سونیا گاندھی نے کہا کہ مودی نے اسرائیل کیساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطین کے تصور پر مبنی بھارت کی دیرینہ اور اصولی وابستگی کو ترک کر دیا ہے، جو ایک پرامن دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس پارٹی نے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اس تباہی پر گہری خاموشی نے بھارت کے اخلاقی اور سیاسی وقار کو مجروح کر دیا ہے۔ کانگریس کے جنرل سیکریٹری (مواصلات) جئے رام  رمیش نے اپنے ایک ایکس پوسٹ میں لکھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف امریکہ اسرائیل جنگ کے حوالے سے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے لیکن غزہ میں ابھی تک کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی جہاں اسرائیل کی نسل کشی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ جئے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ نریندر مودی کی اس تباہی پر خاموشی، جو گزشتہ اٹھارہ ماہ سے زائد عرصے سے فلسطینیوں پر مسلط ہے، گہری ہے اور اس نے بھارت کے اخلاقی اور سیاسی وقار کو مجروح کر دیا ہے۔

جئے رام رمیش کا یہ پوسٹ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی کے چند روز قبل دئے گئے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے غزہ اور ایران میں اسرائیل کی تباہی پر بھارت کی خاموشی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اسے نہ صرف آواز کا نقصان بلکہ اقدار کو مجروح کرنا قرار دیا تھا۔ سونیا گاندھی نے اپنے مضمون "ابھی بہت دیر نہیں ہوئی کہ بھارت کی آواز سنی جائے" میں مودی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطین کے تصور پر مبنی بھارت کی دیرینہ اور اصولی وابستگی کو ترک کر دیا ہے، جو ایک پرامن دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے اپنے مضمون میں، جو دی ہندو میں شائع ہوا کہا کہ نئی دہلی کی غزہ کی تباہی اور اب ایران کے خلاف بلا اشتعال جارحیت پر خاموشی ہماری اخلاقی اور سفارتی روایات سے ایک پریشان کن انحراف کو ظاہر کرتی ہے، یہ نہ صرف آواز کا نقصان ہے بلکہ اقدار کو مجروح کرنا بھی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ابھی بہت دیر نہیں ہوئی، بھارت کو واضح طور پر بات کرنی چاہیئے، ذمہ داری سے عمل کرنا چاہیئے اور مغربی ایشیا میں کشیدگی کو کم کرنے اور گفت و شنید کی طرف واپسی کے لئے ہر ممکن سفارتی چینل کا استعمال کرنا چاہیئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو مجروح کر اسرائیل کی کر دیا ہے بھارت کی

پڑھیں:

مودی کا دورہ کینیڈا، سکھ سراپا احتجاج

ریاض احمدچودھری

بھارتی وزیراعظم کے دورہ کے موقع پر کیلگری میں کشمیریوں نے مظاہرہ کیا جبکہ البرٹا کے مختلف شہروں میں سکھ کمیونٹی بھی سراپہ احتجاج ہے جس کے اہم رکن ہردیپ سنگھ نجر کو خفیہ تنظیم را کے ایجنٹوں نے قتل کردیا تھا۔ہردیپ سنگھ نجر کے دوست مونندر سنگھ کا کہنا ہے کہ لوگ مشتعل ہیں کہ آخر مارک کارنی نے مودی کو کینیڈا بلایا کیوں؟مارک کارنی کے برعکس کینیڈا کے سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈ نے بھارتی وزیراعظم کیخلاف انتہائی سخت رویہ اپنائے رکھا تھا۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا تھا کہ کینیڈا کے پاس ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ بھارتی سرکار ہی خالصتان تحریک کے کینیڈین سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔
پاکستان سے شکست کی ہزیمت سے داخلی محاذ پر دوچار بھارت کے وزیراعظم کا کینیڈا میں سکھوں اور کشمیریوں نے مظاہروں سے استقبال کرکے نریندر مودی کو عالمی رہنماؤں کے سامنے رْسوا کردیا۔ کینیڈا میں منعقد ہونے والے جی 7 اجلاس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف سکھ برادری کی جانب سے شدید احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔ "سکھ فار جسٹس” اور خالصتان تحریک سے وابستہ ہزاروں افراد نے البرٹا کی کناناسکی ہائی وے پر احتجاجی ریلی نکالی، جسے انہوں نے "احتجاجی استقبالیہ” کا نام دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ مودی کی یہ خام خیالی تھی کہ وہ عالمی اسٹیج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بچ نکلیں گے۔
امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی،جاپان اور یورپی یونین پر مشتمل اقتصادی لحاظ سے اہم معیشتوں کا یہ اجلاس پندرہ سے سترہ جون تک کینیڈا کے صوبہ البرٹا میں منعقد ہوا۔ بھارت اس تنظیم کا رکن تو نہیں تاہم بھارتی وزیراعظم بطور مہمان مدعو تھے۔ دیگر مہمانوں میں یوکرین کے صدر زیلنسکی، البانیہ، برازیل، میکسیکو، جنوبی افریقا اور جنوبی کوریا کے رہنما بھی شامل تھے۔نریندر مودی قبرص کے راستے البرٹا سولہ جون کی شام پہنچے تو اجلاس کے روح رواں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل ایران جنگ کے سبب دورہ مختصر کرکے واشنگٹن واپسی کی تیاری کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سربراہ اجلاس کے دوران عالمی رہنماؤں کے آگے پیچھے کھڑے ہونے کی مودی جی کی حسرت دل ہی میں دبی رہ گئی۔
ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے علاقے سررے میں واقع گرو نانک گوردوارے کی پارکنگ لاٹ میں سرعام قتل کردیا گیا تھا۔ 18 جون 2023کو اس قتل کے بعد سے کینیڈا اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔اس قتل کے بعد یہ حقیقت بھی کھل کرسامنے آئی تھی کہ بھارتی حکومت خالصتان تحریک سے وابستہ افراد کی آواز کینیڈا میں دبانے کیلیے کئی دیگر اہم شخصیات کو بھی دھمکیاں دینے اور انکی نگرانی میں ملوث ہے۔جسٹن ٹروڈو نے اسی وجہ سے بھارت کے چھ سفارتکاروں کو کینیڈا سے نکال باہر کیا تھا۔اب مارک کارنی نے نریندر مودی کو دعوت دی تو کینیڈا کی اہم سیاسی جماعت این ڈی پی کے رہنما جگمیت سنگھ بھی ان سے نالاں ہوگئے ہیں۔
جگمیت سنگھ نے کینیڈین وزیراعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ نریندر مودی کو دورہ کی دعوت نہ دیں کیونکہ خود جگمیت سنگھ کی مبینہ طور پر را کے ایجنٹ نے نگرانی کی تھی جس پر انہیں سن دوہزار تئیس میں پولیس کا تحفظ حاصل کرنا پڑا تھا۔سکھ رہنماؤں نے کینیڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک ایسی حکومت کے سربراہ کو دعوت دینا جو اپنے ملک میں اقلیتوں پر ظلم ڈھاتی ہے، عالمی اقدار کے منافی ہے۔ کینیڈا کی حکومت پہلے ہی نجر کے قتل کا الزام بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” پر عائد کرچکی ہے۔سکھ کمیونٹی نے مطالبہ کیا کہ مودی کو انسانی حقوق کی پامالی پر عالمی کٹہرے میں لایا جائے۔
کینیڈا میں آباد کینیڈین انڈینز کی تعداد تقریباً اٹھارہ لاکھ ہے جن میں سے تقریباً آٹھ لاکھ سکھ ہیں جبکہ دس لاکھ بھارتی مختلف حیثیت میں نان ریزیڈنٹس کے طور پربھی موجود ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد نے حالیہ ریفرنڈم میں خالصتان کی آزادی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم کیخلاف مظاہروں میں بھی سکھوں کی بڑی تعداد شریک ہورہی ہے۔اس صورتحال میں ایک عشرے بعد نریندر مودی کینیڈا آتو گئے ہیں تاہم کینیڈین سرزمین پر بھارتی سرکار کے مبینہ جرائم کے سبب مارک کارنی نے تصدیق کی ہے کہ نریندر مودی سے بات چیت میں لاانفورسمنٹ یعنی قانون کے نفاذ پر عمل کی بات بھی ہوگی۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گلوبل سپلائی چین میں بھارت کے کردار کی وجہ سے مارک کارنی کو مودی کو بلانا پڑا۔ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بھارت اور کینیڈا کے درمیان سن دوہزار چوبیس میں تجارت کا حجم آٹھ اعشاریہ چھ ارب ڈالر رہا تھا اور امریکا سے تعلقات کشیدہ ہونے کا خطرہ موجود ہونے کے سبب کینیڈا چاہتا ہے کہ بھارت سے معاشی تعلقات مضبوط ہوں۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینیڈا بھارت اقتصادی تعلق اپنی جگہ، نریندر مودی کو سفارتی محاذ پر شکست اس لیے ہوئی کیونکہ وہ جب دو طرفہ بات چیت کریں گے تو بھارتی حکومت کے کینیڈا میں جرائم پر بھی بات ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کیلیے تاخیر سے البرٹا پہنچنا اس لیے بہتر ثابت ہوا کہ اگر امریکی صدر سے آمنا سامنا ہوجاتا اور جنگ بندی میں امریکا کے کردار سے وہ کنی کترانے کی کوشش کرتے تو ان کے ساتھ بھی کہیں وہی نہ ہوجاتا جو یوکرین کے صدر زیلنسکی کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ہوا تھا۔ کانگریس رہنما راہول گاندھی کے یہ الفاظ بھارتی وزیراعظم کے کانوں میں گونج رہے تھے کہ ٹرمپ نے انہیں کہا تھا کہ نریندر سرینڈر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • عوام نے ضمنی انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کو مسترد کردیا ہے، کیجریوال
  • بھارت کی سفارت کاری میں سیاسی تنہائی
  • مودی سرکار کی تعلیم دشمنی سامنے آگئی، بھارت کی کئی ریاستوں میں اسکول بند
  • ایران اسرائیل تنازع: مودی اور ایرانی صدر میں کیا بات ہوئی؟
  • محض سیاسی نظریات کی بنیاد پر قید کرنا آئین کی توہین ہے، خوشحال کاکڑ
  • مودی سرکار کا سکول کے معصوم بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک
  • مودی کا دورہ کینیڈا، سکھ سراپا احتجاج
  • مودی تو جمہوریت کا جنازہ نکال ہی رہے ہیں، الیکشن کمیشن بھی اس گناہ میں برابر شریک ہے، کانگریس
  • اسرائیلی حملوں پر مودی حکومت کی خاموشی ہماری اخلاقی اور سفارتی روایات کے منافی ہے، سونیا گاندھی