پنجاب: گاڑیوں سے مضر دھویں کے اخراج کے ٹیسٹ میں 31 اگست تک توسیع
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
لاہور:
ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب نے گاڑیوں کے اخراج میں کیمیائی مادوں کی جانچ کے عمل (ایمیشن ٹیسٹنگ) کی آخری تاریخ میں 31 اگست تک توسیع کر دی۔
ادارے کے ڈائریکٹر جنرل عمران حامد شیخ کے مطابق، پہلے یہ ڈیڈلائن 30 جون مقرر تھی، تاہم عوامی رش کے پیش نظر توسیع کردی گئی ہے تاکہ شہری باآسانی اپنی گاڑیوں کی جانچ کروا سکیں۔
ڈی جی ماحولیات کے مطابق گزشتہ 50 روز کے دوران صوبے بھر میں 1 لاکھ 23 ہزار سے زائد گاڑیوں کی ایمیشن ٹیسٹنگ کی گئی جن میں سے 2 ہزار گاڑیاں ایسی پائی گئیں جن سے مقررہ حد سے زائد دھوئیں یا مضر کیمیکل کا اخراج ہو رہا تھا۔ ان گاڑیوں کے مالکان کو وارننگ جاری کرتے ہوئے اخراج کی سطح درست کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ایمیشن ٹیسٹ ایک سائنسی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے گاڑیوں کے انجن سے خارج ہونے والے دھوئیں اور زہریلی گیسوں کی مقدار کو جانچا جاتا ہے۔ اس عمل کا مقصد فضائی آلودگی پر قابو پانا اور شہریوں کو صحت مند ماحول فراہم کرنا ہے۔
ایمیشن ٹیسٹنگ بوتھ پر عام طور پر گاڑی کے سائلنسر سے خارج ہونے والی گیسوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے جس میں کاربن مونو آکسائیڈ، ہائیڈرو کاربن، نائٹروجن آکسائیڈز اور پارٹیکیولیٹ میٹرز جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ اگر یہ اخراج مقررہ ماحولیاتی حدود سے تجاوز کرے تو گاڑی کو "فیل" قرار دے کر مالکان کو مرمت یا انجن ٹیوننگ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
ڈی جی ماحولیات کے مطابق، سال 2022 یا اس کے بعد تیار ہونے والی نئی گاڑیوں کو فی الوقت ایمیشن ٹیسٹنگ سے استثنیٰ حاصل ہے کیونکہ یہ گاڑیاں جدید یورو اسٹینڈرڈز پر بنی ہوتی ہیں اور ان میں پہلے ہی اخراج کو قابو میں رکھنے والے آلات نصب ہوتے ہیں۔
ادارہ ماحولیات نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر اپنی گاڑیوں کی جانچ کروا کر ماحولیاتی تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں۔ مزید یہ کہ ایمیشن ٹیسٹنگ کے لیے پنجاب بھر میں متعدد مراکز قائم کیے جا چکے ہیں جہاں شہری بغیر کسی اضافی فیس کے اپنی گاڑیوں کا معائنہ کروا سکتے ہیں۔لاہور میں 20 مختلف مقامات پر امیشن ٹیسٹنگ بوتھ قائم ہیں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایمیشن ٹیسٹنگ
پڑھیں:
ماتلی،بارش نے سابق بلدیاتی ترقیاتی منصوبوں کا پول کھول دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250926-5-11
ماتلی (نمائندہ جسارت)حالیہ بارشوں نے ماتلی میں سابقہ بلدیاتی دور کے مبینہ ترقیاتی منصوبوں کا پول کھول دیا ہے۔ اس دور میں پونے دو ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا، جس میں شہر کی مرکزی شاہراہوں کی مرمت اور سولر لائٹ پولز کی تنصیب جیسے منصوبے شامل تھے، لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود یہ سب کاغذوں اور فائلوں تک محدود رہے۔بارش کے بعد شہر کی تینوں اہم سڑکیں مکمل طور پر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ مرکزی شاہراہ حیدرآباد،بدین روڈ، دوسری بڑی ٹنڈو غلام روڈ اور تیسری اہم فلکارا روڈ، جہاں بیوروکریسی، سرکاری افسران اور بااثر سیاسی رہنماؤں کے بنگلے موجود ہیں، سب جگہ جگہ کھڈوں اور پانی کے تالابوں سے بھری پڑی ہیں۔ فلکارا روڈ کو ماتلی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، جو شہر کو مضافاتی علاقوں سے جوڑتی ہے اور روزانہ ہزاروں افراد کی آمدو رفت اسی راستے سے ہوتی ہے، مگر اب اس کی حالت عوام کیلیے عذاب بن گئی ہے۔شہر کا سب سے پوش اور مہنگا علاقہ نظامانی محلہ جسے ماتلی کا “دل” بھی کہا جاتا ہے، وہاں بھی سابقہ ترقیاتی دور کے نام پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ اس علاقے کو “لکڑری ایریا” تصور کیا جاتا ہے جہاں اشرافیہ اور بااثر خاندان آباد ہیں، لیکن بارش کے بعد یہاں کی گلیاں اور سڑکیں بھی تباہی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ اس سے یہ بات مزید عیاں ہو جاتی ہے کہ ترقیاتی فنڈز صرف کاغذی خانہ پری تک محدود رہے اور عوامی سہولت کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔موٹر سائیکل سوار اور چنگچی رکشا ڈرائیور نہ صرف حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف شہر میں بجلی کی طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے عوامی مشکلات کو دوچند کر دیا ہے۔ شام اور رات کے وقت جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو سولر لائٹ پولز نہ لگنے کی وجہ سے شہر کی سڑکیں گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتی ہیں، جس سے حادثات اور جرائم کے خدشات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔عوامی حلقوں نے وزیر اعلیٰ سندھ اور اینٹی کرپشن حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ماتلی کے ان منصوبوں کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔