ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حملے سے قبل تینوں ایٹمی تنصیبات کو خالی کردیا تھا۔

خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایرانی سرکاری نشریاتی ادارے کے نائب سیاسی سربراہ حسن عبدینی نے کہا ہے کہ ایران نے امریکی حملوں سے قبل اپنے تینوں ایٹمی مراکز کو حملوں کے پیش نظر خالی کرلیا تھا۔

ایرانی حکام کے مطابق تینوں جوہری تنصیبات کو کچھ عرصہ قبل خالی کر کے منتقل کیا گیا اور امریکی حملوں میں انہیں کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔

دوسری جانب کہا گیا ہے کہ نشانہ بنائے گئے ایٹمی اثاثوں کے مقامات سے کوئی تباکاری مواد خارج نہٰں ہوا اور اس کی تصدیق عالمی ادارے نے بھی کی ہے۔

ایران نے خود بھی کہا ہے کہ تینوں جوہری مقامات سے کوئی ایسا مواد خارج نہیں ہوا جو تابکاری کا باعث بنے اور امریکی حملے سے ایران کو کوئی دھچکا نہیں پہنچا ہے۔

اُدھر ایرانی ایٹمی توانائی ادارے نے جوہری سائٹس پر حملوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ  امریکا نے فردو، نطنز، اصفہان جوہری سائٹس کونشانہ بنایا اور یہ اقدام عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

امریکا نے ایران کی تینوں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ان کارروائیوں میں امریکی جہازوں نے حصہ لیا اور ایران کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی جبکہ آپریشن مڈنائٹ ہیمر میں کسی شہری یا فوجی کو نشانہ بھی نہیں بنایا گیا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تنصیبات کو

پڑھیں:

نگرانی اور جوہری توانائی کا پرامن استعمال: ایران میں آئی اے ای اے کا کردار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 جون 2025ء) ایران کے خلاف اسرائیل کی بمباری شروع ہونے سے چند ہی روز قبل جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) نے خبردار کیا تھا کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

دنیا بھر میں جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے اس ادارے کو 1957 میں اُس وقت قائم کیا گیا جب دنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی کی تیاری اور اس کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ رہا تھا۔

'آئی اے ای اے' اقوام متحدہ کا خودمختار ادارہ ہے جو ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینے کے ساتھ غذائی تحفظ، سرطان پر قابو پانے اور پائیدار ترقی کے لیے بھی کام کرتا ہے۔

جوہری تحفظ کے معاہدوں سے متعلق ادارے کا فریم ورک بھی اس کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

ان معاہدوں پر رکن ممالک کا رضاکارانہ اتفاق ہے اور انہیں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام میں خاص اہمیت حاصل ہے۔

ان معاہدوں کے تحت ادارہ آزادانہ طور سے یہ تصدیق کرتا ہے کہ آیا رکن ممالک جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں۔ 2024 تک 182 ممالک ادارے کے ساتھ جوہری تحفظ کے معاہدوں میں شامل تھے۔

9 جون کو 'آئی اے ای اے' کے ڈائریکٹر جنرل رافائل مینوئل گروسی نے یہ پریشان کن اطلاع دی کہ ادارے کو عالمگیر جوہری معاہدوں کی تعمیل کے معاملے میں ایران کے طرزعمل پر خدشات ہیں۔

© IAEA/Dean Calma آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل میریانو گروسی۔

انہوں نے بتایا کہ ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے ادارے کے سوالات کا یا تو کوئی جواب نہیں دیا یا اس بارے میں تکنیکی طور پر قابل بھروسہ معلومات فراہم نہیں کیں۔ اس روز ڈائریکٹر جنرل نے 'آئی اے ای اے' کے 35 رکنی بورڈ کو بتایا کہ ایران نے اپنی جوہری تنصیبات کی صفائی کرنے کی کوشش کی ہے اور ادارہ سمجھتا ہے کہ یہ جگہیں 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایران کے باقاعدہ جوہری پروگرام کا حصہ تھی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک ایران جوہری تحفظ کے حوالے سے تسلی بخش یقین دہانی کا اہتمام نہیں کرتا اس وقت تک ادارہ یہ ضمانت نہیں دے سکتا کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

انہوں نے ایرانی جوہری تنصیبات پر 400 کلوگرام سے زیادہ انتہائی افزودہ یورینیم کی موجودگی پر بھی خدشات ظاہر کیے جس کے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ انتہائی افزودہ یورینیم جوہری بم کی تیاری میں اہم عنصر ہوتا ہے۔

بورڈ کے اس بیان سے ایران میں 'آئی اے ای اے' کے اہم کردار کا اظہار ہوتا ہے جسے چار حصوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

1۔ نگرانی

'آئی اے ای اے' جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کے تحت حفاظتی معاہدوں سے کام لیتا ہے۔

ادارے کے ساتھ ایسے بیشتر معاہدوں پر ان ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں جن کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں۔ تاہم، ان پر تین ایسے ممالک بھی عمل کرتے ہیں جو این پی ٹی کے رکن نہیں۔ ان میں انڈیا، پاکستان اور اسرائیل شامل ہیں۔ یہ تینوں ممالک مخصوص شرائط کے تحت 'آئی اے ای اے' کے ساتھ حفاظتی معاہدوں میں شامل ہیں۔

ایران جوہری ہتھیاروں کے بغیر این پی ٹی کا رکن ہے۔

اس حیثیت میں وہ یہ ہتھیار حاصل نہیں کر سکتا اور اس پر 'آئی اے ای اے' کو مختصر نوٹس پر بھی اپنے تمام جوہری مواد اور سرگرمیوں کا معائنہ اور ان کی تصدیق کروانا لازم ہے۔

ادارہ باقاعدگی سے ایران کی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرتا ہے جن میں نطنز، فردو اور اصفہان میں واقع جوہری مراکز بھی شامل ہیں۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ جوہری مواد صرف پرامن مقاصد کے لیے ہی استعمال ہو اور اس سے ایٹمی ہتھیار بنانے کا کام نہ لیا جائے۔

9 جون کو ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ ایران میں مزید تین اور غیراعلانیہ جوہری مراکز پر انسانی ساختہ یورینیم کے ذرات پائے گئے ہیں۔ یہ مراکز ورامین، مریوان اور تورقوز آباد میں واقع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی سال تک بات چیت کے باوجود ایران ان جگہوں پر ایسے ذرات کی موجودگی کے حوالے سے قابل بھروسہ تکنیکی وضاحت پیش نہیں کر سکا۔

UN Photo/Loey Felipe عالمی جوہری ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل مینوئل گروسی سلامتی کونسل کے ارکان کو بریفنگ دے رہے ہیں۔

2۔ اطلاع کاری

ادارہ ایران سمیت دیگر ممالک کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں اپنے بورڈ آف گورنرز کو باقاعدگی سے اطلاعات دیتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان ممالک میں معائنوں، نگرانی کے آلات، ماحولیاتی تمونوں اور سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے کام لیا جاتا ہے اور ان سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں تکنیکی رپورٹیں تیار کی جاتی ہیں۔

ایران جیسے ممالک کی خصوصی نگرانی کی جاتی ہے اور ان کے بارے میں ایسی رپورٹیں ہر تین ماہ کے بعد جاری ہوتی ہیں۔

اگر ایران یا جوہری ہتھیاروں سے غیرمسلح اور این پی ٹی کا کوئی رکن ملک ادارے کی شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہے، اسے اپنی تنصیبات تک رسائی نہ دے یا یورینیم کے ذرات کی موجودگی کے حوالے سے وضاحت پیش نہ کر سکے تو اس کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اطلاع دی جاتی ہے جو اس پر سفارتی دباؤ ڈالتی، پابندیاں عائد کرتی یا مسئلے پر مزید بات چیت کے لیے کہہ سکتی ہے۔

3۔ سفارتی بات چیت

'آئی اے ای اے' ایسے مسائل کا سفارتی حل نکالنے اور ایران کے جوہری عزائم پر خدشات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل گروسی نے ایران کے حکام اور اس مسئلے کے بین الاقوامی فریقین سے براہ راست بات چیت بھی کی ہے تاکہ روابط اور شفافیت کو برقرار رکھا جا سکے۔

ڈائریکٹر جنرل نے 13 جون کو سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادارہ ایران کے جوہری حکام سے مسلسل رابطے میں ہے اور اسرائیل کے حملوں کا نشانہ بننے والی تنصیبات کا جائزہ لے کر جوہری تحفظ اور سلامتی پر ان کارروائیوں کے وسیع تر اثرات کا تعین کر رہا ہے۔

© IAEA آئی اے ای اے کے سربراہ نے گزشتہ سال نومبر میں ایران کے یورینیم افزودگی کے مراکز کا دورہ بھی کیا تھا۔

4۔ تحفظ اور سلامتی کی نگرانی

یہ جوہری حادثات کو روکنے، اس توانائی کا پرامن مقاصد کے لیے استعمال یقینی بنانے اور تابکاری سے لوگوں اور ماحول کوتحفظ دینے کے لیے ادارے کے وسیع تر مقصد کا اہم ترین جزو ہے۔

'آئی اے ای اے' ایرانی حکام کے ساتھ مل کر یقینی بناتا ہے کہ نطنز، فردو اور اصفہان جیسی جوہری تنصیبات محفوظ طریقے سے کام کریں۔

اس مقصد کے لیے ان تنصیبات کی ساخت اور ان پر ہونی والی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے، تابکاری سے تحفظ کے اقدامات کی نگرانی کی جاتی ہے اور حفاظتی تناظر میں ہنگامی تیاریوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔

رواں ماہ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملوں کے بعد 'آئی اے ای اے' نے تصدیق کی تھی کہ نطنز جوہری مرکز پر حملے میں تابکاری کا اخراج نہیں ہوا۔ تاہم، ادارے نے واضح کیا ہے کہ جوہری تنصیبات پر کسی طرح کا حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس سے لوگوں کی زندگی اور ماحول کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد آئی اے ای اے کا ہنگامی اجلاس کا طلب
  • امریکی حملے سے قبل ہی جوہری تنصیبات کو خالی کرالیا تھا، ایرانی حکام
  • ایران پر امریکی حملوں کے بعد تابکاری میں کوئی اضافہ نہیں، آئی اے ای اے کی تصدیق
  • پاکستان کی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کی شدید مذمت
  • حملے سے پہلے جوہری تنصیبات خالی کرالی تھیں، ایران
  • جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کی تصدیق، پُرامن ایٹمی پروگرام جاری رہے گا، ایران
  • جوہری تنصیبات خالی کر دی گئیں، ایرانی حکام کا دعویٰ
  • ایران کی 3 جوہری سائٹس پر امریکی فضائی حملوں میں تباہ، یہ سب سے مشکل اہداف تھے، ٹرمپ
  • نگرانی اور جوہری توانائی کا پرامن استعمال: ایران میں آئی اے ای اے کا کردار