Jasarat News:
2025-08-12@00:56:23 GMT

مصنوعی ذہانت اور پچھتاوا

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آج کل یعنی دو تین سال سے مصنوعی ذہانت کا کچھ زیادہ ہی غلغلہ ہے۔ مصنوعی ذہانت تو ہمارے ساتھ عشروں سے ہے۔ کمپیوٹرز بھی مصنوعی ذہانت ہی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے دیے ہوئے احکامات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اِن کی کارکردگی کا مدار اُن پروگرامز پر ہے جو ہم تیار کرکے اِن کے حافظے یعنی ہارڈ ڈسک میں ڈالتے ہیں۔ کمپیوٹرز ہمارے بہت سے کام کر ہی رہے تھے کہ مصنوعی ذہانت زیادہ توانا ہوکر ہمارے سامنے بلکہ مقابلے پر آگئی۔
دنیا بھر میں کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت کو نجات پانے کی راہ کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ انسانی وسائل سے نجات پانے کا عمل زور پکڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ٹیکنالوجی کے شعبے کے ارب پتی اور اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین کہتے ہیں کہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ۲۰۲۵ تک دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت تمام کلیدی کام کرنے لگے گی مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ منزل ابھی دور ہے کیونکہ ’’اے آئی ایجنٹ‘‘ بہت سے کام نہیں کر پارہے۔ اے آئی ایجنٹ سے مراد وہ تمام ٹول ہیں جو انسانوں کو ہٹاکر اُن کا بیش تر کام اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ایک زبردست ہائپ پیدا کی گئی ہے۔ اپریل ۲۰۲۵ تک ماہرین نے یہ اندازہ لگایا کہ اے آئی ایجنٹس اسائنمنٹس کے تحت دی جانے والی ملازمت میں سے صرف ۲۴ فی صد مکمل کرسکے ہیں۔ اِس کے باوجود کاروباری اداروں کے سربراہوں نے مصنوعی ذہانت کی طرف لپکنے کا عمل ترک نہیں کیا اور دن رات چھانٹیاں جاری رکھیں۔ مصنوعی ذہانت کو کام پر لگانے کے لیے ہنر مندوں کی چھٹی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ اب ہوش آیا ہے کہ چھانٹیوں سے معاملات مزید بگڑے ہیں۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اے آئی ایجنٹس اپنے آجروں کے کاروباری راز بھی افشا کردیتے ہیں۔ اُنہیں کنٹرول کرنے کے لیے غیر معمولی تربیت یافتہ انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب کاروباری اداروں کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرز کو احساس ہو رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ کاروباری تجزیے اور مشاورت کی فرم گارٹنر کے ایک حالیہ سروے کے مطابق کسٹمر سروس ورک فورس میں غیر معمولی کمی کرنے کا منصوبہ تیار کرنے والے ۱۶۳ ایگزیکٹیوز میں سے نصف نے اپنا یہ منصوبہ ۲۰۲۷ تک ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا اور یورپ میں کارپوریٹ تعلقاتِ عامہ سے وابستہ افراد کو سب کچھ نئے سِرے سے لکھنا پڑے گا۔ اُنہیں بہت حد تک ہائبرڈ اپروچ اختیار کرنا پڑے گی۔ اگر مصنوعی ذہانت کی طرف جانا بھی پڑا تو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے گا۔ سب کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ بہت سے شعبوں کے کلیدی اجزا کو چلانے کے لیے انسانی وسائل کی ضرورت ہر حال میں باقی رہے گی۔ گارٹنر کی سینئر ڈائریکٹر آف کسٹمر سروس اینڈ سپورٹ اینیلسز کیتھی راس کا کہنا ہے کہ بعض مقامات پر انسانی وسائل ناگزیر ہوتے ہیں۔ جو کام مشینیں کر ہی نہیں سکتیں اُن کے لیے انسانوں کو رکھنا ہی پڑے گا۔ ایسا نہ کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی فرم گو ٹو اور ریسرچ ایجنسی ورک پلیس انٹیلی جنس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مغربی دنیا میں کم و بیش ۶۲ فی صد ملازمین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ضرورت سے کچھ زیادہ بیان کردیا گیا ہے اور حواس پر یہ اِس طور سوار ہے کہ کاروباری ادارے چلانے والے کچھ سمجھ نہیں پارہے۔ سب کو یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔ مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی دوڑ سی لگی ہے اور اِس دوڑ نے معقولیت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اِسی طور صرف ۴۵ فی صد کارپوریٹ آئی ٹی منیجرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک رسمی سی اے آئی پالیسی تیار کر رکھی ہے۔ یہ سب کچھ ہنگامی بنیاد پر ہوا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں پیش رفت کی رفتار اب بھی تیز ہے تاہم معاملہ ایسا نہیں کہ انسانوں کی ضرورت یکسر ختم ہوکر رہ جائے گی۔ ۵۶ فی صد آئی ٹی منیجرز کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو پوری طرح گلے لگانے کی راہ میں ایک طرف تو سیکورٹی خدشات ہیں اور دوسری طرف یہ مسئلہ بھی موجود ہے کہ مصنوعی ذہانت کی لڑی میں تمام کاروباری معاملات کو کس طور پرویا جاسکے گا۔ سب کچھ مشینوں کے ہاتھ میں دینے کے بعد معاملات کنٹرول کس طور کیے جاسکیں گے؟ یہ تمام رپورٹس ایسے وقت آئی ہیں جب بہت سے کاروباری اداروں نے خاصی ہزیمت کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا ہے۔ جن انسانی وسائل سے وہ پوری طرح جان چھڑانا چاہ رہے تھے اب اُنہی کو دوبارہ کام پر لگانا پڑا ہے۔ بہت سے کاروباری اداروں نے اپنی ورک فورس سے انسانوں کو ۲۲ فی صد کی حد تک نکال دیا تھا۔ اب اُنہیں واپس بلایا جارہا ہے کیونکہ معاملات الجھ رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے چند معاملات میں بُری طرح بیک فائر کیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے معروف نقاد و تجزیہ کار ایڈ زِٹرون کا کہنا ہے کہ اے آئی ایجنٹس سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلی گئی تھیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت بہت کچھ کرسکتی ہے مگر سب کچھ تو بہرحال نہیں کرسکتی۔ کاروباری دنیا کو یہ حقیقت سمجھنا پڑے گی۔ چند ایک اے آئی ایجنٹس بہت زیادہ کارگر نہیں مگر اُن کے بارے میں بے جا طور پر یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں لے آئیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے غیر ضروری ہائپ ختم کی جائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ ہیومن فیکٹر بہر حال ہیومن فیکٹر ہوتا ہے۔ انسان کا نعم البدل کوئی نہیں، نہ کاروبار میں اور نہ ہی سماجی تعلقات میں۔ (www.

futurism)

 

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے کہ مصنوعی ذہانت کاروباری اداروں مصنوعی ذہانت کو مصنوعی ذہانت کی اے ا ئی ایجنٹس کا کہنا ہے کہ بہت سے کے لیے ا نہیں سب کچھ کام کر

پڑھیں:

کاروباری اداروں کا حکومتی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد 4 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

پاکستان کے کاروباری اداروں کا ملک کی سمت کے بارے میں اعتماد 4سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔مقامی کاروباری اداروں کی بڑی تعداد نے سابقہ حکومت کی نسبت موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا بھی اظہار کیا ہے۔

گیلپ پاکستان کے حالیہ بزنس کانفیڈنس سروے کے مطابق ملک میں مہنگائی، بڑھتے ہوئے توانائی اخراجات اور کاروباری آپریشنز چلانے میں لوڈ شیڈنگ جیسی مشکلات کے باوجود کاروباری اعتماد میں بہتری آئی ہے۔ نتائج کے مطابق ملک کی مجموعی سمت کے بارے میں کاروباری اداروں کی رائے میں نمایاں بہتری آئی ہے اورملکی سمت کا اسکور 2024ء  کی آخری سہ ماہی میں سروے رپورٹ کے مقابلے میں ڈرامائی طور پر بہتر ہوکر منفی 2فیصد ہوگیا ہے۔

اگرچہ یہ اسکور اب بھی منفی ہے لیکن 2021ء کی چوتھی سہ ماہی کے بعد اعتماد کی بلندترین سطح پر ہے۔

سروے کے مطابق کاروباری اعتماد میں اضافہ کاروباری اداروں کے نقطہ نظر سے سیاسی و اقتصادی غیریقینی صورتحال میں بہتری کو ظاہر کرتاہے اور معیشت کے بارے میں موجودہ حکومت کی صلاحیت میں مثبت تاثر رکھنے والے کاروباری اداروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

سروے کے مطابق 46فیصد کاروباری اداروں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے مقابلے میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جب کہ ایک سال قبل یہ شرح 24 فیصد تھی۔ گزشتہ سروے کے مقابلے میں 6فیصد بہتری کے ساتھ سروے کے 61 فیصد شرکا نے موجودہ کاروباری آپریشنز کو اچھا یا بہت اچھا قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ خدمات اور تجارتی شعبوں میں نمایاں بہتری آئی ہے جب کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بحالی کی رفتار نسبتاً سست ہے۔مستقبل کے بارے میں 61فیصد شرکا پُر امید ہیں تاہم یہ اعتماد گزشتہ سروے کے مقابلے میں صرف ایک پوائنٹ بہتر ہوا ہے جو اس بات کی عکاسی ہے کہ اگرچہ کاروباری اداروں کو حالات خراب ہونے کا خدشہ نہیں ہے لیکن بہتری کی رفتار بھی بہت سست ہے۔

کاروباری اداروں کو درپیش چیلنجز کے بارے میں سوال کے جواب میں شرکا نے مہنگائی، توانائی اخراجات میں اضافہ اور ٹیکسز بدستور اہم مسائل قراردیا ہے۔ سروے کے مطابق 28فیصد شرکا نے مہنگائی، 18فیصد نے مہنگے یوٹیلٹی بلزاور 11فیصد نے ٹیکسز کو سب سے اہم مسئلہ بتایاہے۔

اسی طرح  47فیصد شرکا نے لوڈشیڈنگ کی تصدیق کی ہے جوکہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کچھ کم ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ملک کے کاروباری شعبے میں اسٹرکچرل چیلنجز اب بھی موجود ہیں۔

سروے میں قابلِ ذکر مثبت پہلو رشوت کی شکایات میں کمی ہے اور 2024کی آخری سہ ماہی کے 34فیصد شرکا کے مقابلے میں صرف 15 فیصد شرکا نے گزشتہ 6ماہ میں رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے۔

20 فیصد تاجروں، 13فیصد سروس سیکٹر اور 12فیصد مینوفیکچرنگ سیکٹرز کے شرکا نے رشوت دینے کا اعتراف کیا ہے۔ مجموعی طورپر سروے میں قومی سمت اور موجودہ کاورباری صورتحال پر کاروباری اداروں کے تاثرات میں بہتری آئی ہے تاہم مستقبل کے حوالے سے کاروباری اداروں کے اعتماد میں کمی آئی ہے اور مہنگائی، توانائی اخراجات میں اضافہ اور گورننس جیسے چیلنجز ملک کے کاروباری ماحول میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال اعجاز گیلانی نے سروے کے نتائج کے حوالے سے کہا کہ موجودہ سروے ملک کے کاروباری اداروں کے اعتمادمیں محدود سطح پر بہتری کی طرف اشارہ ہے اور کاروباری اسٹیک ہولڈرز میں استحکام کی عکاسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے نمایاں تبدیلی ملکی سمت بارے میں مثبت تاثر اور حکومتی معاشی پالیسیوں پراعتماد میں اضافہ ہے۔ اس رحجان کو برقرار رکھنے کا انحصار میکرو اکنامک اصلاحات، پالیسیوں میں تسلسل اور ادارہ جاتی کارکردگی میں بہتری پر ہے۔

گیلپ پاکستان کی بزنس کانفیڈنس انڈیکس 2025 کی دوسری سہ ماہی کے سروے کا انعقاد 23سے 27جولائی کے دوران مینو فیکچرنگ، خدمات اور تجارتی شعبوں میں پاکستان کے 524 کاروباری اداروں کے درمیان کیا گیا تھا۔یہ سروے موجودہ کاروباری صورتحال، حکومت معاشی مینجمنٹ اور مستقبل قریب کے بارے میں کاروباری اداروں کی آراء کی عکاسی ہے۔

گیلپ کا بزنس کانفیڈنس انڈیکس دنیا بھر میں پالیسی سازوں کے لیے ایک اہم اشاریہ ہے جو کسی ملک کے کاروباری اداروں کی رائے جاننے کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کاروباری برادری  کا قومی سمت پر اعتماد 4 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
  • سروے کے مطابق کاروباری اداروں کا معیشت پر اعتماد بلند سطح پر پہنچ گیا، وزیراعظم شہباز شریف
  • کیا چینی ایپ ڈیپ سیک مصنوعی ذہانت کی دنیا میں انقلاب ہے؟
  • کاروباری اداروں کا حکومتی اقتصادی پالیسیوں پر اعتماد 4 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
  • ایف بی آر نے کاروباری افراد کیلئے سخت قوانین تیار کر لئے
  • قدیمی باشندوں کے حقوق کو مصنوعی ذہانت سے خطرہ، اقوام متحدہ
  • سائبر حملوں میں کاروباری نظام جام ہونے کا خطرہ، نیشنل سرٹ نے خبردار کردیا
  • ایف بی آر نے کاروباری افراد کیلئے سخت قوانین تیار کر لیے  
  • پاکستان کا مصنوعی ذہانت میں ترقی کا عزم، چیلنجز کیا ہیں؟
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں تاریخ ساز کاروباری ہفتہ