Daily Ausaf:
2025-06-22@13:46:23 GMT

خاموش سفارتکاری کا جادو

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

یقین کیجیے اس ملک کا اصل مسئلہ نہ مہنگائی ہے نہ لوڈشیڈنگ نہ بیروزگاری اور نہ ہی خارجہ پالیسی کی پیچیدگیاں۔ اصل دکھ یہ ہے کہ ہمارے صاحبِ اختیار فیصلہ کرنے سے گھبراتے ہیں اور جب کوئی صاحبِ ایمان، صاحبِ بصیرت اور صاحبِ جگر سامنے آتا ہے تو پورا نظام جیسے اس سے خائف ہو جاتا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا حالیہ دورہ امریکہ اسی سیاق و سباق میں ایک نکتہ آغاز ہے۔
امریکی صدر کی دعوت پر فیلڈ مارشل امریکہ گئے۔ جاتے ہوئے نہ کوئی بڑا دعوی، نہ شور، نہ واویلا۔ خاموشی سے روانہ ہوئے اور وہاں جا کر پاکستان کا مقدمہ ایسے پیش کیا جیسے کوئی وکیل عدالت میں اپنے بے گناہ موکل کے لیے لڑتا ہے۔ صدر ٹرمپ سے تنہا ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں اسرائیل اور ایران کے بڑھتے ہوئے تنازع پر گفتگو ہوئی۔ واشنگٹن کے باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ جنرل صاحب نے بڑے تحمل، تدبر اور وقار کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا۔ انہوں نے امریکہ کو براہ راست جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔کہنے کو یہ صرف ایک مشورہ تھا لیکن اس مشورے میں ایک قومی غیرت، حکمت اور وہ اندرونی سکون جھلک رہا تھا جو صرف مخلص اور فہم و فراست رکھنے والے سپہ سالار میں ہوتا ہے۔ کہتے ہیں صدر ٹرمپ نے بات سنی اور فیصلہ مخر کر دیا۔ بعض لوگ اس کو محض اتفاق سمجھیں گے لیکن اہلِ دل جانتے ہیں کہ کبھی کبھی دل سے نکلی بات سیدھی دل پر اثر کرتی ہے اور شاید یہی لمحہ تھا جب طاقت کے نشے میں چور واشنگٹن نے پہلی بار کسی پاکستانی آواز کو سنجیدگی سے سنا۔ادھر پاکستان میں روایتی ناقدین اسے صرف فوجی سفارت کاری کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی قوم کا موقف دنیا کے طاقتور ترین ایوانوں تک پہنچاتا ہے، وہ بات کرتا ہے دہشت کے خلاف ہماری قربانیوں کی، وہ یاد دلاتا ہے کہ ہم نے ستر ہزار جانیں دیں، معیشت کو کھوکھلا کیالیکن عالمی امن کے لیے فرنٹ لائن پر کھڑے رہے تو کیا وہ قابلِ داد نہیں؟ کیا ہم اسے محض اس لیے نظر انداز کر دیں کہ وہ وردی میں ہے؟فیلڈ مارشل کی بات میں ایک ٹھہرائو ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ جاذبیت ہے جو الفاظ کی محتاج نہیں۔ جو لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ کم گو ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو دلائل کے ساتھ مدلل انداز میں بات کرتے ہیں۔ واشنگٹن میں تھنک ٹینکس، تجزیہ کاروں، ماہرینِ پالیسی اور عالمی میڈیا سے ان کی گفتگو اسی انداز کی تھی۔ پاکستان کے مقف کو پوری دنیا کے سامنے رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا بیانیہ، ہمارے موقف، ہمارے تحفظات سب کچھ واضح انداز میں بیان کیا۔یہ سب کچھ کسی روایتی سفیر کے بس کی بات نہیں۔ سفارتکاری صرف زبان نہیں کردار کا نام ہے اور جب ایک ایسا شخص بات کرے جس کے چہرے پر صداقت ہو اور جس کے دل میں ملک و ملت کے لیے درد ہو تو اثر خودبخود پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے امریکیوں کو بتایا کہ پاکستان آج بھی علاقائی امن میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے ہم استحکام چاہتے ہیں۔ بعض علاقائی عناصر دہشت گردی کو ہائبرڈ وارفیئر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور پاکستان اس کا نشانہ ہے۔ ان کے الفاظ میں کوئی مصنوعی پن نہ تھا نہ کوئی کاغذی انداز۔
ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بہت کچھ کھو دیا لیکن دنیا نے ہمیں کیا دیا؟ یہ سوال انہوں نے تلخی سے نہیں دکھ سے کیا۔ اور شاید یہی دکھ امریکہ کے پالیسی سازوں کے دل میں جا لگا۔فیلڈ مارشل نے بات صرف سکیورٹی تک محدود نہیں رکھی۔ انہوں نے پاکستان کی ترقیاتی صلاحیتوں پر بھی روشنی ڈالی۔ امریکہ اور دنیا کو بتایا کہ پاکستان میں آئی ٹی، زراعت اور معدنیات کے شعبے میں بے پناہ مواقع ہیں۔ ہمیں صرف شراکت داری، سرمایہ کاری اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ ایک ملک جسے دنیا صرف ایک سکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر دیکھتی ہے اسے ترقی یافتہ معیشت کے طور پر متعارف کرانے کی جو کوشش فیلڈ مارشل نے کی وہ بے مثال ہے۔
دیرینہ پاک امریکہ تعلقات کا ذکر آیا تو انہوں نے جذبات سے خالی مگر حقیقت پر مبنی گفتگو کی۔ کہا کہ ہمیں ماضی سے سیکھنا چاہیے لیکن مستقبل کی طرف دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر ہم بار بار ایک جیسے راستے پر چل کر کچھ حاصل نہیں کر پائے تو شاید راستہ بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔
واشنگٹن میں ان کی بات سنی گئی۔ کھلے دل سے سنی گئی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ وہی واشنگٹن ہے جہاں پاکستانی قیادت کو اکثر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے یا رسمی ملاقاتوں سے ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس بار ایک تبدیلی نظر آئی۔ ایک وقار، ایک سنجیدگی اور ایک اعتبار۔جنرل عاصم منیر کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وائٹ ہائوس کی ترجمان نے بھی کہا ہے کہ صدر آئندہ دو ہفتوں میں ایران پر ممکنہ حملے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے۔ کسی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ اس سوچ کے پیچھے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی گفتگو کا کتنا اثر ہے لیکن جو بات دل پر اتر جائے وہ تحریر کی محتاج نہیں ہوتی۔پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر ہماری سیاسی قیادت میں بھی یہی تدبر، یہی شائستگی، یہی اخلاص آ جائے، تو پاکستان کتنی جلدی اپنی منزل پا لے۔ مگر افسوس یہاں تو ہر بات کو ذاتی مفاد، جماعتی مفاد اور وقتی بیانیے کی نظر کر دیا جاتا ہے۔
یاد رکھیے قومیں صرف بجٹ اور پالیسیاں بنا کر ترقی نہیں کرتیں بلکہ کردار، وقار اور ویژن سے آگے بڑھتی ہیں۔ فیلڈ مارشل نے اس دورے سے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے پاس اب بھی وہ قیادت موجود ہے جو وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے اور جسے سننے پر دنیا مجبور ہو جاتی ہے۔مسئلہ قیادت کا نہیں مسئلہ نظریے کا ہے۔ جب تک ہمارا ہر ادارہ، ہر نظام، ہر فرد اپنی حدود میں رہ کر دیانت داری سے اپنا کردار ادا نہیں کرتا تب تک کوئی فیلڈ مارشل، کوئی وزیراعظم، کوئی صدر اس ملک کو نہیں بچا سکتا۔ ہمارے ہاں جو شخص جتنا مخلص ہوتا ہے، اتنا ہی تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ جو جتنا خاموش ہو اسے اتنا ہی کمزور سمجھا جاتا ہے۔لیکن فیلڈ مارشل کی خاموشی کمزوری نہیں بلکہ تدبر کا اظہار ہے۔ وہ ہر وقت بولنے کے قائل نہیں۔ ان کی گفتگو میں توازن ہے جسے سن کر مخالف بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں اپنے ملک کی بات کرتے ہیں۔ ان کا انداز عاجزی کا ہے، خودنمائی کا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آج کا پاکستان ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف اندھی سیاست دوسری طرف معاشی زوال تیسری طرف اداروں کی باہمی چپقلش اور چوتھی طرف ایک خاموش محبِ وطن قیادت جو امید کی کرن ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ہم کس طرف جانا چاہتے ہیں؟آخر میں بات وہی ہے جو بار بار دل میں گونجتی ہے ۔
یہ ملک بنایا گیا تھا لا الہ الا اللہ کے نام پر۔ جب تک قیادت اس روح کو سمجھے گی تب فیصلے درست ہوں گے، راستے صاف ہوں گے، اور منزل قریب ہو گی۔ جو حکمت، صبر، جرات اور اخلاص اس ایک دورے میں دکھائی دیا وہی اگر ہماری سیاست، معیشت اور سماج میں اتر آئے تو پاکستان صرف جغرافیہ نہیں بلکہ ایک نظریہ بن کر دنیا کے سامنے ابھرے گا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کہ پاکستان فیلڈ مارشل انہوں نے جاتا ہے نہیں کر کی بات بات کر

پڑھیں:

برطانیہ میں زہریلی ہوا خاموش قاتل بن گئی، 30 ہزار جانیں خطرے میں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لندن:برطانیہ کے ماہرین صحت نے ایک خطرناک انتباہ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 2025 میں فضائی آلودگی ملک میں تقریباً 30 ہزار اموات کا باعث بن سکتی ہے، جن میں سے 99 فیصد اموات کی بنیادی وجہ زہریلی ہوا میں سانس لینا ہوگی۔

رائل کالج آف فزیشنز کی جانب سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی اب صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے، جس کے مضر اثرات جسم کے تقریباً ہر عضو تک پہنچتے ہیں۔

رپورٹ میں اس تلخ حقیقت کو اجاگر کیا گیا کہ اگرچہ ماضی کی دہائیوں میں کاربن کے اخراج میں کمی لائی گئی ہے، تاہم ماحولیاتی زہریلے ذرات کی معمولی مقدار بھی انسانی جسم میں گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی نہ صرف ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ دل کے امراض، فالج، ذہنی بیماریوں اور حتیٰ کہ ڈیمینشیا جیسی پیچیدہ حالتوں کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ برطانوی صحت نظام پر اس ماحولیاتی بحران کا مالی بوجھ بھی بہت بھاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف فضائی آلودگی کے باعث نیشنل ہیلتھ سروس پر سالانہ 27 ارب پاؤنڈز کا خرچ آتا ہے۔ اگر اس میں ڈیمینشیا سے متعلق اخراجات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ لاگت 50 ارب پاؤنڈز تک جا پہنچتی ہے۔

یہ رپورٹ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلی آلودگی کے مقابلے میں برطانیہ کی صورتحال خاصی سنگین ہوتی جا رہی ہے، جہاں شہری آبادی کو اکثر و بیشتر خاموشی سے زہریلی فضا نگل رہی ہے، جس کا شعور عوامی سطح پر تاحال مطلوبہ حد تک نہیں۔

ماہرین صحت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فضائی آلودگی کے خلاف ٹھوس اور فوری اقدامات کیے جائیں، کیونکہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو زہریلی ہوا صرف سانسیں ہی نہیں چھینے گی، بلکہ پورے نظامِ صحت کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی۔

متعلقہ مضامین

  • سفارتکاری کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں لیکن ابھی اس کا وقت نہیں ،جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور جواب دیں گے،ایرانی وزیرخارجہ
  • پاکستان انڈیا جنگ بند کرانے میں امریکا کا اہم کردار تھا، شاہد خان
  • ہائبرڈ نظام کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی، فواد چودھری
  • برطانیہ میں زہریلی ہوا خاموش قاتل بن گئی، 30 ہزار جانیں خطرے میں
  • بلوچستان میں خواتین صحافیوں پر ڈیجیٹل حملے، ایک خاموش محاذ کی کہانی
  • حکومت اور مقتدرہ کے درمیان بہترین تعلق سے ملک کو فائدہ ہو رہا ہے، خواجہ آصف
  • پہلگام واقعہ کے بھارت کے پاس کوئی ثبوت نہیں، امرجیت سنگھ
  • ایران نے پاکستان سے دفاعی امداد یا پناہ گزینوں کی میزبانی کی کوئی درخواست نہیں کی، دفتر خارجہ
  • ایران کے ساتھ کوئی نیا فوجی تعاون نہیں ہوا