ایران-اسرائیل جنگ بندی، دونوں کی بس ہوگئی تھی
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق کا اعلان کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ باضابطہ جنگ بندی کا آغاز پہلے ایران کرے گا۔ 12ویں گھنٹے پر اسرائیل بھی جنگ بندی کردے گا، 24 گھنٹے مکمل ہونے پر 12 روزہ جنگ کے خاتمے کو دنیا تسلیم کرلے گی۔ ابتدائی خلاف ورزیوں پر ٹرمپ کے سخت ردعمل کے بعد بظار سیز فائر پر عمل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
23 جنوری کو ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جو ایرانیوں اور ان کی تاریخ کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ایرانی وہ قوم نہیں ہیں جو سرینڈر کریں۔ ایرانی رہبر سرینڈر مودی کو نہیں چھیڑ رہے تھے، وہ ایرانی احساس تفاخر کو آواز دے رہے تھے۔ یہ بیان امریکا کی جانب سے 3 نیوکلیئر سائٹ پر حملے کے بعد دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں ایران نے قطر میں العدید امریکی ایئر بیس پر جوابی حملہ کیا۔
ایرانی حملے کو امریکی صدر نے ایک کمزور ردعمل قرار دیا۔ جس کے کچھ گھنٹوں کے بعد امریکی صدر نے ہی جنگ بندی کا اعلان کردیا۔ جنگ بندی ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے دونوں سخت لونڈے اب سر پر پٹیاں باندھے اپنی اپنی فتح کا دعوی کرسکتے ہیں۔ اسرائیل کو تسلی ہوگئی ہے کہ نہتے لوگوں پر فوج چڑھانا اور بات ہے، پابندیوں کے شکار، ایئرفورس اور ایئر ڈیفنس نہ رکھنے والے ایران کے ساتھ لڑنا مختلف ہے۔
ایرانی میزائلوں نے اسرائیلیوں کا گھر ہی دیکھ لیا تھا۔ اسرائیلی میڈیا کی اپنی رپورٹ کے مطابق ایران کے 533 میزائل 12 دن میں اسرائیل کی طرف لانچ کیے گئے۔ ان میں 28 کنفرم ہلاکتوں کا بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی اتھارٹیز کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے متاثرین کی 39 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ یہ وہ متاثرین ہیں جنہیں ایرانی حملوں کی وجہ سے مختلف نوعیت کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ایران کی وزارت صحت کے 19 جون تک جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 430 ایرانی شہری ان حملوں میں جان سے گئے جبکہ 3500 زخمی ہوئے۔ ہرانا (ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ نیوز ایجنسی ایران) کے مطابق 722 ہلاکتیں ہوئی جن میں اکثریت تو عام شہریوں کی ہی تھی لیکن اعلیٰ فوجی عہدیدار اور سائنسدان بھی ایک بڑی تعداد میں مارے گئے۔ ایران کے پاس کسی قسم کا ایئر ڈیفنس نہ ہونے کی وجہ سے اس کی فضاؤں پر اسرائیلی ایئرفورس کا کنٹرول رہا۔
اسرائیل نے جنگ چھیڑ تو لی تھی اور ابتدائی حملہ بھی متاثر کن رہا تھا مگر ایرانی جواب کے بعد اسرائیلیوں نے امریکا کو آوازیں لگانا شروع کردی تھیں کہ اب آکر ان کا ادھورا کام مکمل کرے اور ایرانی نیوکلیئر سائٹ کا تیاپانچہ کرے۔ امریکا نے یہ اسرائیلی خواہش پوری کردی، اور پھر امریکی حملوں کا ایران نے ڈھیلا سا جواب دیا، جس کے بعد جنگ بندی ہوتے دیر نہیں لگی۔
چائنہ اکیڈمی ایک چینی ویب سائٹ ہے۔ اس پر چن جنگ کا ایک مضمون چھپا۔ چن جنگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمیونیکیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ چن نے ایران کو مشورہ دیا کہ آپ کے پاس میزائل بہت ہیں۔ ہر روز اسرائیل کی طرف 10 میزائل چلاتے رہو۔ ایسا کرو گے تو اسرائیلیوں کی بنکر کی طرف دوڑ لگتی رہے گی یوں سیاح اسرائیل کی طرف رخ نہیں کریں گے۔
اس کے علاوہ اس مضمون میں یہ بھی کہا گیا کہ آبنائے ہرمز کو بند کرو، ایسا کرو گے تو تیل کی قیمت 120 ڈالر سے اوپر چلی جائے گی۔ اس کے بعد امریکا اسرائیل کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا اور وہ بمباری جاری رکھیں گے۔ ایران کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے اس کو ہر جگہ نشانہ بنانا آسان نہیں ہے۔ ایران جب جنگ کے میدان میں کھڑا رہے گا تو وہ وقت بھی آجائے گا جب چین اور روس ایران کی مدد کو آئیں گے۔
چین اور روس کی سفارتکاری اور حمایت کا نتیجہ سیز فائر کی صورت نکلے گا اور یوں ایران کا رجیم بھی چینج نہیں ہوگا۔ ایٹمی توانائی پر تیسرے ملک کا کنٹرول اور نگرانی مان کر ایک باعزت سا بے عزت سمجھوتا ہوجائے گا۔ یہ بے عزت کولوں پایا ہے اس پر توجہ نہ دیں چن جنگ نے صرف باعزت ہی کہا تھا۔ سیز فائر کے بعد ٹرمپ نے چین سے کہا کہ وہ اب ایران سے تیل خریدنا جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آبنائے ہرمز کھلی رہے گی۔ اسی طنز سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چین اس لڑائی سے کیوں لاتعلق رہا۔
ایران کو ایک دلچسپ مشورہ چن جنگ نے اور بھی دیا اور وہ یہ تھا کہ اپنی ایئر فورس اور ایئر ڈیفنس بحال کرنے کے لیے پاکستان سے مدد لو۔ 10، 20 ارب ڈالر خرچ کرو تو پاکستان یہ دونوں کام تیزی سے کرا دے گا۔ اپنا خیال یہ ہے کہ اس مشورے نے ہی ایرانیوں کی بس کرائی ہے۔ حوالدار بشیر کی مذاکراتی صلاحیتوں اور اس کی فارسی دانی کا سوچ کر ہی ایرانیوں نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔
مشرق وسطیٰ میں ایران یا اسرائیل کوئی ایک ونر ہوجائےاور سب کو آگے لگائے پھرے۔ یہ کوئی نہیں چاہتا، ایسا ہو بھی نہیں سکتا، 12 دن کی جنگ نے دونوں ملکوں کے پول کھول دیے ہیں۔ اب جب یہ حساب کتاب لگائیں گے تو امید ہے کافی عرصہ سکون کریں گے۔ آج کی دنیا میں پرانے ڈیزائن کی جنگوں، پراکسی لڑائیوں اور مسلح گروپوں کی گنجائش نہیں رہ گئی۔ اب معیشت ہی ڈرائیونگ فورس ہے اور اسی کی جانب دھیان دینا ہوگا، اسی کا فائدہ نقصان فیصلے کراتا ہے۔ ایران اور اسرائیل دونوں کی ہی بس ہوگئی تھی، دونوں کی معیشت کے کڑاکے نکل رہے تھے۔ جنگ بندی کا امکان دیکھتے ہی دونوں لڑائی چھوڑ کر دوڑ گئے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جنگ بندی کا ایران کے کی طرف کے لیے کے بعد تھا کہ اور اس
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی حملے کی "ذمہ داری" میرے پاس تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی شیخی
انتخابی مہم کے دوران خود کو "امن کا امیدوار" کے طور پر متعارف کروانے اور نئی جنگیں شروع کرنے سے گریز کا وعدہ دینے والے انتہاء پسند امریکی صدر نے شیخیاں بگھارتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ایران کیخلاف اسرائیلی ہوائی حملوں کی کمان "مَیں" نے کی! اسلام ٹائمز۔ انتہاء پسند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں شیخیاں بگھارتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ "مَیں" نے 12 روزہ جنگ میں ایران پر اسرائیلی حملے میں "بنیادی کردار" ادا کیا تھا۔ انتہاء پسند امریکی صدر نے دعوی کرتے ہوئے مزید کہا کہ اسرائیل نے پہلے حملہ کیا تھا.. یہ حملہ بہت، بہت طاقتور تھا.. اور اس کی ذمہ داری "میرے پاس" تھی!
واضح رہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل و امریکہ کی 12 روزہ جنگ کا آغاز 13 جون 2025ء کے روز اسرائیلی حملوں سے ہوا تھا جن میں متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں اور اعلی عسکری قیادت کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد ہی ایران نے تل ابیب، حیفا اور اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر 400 سے زائد بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیارے فائر کرتے ہوئے بھرپور جواب دیا تھا۔ امریکہ نے جنگ کے پہلے روز سے ہی ایرانی میزائلوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کا دفاع شروع کیا تاہم، جنگ کے 9ویں روز ہی "جنگ بندی" کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکہ و اسرائیل نے 3 ایرانی جوہری تنصیبات پر براہ راست بمباری بھی کی۔ بعد ازاں اس دعوے کے ساتھ کہ اس کے حملوں کے نتیجے میں ایرانی جوہری تنصیبات "مکمل طور پر تباہ" ہو گئی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا "یکطرفہ اعلان" کیا جسے ایران نے بھی قبول کر لیا۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں میں قابض اسرائیلی رژہم کے وسیع جانی و مالی نقصانات اور اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے اسرائیلی دفاعی میزائلوں خصوصا امریکی تھاڈ (THAAD) میزائلوں کے ذخیرے کا خاتمہ بھی، نیتن یاہو اور ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے "اہم محرکات" میں سے ایک تھا۔