تھی۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ڈاکٹر صاحب بوسنیا کے کے مسلمان انہوں نے کے ساتھ تھا اور قتل عام رہے تھے ہو گئے کر دیا دی اور دی تھی
پڑھیں:
ایران ہی فاتح ہے اس جنگ میں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج کل اسرائیل اور ایران کے درمیان جو جھڑپیں ہورہی ہیں ان کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اصل فاتح ایران ہی ہے۔ یہ اس لیے کہ جو Victim Card اسرائیلی پچھلی 7 دہائیوں سے کھیل رہا ہے پچھلے چار دنوں میں وہ ایران نے کھیل کر دنیا بھر کے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرلی ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ عام انسان کی ہمدردی جس ملک یا سائڈ کے ساتھ ہوگی وہی فاتح ہوگا۔ اس کے علاوہ ایران نے توقع سے بڑھ کر اسرائیل کو جواب دیا ہے اور مسلسل دے رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس وقت امریکا کی یہی کوشش ہے کہ وہ اس جھگڑے میں ملوث نہ ہو۔ کیونکہ ایران ان کی توقعات سے زیادہ نکلا۔ اسرائیل کو اپنے iron dome (دفاعی نظام) پر جتنا ناز تھا وہ سب چکنا چور ہوگیا، اب مسئلہ یہ ہے کہ ایران ایک کافی وسیع اور عریض ملک ہے جس کی وجہ سے ایران کی 90 ملین آبادی آرام سے نقل مکانی کرچکی ہے۔ چونکہ ایران کا انفرا اسٹرکچر بھی اچھا ہے، سڑکیں موجود ہیں تو یہ مرحلہ آسانی سے طے ہوگیا۔ مگر اسرائیل اتنا خوش قسمت نہیں، انتہائی چھوٹا سا ملک ہے کہ اسرائیل کی ایک سرحد سے دوسری سرحد تک کا سفر ایک اندازے کے مطابق صرف دو ڈھائی گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ یہاں آبادی صرف 9 ملین ہے۔ (یعنی آبادی کراچی سے بھی کم ہے) تمام بارڈر بند ہیں اور اسرائیلی عوام ملک سے باہر جا بھی نہیں سکتی۔ اب اسرائیلوں کو اندازہ ہورہا ہے کہ کس طرح فلسطینیوں نے اتنے سال ایک بغیر چھت کی جیل میں گزارے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ خود اسرائیلی سربراہ بھاگ کے یونان چلا گیا ہے۔
اسرائیل اس وقت ایک شدید کشمکش کا شکار ہے ایک طرف تو یہ دنیا جہاں کی ہمدردی بٹورنے کے لیے ایرانی مظالم کی تشہیر کررہا ہے مگر اس تشہیر سے خود اس کے اپنے عوام کے حوصلے پست ہورہے ہیں اور کسی بھی جنگی حالات میں یہ سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔ قارئین کو شاید یاد ہو جب عراق پہ امریکا نے حملہ کیا تھا تو عراقی ٹی وی میں آخر وقت تک یہی نشریات جاری تھیں کہ عراق جنگ جیت رہا ہے۔ جبکہ امریکی بغداد تک جاچکے تھے۔
نیتن یاہو جس کو اقتدار کی بھوک ہے بری طرح حکومت میں رہنے کے لیے ہر طرح کے جتن کررہا ہے وہ خود کو war prime minister دکھانا چاہتا ہے مگر اسرائیلی عوام بھی اتنے بے وقوف نہیں۔ وہ بھی یہ سیاست سمجھتے ہیں۔ اس وقت ایران ہی صحیح معنوں میں فاتح اس لیے بھی ہے کہ بنگلا دیش سے لے کر مراکش تک ہر مسلمان ایران کے لیے دعا گو ہے۔ خلیجی بادشاہتوں، اردنی سادات حکومت اور مراکز کے بادشاہ سب فکر مند ہیں اور خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں کیونکہ بغاوت کا کافی اندیشہ ہے۔ بحرین جہاں پہلے ہی 1.70 فی صد شیعہ آباد ہیں سب سے زیادہ حساس ملک ہے لہٰذا جب کبھی یہ جنگ بند ہوگی ایران ہی تمام مسلم دنیا کا غیر متنازع رہنما بن کر نکلے گا۔ لہٰذا پہلے ہی ان ریاستوں نے یا تو غیر جانبدارانہ پالیسی اپنالی ہے یا ایران کے حق میں بات شروع کردی ہے۔ جبکہ یاد رہے یہ متحدہ عرب امارات ہی تھا جس نے فلسطینی بچے مرنے دیے اور اسرائیل کی کوئی مذمت نہیں کی۔ جب کبھی بھی خلیج میں حالات خراب ہوئے ہیں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اور بھی ایران کے حق میں جارہا ہے۔ جتنا حالات خراب ہوں گے اتنا ہی تیل کی قیمتیں اوپر جائیں گی۔ ایران کی کمائی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔