Juraat:
2025-11-19@03:13:51 GMT

ضمنی انتخاب کے نتائج نے سیندور پو نچھ دیا!

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

ضمنی انتخاب کے نتائج نے سیندور پو نچھ دیا!

ڈاکٹر سلیم خان

ضمنی انتخاب کے کمبھ میلے میں آپریشن سیندور ڈوب گیا۔ پانچ میں سے چار شردھالو ڈوب مرے ۔ ریزرو کٹیگری کے دلتوں کی بدولت ایک کی جان بچی یعنی اگر ملک کا پسماندہ طبقہ بھی زعفرانی جھانسے سے نکل جائے تو کمل مرجھا جائے گا۔پانچ میں دو مسلم امیدواروں کی کامیابی ‘آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا’ کی مصداق ہے ۔ وزیر اعظم نریندرمودی نے ضمنی انتخاب سے قبل ایک پانچ روزہ غیر ملکی دورہ طے کردیا تاکہ ہر روز ان کا ‘ہنستا ہوا نوروانی چہرہ’ ذرائع ابلاغ میں رونق افروز رہے ۔ سائپرس سے کینیڈا اورکروشیا کے راستے 19 جون کو مودی جی اس توقع سے لوٹے کہ ملک کے رائے دہندگان مانگ میں سیندور بھر کے ان کا ا ستقبال کریں گے اور پانچ میں پانچ نہ سہی تو کم از کم تین میں کامیابی مل ہی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 4 ریاستوں پنجاب، گجرات، مغربی بنگال اور کیرالہ کی 5 اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات میں ان کی پارٹی گجرات کا ‘وساودر’ بھی ہار گئی ۔ کس نے نہیں سوچا تھا آپریشن سیندور اتنی بری طرح ناکام ہوگا ۔
ضمنی انتخابات کے نتائج میں سب سے بڑی خوشخبری اس عام آدمی پارٹی کے لیے آئی جس پر دہلی میں شکست کے بعد فاتحہ پڑھاجاچکا تھا ۔ پنجاب کے علاوہ گجرات کی کامیابی ‘گھر میں گھس کے مارا’جیسی ہے گوہا جھاڑو نے کمل سے دہلی کی ہار کا ضمنی انتقام لے لیا۔ ملک بھر میں بی جے پی کے لیے یہ نتائج مایوس کن رہے ۔ اس بارحوصلہ اتنا بلند تھا کہ ایک بھی حلیف کو موقع دیئے بغیر اپنے امیدوار کھڑے کیے گئے ۔ گجرات کے کڈی میں اگر دلت رائے دہندگوں نے کمل نہ کھلایا ہوتا تو بی جے پی کا سپڑا صاف ہوجاتا ۔ کڈی سیٹ پر بی جے پی امیدوار راجندر کمار چاؤڈا نے تقریباً ایک لاکھ ووٹ حاصل کرکے کانگریس کے رمیش بھائی چاؤڈا کو تقریباً 40 ہزار ووٹوں سے شکست دے دی۔ یہاں پر عآپ کے جگدیش بھائی چاؤڈا کو 3090 ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا ۔ اس طرح دلتوں کی مہربانی سے ا کمل کھل گیا ۔کڈی چونکہ بی جے پی کا گڑھ ہے اس لیے بی جے پی نے ہیٹ ٹرک کرلی ۔ بی جے پی کااصل امتحان وساودَر میں تھا کیونکہ وہ سابق وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کی کرم بھومی تھی ۔
1984 میں جنتا پارٹی کا چولا اوڑھ کر زعفرانیوں نے اس پر قبضہ کیا اور 2012 تک جمے رہے ۔ کیشو بھائی کی موت کے بعد 2014 کے ضمنی انتخاب میں کانگریس کے امیدوار ہرشد کمار رابڑیا نے بازی مارلی پھر آگے چل کر 2022کے اندر عام آدمی پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوگیا ۔ بی جے پی نے انتخابی ناکامی کے بعد عآپ کے بھوپیندر بھایانی کو کمل پکڑا دیا ۔ کانگریس کے ہرشد رابڑیا نے مقدمہ کردیا اس لیے ضمنی انتخابات ملتوی ہوتے رہے یہاں تک کہ رابڑیا کو بھی جھانسے میں لے کر بی جے پی نے مقدمہ واپس کروادیا۔ اتنی ساری مشقت کے بعداس امید کے ساتھ کروایا گیا کہ سارے مخالفین کو خرید ے جاچکے ہیں اس لیے کامیابی یقینی ہے مگر عآپ امیدوار گوپال اٹالیا نے تقریباً 76 ہزار ووٹ حاصل کرکے بی جے پی امیدوار کریت پٹیل کو تقریباً 17.

5 ہزار ووٹو سے دھول چٹا دی۔ اس طرح کیشو بھائی پٹیل کی نشست کو جیتنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اس طرح پچھلے گیارہ سال سے بی جے پی جان توڑ کوشش کے باوجود وہ نا کام ہوگئی۔
عام آدمی پارٹی کو دوسری بڑی کامیابی پنجاب کی لدھیانہ ویسٹ اسمبلی سیٹ پر ملی ۔ وہاں عآپ امیدوار سنجیو اروڑا شروع میں تو کانگریس امیدوار بھارت بھوشن آشو سے پیچھے چل رہے تھے ، لیکن جیسے جیسے ووٹوں کی گنتی آگے بڑھی تو پانسہ پلٹ گیا اور بالآخر کانگریس امیدوار 10637 ووٹوں سے ہار گیا۔ لدھیانہ میں ہندووں کی خاصی بڑی آبادی کے باوجود بی جے پی امیدوار جیون گپتا کو 20323 ووٹ پر اکتفاء کرنا پڑا۔ تیسرے مقام پر بی جے پی اگر سابقہ حلیف شرومنی اکالی دل امیدوار کے ساتھ ہوتی تو اس کی ضمانت بھی ضبط نہیں ہوتی کمل بھی کھل جاتا۔ کیونکہ اس نے آٹھ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن اس راستے میں دو مسائل ہیں۔ ایک تو کسان مخالف شبیہ کے سبب اکالی دل اس کے قریب نہیں پھٹکتی اور دوسرے غرور و تکبرکی وجہ سے وہ بی جے پی اپنے حلیفوں کو حقیر فقیر سمجھنے لگی ہے ۔
مغربی بنگال کی کالی گنج سیٹ پر ترنمول کانگریس کا دبدبہ برقرار رہا۔ 2011میں پہلی بار وہاں ٹی ایم سی نے ناصر الدین احمد کے ذریعہ وہاں اپنا جھنڈا گاڑا۔ اس کے بعد 2016 میں کانگریس کے امیدوار حسن الزماں شیخ سے ناصر ہار گئے مگر 2021میں پھر سے ناصرا الدین نے اپنی کھوئی ہوئی میراث پر قبضہ کرلیا۔ ان کی وفات کے بعد ترنمول کانگریس نے ناصر الدین کی بیٹی الیفہ احمد کو ٹکٹ دیا ۔ یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی اور اس بار انہوں نے 50 ہزار سے زائد ووٹوں سے فتح کا پرچم لہرایا ۔ بی جے پی امیدوار آشیش گھوش اپنی تمام تر فرقہ وارانہ پروپگنڈا کے باوجود شکست فاش سے دوچار ہوگیا ۔ کانگریس نے الیفہ کے مقابلے ھسن الزمان شیخ کے بیٹے کابل الدین شیخ کو میدان میں اتارا مگر وہ تیسرے مقام پر رہے ۔ اس طرح ممتا بنرجی نے ایک بار پھر اپنا دَم دکھاتے ہوئے کالی گنج سیٹ پر بی جے پی کی دال گلنے نہیں دی اور اسے احساس دلا دیا کہ اگلے سال ہونے والے انتخابات میں جیت حاصل کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا ۔ مسلمان تو کم اکم اس کو جیت کا مزہ چکھنے نہیں دیں گے ۔
کانگریس کے لیے اچھی خبرکیرالہ سے آئی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی کی حالت کیرالہ میں اچھی نہیں ہے مگر کانگریس کو بھی نیلامبور سیٹ پر کامیابی درج کرانے کی خاطر طویل عرصہ کرنا پڑا اور بالآخر2016و 2021کی شکست کے بعد پرینکا گاندھی نے وہاں کامیابی کا پرچم لہرایا دیا ۔ اگلے سال کیرالہ کے انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے یہ کامیابی کانگریس کے لیے ایک نیک فال ہے ۔ نیلامبور اسمبلی سیٹ پر انور نامی آزاد امیدواراشتراکیوں کی مدد سے دوبار کامیاب ہوا مگر چند ماہ قبل اس نے ایل ڈی ایف پر الزام لگایا کہ وہ آر ایس ایس کی مدد کررہی ہے ۔ مسلم علاقوں میں وہ مافیا بنا رہی ہے اور انہیں بدنام کررہی ۔ یہ کہہ کر انور نے استعفیٰ دیا تو وہاں انتخاب کروانا پٹا ۔ یہ حلقہ ٔ انتخاب پرینکا گاندھی کے وائناڈ میں آتا ہے ۔ انہوں نے خاص دلچسپی لی اور اس سیٹ کو جیتنے کے لیے کانگریس نے کافی محنت کرنی پڑی ۔ اس کے نتیجے میں کانگریس امیدوار آریہ دان شوکت کو 11 ہزار سے زائد ووٹوں سے کامیابی مل گئی۔
آریہ دان شوکت کو 77737 ووٹ حاصل ہوئے ہیں، جبکہ سی پی آئی (ایم) امیدوار ایم سواراج کو 66660 ووٹ ملے ۔ بی جے پی عیسائی امیدوار کو میدان میں اتار کر ایک جوا کھیلا مگر ایڈووکیٹ موہن جارج محض 8648 ووٹ حاصل کرکے چوتھے مقام پرآئے ۔ اس طرح کیرالہ کے اندر سنگھ پریوار کے بڑھتے رسوخ کا جو ہواّ کھڑا کیا گیا تھا اس کی پول کھل گئی۔ اس حلقۂ انتخاب میں ایل ڈی ایف کی بی جے پی کے ساتھ کھل کر سامنے آگئی۔ جماعت اسلامی ہند کی ویلفیئر پارٹی نے شوکت کی حمایت کی تو اشتراکیوں نے جماعت کو نہ صرف داعش بلکہ پہلگام کے دہشت گردوں سے جوڑ دیا۔ اس طرح اقتدار کی خاطر اشتراکی وہی غلطی کررہے ہیں جو مغربی بنگال میں ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے کانگریس کو نقصان پہنچانے کے لیے بی جے پی کی مدد کی اور بالآخر وہ طاقتور ہوگئی اور یہ خود کمزور ہوگئے ۔ اقتدار کے ہاتھ سے نکلنے کا خوف انسان کو اپنی غلطیوں سے سبق بھی نہیں لینے دیتا ۔یہ لوگ بھوک جاتے ہیں کہ کانگریس کو ہرا کر دوبارہ اقتدار میں آجانا ہے مگر بی جے پی اگر حکومت قائم کرلے تو واپسی مشکل ہوجاتی ہے ۔
پہلگام کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والی ایل ڈ ی ایف کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مشکوک معاملہ ہے ۔ عوام کی ایک بڑی تعداد اس کو پلوامہ 2 مانتی ہے جہاں اتنی بڑی مقدار میں دھماکہ خیز آر ڈی ایکس کا پہنچنا ہنوز معمہ بنا ہوا ہے ؟اس سوال کا جواب سرکار سمیت کسی کے پاس نہیں ہے کہ وہ کہاں سے آیا تھا؟ پہلگام کی بابت بھی سرکار یہ بتانے سے قاصر ہے کہ حملہ آور کہاں سے آئے اور کیسے غائب ہوگئے ؟ انہیں سوالات نے سارے معاملے کو شکوک و شبہات کے دائرے میں ڈال دیا ہے لیکن پلوامہ کے بعد سرجیکل اسٹرئیک نہایت کامیاب رہا۔ بی جے پی نے 2019 کے قومی انتخابات میں اسی کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کی حالانکہ اب اسے بھی لوگ سرجیکل کے بجائے فرضیکل اسٹرائیک کہنے لگے ہیں ۔ آپریشن سیندور کے بعد لاہور ، اسلام آباد اور کراچی میں ترنگا لہرانے والی فرضی جنگ بھی ٹیلی ویژن کے پردے پر لڑی گئی اور اس کے بعد ضمنی انتخابات میں آپریشن سیندور کے اثرات کو جانچا گیا تو اس کا رنگ پھیکا نکلا ۔ پانچ میں سے چار مقامات پر بی جے پی کی شکست معمولی نہیں ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے سیندور کا رنگ خون سے نکل کر آنسووں میں بہہ گیا۔ ان نتائج کے بعد گجرات کے اندر بی جے پی خون کے آنسو رو رہی ہے ۔ پاکستان سے سٹے گجرات میں بھی اگر یہ رنگ نہیں چڑھا تو بہار میں کیا چڑھے گا؟ بی جے پی کو اب بہار اسمبلی انتخاب کے لیے کوئی نیا شوشا چھوڑنا پڑے گا ورنہ اس کی مانگ میں سیندور نہیں بھرے گا اور یشو وھا بین کی طرح وہ سونی کی سونی رہ جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: بی جے پی امیدوار ضمنی انتخابات انتخابات میں بی جے پی نے بی جے پی کی کانگریس کے پر بی جے پی پانچ میں ووٹ حاصل ووٹوں سے کے لیے کے بعد اور اس اس لیے سیٹ پر

پڑھیں:

جھل مگسی، ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی شوریٰ کا اجلاس، نئی کابینہ کا انتخاب

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سہیل اکبر شیرازی نے کہا کہ ایم ڈبلیو ایم ایک الٰہی و انقلابی تنظیم ہے۔ جسکا بنیادی مقصد دین اسلام اور انسانیت کی خدمت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین ضلع جھل مگسی کی ضلعی شوریٰ کا اہم اجلاس ورکنگ کمیٹی کے رکن علامہ سہیل اکبر شیرازی کی زیر نگرانی منعقد ہوا، جس میں تحصیل جھل مگسی و تحصیل گنداواہ کے یونٹس اور ضلعی کابینہ کے ذمہ داران نے بھرپور شرکت کی۔ اجلاس کے دوران تحصیل اور ضلعی سطح کے انتخابات منعقد ہوئے جن میں میر اکبر زہری کو تین سال کے لیے تحصیل صدر جھل مگسی، جبکہ سید وفا عباس نقوی کو آئندہ تین سال کے لیے ضلع جھل مگسی کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ جبکہ ضلع جھل مگسی کے نو منتخب صدر نے اپنی کابینہ کا اعلان کرتے ہوئے سید عنایت حسین شاہ نقوی کو سینئر نائب صدر، سید زاہد حسین شاہ حسینی کو نائب صدر، سید سلامت حسین شاہ نقوی کو جنرل سیکرٹری، سید اسد اللہ شاہ حسینی کو سیکرٹری تنظیم سازی اور حسین بخش مگسی کو سیکرٹری تعلیم مقرر کیا۔

اجلاس میں مجلس علماء مکتب اہل بیت صوبہ بلوچستان کے رہنماء مولانا علی نواز عرفانی، مجلس وحدت مسلمین جنوبی بلوچستان کے رہنماء سید گلزار شاہ نقوی، ڈویژنل صدر یوتھ ونگ سید خورشید شاہ نقوی اور صدر وحدت ایمپلائز جھل مگسی حبیب اللہ حیدری نے بھی شرکت کی۔ ایم ڈبلیو ایم جنوبی بلوچستان کے ورکنگ کمیٹی کے رکن علامہ سہیل اکبر شیرازی نے نئے نو منتخب کابینہ سے حلف لیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سہیل اکبر شیرازی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ایک الٰہی و انقلابی تنظیم ہے۔ جس کا بنیادی مقصد دین اسلام اور انسانیت کی خدمت ہے۔ ظلم اور ظالم کے خلاف آواز حق بلند کرنا ہمارا مشن ہے، اور امید ہے کہ نئی کابینہ اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں ادا کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن آف انڈیا بی جے پی کیلئے کام کررہا ہے، کانگریس
  • اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس، وزارتِ داخلہ کیلئے 10 کروڑ 3 لاکھ روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ منظور
  • جامعہ کراچی،ایم بی بی ایس فائنل پروفیشنل سالانہ امتحانات 2025 ء کے نتائج
  • پنجاب سے سینیٹ کی نشست پر ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری
  • اگر انتخاب مکمل طور پر آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو مزید سیٹوں پر فتح حاصل ہوتی، مایاوتی
  • جسٹس اقبال کی پی پی 98 میں ضمنی انتخاب کیخلاف درخواست پر سماعت سے معذرت
  • بہار نتائج:الٹی ہوگئی سب تدبیریں
  • جھل مگسی، ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی شوریٰ کا اجلاس، نئی کابینہ کا انتخاب
  • میڈیا کا کام حکومت سے سوال کرنا ہے نہ کہ اسکی تشہیر، ملکارجن کھڑگے
  • ووٹ چوری پر صحافی پیوش مشرا کا سنسنی خیز انکشاف، کانگریس نے ویڈیو جاری کردی