Islam Times:
2025-10-04@23:37:39 GMT

ایرانی وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی کا اہم انٹرویو

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

ایرانی وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی کا اہم انٹرویو

اسلام ٹائمز: اپنی خصوصی گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے مذاکرات کیے، لیکن امریکی جنگ میں چلے گئے۔ ہم اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ہم منصوبہ بنا رہے ہیں کہ آئندہ سفارتکاری کیسے جاری رہے گی۔ عباس عراقچی نے مزید کہا: میں کل کئی دیگر وزرائے خارجہ سے بات کرنیوالا ہوں۔ انہوں نے کہا: آیا ہم خاص طور پر امریکہ کیساتھ مذاکرات کی طرف لوٹتے ہیں یا نہیں، یہ ایک مخصوص مسئلہ ہے، جسکا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہمارے مفادات کیا ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: مذاکرات نہ کوئی مقدس معاملہ ہے، نہ قابل مذمت چیز۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے کہ آپ نے فوائد اور مفادات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہونا ہے یا نہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی نے گذشتہ رات ایک خصوصی نیوز ٹاک شو میں خارجہ پالیسی اور صیہونی حکومت و امریکہ کے ایران پر حالیہ حملے کے بعد ہونے والی تازہ ترین پیشرفت کے بارے میں گفتگو کی ہے، جس کے اقتباسات اسلام ٹائمز کے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔

فخر اور عزت کا احساس:
سید عباس عراقچی نے ابتدا میں ایران کے ریڈیو اور ٹی وی "آئی آر آئی بی" کی عمارت کے اپنے دورے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں IRIB کے ملازمین کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے IRIB کے ہیڈکوارٹر پر حملہ ہونے کے باوجود، IRIB نیٹ ورکس میں سے کسی چینل پر ایک منٹ کا بھی تعطل نہیں آیا اور نشریات جاری رہیں۔

ملک ٹوٹا نہ ہتھیار ڈالے:
عباس عراقچی نے کہا: IRIB میں جو کچھ ہوا، وہ ان 12 دنوں میں جو کچھ ہوا، اس کی ایک مثال ہے۔ مختلف جگہوں پر حملے کیے گئے اور قتل و غارت گری کی گئی، ہم نے اہم لوگ کھوئے، اہم تنصیبات کو نقصان پہنچا اور بہت مشکل جنگی ماحول پیدا ہوا، لیکن ملک ٹوٹا، نہ ہم نے ہتھیار ڈالے۔ عراقچی نے مزید کہا: "آج رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے یہ بھی کہا کہ ایران ہتھیار ڈالنے کے لفظ سے بالکل ناواقف ہے اور اس لفظ کی ہماری سیاسی اور سماجی لٹریچر اور لغت میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ بات ان 12 دنوں میں ثابت ہوگئی ہے۔"

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دو ایٹمی حکومتیں، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس سپر پاور، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یورپی حکومتیں سب نے مل کر منصوبہ بنایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے عوام کو توڑنے، ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے اور امریکی تسلط کے خلاف 50 سالہ جدوجہد کو ختم کرنے پر مجبور کر دیا جائے، لیکن یہ اس قابل نہیں ہیں کہ وہ ایران کے خلاف کامیاب ہوں۔ مبارک ہو، یہ ایک ایسا لمحہ ہے، جو ایرانی عوام کی متحد و منسجم مزاحمت کے طور پر ایرانی تاریخ میں باقی رہے۔ ایرانی وزیر خارجہ  کا کہنا تھا کہ بالآخر مسلح افواج کی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ کارروائیاں جنگ بندی پر منتج ہوئیں۔

میں نے کہا کہ ہم جنگ بندی کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ جنگ بندی مذاکرات کی پیداوار ہوتی ہے:
بہرحال وہ پالیسی جو حکومت کے فیصلہ ساز حکام نے تسلیم اور منظور کی تھی، وہ یہ تھی کہ اگر دشمن پیشگی شرائط کے بغیر اپنے حملے بند کر دے تو ایران بھی اپنے ردعمل کو ختم کر دے گا، وجہ واضح ہے۔ انہوں نے حملہ کیا اور ہم نے دفاع کیا اور جب حملہ رک جاتا ہے تو دفاع اپنی مطابقت کھو دیتا ہے۔ یہ منگل کی صبح تھی۔ میں زمینی راستے سے واپس آرہا تھا۔ میں اشک آباد سے زمینی راستے سے تہران پہنچا، جب ہمیں دوسری طرف سے پیغام ملا کہ وہ ایرانی وقت کے مطابق صبح 4 بجے سے اپنے حملے روکنے کے لیے تیار ہیں اور اگر ایران روکتا ہے تو وہ جاری نہیں رکھیں گے تو ہم نے جو شرط رکھی تھی، وہ پوری ہوئی اور انہوں نے یہ درخواست بغیر کسی پیشگی شرط کے کی۔ اس دوران میں نے رابطہ کیا اور دوسری طرف اعلان کیا کہ ہم جنگ بندی کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ جنگ بندی مذاکرات کی پیداوار ہے۔

عراقچی نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ اگر صیہونی حکومت اپنے حملے جاری نہیں رکھتی تو ہم بھی جاری نہیں رکھیں گے اور اگلے فیصلے بعد میں کیے جائیں گے۔ سید عباس عراقچی کے بقول صیہونی حکومت جارحیت کو روکنے کے حوالے سے مایوسی کے نتیجے میں جنگ بندی پر پہنچی ہے۔ عباس عراقچی نے مزید کہا کہ  میں نے ٹویٹ کرکے درست بیانیہ دینے کی کوشش کی۔ بغیر کسی پیشگی شرط یا درخواست کے صیہونی حکومت نے آپریشن بند کرنے کی درخواست کی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے مخالف فریقوں سے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کو بتائیں کہ ایران لبنان نہیں ہے اور اگر وہ کوئی اقدام کرے گا تو ایران فوراً جوابی کارروائی کرے گا۔

مجھے امید ہے کہ وہ جنگ بندی کا احترام کریں گے اور ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ اس کی خلاف ورزی ہو۔ ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا: "ہم نے یورپی وزراء خارجہ میں سے ایک کو، جن سے ہم نے آج رات فون پر بات کی، کہا کہ حکومت کو بتا دیں کہ ایران لبنان نہیں ہے اور جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی کا فوری اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔ عباس عراقچی نے نئے مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ سفارت کاری ہمیشہ موجود ہے۔ یعنی جنگ سے پہلے، جنگ کو روکنا، جنگ کے دوران، دشمن کو کنٹرول کرنا اور جنگ کے بعد، جنگ کے نتائج سے نمٹنا۔ یقیناً مذاکرات سفارت کاری کا حصہ ہیں۔ جب ہم سفارت کاری کی بات کرتے ہیں تو یہ نہیں کہ ہم مذاکرات کی بات کر رہے ہیں اور جب ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم معاہدے کی بات کر رہے ہیں۔ سفارتی اقدام ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کیے، لیکن امریکی جنگ میں چلے گئے۔ ہم اپنے وعدوں سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ہم منصوبہ بنا رہے ہیں کہ آئندہ سفارت کاری کیسے جاری رہے گی۔ عباس عراقچی نے مزید کہا: میں کل کئی دیگر وزرائے خارجہ سے بات کرنے والا ہوں۔ انہوں نے کہا: آیا ہم خاص طور پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی طرف لوٹتے ہیں یا نہیں، یہ ایک مخصوص مسئلہ ہے، جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہمارے مفادات کیا ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا: مذاکرات نہ کوئی مقدس معاملہ ہے، نہ قابل مذمت چیز۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے کہ آپ نے فوائد اور مفادات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اس میں داخل ہونا ہے یا نہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایرانی وزیر خارجہ نے عراقچی نے مزید کہا وزیر خارجہ نے کہا عباس عراقچی نے صیہونی حکومت مذاکرات کی سفارت کاری مفادات کی کی بات کر نے کہا کہ انہوں نے رہے ہیں ہے اور یہ ایک ہیں کہ

پڑھیں:

اردگان نے ایرانی اداروں اورشخصیات کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیدیا

ترک اخبار کے مطابق ترکی میں اثاثے منجمد ہونے سے ایران کے جوہری مراکز، شپنگ کمپنیاں، توانائی کمپنیاں اور تحقیقی مراکز سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور کمپنیاں متاثر ہونگی۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دوبارہ بین الاقوامی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد ترکی نے متعدد ایرانی اداروں اور شخصیات کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ ترکی نے 20 افراد اور 18 اداروں کے اموال، اثاثوں اور اکاؤنٹس کو منجمد کیا ہے۔ ترک اخبار تودی نے اس اقدام کو تہران پر دباؤ ڈالنے کی وسیع تر بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ ایک مربوط اقدام قرار دیا ہے۔ یکم اکتوبر کو ترک صدر کی طرف سے جاری ہونے والے اس فیصلے میں ان افراد اور تنظیموں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے جو ایران کے جوہری پروگرام کو ترقی دینے میں ملوث ہیں۔ یہ فرمان بین الاقوامی دباؤ کی مہم کی روشنی میں جاری کیا گیا ہے۔

اخبار کے مطابق ترکی میں اثاثے منجمد ہونے سے ایران کے جوہری مراکز، شپنگ کمپنیاں، توانائی کمپنیاں اور تحقیقی مراکز سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور کمپنیاں متاثر ہونگی۔ نشانہ بننے والے اداروں میں ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم، بینک سپاہ سمیت کئی بینک اور یورینیم کی تبدیلی اور جوہری ایندھن کی پیداوار میں سرگرم ایک کمپنی شامل ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جامع اقدام پر دستخط کیے ہیں جس کا متن ملک کے سرکاری اخبار کے ایک ضمنی شمارے میں شائع ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران نے اسرائیل سے روابط کے الزام میں 6 مبینہ دہشت گردوں کو پھانسی دے دی
  • جی7 ممالک کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ، ایرانی وزارتِ خارجہ کا شدید ردعمل
  • پابندیوں کی بحالی کا مطلب ایران کیساتھ سفارتکاری کا خاتمہ نہیں، فرانس
  • ایران اچانک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، سابق صیہونی وزیر جنگ
  • امریکہ جو چاہے نہیں کر سکتا، سید عباس عراقچی
  • ایران سے مذاکرات کا دروازہ اب بھی کھلا ہے: فراسیسی وزیر خارجہ
  • اردگان نے ایرانی اداروں اور شخصیات کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیدیا
  • اردگان نے ایرانی اداروں اورشخصیات کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیدیا
  • ایرانی وزیر دفاع کا دورہ ترکی، دشمن کیخلاف متحد ہونیکا عہد
  • اسحاق ڈار کا ایرانی ہم منصب کو ٹیلی فون، خطے میں امن کیلئے جاری کوششوں پر غور، باہمی تعاون گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ