Jasarat News:
2025-11-19@03:15:49 GMT

مصنوعی ذہانت اور پچھتاوا

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آج کل یعنی دو تین سال سے مصنوعی ذہانت کا کچھ زیادہ ہی غلغلہ ہے۔ مصنوعی ذہانت تو ہمارے ساتھ عشروں سے ہے۔ کمپیوٹرز بھی مصنوعی ذہانت ہی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے دیے ہوئے احکامات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اِن کی کارکردگی کا مدار اُن پروگرامز پر ہے جو ہم تیار کرکے اِن کے حافظے یعنی ہارڈ ڈسک میں ڈالتے ہیں۔ کمپیوٹرز ہمارے بہت سے کام کر ہی رہے تھے کہ مصنوعی ذہانت زیادہ توانا ہوکر ہمارے سامنے بلکہ مقابلے پر آگئی۔
دنیا بھر میں کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت کو نجات پانے کی راہ کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ انسانی وسائل سے نجات پانے کا عمل زور پکڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ٹیکنالوجی کے شعبے کے ارب پتی اور اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین کہتے ہیں کہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ ۲۰۲۵ تک دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت تمام کلیدی کام کرنے لگے گی مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ منزل ابھی دور ہے کیونکہ ’’اے آئی ایجنٹ‘‘ بہت سے کام نہیں کر پارہے۔ اے آئی ایجنٹ سے مراد وہ تمام ٹول ہیں جو انسانوں کو ہٹاکر اُن کا بیش تر کام اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ایک زبردست ہائپ پیدا کی گئی ہے۔ اپریل ۲۰۲۵ تک ماہرین نے یہ اندازہ لگایا کہ اے آئی ایجنٹس اسائنمنٹس کے تحت دی جانے والی ملازمت میں سے صرف ۲۴ فی صد مکمل کرسکے ہیں۔ اِس کے باوجود کاروباری اداروں کے سربراہوں نے مصنوعی ذہانت کی طرف لپکنے کا عمل ترک نہیں کیا اور دن رات چھانٹیاں جاری رکھیں۔ مصنوعی ذہانت کو کام پر لگانے کے لیے ہنر مندوں کی چھٹی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ اب ہوش آیا ہے کہ چھانٹیوں سے معاملات مزید بگڑے ہیں۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اے آئی ایجنٹس اپنے آجروں کے کاروباری راز بھی افشا کردیتے ہیں۔ اُنہیں کنٹرول کرنے کے لیے غیر معمولی تربیت یافتہ انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب کاروباری اداروں کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرز کو احساس ہو رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ کاروباری تجزیے اور مشاورت کی فرم گارٹنر کے ایک حالیہ سروے کے مطابق کسٹمر سروس ورک فورس میں غیر معمولی کمی کرنے کا منصوبہ تیار کرنے والے ۱۶۳ ایگزیکٹیوز میں سے نصف نے اپنا یہ منصوبہ ۲۰۲۷ تک ترک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا اور یورپ میں کارپوریٹ تعلقاتِ عامہ سے وابستہ افراد کو سب کچھ نئے سِرے سے لکھنا پڑے گا۔ اُنہیں بہت حد تک ہائبرڈ اپروچ اختیار کرنا پڑے گی۔ اگر مصنوعی ذہانت کی طرف جانا بھی پڑا تو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے گا۔ سب کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ بہت سے شعبوں کے کلیدی اجزا کو چلانے کے لیے انسانی وسائل کی ضرورت ہر حال میں باقی رہے گی۔ گارٹنر کی سینئر ڈائریکٹر آف کسٹمر سروس اینڈ سپورٹ اینیلسز کیتھی راس کا کہنا ہے کہ بعض مقامات پر انسانی وسائل ناگزیر ہوتے ہیں۔ جو کام مشینیں کر ہی نہیں سکتیں اُن کے لیے انسانوں کو رکھنا ہی پڑے گا۔ ایسا نہ کرنا انتہائی خطرناک ہوگا۔ آئی فرم گو ٹو اور ریسرچ ایجنسی ورک پلیس انٹیلی جنس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ مغربی دنیا میں کم و بیش ۶۲ فی صد ملازمین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ضرورت سے کچھ زیادہ بیان کردیا گیا ہے اور حواس پر یہ اِس طور سوار ہے کہ کاروباری ادارے چلانے والے کچھ سمجھ نہیں پارہے۔ سب کو یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائیں۔ مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی دوڑ سی لگی ہے اور اِس دوڑ نے معقولیت کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
اِسی طور صرف ۴۵ فی صد کارپوریٹ آئی ٹی منیجرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک رسمی سی اے آئی پالیسی تیار کر رکھی ہے۔ یہ سب کچھ ہنگامی بنیاد پر ہوا ہے۔ آئی ٹی کے شعبے میں پیش رفت کی رفتار اب بھی تیز ہے تاہم معاملہ ایسا نہیں کہ انسانوں کی ضرورت یکسر ختم ہوکر رہ جائے گی۔ ۵۶ فی صد آئی ٹی منیجرز کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو پوری طرح گلے لگانے کی راہ میں ایک طرف تو سیکورٹی خدشات ہیں اور دوسری طرف یہ مسئلہ بھی موجود ہے کہ مصنوعی ذہانت کی لڑی میں تمام کاروباری معاملات کو کس طور پرویا جاسکے گا۔ سب کچھ مشینوں کے ہاتھ میں دینے کے بعد معاملات کنٹرول کس طور کیے جاسکیں گے؟ یہ تمام رپورٹس ایسے وقت آئی ہیں جب بہت سے کاروباری اداروں نے خاصی ہزیمت کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا ہے۔ جن انسانی وسائل سے وہ پوری طرح جان چھڑانا چاہ رہے تھے اب اُنہی کو دوبارہ کام پر لگانا پڑا ہے۔ بہت سے کاروباری اداروں نے اپنی ورک فورس سے انسانوں کو ۲۲ فی صد کی حد تک نکال دیا تھا۔ اب اُنہیں واپس بلایا جارہا ہے کیونکہ معاملات الجھ رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے چند معاملات میں بُری طرح بیک فائر کیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے معروف نقاد و تجزیہ کار ایڈ زِٹرون کا کہنا ہے کہ اے آئی ایجنٹس سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرلی گئی تھیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت بہت کچھ کرسکتی ہے مگر سب کچھ تو بہرحال نہیں کرسکتی۔ کاروباری دنیا کو یہ حقیقت سمجھنا پڑے گی۔ چند ایک اے آئی ایجنٹس بہت زیادہ کارگر نہیں مگر اُن کے بارے میں بے جا طور پر یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وہ انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں لے آئیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے غیر ضروری ہائپ ختم کی جائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ ہیومن فیکٹر بہر حال ہیومن فیکٹر ہوتا ہے۔ انسان کا نعم البدل کوئی نہیں، نہ کاروبار میں اور نہ ہی سماجی تعلقات میں۔ (www.

futurism)

 

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے کہ مصنوعی ذہانت کاروباری اداروں مصنوعی ذہانت کو مصنوعی ذہانت کی اے ا ئی ایجنٹس کا کہنا ہے کہ بہت سے کے لیے ا نہیں سب کچھ کام کر

پڑھیں:

ایس آئی ایف سی کی مؤثر سہولت کاری سے کاروباری اعتماد میں قابلِ ذکر اضافہ

ایس آئی ایف سی کی جامع حکمتِ عملی کے باعث پاکستان میں کاروباری مواقع اور سرمایہ کاری کے دائرۂ کار میں نمایاں توسیع ہوئی ہے۔

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں 14 ہزار 802 نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن مکمل ہوئی جس کے بعد پاکستان میں رجسٹرڈ کمپنیوں کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 72 ہزار 918 تک پہنچ گئی۔

آئی ٹی اور ای کامرس کا شعبہ 670 نئی کمپنیوں کے ساتھ سرفہرست ہے، رجسٹرڈ کمپنیوں میں 59 فیصد پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں شامل ہیں۔

غیر ملکی سرمایہ کاری میں مثبت پیش رفت کے باعث 30 سے زائد ممالک سے 332 کمپنیوں کو عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل ہوا جبکہ ڈیجیٹل رسائی میں اضافے کے باعث 250 سے زیادہ شہروں اور 30 فیصد قصبوں میں رجسٹریشن کا عمل مکمل ہوا۔

ایس ای سی پی نے ڈیجیٹل اصلاحات کے ذریعے کاروبار کے آغاز کا طریقۂ کار مزید تیز، آسان اور شفاف بنا دیا۔ ایس آئی ایف سی کی سرپرستی سے پاکستان کاروباری توسیع، سرمایہ کاری کے فروغ اور عالمی شراکت داری کے ایک نئے دور میں داخل ہوگیا۔

متعلقہ مضامین

  • مصنوعی ذہانت کے تاریک پہلو کیا ہیں، دنیا میں کتنے افراد استعمال کر رہے ہیں؟
  • عالمی خلائی کانفرنس: سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر عالمی سطح کے تبادلے کا آغاز
  • ایس آئی ایف سی کی مؤثر سہولت کاری سے کاروباری اعتماد میں قابلِ ذکر اضافہ
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبارکے آغاز پر مثبت رجحان
  • بلاول بھٹو سے عالمی پارلیمانی و کاروباری شخصیات کے وفد کی ملاقات
  • پاکستان انویسٹرز فورم جدہ کی نئی قیادت کے لیے اہم نامزدگیاں
  • اب اے آئی ہڈی کے فریکچر کی تشخیص بھی کرے گی، یہ ایکس رے مشین سے مخلتف کیسے؟
  • کیا مصنوعی ذہانت موزوں سائز کے کپڑے خریدنے میں مدد کر سکتی ہے؟
  • ملک میں آج سونے کی فی تولہ قیمت برقرار
  • 90 فیصد شوگر ملز غیر فعال، ملک میں چینی کا مصنوعی بحران