یقین کیجیے اس ملک کا اصل مسئلہ نہ مہنگائی ہے نہ لوڈشیڈنگ نہ بیروزگاری اور نہ ہی خارجہ پالیسی کی پیچیدگیاں۔ اصل دکھ یہ ہے کہ ہمارے صاحبِ اختیار فیصلہ کرنے سے گھبراتے ہیں اور جب کوئی صاحبِ ایمان، صاحبِ بصیرت اور صاحبِ جگر سامنے آتا ہے تو پورا نظام جیسے اس سے خائف ہو جاتا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا حالیہ دورہ امریکہ اسی سیاق و سباق میں ایک نکتہ آغاز ہے۔
امریکی صدر کی دعوت پر فیلڈ مارشل امریکہ گئے۔ جاتے ہوئے نہ کوئی بڑا دعوی، نہ شور، نہ واویلا۔ خاموشی سے روانہ ہوئے اور وہاں جا کر پاکستان کا مقدمہ ایسے پیش کیا جیسے کوئی وکیل عدالت میں اپنے بے گناہ موکل کے لیے لڑتا ہے۔ صدر ٹرمپ سے تنہا ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں اسرائیل اور ایران کے بڑھتے ہوئے تنازع پر گفتگو ہوئی۔ واشنگٹن کے باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ جنرل صاحب نے بڑے تحمل، تدبر اور وقار کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔ انہوں نے امریکہ کو براہ راست جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔کہنے کو یہ صرف ایک مشورہ تھا لیکن اس مشورے میں ایک قومی غیرت، حکمت اور وہ اندرونی سکون جھلک رہا تھا جو صرف مخلص اور فہم و فراست رکھنے والے سپہ سالار میں ہوتا ہے۔ کہتے ہیں صدر ٹرمپ نے بات سنی اور فیصلہ مخر کر دیا۔ بعض لوگ اس کو محض اتفاق سمجھیں گے لیکن اہلِ دل جانتے ہیں کہ کبھی کبھی دل سے نکلی بات سیدھی دل پر اثر کرتی ہے اور شاید یہی لمحہ تھا جب طاقت کے نشے میں چور واشنگٹن نے پہلی بار کسی پاکستانی آواز کو سنجیدگی سے سنا۔ادھر پاکستان میں روایتی ناقدین اسے صرف فوجی سفارت کاری کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی قوم کا موقف دنیا کے طاقتور ترین ایوانوں تک پہنچاتا ہے، وہ بات کرتا ہے دہشت کے خلاف ہماری قربانیوں کی، وہ یاد دلاتا ہے کہ ہم نے ستر ہزار جانیں دیں، معیشت کو کھوکھلا کیالیکن عالمی امن کے لیے فرنٹ لائن پر کھڑے رہے تو کیا وہ قابلِ داد نہیں؟ کیا ہم اسے محض اس لیے نظر انداز کر دیں کہ وہ وردی میں ہے؟فیلڈ مارشل کی بات میں ایک ٹھہرائو ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ جاذبیت ہے جو الفاظ کی محتاج نہیں۔ جو لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ کم گو ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو دلائل کے ساتھ مدلل انداز میں بات کرتے ہیں۔ واشنگٹن میں تھنک ٹینکس، تجزیہ کاروں، ماہرینِ پالیسی اور عالمی میڈیا سے ان کی گفتگو اسی انداز کی تھی۔ پاکستان کے مقف کو پوری دنیا کے سامنے رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا بیانیہ، ہمارے موقف، ہمارے تحفظات سب کچھ واضح انداز میں بیان کیا۔یہ سب کچھ کسی روایتی سفیر کے بس کی بات نہیں۔ سفارتکاری صرف زبان نہیں کردار کا نام ہے اور جب ایک ایسا شخص بات کرے جس کے چہرے پر صداقت ہو اور جس کے دل میں ملک و ملت کے لیے درد ہو تو اثر خودبخود پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے امریکیوں کو بتایا کہ پاکستان آج بھی علاقائی امن میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے ہم استحکام چاہتے ہیں۔ بعض علاقائی عناصر دہشت گردی کو ہائبرڈ وارفیئر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان اس کا نشانہ ہے۔ ان کے الفاظ میں کوئی مصنوعی پن نہ تھا نہ کوئی کاغذی انداز۔
ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بہت کچھ کھو دیا لیکن دنیا نے ہمیں کیا دیا؟ یہ سوال انہوں نے تلخی سے نہیں دکھ سے کیا۔ اور شاید یہی دکھ امریکہ کے پالیسی سازوں کے دل میں جا لگا۔فیلڈ مارشل نے بات صرف سکیورٹی تک محدود نہیں رکھی۔ انہوں نے پاکستان کی ترقیاتی صلاحیتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ امریکہ اور دنیا کو بتایا کہ پاکستان میں آئی ٹی، زراعت اور معدنیات کے شعبے میں بے پناہ مواقع ہیں۔ ہمیں صرف شراکت داری، سرمایہ کاری اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ ایک ملک جسے دنیا صرف ایک سکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر دیکھتی ہے اسے ترقی یافتہ معیشت کے طور پر متعارف کرانے کی جو کوشش فیلڈ مارشل نے کی وہ بے مثال ہے۔
دیرینہ پاک امریکہ تعلقات کا ذکر آیا تو انہوں نے جذبات سے خالی مگر حقیقت پر مبنی گفتگو کی۔ کہا کہ ہمیں ماضی سے سیکھنا چاہیے لیکن مستقبل کی طرف دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر ہم بار بار ایک جیسے راستے پر چل کر کچھ حاصل نہیں کر پائے تو شاید راستہ بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔
واشنگٹن میں ان کی بات سنی گئی۔ کھلے دل سے سنی گئی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہی واشنگٹن ہے جہاں پاکستانی قیادت کو اکثر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے یا رسمی ملاقاتوں سے ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس بار ایک تبدیلی نظر آئی۔ ایک وقار، ایک سنجیدگی اور ایک اعتبار۔جنرل عاصم منیر کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وائٹ ہائوس کی ترجمان نے بھی کہا ہے کہ صدر آئندہ دو ہفتوں میں ایران پر ممکنہ حملے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے۔ کسی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ اس سوچ کے پیچھے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی گفتگو کا کتنا اثر ہے لیکن جو بات دل پر اتر جائے وہ تحریر کی محتاج نہیں ہوتی۔پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر ہماری سیاسی قیادت میں بھی یہی تدبر، یہی شائستگی، یہی اخلاص آ جائے، تو پاکستان کتنی جلدی اپنی منزل پا لے۔ مگر افسوس یہاں تو ہر بات کو ذاتی مفاد، جماعتی مفاد اور وقتی بیانیے کی نظر کر دیا جاتا ہے۔
یاد رکھیے قومیں صرف بجٹ اور پالیسیاں بنا کر ترقی نہیں کرتیں بلکہ کردار، وقار اور ویژن سے آگے بڑھتی ہیں۔ فیلڈ مارشل نے اس دورے سے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے پاس اب بھی وہ قیادت موجود ہے جو وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے اور جسے سننے پر دنیا مجبور ہو جاتی ہے۔مسئلہ قیادت کا نہیں مسئلہ نظریے کا ہے۔ جب تک ہمارا ہر ادارہ، ہر نظام، ہر فرد اپنی حدود میں رہ کر دیانت داری سے اپنا کردار ادا نہیں کرتا تب تک کوئی فیلڈ مارشل، کوئی وزیراعظم، کوئی صدر اس ملک کو نہیں بچا سکتا۔ ہمارے ہاں جو شخص جتنا مخلص ہوتا ہے، اتنا ہی تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ جو جتنا خاموش ہو اسے اتنا ہی کمزور سمجھا جاتا ہے۔لیکن فیلڈ مارشل کی خاموشی کمزوری نہیں بلکہ تدبر کا اظہار ہے۔ وہ ہر وقت بولنے کے قائل نہیں۔ ان کی گفتگو میں توازن ہے جسے سن کر مخالف بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں اپنے ملک کی بات کرتے ہیں۔ ان کا انداز عاجزی کا ہے، خودنمائی کا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج کا پاکستان ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف اندھی سیاست دوسری طرف معاشی زوال تیسری طرف اداروں کی باہمی چپقلش اور چوتھی طرف ایک خاموش محبِ وطن قیادت جو امید کی کرن ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ہم کس طرف جانا چاہتے ہیں؟آخر میں بات وہی ہے جو بار بار دل میں گونجتی ہے ۔
یہ ملک بنایا گیا تھا لا الہ الا اللہ کے نام پر۔ جب تک قیادت اس روح کو سمجھے گی تب فیصلے درست ہوں گے، راستے صاف ہوں گے، اور منزل قریب ہو گی۔ جو حکمت، صبر، جرات اور اخلاص اس ایک دورے میں دکھائی دیا وہی اگر ہماری سیاست، معیشت اور سماج میں اتر آئے تو پاکستان صرف جغرافیہ نہیں بلکہ ایک نظریہ بن کر دنیا کے سامنے ابھرے گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کہ پاکستان فیلڈ مارشل انہوں نے جاتا ہے نہیں کر کی بات بات کر
پڑھیں:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کوئی بھی مرض یک دم شدت اختیار نہیں کرتا، بلکہ ابتدائی علامات میں ظاہر ہوتا ہے جسے ایک عام شخص طبیعت کی معمولی ناسازی سمجھ کرگھریلو ٹوٹکوں سے اپنے علاج کا آغازکرتا ہے۔ افاقہ نہ ہونے پر پھر ارد گرد کے لوگ یا قریبی رشتے دار اسے علاج کے مفت مشورے دینا شروع کردیتے ہیں کہ نظر بد لگ گئی ہے، فلاں مولوی سے دم کروا لو۔کوئی کہتا ہے کہ صدقہ دو، آسیب کا معاملہ ہے جن اترواؤ۔ وغیرہ وغیرہ اس چکر میں بندہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ بے تحاشا رقم خرچ ہو جاتی ہے اور مالی پریشانیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
ادھر مرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اچھا بھلا تندرست انسان ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے، پھر مشوروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر ماہر ہے، اس سے علاج کروائو۔ کوئی حکیمی توکوئی ہومیو پیتھک علاج کرانے کا کہتا ہے۔
خود ساختہ مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد مریض بستر مرگ کی حالت تک پہنچ جاتا ہے، تب کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جاتا ہے۔ آج کے اس نفسا نفسی دور میں مسیحا ڈاکٹر ملنا خوشی بختی والی بات ہوگی ورنہ قدم پر قدم قصائی نما ڈاکٹرز اپنی دکانیں سجا کر بیٹھے ہیں جن کی نظریں مریض کے مرض پرکم جیب پر زیادہ ہوتی ہے۔ ایک ڈاکٹر باتوں باتوں میں مریض کی مالی پوزیشن پر تحقیق کر لیتا ہے کہ ’’مرغا‘‘ مالی طور پر تگڑا ہے کہ کمزور وہ اسی حساب سے اپنی چھری تیزکر لیتا ہے۔ مریض سے ڈاکٹر بھاری بھرکم فیس وصول کرکے علاج کا آغاز کرتے ہیں اور من پسند لیبارٹریوں سے مختلف ٹیسٹ کروانے سے لے کر من پسند میڈیکل اسٹورز سے دوائیاں خریدنے سے ہوتا ہوا علاج کا ڈراپ سین ڈاکٹر کے ان الفاظ پر ہوتا ہے۔ مریض کی کنڈیشن بہت ہی خراب ہے، اسے فورا سول، جناح یا پھر عباسی اسپتال میں داخل کرا دو۔
عزیز و اقارب کے مشورے شروع ہوجاتے ہیں کہ فلاں فلاں اسپتال میں مریض کو داخل کیا جائے، وہاں اچھا علاج ہوتا ہے۔ بچارے مریض کے گھر والے جوکہ مریض کے ساتھ ساتھ خود بھی آدھے مریض بن چکے ہوتے ہیں۔ پریشانی کی حالت میں ایمبولینس منگوا کر اپنی استطاعت کے مطابق مریض کو لے کر کسی اسپتال کی جانب رواں دواں ہوجاتے ہیں۔
اگر سرکاری اسپتال ہوا تو ان الفاظ کے ساتھ مریض کا استقبال کیا جاتا ہے کہ’’ اس وقت کوئی بیڈ خالی نہیں ہے۔ فی الحال مریض کو یہ دوائیاں دیتے رہو، اس سے تکلیف میں آرام آجائے گا۔کچھ دنوں بعد کوئی بیڈ خالی ہوا تو مریض کو داخل کرلیا جائے گا،گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔‘‘
یوں مریض گھرکی طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور اس وقت انھیں جو بھی دعا یا قرآنی آیات یاد ہوتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ مریض زندہ بچ جاسکے، مگرگھر پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں مریض سانس کی آخری ہچکی لے لیتا ہے، قصہ تمام۔ صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ عزیز و اقارب تسلیاں دینے آجاتے ہیں اورکہنا شروع کردیتے ہیں کہ اللہ کو یہی منظور تھا۔
مذکورہ بالا حالات و واقعات فرضی نہیں ہیں۔ ہم اور آپ جس بے حس معاشرے میں سانسیں لے رہے ہیں وہاں یہ معمول ہیں۔ اب ذرہ ان حالات و واقعات کو الٹ تصورکرتے ہوئے شہرکراچی کے ناگفتہ بہ حالات سے موازنہ کریں، تو بہت کچھ آشکار ہوجائے گا۔ بند عقل کے تالے کھل جائیں گے، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائے گی اور خود کوکوستے رہ جائیں گے، آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔
پنتالیس سال پہلے کراچی کے بھلے حالات کس طرح معمولی خرابی کی وجہ سے بڑھتے بڑھتے انتہائی حد تک ناگفتہ بہ ہوتے رہے، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، جن کو مسیحا سمجھا وہی قاتل نکلے۔
ایک مرض کے بطن سے مختلف امراض جنم لیتے رہے ہیں۔ ان جملہ امراض کے خاتمے کے لیے کیسی کیسی تدبیریں اپنائی گئی۔ کیسی کیسی تجاویز پیش کی گئیں۔ حتیٰ کہ مرض کو قابو کرنے کے لیے پرہیزگاری بھی کی گئی۔آپریشن و سرجری کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ معالج تبدیل کیے گئے، اسپتال بدلے گئے، لیکن سب کچھ بے سود ثابت ہوتے رہے ہیں، جب کہ مریض نیم پاگل ہوچکا تھا۔ بالآخر مرض بڑھتے بڑھتے ناسور ہوگیا اور اس کو بدن سے کاٹنا آخری چارہ سمجھا گیا، سو اس پر بھی عمل کیا گیا۔
بظاہر ناسور تو ختم ہوگیا، لیکن ناسورکی وجہ سے بدن کے مختلف حصوں پر جو مضر صحت اثرات مرتب ہوچکے تھے اب انھیں کم کرنے کے لیے یا ختم کرنے کے لیے پھر نئے نئے نسخے آزمائے گئے، لیکن حاصل جمع خرچ کے سوا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اب کراچی کا مرض ایک ناسور کا روپ دھار چکا ہے۔
اب کراچی کا علاج اس ڈنڈے سے کیا جا رہا ہے جس سے چیخ بھی نہیں نکلتی۔ کراچی کو جیتے جاگتے لوگوں کا قبرستان بنا دیا گیا ہے۔ جہاں زندہ ہرچند کے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا شوشا پرانا ہے، لیکن ایک مرتبہ پھر اس پرانے شوشا پرگزارا کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی اجرک والی نمبر پلیٹ کا ٹوپی ڈرامہ رچایا جاتا ہے تو کبھی نیا صوبہ بنانے کا شوشا چھوڑا جاتا ہے۔
کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں روا رکھا جاتا رہا ہے؟ کیوں جنوبی ایشیاء کے خوب صورت شہرکراچی کو سندھ کا ایک پسماندہ ترین شہر میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوششیں کی جارہی ہیں؟
کراچی کا مال کھانے میں سب کو مزا آتا رہا ہے۔ بہت سے اترے ہوئے۔ مرجھائے ہوئے چہروں پر مراعات کا نور اب بھی چمک دھمک کے ساتھ جلوہ گر ہے، لیکن کراچی میں بسنے والے مسکین کچلے ہوئے غریب عوام اور تباہ حال کراچی کے وجود پر رحم کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ سب کے سب کراچی کے نام کو استعمال کر کے کراچی کا استحصال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی کا کوئی سچا والی وارث نہیں۔ کراچی لاوارث شہر بن چکا ہے، احساس محرومی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔
خدارا، ہوش کے ناخن لیں۔ دلوں کو صاف رکھا جائے۔ کراچی کو پاکستان کا حصہ سمجھا جائے۔ کراچی کے دم سے ہمارے پیارے پاکستان کی معیشت رواں دواں ہے۔ معیشت کے شہ رگ کراچی کو انسانوں کے رہنے کے لیے قابل بنایا جائے۔کراچی کو نفرت کی نہیں، محبت کی ضرورت ہے۔