data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج کل یعنی دو تین سال سے مصنوعی ذہانت کا کچھ زیادہ ہی غلغلہ ہے۔ مصنوعی ذہانت تو ہمارے ساتھ عشروں سے ہے۔ کمپیوٹرز بھی مصنوعی ذہانت ہی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے دیے ہوئے احکامات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اِن کی کارکردگی کا مدار اُن پروگرامز پر ہے جو ہم تیار کرکے اِن کے حافظے یعنی ہارڈ ڈسک میں ڈالتے ہیں۔ کمپیوٹرز ہمارے بہت سے کام کر ہی رہے تھے کہ مصنوعی ذہانت زیادہ توانا ہوکر ہمارے سامنے بلکہ مقابلے پر آگئی۔
دنیا بھر میں کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت کو نجات پانے کی راہ کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ انسانی وسائل سے نجات پانے کا عمل زور پکڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ٹیکنالوجی کے شعبے کے ارب پتی اور اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین کہتے ہیں کہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ۲۰۲۵ تک دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت تمام کلیدی کام کرنے لگے گی مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ منزل ابھی دور ہے کیونکہ ’’اے آئی ایجنٹ‘‘ بہت سے کام نہیں کر پارہے۔ اے آئی ایجنٹ سے مراد وہ تمام ٹول ہیں جو انسانوں کو ہٹاکر اُن کا بیش تر کام اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ایک زبردست ہائپ پیدا کی گئی ہے۔ اپریل ۲۰۲۵ تک ماہرین نے یہ اندازہ لگایا کہ اے آئی ایجنٹس اسائنمنٹس کے تحت دی جانے والی ملازمت میں سے صرف ۲۴ فی صد مکمل کرسکے ہیں۔ اِس کے باوجود کاروباری اداروں کے سربراہوں نے مصنوعی ذہانت کی طرف لپکنے کا عمل ترک نہیں کیا اور دن رات چھانٹیاں جاری رکھیں۔ مصنوعی ذہانت کو کام پر لگانے کے لیے ہنر مندوں کی چھٹی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ اب ہوش آیا ہے کہ چھانٹیوں سے معاملات مزید بگڑے ہیں۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اے آئی ایجنٹس اپنے آجروں کے کاروباری راز بھی افشا کردیتے ہیں۔ اُنہیں کنٹرول کرنے کے لیے غیر معمولی تربیت یافتہ انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب کاروباری اداروں کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرز کو احساس ہو رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ کاروباری تجزیے اور مشاورت کی فرم گارٹنر کے ایک حالیہ سروے کے مطابق کسٹمر سروس ورک فورس میں غیر معمولی کمی کرنے کا منصوبہ تیار کرنے والے ۱۶۳ ایگزیکٹیوز میں سے نصف نے اپنا یہ منصوبہ ۲۰۲۷ تک ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا اور یورپ میں کارپوریٹ تعلقاتِ عامہ سے وابستہ افراد کو سب کچھ نئے سِرے سے لکھنا پڑے گا۔ اُنہیں بہت حد تک ہائبرڈ اپروچ اختیار کرنا پڑے گی۔ اگر مصنوعی ذہانت کی طرف جانا بھی پڑا تو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے گا۔ سب کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ بہت سے شعبوں کے کلیدی اجزا کو چلانے کے لیے انسانی وسائل کی ضرورت ہر حال میں باقی رہے گی۔ گارٹنر کی سینئر ڈائریکٹر آف کسٹمر سروس اینڈ سپورٹ اینیلسز کیتھی راس کا کہنا ہے کہ بعض مقامات پر انسانی وسائل ناگزیر ہوتے ہیں۔ جو کام مشینیں کر ہی نہیں سکتیں اُن کے لیے انسانوں کو رکھنا ہی پڑے گا۔ ایسا نہ کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی فرم گو ٹو اور ریسرچ ایجنسی ورک پلیس انٹیلی جنس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مغربی دنیا میں کم و بیش ۶۲ فی صد ملازمین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ضرورت سے کچھ زیادہ بیان کردیا گیا ہے اور حواس پر یہ اِس طور سوار ہے کہ کاروباری ادارے چلانے والے کچھ سمجھ نہیں پارہے۔ سب کو یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔ مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی دوڑ سی لگی ہے اور اِس دوڑ نے معقولیت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اِسی طور صرف ۴۵ فی صد کارپوریٹ آئی ٹی منیجرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک رسمی سی اے آئی پالیسی تیار کر رکھی ہے۔ یہ سب کچھ ہنگامی بنیاد پر ہوا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں پیش رفت کی رفتار اب بھی تیز ہے تاہم معاملہ ایسا نہیں کہ انسانوں کی ضرورت یکسر ختم ہوکر رہ جائے گی۔ ۵۶ فی صد آئی ٹی منیجرز کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو پوری طرح گلے لگانے کی راہ میں ایک طرف تو سیکورٹی خدشات ہیں اور دوسری طرف یہ مسئلہ بھی موجود ہے کہ مصنوعی ذہانت کی لڑی میں تمام کاروباری معاملات کو کس طور پرویا جاسکے گا۔ سب کچھ مشینوں کے ہاتھ میں دینے کے بعد معاملات کنٹرول کس طور کیے جاسکیں گے؟ یہ تمام رپورٹس ایسے وقت آئی ہیں جب بہت سے کاروباری اداروں نے خاصی ہزیمت کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا ہے۔ جن انسانی وسائل سے وہ پوری طرح جان چھڑانا چاہ رہے تھے اب اُنہی کو دوبارہ کام پر لگانا پڑا ہے۔ بہت سے کاروباری اداروں نے اپنی ورک فورس سے انسانوں کو ۲۲ فی صد کی حد تک نکال دیا تھا۔ اب اُنہیں واپس بلایا جارہا ہے کیونکہ معاملات الجھ رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے چند معاملات میں بُری طرح بیک فائر کیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے معروف نقاد و تجزیہ کار ایڈ زِٹرون کا کہنا ہے کہ اے آئی ایجنٹس سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلی گئی تھیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت بہت کچھ کرسکتی ہے مگر سب کچھ تو بہرحال نہیں کرسکتی۔ کاروباری دنیا کو یہ حقیقت سمجھنا پڑے گی۔ چند ایک اے آئی ایجنٹس بہت زیادہ کارگر نہیں مگر اُن کے بارے میں بے جا طور پر یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں لے آئیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے غیر ضروری ہائپ ختم کی جائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ ہیومن فیکٹر بہر حال ہیومن فیکٹر ہوتا ہے۔ انسان کا نعم البدل کوئی نہیں، نہ کاروبار میں اور نہ ہی سماجی تعلقات میں۔ (www.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہے کہ مصنوعی ذہانت کاروباری اداروں مصنوعی ذہانت کو مصنوعی ذہانت کی اے ا ئی ایجنٹس کا کہنا ہے کہ بہت سے کے لیے ا نہیں سب کچھ کام کر
پڑھیں:
پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی کرپٹو کرنسی انقلابی کردار ادا کر رہی ہے، بلال بن ثاقب
اقوام متحدہ کے 80 ویں اجلاس میں پاکستان اور مصنوعی ذہانت کے موضوع پر وزیر مملکت بلال بن ثاقب کا خطاب، کہا پاکستان کی عالمی سطح پر کرپٹو کرنسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ ہموار ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی کرپٹو کرنسی انقلابی کردار ادا کر رہی ہے۔ وزیر مملکت برائے کرپٹو اور بلاک چین بلال بن ثاقب نے اقوام متحدہ کے 80ویں اجلاس میں خطاب کے دوران کہا کہ ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت ترقی پذیر ممالک کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے‘‘۔ پاکستان کی 250 ملین آبادی ، دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فری لانس مارکیٹ ہے۔ بلال بن ثاقب نے کہا کہ پاکستان کے نوجوانوں کیلئے عالمی سطح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے ٹیکنالوجیز کو اپنانا نہایت اہم ہے۔ پاکستان کو مصنوعی ذہانت کے دور میں کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی اور جدید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔جو ممالک مصنوعی ذہانت سے ہم آہنگ ہونگے وہی معاشی طور پر مضبوط بھی ہونگے۔