اسلام آباد میں پہلی بار رومانوی بلاؤز کے بین الاقوامی دن کی تقریب کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
اسلام آباد میں پہلی بار رومانوی بلاؤز کے بین الاقوامی دن کی تقریب کا انعقاد WhatsAppFacebookTwitter 0 25 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد میں رومانیہ سفارتخانے نے پاکستان میں پہلی مرتبہ رومانوی بلاؤز کے بین الاقوامی دن کی تقریب کا اہتمام کیا، جس میں رومانوی کمیونٹی کے افراد، سفارتی عملہ کے نمائندگان اور معزز پاکستانی مہمانوں نے شرکت کی۔
یہ تقریب ثقافتی ہم آہنگی اور دوستی کے جذبے کے تحت منعقد ہوئی، جس میں رومانوی روایتی بلاؤز “آئیے” (ie) کی لازوال خوبصورتی کو اجاگر کیا گیا۔ یہ بلاؤز قومی شناخت اور فنی ورثے کی علامت ہے۔ شرکاء کو دعوت دی گئی کہ وہ نہ صرف رومانوی روایتی لباس بلکہ دنیا بھر کے مختلف ثقافتوں کے ملبوسات پہن کر آئیں، تاکہ عوامی فن کی عالمی طاقت کو اجاگر کیا جا سکے جو لوگوں کو سرحدوں سے ماورا جوڑتی ہے۔
تقریب میں روایتی رومانوی بلاؤزوں کی نمائش کی گئی، جن میں سے کئی ہاتھ سے تیار کی گئی تھیں اور نسل در نسل منتقل ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ روایتی موسیقی اور رومانوی کھانوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ شرکاء نے رومانوی کھانوں اور مشروبات سے لطف اٹھایا اور رومانیہ کی دیہی روایات اور مہمان نوازی کا عملی تجربہ حاصل کیا۔
اپنے افتتاحی خطاب میں رومانیہ کے سفیر محترم ڈین اسٹوینیسکو نے کہا: “رومانوی بلاؤز محض ایک لباس نہیں بلکہ ایک ثقافتی خزانہ ہے، جو ماضی اور حال کے درمیان پل کا کام دیتی ہے، اور خواتین کی تخلیقی صلاحیت اور مضبوطی کا جشن ہے۔ اسلام آباد میں اس روایت کو پیش کر کے ہم اپنی شناخت اور پاکستان کے عوام اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ دوستی کا جشن منا رہے ہیں۔”
رومانوی بلاؤز کا بین الاقوامی دن ہر سال 24 جون کو منایا جاتا ہے، جو سانزیانے (Sânziene) کے دن کے ساتھ موافق ہے—یہ ایک رومانوی لوک روایت ہے جس کی جڑیں قبل از مسیح دور میں موجود ہیں۔ یہ دن ثقافتی تحریک “لا بلاؤز رومین” (La Blouse Roumaine) کی کوششوں سے شروع ہوا اور اب دنیا بھر میں رومانوی ثقافتی ورثے کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کے تحت یورپ، امریکہ اور ایشیا کے مختلف شہروں میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
اسلام آباد میں سفارتخانے کی اس تقریب سے پاکستان بھی اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جہاں رومانوی آئیے (ie) کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، جو رومانیہ اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروں کے درمیان ثقافتی تعلقات اور باہمی سمجھ بوجھ کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا اور ایران کے درمیان جلد امن معاہدہ ہوگا، امریکی مندوب امریکا اور ایران کے درمیان جلد امن معاہدہ ہوگا، امریکی مندوب قومی اسمبلی؛ اپوزیشن نے خزانہ ڈویژن کے بجٹ پر کٹوتی کی 60 تحاریک پیش کردیں علی امین بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے، عدالت نے کیا کہا؟ فتنۃ الخوارج کے خلاف کارروائی کے دوران شہید میجر سید معیز عباس شاہ کی نماز جنازہ ادا، آرمی چیف کی شرکت غزہ میں اسرائیل-حماس جنگ بندی چند دنوں میں متوقع: ٹرمپ کے ثالث کا دعویٰ جلد بازی کی تعمیرات کی قلعی کھل گئی، سرینا چوک کے قریب سڑک بیٹھ گئی،تصاویر اور ویڈیوز سب نیوز پرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کے بین الاقوامی بین الاقوامی دن اسلام ا باد میں
پڑھیں:
امن مسلط کرنے کا منصوبہ
اسلام ٹائمز: اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اسکے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کرینگے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے چند گھنٹے بعد کہ غزہ میں بہت جلد بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی جائے گی، اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی تمام سرنگوں کو "آخری سرنگ تک" تباہ اور ان کا صفایا کر دیں۔ کاٹز نے اپنے X پلیٹ فارم اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا: "اگر سرنگیں نہیں ہیں تو حماس نہیں ہوگی۔“ اسرائیل حماس کو غیر مسلح کرکے اور اس کے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرکے اسے شکست دینا چاہتا ہے۔ یعنی اسرائیل وہ کام کرنا چاہتا ہے، جو وہ دو سال کی تباہ کن جنگ کے دوران کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کاٹز کا یہ بیان غزہ کی پٹی میں ایک "بین الاقوامی انفورسمنٹ فورس" کے قیام کی امریکی تجویز اور ٹرمپ کے اس اعلان کی روشنی میں آیا ہے کہ "یہ کام بہت جلد ہو جائے گا۔"
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی فوج نے معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے قبل، زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے غزہ کی پٹی میں اپنا کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل دوسرے مرحلے میں جانے سے پہلے غزہ میں باقی تمام لاشوں کی بازیابی پر اصرار کرتا ہے اور 2027ء کے آخر تک غزہ میں کم از کم دو سال کے لیے بین الاقوامی افواج کی تعیناتی بھی چاہتا ہے۔ بین الاقوامی فورس کے اس امریکی منصوبے کے تحت اس فورس کے دائرہء مسئولیت میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحدوں کو محفوظ بنانا، شہریوں اور انسانی راہداریوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ایک نئی فلسطینی پولیس فورس کے ساتھ تربیت اور شراکت داری اور غزہ کی پٹی کو غیر مسلح کرکے سلامتی کے ماحول کو مستحکم کرنا، بشمول فوجی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کو روکنا اور مستقل طور پر مسلح گروپوں کو تباہ کرنا شامل ہے۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر حماس رضاکارانہ طور پر خود کو غیر مسلح نہیں کرتی تو یہ کام بین الاقوامی فورس کرے گی، لیکن اسرائیل کو یقین نہیں ہے کہ یہ کام بین الاقوامی طاقت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ کاٹز کے بیان سے پہلے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا ہدف "یا تو بین الاقوامی طاقت کے ذریعے آسان طریقے سے حاصل کیا جائے گا، یا پھر اسرائیل کے ذریعے مشکل راستے سے۔" دوسری جانب اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جمعرات کی شام ہونے والی میٹنگ سے "یڈیوٹ احرونوت" اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے اقتباسات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے "یلو زون" میں ایک ماڈل سٹی بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کا مقصد انہیں حماس کے جنگجوؤں سے الگ کرنا ہے۔
دریں اثناء، اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے رفح سرنگوں میں پھنسے حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کسی بھی "ڈیل" کو مسترد کر دیا ہے اور تمام مقتول قیدیوں کی لاشوں کی واپسی سے پہلے حماس کے ساتھ معاہدے کے اگلے مرحلے پر آگے نہ بڑھنے اور حماس کے مکمل طور پر غیر مسلح ہونے سے پہلے پٹی کی تعمیر نو کی اجازت نہ دینے کی سفارش کی ہے۔ ضمیر نے کابینہ کے اجلاس میں حماس کے جنگجوؤں کے حوالے سے کہا: "یا تو وہ ہتھیار ڈال دیں یا ہم انہیں ختم کر دیں گے۔ بحث کے دوران وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور وزراء کے درمیان اس وقت تنازعہ پیدا ہوا، جب انہوں نے غزہ کی پٹی کے اسرائیلی زیر کنٹرول علاقے میں ایک "ماڈل سٹی" قائم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کا مقصد حماس کو آبادی سے الگ کرنا تھا۔
نیتن یاہو کے اس منصوبے کی اس کی کئی وزراء نے مخالفت کی۔ سائنس کے وزیر گیلا گیملیل نے کہا، "یہ خطرناک ہے۔" وزراء نے مطالبہ کیا کہ اس شہر کو سرحد کے اس طرف اسرائیل کے زیر کنٹرول نہ بنایا جائے۔ نیتن یاہو نے سیشن میں یہ بھی انکشاف کیا کہ منصوبہ بند بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس پہلے المواسی کے علاقے میں داخل ہوگی، جو اسرائیلی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اسرائیل اب تک عالمی طاقت کے ساتھ محتاط انداز میں نمٹ رہا ہے، نہ اس کا خیرمقدم کر رہا ہے اور نہ ہی اسے مسترد کر رہا ہے۔ اگرچہ مجوزہ فورس کی تشکیل کی تفصیلات اس کے مطالبات کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں، لیکن اس پر تحفظات بھی ہیں۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ فورس سلامتی کونسل کے ذریعے تشکیل دی جائے، وہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودگی اور ترک افواج کی ممکنہ موجودگی کو بھی مسترد کرتا ہے، تاہم فلسطینی پولیس فورس کی موجودگی سے اتفاق کرتا ہے۔ اسرائیل کو اس فورس کی موجودگی کے ذریعے تنازعے کے بین الاقوامی ہونے اور اس کے فیصلہ سازی اور کنٹرول کے دائرے کے محدود ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ طے نہیں ہوا ہے کہ کون سے ممالک اس فورس میں حصہ لیں گے، جبکہ عرب ممالک نے اس فورس میں اپنی شرکت کو غزہ میں فورس کے مینڈیٹ کی نوعیت سے جوڑا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جو ممالک شرکت کریں گے، وہ حماس کے ساتھ تصادم کے اصول کی مخالفت کریں گے اور چاہیں گے کہ یہ مشن امن قائم کرنے کے لیے ہونا چاہیئے، نہ کہ "امن مسلط کرنے کے لیے۔