data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خلیج کی موجوں کی مانند ایران اور قطر کے باہمی تعلقات بھی وقت کے ساتھ ساتھ اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے، تاہم ان میں ایک مستقل نرمی، تدبر اور توازن ہمیشہ غالب رہا ہے۔ خواہ وہ 1970 کی دہائی ہو، جب قطر نے آزادی کے فوراً بعد ایران سے سفارتی روابط قائم کیے، یا آج کا دن، جب ایک میزائل حملے کے باوجود دونوں ممالک نے احتیاط، فہم اور تعلقات کی حفاظت کا مظاہرہ کیا ہے۔
شاہِ ایران کے دور سے شروع ہونے والے ان تعلقات کا اگر تاریخی جائزہ لیا جائے، تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ قطر نے آزادی کے بعد جس سرعت سے ایران سے روابط استوار کیے، وہ اس خطے کی سیاست میں ایک نئی سوچ اور خودمختار خارجہ پالیسی کا اظہار تھا۔ 1980 کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران قطر نے اگرچہ مکمل طور پر ایران کا ساتھ نہیں دیا، مگر اس سے مکمل لاتعلقی بھی اختیار نہ کی، جو اْس وقت کی جرأت مندانہ خارجہ پالیسی کی علامت تھی۔ تعلقات کی یہ پرورش اْس وقت مزید مضبوط ہوئی جب 1990 کی دہائی میں پارس گیس فیلڈ کے مشترکہ استعمال کا معاہدہ عمل میں آیا۔ یہ اقتصادی شراکت داری دونوں ممالک کو ایک ایسے بندھن میں باندھ گئی جس سے علٰیحدگی اب ممکن نہ رہی۔ 2000 کی دہائی میں جب امریکا نے خطے میں مداخلت کا آغاز کیا، ایران اور قطر مزید قریب آ گئے۔ ان قربتوں کی گہرائی اور وسعت بحری حدود سے لے کر مذہبی و ثقافتی رشتوں تک محیط رہی۔
2011 کے بعد عرب دنیا میں جب نظریاتی دھارے تیزی سے بدلنے لگے، قطر نے اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحریکوں کی حمایت کا فیصلہ کیا جبکہ ایران شام میں بشارالاسد کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا۔ اختلافات کے باوجود دونوں ممالک نے اپنے باہمی تعلقات کو کشیدگی سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ 2017 میں جب سعودی عرب، امارات، بحرین اور مصر نے قطر کا مکمل بائیکاٹ کر دیا، ایران وہ واحد ملک تھا جس نے قطر کو فضائی راہداری، خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی میں تعاون فراہم کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایران قطر تعلقات ایک نئی بلندی پر پہنچے۔ تاہم 23 جون 2025 کو ایران کی جانب سے قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے ’’العدید‘‘ پر میزائل حملے نے خطے میں ہلچل مچا دی۔ قطر نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، مگر ساتھ ہی واضح کر دیا کہ یہ واقعہ ایران سے تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا۔ قطری وزیر ِ خارجہ نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ’’بہترین تعلقات‘‘ کا اصول اب بھی قائم ہے۔
عالمی سطح پر اس واقعے پر ردعمل متنوع رہا۔ امریکا نے اس حملے کو ’’کمزور‘‘ قرار دے کر ایران پر طنز کیا، جبکہ سعودی عرب، امارات، اردن اور دیگر عرب ریاستوں نے قطر کی حمایت اور ایران کی مذمت کی۔ اقوامِ متحدہ نے گہری تشویش ظاہر کی، روس اور چین نے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی، جبکہ پاکستان اور ترکی نے حسبِ روایت محتاط رویہ اختیار کیا۔ قطر کے اندر عوامی رائے بھی تقسیم دکھائی دی۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے تجزیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قطری عوام کا ایک حلقہ ایران کے دفاعی اقدام کو امریکی و اسرائیلی دبائو کے خلاف ایک علامتی پیغام سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا حلقہ قطر کی متوازن خارجہ پالیسی اور سفارتی حکمت ِ عملی کی حمایت کرتا ہے، جو ایران سے دوستی اور خلیجی ہم آہنگی دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایرانی قیادت کا موقف بھی دو ٹوک رہا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کیا کہ ایران نے کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت نہیں رکھی، تاہم اپنی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ ایران نے اس حملے کو مکمل جنگ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ تنبیہ اور جوابی دفاع کا پیغام قرار دیا ’’جو مداخلت کرے گا، اسے جواب ضرور ملے گا‘‘۔ قطر نے اسی موقف کو سفارتی زبان میں دہرایا: ’’ہمارا مقصد تعلقات کو متاثر کرنا نہیں تھا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق قطر اپنی دفاعی تیاریوں کو ضرور مضبوط کرے گا، تاہم ایران سے سفارتی روابط بھی برقرار رکھے گا۔ ایران کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اْس کے اقدامات خطے میں تشویش کا سبب بن سکتے ہیں، مگر قطر جیسے ممالک آج بھی اعتدال، مصالحت اور حکمتِ عملی کے قائل ہیں۔
یہ توازن نہ صرف خلیج میں امن کی ضمانت ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی سیاست میں قطر کی منفرد شناخت کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ ایران اور قطر کا باہمی رشتہ ایک ایسے پْل کی مانند ہے جس کا ایک سرا نظریاتی و ثقافتی ہم آہنگی سے جڑا ہے اور دوسرا علاقائی کشیدگیوں سے لرزتا ہے۔ اس وقت دونوں ممالک نے جس دانش مندی اور فہم و فراست کا مظاہرہ کیا ہے، وہ امید دلاتا ہے کہ خلیج کی سیاست میں سفارت، توازن اور تدبر کا سفر جاری رہے گا اور جنگ کی آندھیاں، عقل کی ہواؤں میں تحلیل ہو جائیں گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کی دہائی ایران سے

پڑھیں:

صدر زرداری کے حالیہ دورۂ چین نے دونوں ممالک کی دوستی کو نئے باب دیے، چینی سفیر

چینی سفیر جیانگ ژائی ڈونگ نے کہا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر صدر آصف علی زرداری کے دورۂ چین کے اہم نتائج کو عملی جامہ پہنانے اور مشترکہ ایکشن پلان 2025-29 کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے تاکہ چین پاکستان برادری کو مزید قریب لایا جا سکے۔

اپنے آرٹیکل میں چینی سفیر نے کہا کہ صدر زرداری کے حالیہ دورۂ چین نے دونوں ممالک کی تاریخی دوستی کو نئے باب دیے، عملی تعاون کو مزید آگے بڑھایا اور عوامی تعلقات کو گہرا کیا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی سفیر کا ایئر ہیڈکوارٹر کا دورہ، چینی ساختہ ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال پر فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت کو سراہا

صدر آصف علی زرداری کو 12 سے 21 ستمبر تک 2025 گولڈن پانڈا انٹرنیشنل کلچرل فورم کی افتتاحی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے سچوان، شنگھائی اور سنکیانگ کا دورہ کیا۔ یہ ان کا رواں سال چین کا دوسرا دورہ تھا۔

چینی سفیر کے مطابق صدر زرداری کا دورہ ان کی چین کے عوام سے گہری محبت اور پاک چین تعلقات کو غیر معمولی اہمیت دینے کا مظہر ہے۔ انہوں نے صدر زرداری کے اس جملے کو بھی یاد دلایا کہ چین ان کے لیے ہوم اوے فرام ہوم ہے۔

جیانگ ژائی ڈونگ نے کہا کہ صدر زرداری نے 3 صوبائی سطح کے خطوں اور 4 مختلف مقامات کا دورہ کیا، مقامی حکومتوں کے سربراہوں سے ملاقات کی اور عام شہریوں سے بھی روابط قائم کیے۔ انہوں نے اس سفر کو تہذیب اور جدت کا سفر قرار دیا جو باہمی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر آصف زرداری کا دورہ چین: ڈیجیٹل طرز حکمرانی کے ماڈل میں گہری دلچسپی کا اظہار

چنگدو میں گولڈن پانڈا فورم سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ یہ فورم آرٹ کے عالمی زبان کے ذریعے فاصلے مٹانے اور قوموں کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

چینی سفیر نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں عوامی اور ثقافتی سطح پر تعلقات میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے، جس میں باٹیے گرل فلم کا دونوں ممالک میں ریلیز ہونا، گندھارا آرٹ نمائش کا بیجنگ میں انعقاد، پاکستانی آموں کی مقبولیت، چینی جامعات میں اردو پروگرامز، اسٹڈی ان چائنا رجحان، سی پیک کنسورشیم آف یونیورسٹیز کا قیام اور فرسٹ لیڈی آصفہ بھٹو زرداری کی پانڈا سے ملاقات جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدر زرداری نے ہائی اسپیڈ ٹرین کا سفر کر کے چین کی جدید ریلوے کا تجربہ کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی میں تعاون بڑھانے کی خواہش ظاہر کی۔

چینی سفیر نے کہا کہ دونوں ممالک توانائی، زراعت، صنعت، کان کنی، تعلیم، مالیات اور ثقافتی تعاون سمیت کئی شعبوں میں تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک چین دوستی نسل در نسل آگے بڑھے گی، صدر مملکت آصف زرداری کی شنگھائی میں اعلیٰ سطح ملاقاتیں

ان کے مطابق صدر زرداری نے شنگھائی الیکٹرک گروپ کا بھی دورہ کیا جہاں توانائی منصوبوں پر اہم معاہدے ہوئے، جبکہ سنکیانگ کے دورے کے موقع پر انہوں نے علاقے کی ترقی کو سراہتے ہوئے کہا کہ مزید پاکستانی شہریوں کو یہاں آنے کی ترغیب دیں گے۔

جیانگ ژائی ڈونگ نے کہا کہ پاکستان اور چین ہمہ موسمی اسٹریٹجک شراکت دار اور آہنی بھائی ہیں، اور صدر زرداری کا یہ دورہ پاک چین دوستی کی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آصف علی زرداری چین چینی سفیر

متعلقہ مضامین

  • صدر ٹرمپ امن کے ضامن، پاک امریکا تعلقات نئی سمت میں داخل ہوں گے، شہباز شریف
  • صدر زرداری کے حالیہ دورۂ چین نے دونوں ممالک کی دوستی کو نئے باب دیے، چینی سفیر
  • وزیراعظم سے بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کی ملاقات
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری کشیدگی میں ممکنہ کمی کے آثار
  • سابق وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد پاکستان سے تجارتی تعلقات مزید مضبوط بنانے کے خواہشمند ہیں
  • پاک سعودیہ معاہدہ مسلم ممالک کے تعاون سے علاقائی سکیورٹی کے جامع نظام کی شروعات ہے: ایرانی صدر کا پہلا رد عمل
  • شہباز شریف کی انورا کمارا ڈسانائیکے سے ملاقات، دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • وزیراعظم کی سری لنکا کے صدر سے دو طرفہ ملاقات
  • پاک چین دوستی پہاڑوں سے بلند: احسن اقبال‘ بیجنگ میں جینومکس انسٹیٹیوٹ کا دورہ 
  •  وزیراعظم کی کویتی ولی عہد سے ملاقات، دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق