Express News:
2025-11-06@20:49:45 GMT

مودی راج، 11سالہ دور جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر قائم

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

نااہل مودی حکومت جھوٹ پر مبنی بیانیے، حقائق چھپانے اور میڈیا کے ذریعے سچ کو دفنانے میں مہارت رکھتی ہے۔

مودی کی قیادت میں سچ، احتساب اور شفافیت غائب ہوگئی جبکہ صرف فوٹو شوٹس اور جھوٹے اشتہارات باقی ہیں۔ احمدآباد طیارہ حادثہ میں 270 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، مگر مودی سرکار کی جانب سے صرف خاموشی اور بے حسی دکھائی دی۔

مودی راج میں نئے ایئرپورٹس کے افتتاحی فیتے تو کاٹے جا رہے ہیں، مگر DGCA میں 48 فیصد اور ایوی ایشن اداروں میں 37فیصد آسامیاں خالی ہیں۔ بھارتی سول ایوی ایشن کا نظام شدید عملے کی کمی کا شکار ہے۔

سال 2017 سے 2022 کے درمیان 244 ریلوے بڑے حادثات ہوئے لیکن مودی کی توجہ صرف بھارت کی نئے ٹرینوں کی افتتاحی تقریبات پر رہی۔

اشتہاروں میں ’’شائننگ انڈیا‘‘ لیکن حقیقی بھارت بھوک، غربت اور افلاس کا شکار ہے۔  بھارت ہنگر انڈکس میں 127 میں سے 105 پر آچکا ہے۔ مودی نے 2016 میں نوٹ بندی کو ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ فیصلہ کہا لیکن آج بھی آڈٹ کا کہیں ذکر تک نہیں۔

مودی راج میں سوال پوچھنے والا ’’غدار‘‘، بھارت صحافتی آزادی میں 151 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ مودی کا ’’گودی میڈیا‘‘ صرف جھوٹ دکھانے میں مصروف ہے۔

کورونا میں صرف انسان نہیں مرے، سچ بھی دفن ہوا، مودی کے اپنے گجرات میں اموات 33 گنا زیادہ رہی جبکہ سرکاری گنتی فراڈ نکلی۔ مودی سرکار نے پارلیمنٹ کو آج تک نہیں بتایا کہ لاک ڈاؤن میں کتنی چھوٹی صنعتیں بند ہوئیں، کتنے مزدور بے روزگار ہوئے، سچ آج بھی دفن ہے۔

پلوامہ حملے میں 40 بھارتی جوان ہلاک ہوئے مگر 6 سال بعد بھی نہ انصاف ملا، نہ سچ سامنے آیا۔ پلوامہ اور پہلگام حملوں پر صرف مودی نے اپنی سیاست چمکائی۔

کمبھ میلہ بھگدڑ کی اموات پر بھی مودی نے عوام کو گمراہ کیا۔ بھارتی حکومت نے 37 اموات بتائیں لیکن بی بی سی رپورٹ کے مطابق 82 افراد جان سے گئے۔

پہلگام حملے پر بھی مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے عوام کو گمراہ کیا، سیاحوں کی سیکیورٹی مکمل طور پر ناکام رہی۔

مودی سرکار کی سفارتی ناکامی واضح ہے، کینیڈا سے تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ نجر قتل پر خاموشی ہے۔ مودی کا دور بھارت کی ناکامی کا دور ثابت ہو رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

دکھ روتے ہیں!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک بار، Keanu Reevesنے کہا: ”درد شکل بدل دیتا ہے، لیکن یہ کبھی غائب نہیں ہوتا۔ جو چیز آپ کو دکھ دیتی ہے یا توڑ دیتی ہے، آپ اس پر قابو نہیں پا سکتے، لیکن آپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آپ جس چیز سے پیار کرتے ہیں اس کے لیے لڑیں، کیونکہ کوئی اور آپ کے لیے ایسا نہیں کرے گا۔ انسانوں کے مذہب، زبان، رنگ، نسل مختلف ہیں لیکن دنیا بھر کے دکھوں کا ایک ہی مذہب ہے ایک ہی رنگت اور نسل ہے اور ایک ہی زبان ہے انسان مختلف ہیں لیکن دکھ سب کے ایک جیسے ہیں ہاں ان کی شدت کم یا زیادہ ہوتی ہے جب کبھی بھی کہیں سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ میرے دکھ سب سے زیادہ ہیں تو پھر ہمارے دکھ روتے ہیں۔
1986 میں امن کا نوبیل انعام جرمنی کے ایلی ویزیل کو دیاگیا جو بچ نکلا تھا 1945 میں اس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نا بود کر دیاتھا Auschwitzکے وقوعے کے بعد اس کا سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اس کا خاندان نیست و نابود کر دیاگیا تھا وہ بے گھراور بے وطن تھا ایک انسان کی حیثیت میں اس کی شناخت بھی خطرے میں تھی اب وہ صرف قیدی نمبرA7713 تھا آتش ذدہ ساحل پر بیٹھا ہوا ایک بے امید، بے مستقبل ملاح کی طرح تھا جس کا جہاز تباہ ہوچکا تھا صرف یادیں باقی رہ گئیں تھیں اس نے آسمان کی طرف نظر کرکے خدا سے سوال کیا تھا ”آخر کیوں، ایسا کیوں ہونا تھا اور مجھے کیوں زندہ باقی رہ جانا تھا پیارے خدا، تیرے اپنے منتخب چھ ملین افراد موت کے منہ میں کیوں ڈالے گئے تھے تو اس وقت کہاں تھا جب انہوں نے بارہ برس کے لڑکوں کو Auschwitz میں دار پر لٹکا دیاتھا یا چھوٹے بچوں کو زندہ جلا دیا تھا اس وقت اس کی عمر 17سال تھی او وہ سترہ بر س کا مگر فریادوں کا تنہا پیمبر بن گیا تھا اس نے کہاتھا ”تم سب جو گذرے جارہے ہو کیا یہ سب تمہارے نزدیک کچھ نہیں ہے ٹہرو اور دیکھو اگر کہیں میرے غم جیسا کوئی غم ہے بھی”۔ محتر م ایلی ویزیل آپ کے دکھ اپنی جگہ بہت زیادہ ہیں آپ کے درد کی شدت یقینا بہت زیادہ ہوگی لیکن محترم ہمارے دکھوں کی شدت آپ کی شدت سے کسی بھی صورت کم نہیں ہے اسے بیان کرنے کے لیے ایک نئی لعنت ایجاد کرنی ہوگی اس لیے کہ ہمارے دکھ در د کی شدت موجودہ الفاظوں سے کہیں زیادہ ہے ہمارے تکلیفیں موجود لفظوں کی چیخوں سے زیادہ دردناک اور وحشت ناک ہیں ہماری اذیتوں کی ٹیسیں موجودہ لفظوں سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہیں آپ تو چھ ملین افراد کی موت پر تڑپ گئے تھے یہاں تو 25 کروڑ افراد زندہ جل رہے ہیں یہاں تو25 کروڑ افراد سولی پہ لٹکے ہوئے ہیں جو نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی مردہ ہیں آئیں ۔ ذراتاریخ کے اندر سفر کرتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چور بادشاہ اشوک جب اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا تو اس کی نگا ہوں کے سامنے دور دور تک پھیلا ہوا میدان تھا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ مردار خور پرندے ان پر اتر آئے تھے بہت سے ان میں نیم مر دہ تھے کراہتے ہوئے اور پانی مانگتے ہوئے قریب کی بستیوں سے عورتیں آن پہنچی تھیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے رشتے ڈھو نڈ تی تھیں اور آہ و بکا کررہی تھیں۔ بادشادہ اشوک نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا اس کا گریہ تاریخ میں محفو ظ ہے۔ محترم ایلی ویزیل تاریخ میں کا لنگا کے میدان سے آج بھی آہ و بکا کی آوازیں آتی ہیں۔ آج بھی ایک لاکھ سپاہیوں کی لاشیں کالنگا کے میدان میں بکھری پڑی ہیں ۔آپ کے لیے یہ عرض ہے کہ آج ہماری حالت کسی بھی طرح سے ان عورتوں سے کم نہیں ہے جو کالنگا کے میدان میں آہ و بکا کررہی تھیں۔ آپ اور کچھ نہ کریں صرف ہمارے ملک کی غرباؤں کی بستیوں میں گھوم کر دیکھ لیں۔ ان کے گھروں میں جھانک لیں ان کے نوحے سن لیں ،ان کے ماتم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ،ان کے گر ئیے ان ہی کی زبانی سن لیں پھر جو فیصلہ آپ کریں گے ہمیں منظور ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ان منظروں اور آوازوں کے بعد فیصلہ کرنے کے قابل بھی رہتے ہیں یا نہیں۔سنتے ہیں کہ چڑیلیں کسی سے چمٹ جائیں تو بڑی مشکل سے جان چھوڑتی ہیں لیکن جان چھوڑ دیتی ہیں یہ جو دکھ ہوتے ہیں ۔یہ جب کسی سے چمٹتے ہیں تو پھر کبھی اس کی جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ اس کی جان نہ نکل جائے۔
آئیں ہم اپنے دکھوں کے ذمہ داروں کا تعین کرتے ہیں (١) پہلا گروپ۔ اس گروپ میں تمام بڑے بڑے جاگیر دار، سردار، پیر شامل ہیں جن کی سو چ یہ ہے کہ جب تک عام آدمی ہمارا غلام رہے گا ہماری جاگیریں، سرداری، پیری صحیح سلامت اور محفوظ رہیں گی۔ اس لیے انہیں بے بس رکھو ان کی عزت نفس ہر وقت پامال کرتے رہو انہیں ذلیل کرتے رہو اورانہیں ان کے تمام حقوق سے محروم رکھو ان کی حالت جانوروں سے بدتر رکھو۔ دوسرا گروپ۔جس میں صنعت کار، تاجر، بزنس مین، سرمایہ دار، بلڈرز اور کاروباری حضرات
شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات بظاہر بہت مہذب، شائستہ نظر آتے ہیں سوٹوں میں ملبوس خو شبوؤں میں ڈوبے لیکن اگر آپ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں تو دہشت زدہ ہو کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ان کا سب کچھ صرف اور صرف پیسہ ہے یہ کسی تعلق، رشتے، احساس، جذبات کو نہیں مانتے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے کوئی دور دور تک تعلق ہے۔ان کا مذہب، ایمان، دین سب پیسہ ہے (٣) تیسر ا گروپ۔اس گروپ میں علمائ، مشائخ اور ملاشامل ہیں آج ہمارا ملک جو مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے ہمارے آدھے سے زیادہ دکھوں کے ذمہ دار یہ ہی ہیں ۔یہ حضرات ہماری جہالت سے جتنا فائد ہ اٹھا سکتے تھے اٹھارہے ہیں ،ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ان ہی کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ (٤) چوتھا گروپ۔ جس میں سیاست دان، بیورو کریٹس، اعلیٰ افسران شامل ہیں ان کے متعلق جتنی بھی بات کی جائے کم ہے اس گروپ کی اکثریت نے ہی ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے جتنا یہ ملک کو لوٹ سکتے تھے لوٹ چکے ہیں اور لوٹ رہے ہیں اور ابھی تک ان کے پیٹ نہیں بھرے ہیں ۔ شیطان اگر دنیامیں کسی سے ڈرتا ہے تو وہ یہ ہی حضرات ہیں سب سے زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ بظاہر یہ سب گروپس مختلف اور الگ الگ اپنی اپنی کاروائیوں میں مصروف نظرآتے ہیں لیکن اگر باریک بینی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ تمام گروپس اندر سے ایک ہی ہیں ان سب کو ایک دوسرے کی مکمل مدد اور حمایت حاصل ہے ان سب کاایک ہی مقصد ہے کہ جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہو اٹھا تے رہو اور اپنے اقتدار کے سو رج کو کبھی غروب مت ہونے دو اور 25 کروڑ پاکستانیوں کو جتنے دکھ اور دے سکتے ہو دیتے رہو دیتے رہو دیتے رہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت جنگ میں آٹھ طیارے تباہ ہوئے، ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا دعویٰ
  • فلپائن میں طوفان میں فوجی ہیلی کاپٹر بھی تباہ، مجموعی اموات 86 ہوگئیں
  • بھارت کی پسماندہ ترین ریاست بہار میں آج انتخابات کا پہلا مرحلہ
  • بھارت: 10 گھنٹے سے زیادہ بجلی فراہم کرنے پر سزا کا اعلان
  • چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ قائم کیا جائے جس کے ماتحت تمام مسلح افواج ہوں، اشتر اوصاف
  • سلمان اکرم کا بیان سن کر حیران ہوں کیسے کوئی شخص اس قدر جھوٹ بول سکتا ہے؟ عمران اسماعیل
  • دکھ روتے ہیں!
  • بانی پی ٹی آئی نے وزیراعظم شہبازشریف پر بے بنیاد الزامات لگائے:عطا تارڑ
  • ’سب جھوٹ تھا اور ہمیں دھوکا دیا گیا‘، مادھوری ڈکشت کے شو نے لوگوں کو مایوس کیوں کردیا؟
  • ہم اپنی جانیں دے دیں گے لیکن عمران خان کے لیے لڑیں گے،علیمہ خان