کراچی میں مصنوعی ذہانت کا سنگ میل، جدید ڈیٹا سینٹر لانچ کردیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان نے ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے اور ملکی تاریخ کا پہلا مصنوعی ذہانت پر مبنی ڈیٹا سینٹر باضابطہ طور پر فعال ہو گیا ہے۔
شہر قائد میں قائم کیے گئے اس ڈیٹا سینٹر کا افتتاح ڈیٹا والٹ پاکستان کے زیر اہتمام کیا گیا، جسے نہ صرف تکنیکی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت سمجھا جا رہا ہے بلکہ ملکی خود انحصاری اور ڈیجیٹل ترقی کی راہ میں بھی ایک بنیادی قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ڈیٹا والٹ پاکستان کی جانب سے متعارف کرایا جانے والا یہ ڈیٹا سینٹر دراصل ایک مکمل اے آئی انفرااسٹرکچر فراہم کرنے والا جدید پلیٹ فارم ہے، جو مختلف سطوح پر کام کرنے والوں،خواہ وہ طلبہ ہوں، اسٹارٹ اپس، محققین یا حکومتی ادارےہوں، لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اس میں نہ صرف ہائی پرفارمنس GPU کمپیوٹنگ شامل ہے بلکہ یہ ایک محفوظ کلاؤڈ ماحول بھی مہیا کرتا ہے جو جدید ترین معیار پر پورا اترتا ہے۔
اس انقلابی اقدام کے پس پردہ سوچ یہ ہے کہ پاکستان کو ٹیکنالوجی کے میدان میں عالمی سطح پر لانے کے لیے داخلی سطح پر ایسے انفرااسٹرکچر قائم کیے جائیں جو عالمی ضروریات سے ہم آہنگ ہوں۔ ڈیٹا والٹ کی سی ای او مہوش سلمان علی نے اس موقع پر کہا کہ ہم نے صرف ایک ڈیٹا سینٹر نہیں بنایا، بلکہ ہم نے ایک ایسا پلیٹ فارم تعمیر کیا ہے جو پاکستان کے لیے مصنوعی ذہانت کے مستقبل کی بنیاد رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستانی نوجوان اور محققین بغیر کسی بیرونی سہولت پر انحصار کیے، خود اپنی ٹیکنالوجی تیار کریں اور دنیا کے سامنے ایک نئی شناخت کے ساتھ ابھریں۔
یہ ڈیٹا سینٹر نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا میں پاکستان کا ایک مثبت چہرہ پیش کرے گا بلکہ اسے توانائی کے شعبے میں بھی ایک نئی سمت میں لے جائے گا، کیونکہ یہ مکمل طور پر صاف توانائی (گرین انرجی) پر مبنی نظام سے چلایا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی بلکہ مستقبل کے ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر کو بھی پائیداری کی بنیاد فراہم ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی جدید سہولیات ملک میں نہ صرف تحقیقی کاموں کو فروغ دیتی ہیں بلکہ معیشت، صنعت اور تعلیم جیسے شعبوں پر بھی مثبت اثر ڈالتی ہیں۔ جب مقامی ادارے اور طلبہ عالمی معیار کی سہولیات تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں اور وہ نت نئی ایجادات کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
ڈیٹا والٹ کی یہ کوشش اس وقت سامنے آئی ہے جب دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل خودمختاری کے حوالے سے مباحثے شدت اختیار کر چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک جہاں اپنی AI صلاحیتوں کو بڑھا رہے ہیں، وہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ اقدام امید کی ایک نئی کرن ہے، جو ٹیکنالوجی کے میدان میں خود انحصاری کی طرف ایک مضبوط قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت ڈیٹا سینٹر
پڑھیں:
ذیابیطس اسپتال پر این ایچ اے کی کارروائی، مریضوں کا علاج متاثر، سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر
چیف ایگزیکٹو آفیسر ذیابیطس سینٹر اسلام آباد (TDC) ظہیرالدین بابر نے کہا ہے کہ عدالت کے حکم امتناع کے باوجود نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے عملے کی کارروائی سے اسپتال کا نظام بری طرح متاثر ہوا، جس کے باعث درجنوں شوگر کے مریض علاج سے محروم ہوگئے اور عملے کو بھی شدید ذہنی و جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ این ایچ اے کے یکطرفہ اقدام نے نہ صرف طبی اصولوں بلکہ انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو بھی مجروح کیا ہے۔
نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں بورڈ ممبران طاہر عباسی، آصف شہزاد اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ظہیرالدین بابر نے بتایا کہ ذیابیطس سینٹر نے 2009 میں یہ زمین خریدی اور بعد ازاں ٹرسٹ کے نام منتقل کی گئی جس کے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، مگر 2017 میں این ایچ اے نے دعویٰ کیا کہ یہ زمین 2003 میں ایکوائر کی گئی تھی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر این ایچ اے کا دعویٰ درست ہے تو یہ زمین اسپتال اور پھر ٹرسٹ کے نام کیسے منتقل ہوئی؟
مزید پڑھیں: خاموش قاتل: ذیابیطس کی تشخیص میں تاخیر خطرناک، ماہرین کا انتباہ
انہوں نے الزام عائد کیا کہ این ایچ اے کے عملے نے بغیر پیشگی نوٹس فلاحی اسپتال پر دھاوا بولا، املاک کو نقصان پہنچایا، مہنگے آلات اپنے قبضے میں لے لیے اور بجلی کا نظام تباہ کردیا، جس سے زیر علاج مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے مطابق ذیابیطس سینٹر ایک مستند فلاحی ادارہ ہے جو 60 فیصد سے زائد مستحق مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے اور پنجاب، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر سمیت مختلف علاقوں سے مریض یہاں علاج کے لیے آتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں بچوں میں ذیابیطس کا مرض خطرناک حد تک بڑھنے لگا، وجوہات اور علامات؟
ظہیرالدین بابر نے کہا کہ این ایچ اے کی اس کارروائی سے سینکڑوں مریض متاثر ہوئے، اور ملک بھر میں لگائے جانے والے کیمپس بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے سپریم کورٹ میں این ایچ اے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ اس واقعے کی فوری تحقیقات کرائی جائیں اور اسپتال کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
TDC ٹی ڈی سی دی ڈائیبٹیز سینٹر ذیابیطس ذیابیطس سینٹر طاہر عباسی، ظہیرالدین بابر نیشنل پریس کلب اسلام آباد