Islam Times:
2025-09-22@05:08:35 GMT

میرواعظ کی ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی مذمت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

میرواعظ کی ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی مذمت

انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطین کے لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا، مشرق وسطی کی سلامتی غیر یقینی رہے گی۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میرواعظ عمر فاروق نے ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کی فوجی کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق میرواعظ عمر فاروق نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ ان حملوں نے پورے مشرق وسطی کو تباہی اور افراتفری کی طرف دھکیل دیا ہے۔ میرواعظ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ فوجی طاقت کا مطلب کھلی چھوٹ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطین کے لوگوں کو انصاف فراہم نہیں کیا جاتا، مشرق وسطی کی سلامتی غیر یقینی رہے گی اور خطے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی صورتحال غیر مستحکم رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات ہی امن اور مسائل کے حل کا واحد راستہ ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کے حق میں امریکہ کا ایک بار پھر ویٹو

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ میں الجزائر کے نمائندے عمار بن جامع نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں معاف کر دیجیے، خاص طور پر غزہ میں جہاں آگ ہر چیز کو جلا رہی ہے اور وہاں جہاں آنسو گیس سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ہمیں معاف کر دیجیے کیونکہ یہ کونسل آپ کے بچوں کو نجات نہیں دلا سکی، کیونکہ اسرائیل کی حفاظت کی جا رہی ہے اور اسے استثنی حاصل ہے، بین الاقوامی قانون کی جانب سے نہیں بلکہ اس بین الاقوامی نظام کی جانبداری کی وجہ سے۔ اسرائیل ہر روز قتل کر رہا ہے اور کوئی ردعمل نہیں آتا۔ اسرائیل نے لوگوں کو بھوک کا شکار کیا ہوا ہے اور کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اسرائیل اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں پر بم برسا رہا ہے اور پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل ایک ثالث پر حملہ کرتا ہے اور سفارتکاری کو پامال کرتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔" تحریر: محمد علی
 
ایک طرف غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی اور مصنوعی قحط کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف غزہ میں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دس ہزارویں اجلاس میں امریکہ نے ایک بار پھر جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دی ہے۔ سلامتی کونسل کے باقی تمام 14 اراکین نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی۔ 18 ستمبر 2025 کی شام منعقد ہونے والے اس اجلاس میں ڈنمارک نے 10 اراکین کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر آزاد کر دینے اور غزہ میں فوری، غیر مشروط اور ہمیشگی جنگ بندی کے قیام پر مبنی قرارداد پیش کی جسے تمام اراکین کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود امریکہ نے ویٹو کر دیا اور یوں ظلم و ستم کا شکار فلسطینیوں کی امید ایک بار پھر ختم ہو گئی۔ غزہ جنگ کے دوران جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے پر مبنی امریکہ کا یہ چھٹا اقدام ہے۔
 
غذائی سلامتی سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے آئی پی سی نے گذشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ غزہ کے وسیع حصوں میں قحط شروع ہو چکا ہے۔ سلامتی کونسل کے کل 15 اراکین میں سے 10 اراکین نے جنگ بندی کی حالیہ قرارداد تیار کی تھی جس میں آئی پی سی کی رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا: "آئی پی سی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ غزہ میں قحط شروع ہو چکا ہے اور ستمبر کے آخر تک دیر البلح اور خان یونس کے صوبوں میں بھی قحط کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ غزہ کی پوری پٹی میں انسانی بحران پایا جاتا ہے اور ہم بھوک کو عام شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے فوجی آپریشن میں وسعت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے فوری بند کرنے اور غزہ میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ہر کوشش کی روک تھام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
 
اقوام متحدہ میں ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینیا مارکوس لاسن نے اس اجلاس میں کہا: "جنگ بندی کی قراردادیں ایک واضح پیغام لیے ہوئے ہیں۔ میرے ساتھیو، اجازت دیں یہ قرارداد ایک واضح پیغام بھیجے، اس بات کا پیغام کہ سلامتی کونسل بھوکے عام شہریوں، یرغمالیوں اور جنگ بندی کے مطالبے سے روگردان نہیں ہے۔ اجازت دیں یہ قرارداد ثابت کرے کہ ہم ان امدادی کارکنوں کی حمایت کرتے ہیں جو انتہائی کٹھن حالات میں کام کر رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا شرف حاصل ہے کہ دنیا بھر میں لائیو شائع ہونے والی جنگ اور اس کے دلخراش واقعات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اور یہ کہ بین الاقوامی قانون کی اہمیت ہے، انسانی اصول اہمیت رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ کے منشور میں بیان شدہ انسان دوستی کا اصول ہمارا رہنما اصول ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "غزہ میں قحط ایک حقیقت ہے اور ہم فوری، ہمیشگی اور غیر مشروط جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔"
 
اس اجلاس میں امریکہ وہ واحد ملک تھا جس نے نہ صرف اس قرارداد کی حمایت نہیں کی بلکہ اسے ویٹو کر کے غیر موثر بنا دیا۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی ہونے کے ناطے امریکہ اب تک سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی کئی قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔ سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں امریکہ کی نمائندہ مورگن اورٹیگاس نے یہ بہانہ بناتے ہوئے کہ اس قرارداد میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی یا اسرائیل کا اپنا دفاع کرنے کا حق تسلیم نہیں کیا گیا اس قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ اس نے دعوی کرتے ہوئے کہا: "یہ قرارداد حماس کے حق میں جھوٹی روایتوں کی تصدیق کر رہا ہے جو بدقسمتی سے اس کونسل کے اراکین میں رائج ہو چکی ہیں۔" امریکی نمائندے نے مزید دعوی کیا: "امریکہ کی جانب سے اس قرارداد کو ویٹو کرنا کسی کے لیے تعجب آور نہیں ہو گا کیونکہ اس میں حماس کی مذمت نہیں کی گئی جس نے 7 اکتوبر کو حملے کا آغاز کیا تھا۔"
 
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: "فلسطینی عوام جو سلامتی کونسل سے غزہ جنگ بند کروانے کی امیدیں وابستہ کر چکے تھے اس وقت شدید مایوسی اور غصے کا شکار ہیں۔" ریاض منصور نے امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد سلامتی کونسل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "غزہ سے شائع ہونے والی تصاویر شدید دکھ اور درد کی حامل ہیں اور ہر دیکھنے والے کو متاثر کر دیتی ہیں۔ ایسے کمسن بچے کو بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں، ایسے اسنائپر شوٹر جو عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، عام شہری اکٹھے قتل عام ہو رہے ہیں، خاندان جلاوطن ہو رہے ہیں، امدادی کارکن اور صحافی نشانہ بن رہے ہیں جبکہ اسرائیلی حکمران کھلم کھلا ان تمام واقعات کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔"
 
اقوام متحدہ میں الجزائر کے نمائندے عمار بن جامع نے امریکہ کے ویٹو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: "ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔" انہوں نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "ہمیں معاف کر دیجیے، خاص طور پر غزہ میں جہاں آگ ہر چیز کو جلا رہی ہے اور وہاں جہاں آنسو گیس سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ہمیں معاف کر دیجیے کیونکہ یہ کونسل آپ کے بچوں کو نجات نہیں دلا سکی، کیونکہ اسرائیل کی حفاظت کی جا رہی ہے اور اسے استثنی حاصل ہے، بین الاقوامی قانون کی جانب سے نہیں بلکہ اس بین الاقوامی نظام کی جانبداری کی وجہ سے۔ اسرائیل ہر روز قتل کر رہا ہے اور کوئی ردعمل نہیں آتا۔ اسرائیل نے لوگوں کو بھوک کا شکار کیا ہوا ہے اور کوئی کچھ نہیں کرتا۔ اسرائیل اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گاہوں پر بم برسا رہا ہے اور پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل ایک ثالث پر حملہ کرتا ہے اور سفارتکاری کو پامال کرتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔"

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر ٹرمپ کی بگرام ایئربیس واپس نہ کرنے پر افغانستان کو دھمکی قابل مذمت ہے، اسداللہ بھٹو
  • مشرقِ وسطیٰ کا نیا دفاعی منظرنامہ
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • مشرقِ وسطی میں دو ریاستی حل کیلئے 142 ممالک کی قرارداد سنگِ میل ہے، میکرون
  • ایران پر پابندیوں کی بحالی سے مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کا خطرہ ہے، پاکستان
  • مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور اسرائیلی خطرات : پاکستان کی ایٹمی قوت کا نیا کردار
  • ’’پاک سعودی دفاعی معاہدے میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کےلئے ایٹمی تحفظ شامل‘‘ عالمی میڈیا کی رپورٹ
  • ’’پاک سعودی دفاعی معاہدے میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کیلیے ایٹمی تحفظ شامل‘‘ عالمی میڈیا کی رپورٹ
  • جنوبی لبنان میں اسرائیلی فضائی حملے، اقوام متحدہ کی شدید مذمت
  • فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھنے کے حق میں امریکہ کا ایک بار پھر ویٹو