سندھ میں کم از کم اجر 42 ہزار روپے مقرر ،کراچی کے لیے 254 ارب مختص
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر+ مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مزدور کی کم ازکم اجرت 42ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے لیے 254 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، یہ رقم بڑھ سکتی ہے کم نہیں ہو گی۔سندھ اسمبلی کے اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ ایوان میں سب سے زیادہ تنخواہ اسپیکر کی ہے، اسپیکر کی تنخواہ زیادہ ہونے کے باوجود بھی جج کی تنخواہ کا 10 فیصد ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ کم سے کم تنخواہ 42 ہزار ہونی چاہئے، اگلے ماہ اس معاملے کو فائنل کر لیں گے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ والے دن اپوزیشن نے شورشرابا اور ہنگامہ کیا، پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ کرنے پر اسپیکر نے سب کو اجلاس سے باہر نکال دیا تھا، اسپیکر کے پاس اختیار ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن سے کہا کہ اپنی اسکیمیں ہمیں
دیں، 17 ارکان نے اسکیمیں دیں اور ان کے ساتھ لاگت بھی لکھی، 5 ارکان نے اسکیمیں دیں لیکن ان کی لاگت نہیں بتائی۔انہوں نے کہا کہ جب تک پارٹی لیڈر شپ چاہے گی وزیراعلیٰ رہوں گا، اپوزیشن کی جانب سے کراچی کو نظرانداز کرنے کی بات کی گئی، کراچی میں امن وامان کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔مرادعلی شاہ نے کہا کہ اس سال 1460 اسکیمیں مکمل کرنے جا رہے ہیں، اپوزیشن تنقید کے بجائے صوبے کی بہتری کیلیے مل کر کام کرے، وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اس بار بجٹ بحث میں 135 ارکان نے حصہ لیا، جو ایک ریکارڈ ہے۔انہوں نے کہا کہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ کل بجٹ کا 30 فیصد ہے جبکہ پنجاب کا 23 فیصد اور خیبرپختونخوا کا 25.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: علی شاہ نے کہا کہ مراد علی شاہ نے انہوں نے کہا کہ علی شاہ نے کہ کرتے ہوئے ارب روپے فیصد ہے کے لیے
پڑھیں:
این ایف سی ایوارڈ کے ڈھانچے کو صوبوں میں افقی تقسیم کے لحاظ سے مکمل ازسرِنو مرتب کرنا ہوگا
اسلام آباد:قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ جو وفاقی حکومت کے ٹیکس ریونیو کو صوبوں میں ان کے سالانہ اخراجات پورے کرنے کے لیے تقسیم کرنے کا آئینی طریقہ کار فراہم کرتا ہے، ان دنوں زیرِ بحث ہے۔ یہ تقسیم وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کیے گئے ایک متعین مشترکہ پول آف ٹیکسز اور ڈیوٹیز سے کی جاتی ہے۔
وفاقی اشرافیہ کے بعض حلقوں میں یہ بیانیہ عام ہے کہ وفاق کا موجودہ حصہ (42.5 فیصد) قرضوں کے جال کا سبب ہے اور اسے بڑھایا جانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ صوبے ضرورت سے زیادہ خرچ کررہے ہیں۔ تاہم غربت میں اضافہ اس تصور کو جھٹلاتا ہے، کیونکہ اس وقت 45 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے یعنی ان کی یومیہ فی کس آمدنی 4.2 ڈالر سے بھی کم ہے۔
مزید یہ کہ صحت اور تعلیم، جو دونوں صوبائی مضامین ہیں، پر ریاستی اخراجات بتدریج گھٹ کر جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا کی اوسط صحت پر 3.25 فیصد اور تعلیم پر 4 فیصد ہے۔ملکی قرضہ تقریباً 76 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے اور مالی گنجائش تیزی سے سکڑ رہی ہے۔
ہم بنیادی طور پر چین، سعودی عرب، یو اے ای سے قرضوں کے رول اوور اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر انحصار کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں اصل وجوہات کو پہچاننا اور ریونیو کے مجموعی حجم کو بڑھانا سب سے بڑی ضرورت ہے۔ریونیو اور ضروریات کے درمیان خلیج کی ایک بڑی وجہ ریاست کی نااہلی اور اشرافیہ پر ٹیکس عائد نہ کرنا ہے۔ سب سے نمایاں مثال پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (PSEs) کے 6 کھرب روپے کے نقصانات ہیں۔
اسی طرح مقامی گیس کی سستی پیداوار میں کٹوتی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے، جو مبینہ طور پر مہنگی درآمدی آر ایل این جی کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ٹیکنیکل اور کمرشل بنیادوں پر درست اقدامات کیے جائیں تو ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔این ایف سی فارمولے میں بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ 2010 کے ساتویں ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھا کر 57.5 فیصد کیا گیا اور آبادی کا وزن 100 فیصد سے کم کر کے 82 فیصد کیا گیا، مگر مجموعی ڈھانچہ زیادہ تبدیل نہ ہو سکا۔
اس فارمولے کے تحت پنجاب کو 51.74 فیصد، سندھ کو 24.55 فیصد، خیبرپختونخوا کو 14.62 فیصد اور بلوچستان کو 9.09 فیصد ملتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ ڈھانچہ چھوٹے صوبوں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور وفاق کے لیے وجودی خطرہ بن رہا ہے۔صوبے اب بھی اپنی سطح پر بہت کم ٹیکس جمع کرتے ہیں۔ مالی سال 2025 میں صرف 1 کھرب روپے جمع ہوئے جن میں سے 63 فیصد جی ایس ٹی تھا، جبکہ زرعی آمدنی ٹیکس برائے نام رہا، حالانکہ زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 24 فیصد ہے۔
نان ٹیکس ریونیو بھی محض 313 ارب روپے تھا۔کان کنی، ریکو ڈیک اور صوبائی ای اینڈ پی کمپنیاں اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح قیمتی وسائل کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ایوارڈ کے ڈھانچے کو صوبوں کے درمیان افقی تقسیم کے لحاظ سے مکمل طور پر ازسرِنو مرتب کیا جائے۔ زرعی آمدنی ٹیکس کو اس کے حقیقی جی ڈی پی حصہ کے مطابق نافذ کیا جائے، جو اندازوں کے مطابق 0.8 سے 1 کھرب روپے تک ہو سکتا ہے۔
وفاق کو صوبوں کے ساتھ کارکردگی پر مبنی اہداف طے کرنے چاہئیں اور فنڈز کی فراہمی کو ان سے منسلک کرنا چاہیے۔ ان اہداف میں آبادی کنٹرول اور خواتین کی معاشی خودمختاری شامل ہوں۔ مرکز اور صوبے دونوں سخت پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی کمی کا شکار ہیں۔ نجکاری یا پنشن کٹوتی جیسے عارضی اقدامات حل نہیں۔ دنیا کی 500 بڑی کمپنیوں میں سے 126 ریاستی ملکیت میں ہیں اور سالانہ 12 کھرب ڈالر کماتی ہیں۔
پاکستان کو بھی اپنے اداروں میں پروفیشنل بورڈز اور آزاد مانیٹرنگ سسٹم نافذ کرنا چاہیے۔ معیشت کو کم از کم 10 فیصد سالانہ جی ڈی پی گروتھ کا ہدف طے کرنا ہوگا اور اسے کم از کم ایک دہائی تک جاری رکھنا ہوگا۔