ایران کا اسرائیلی جاسوسوں کے خلاف کریک ڈاؤن، 700 سے زائد گرفتاریاں
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
ایران نے ملک بھر میں اسرائیلی جاسوسوں کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا ہے، جس میں اب تک 700 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایران نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں ایک اور شخص کو پھانسی دے دی
ایرانی میڈیا کے مطابق حال ہی میں ایک اور مبینہ موساد (اسرائیلی خفیہ ادارہ) کے ایجنٹ کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران یہ تیسرا جاسوس ہے جسے ایران نے سزائے موت دی ہے۔
ان گرفتاریوں اور پھانسیوں کا سلسلہ ایسے وقت میں جاری ہے جب خطے میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق، یہ حملے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھیں:موساد کے اڈے پر ایسا میزائل مارا جس کا سراغ لگانا ممکن نہیں، ایران
اس دوران ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ملک کے جوہری پروگرام سے وابستگی کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کو نہیں چھوڑے گا۔ ہم نے اس کامیابی کے لیے مسلسل محنت کی ہے۔
انہوں نے کہا کلہ ہم پر جوہری ہتھیاروں کے نام پر جنگ مسلط کی گئی، اور ہمارے سائنسدانوں نے اس راہ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایران کی جانب سے گرفتاریاں اور پھانسیاں ایک واضح پیغام ہیں کہ وہ اپنے اندرونی سیکیورٹی اور جوہری خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
’امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد‘ اسرائیل ایران تہران موساد موساد ایجنٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد اسرائیل ایران تہران موساد ایجنٹ
پڑھیں:
میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251108-01-20
واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ایران پر 13 جون کے حملے میں بہت حد تک خود انچارج تھے، یعنی حملے کی منصوبہ بندی اور آغاز میں ان کا براہِ راست کردار تھا۔امریکی صدر کا یہ بیان اْن کے پچھلے دعوؤں کے برخلاف ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل نے خود حملہ کیا تھا اور امریکا اس میں شامل نہیں تھا۔ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیل نے پہلے حملہ کیا، وہ حملہ بہت طاقتور تھا، میں اس کا مکمل
طور پر انچارج تھا، اس حملے نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو شدید نقصان پہنچایا۔ایران نے بعد میں اسرائیل پر سینکڑوں میزائل داغے اور اس کے بعد امریکا نے بھی ایران کے تین بڑے جوہری مراکز پر بمباری کی۔ابتدائی طور پر امریکی حکومت نے کہا تھا کہ اسرائیل نے اکیلے کارروائی کی اور واشنگٹن نے تہران کو خبردار کیا تھا کہ وہ امریکی افواج کو نشانہ نہ بنائے، مگر اب ٹرمپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ابتدائی حملے کا فیصلہ بھی ان ہی کا تھا۔ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کی تباہی کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن کہا ہے کہ ان کے سائنسدانوں کے علم و تجربے کی وجہ سے پروگرام دوبارہ فعال رکھا جا سکتا ہے۔ٹرمپ نے ماضی میں خود کو امن کا حامی کہا تھا اور نئی جنگوں کے خلاف مہم چلائی تھی، مگر اب وہ ایران کے خلاف جنگ کی قیادت کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایک نیا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں ایران اسرائیل سے باضابطہ تعلقات قائم کرے، لیکن اس وقت مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔علاوہ ازیںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ قازقستان نے باضابطہ طور پر معاہدہ ابراہیمی (Abraham Accords) میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔یہ اعلان وائٹ ہاؤس میں وسط ایشیائی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا گیا، جس میں قازقستان کے صدر بھی شریک تھے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ قازقستان ان کی دوسری مدتِ صدارت میں معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہونے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔ٹرمپ نے قازقستان کوشاندار ملک اورباصلاحیت قیادت رکھنے والی قوم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دنیا میں امن، تعاون اور خوشحالی کے فروغ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم جلد مزید ممالک کو معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہوتے دیکھیں گے، جو مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی بنیاد بنے گا۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے بھی ایک روز قبل عندیہ دیا تھا کہ ایک اور ملک معاہدہ ابراہیمی میں شمولیت کا اعلان کرے گا، جس کے تحت اسرائیل اور مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لائے جا رہے ہیں۔یاد رہے کہ معاہدہ ابراہیمی 2020 میں ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں طے پایا تھا، جس کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی رْک گئے ہیں، انہوں نے روس سے بڑے پیمانے پر تیل خریدنا بند کردیا ہے۔وائٹ ہاؤس میں گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارت کے ساتھ اچھی بات چیت ہو رہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی میرے دوست ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ میں بھارت آؤں، آئندہ سال بھارت کا دورہ کرسکتا ہوں۔قبل ازیںقازق حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ یہ معاملہ مذاکرات کے آخری مرحلے میں ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ابراہم معاہدوں میں ہماری متوقع شمولیت قازقستان کی خارجہ پالیسی کا ایک قدرتی اور منطقی تسلسل ہے جو مکالمے، باہمی احترام اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔قازقستان پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی اور اقتصادی تعلقات رکھتا ہے، اس لیے یہ اقدام زیادہ تر علامتی نوعیت کا ہوگا۔تاہم امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سفارتی تعلقات سے آگے کی ایک پیش رفت ہے، یہ ان تمام ممالک کے ساتھ ایک شراکت داری ہے جو اس معاہدے کا حصہ ہیں جس سے مختلف امور پر منفرد اقتصادی ترقی کے امکانات پیدا ہوں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں قازق صدر قاسم توقایف کے علاوہ کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے سربراہان سے بھی ملاقات کی کیونکہ امریکا روس کے زیرِ اثر اور چین کے بڑھتے اثر و رسوخ والے وسطی ایشیا کے خطے میں اپنا کردار بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی کو شیطان خاتون قرار دے دیا، صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر نے کہا نینسی پلوسی شیطان عورت ہیں وہ ریٹائر ہو کر ملک کی خدمت کر رہی ہیں۔ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کہا‘میں خوش ہوں کہ وہ ریٹائر ہو رہی ہیں۔ میرے خیال میں انہوں نے ملک کے لیے ایک بہت بڑی خدمت کی ہے کہ وہ ریٹائر ہوں۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ وہ ملک کے لیے شدید بوجھ تھیں۔ میرے خیال میں وہ ایک برْی عورت تھیں جنہوں نے خراب کام کیے، اور ملک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ان کے الفاظ نے امریکی سیاسی منظرنامے میں ترو تازہ بحث کو جنم دیا ہے جہاں دونوں جماعتوں کے حریف رہنماؤں کے بیانات اور رویوں پر عوامی توجہ مرکوز ہے۔ مسٹر ٹرمپ نے پلوسی کے دورِ قیادت کے دوران دو مرتبہ ان کے مواخذے (امپِیچمنٹ) کا ذکر کیا، ان کی کارکردگی پر سوال اٹھایا، اور ان کی ریٹائرمنٹ کو ملک کے مفاد میں ٹھہرانے کی کوشش کی۔پلوسی نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب اپنی صدارتی نشست پر موجودگی نہیں بڑھائیں گی اور نوجوان قیادت کو آگے آنے کا موقع دیں گی۔پلوسی نے اپنے فیصلے میں وضاحت کی ہے کہ وہ 2027 ء تک اپنی نشست سن فرانسسکو سے برقرار رکھیں گی، مگر اب اس کے بعد اگلی مدت کے لیے امیدوار نہیں بنیں گی۔