ایران قطر تعلقات: توازن، تعاون اور تازہ کشیدگی کا تناظر
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خلیج کی موجوں کی مانند ایران اور قطر کے باہمی تعلقات بھی وقت کے ساتھ ساتھ اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے، تاہم ان میں ایک مستقل نرمی، تدبر اور توازن ہمیشہ غالب رہا ہے۔ خواہ وہ 1970 کی دہائی ہو، جب قطر نے آزادی کے فوراً بعد ایران سے سفارتی روابط قائم کیے، یا آج کا دن، جب ایک میزائل حملے کے باوجود دونوں ممالک نے احتیاط، فہم اور تعلقات کی حفاظت کا مظاہرہ کیا ہے۔
شاہِ ایران کے دور سے شروع ہونے والے ان تعلقات کا اگر تاریخی جائزہ لیا جائے، تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ قطر نے آزادی کے بعد جس سرعت سے ایران سے روابط استوار کیے، وہ اس خطے کی سیاست میں ایک نئی سوچ اور خودمختار خارجہ پالیسی کا اظہار تھا۔ 1980 کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران قطر نے اگرچہ مکمل طور پر ایران کا ساتھ نہیں دیا، مگر اس سے مکمل لاتعلقی بھی اختیار نہ کی، جو اْس وقت کی جرأت مندانہ خارجہ پالیسی کی علامت تھی۔ تعلقات کی یہ پرورش اْس وقت مزید مضبوط ہوئی جب 1990 کی دہائی میں پارس گیس فیلڈ کے مشترکہ استعمال کا معاہدہ عمل میں آیا۔ یہ اقتصادی شراکت داری دونوں ممالک کو ایک ایسے بندھن میں باندھ گئی جس سے علٰیحدگی اب ممکن نہ رہی۔ 2000 کی دہائی میں جب امریکا نے خطے میں مداخلت کا آغاز کیا، ایران اور قطر مزید قریب آ گئے۔ ان قربتوں کی گہرائی اور وسعت بحری حدود سے لے کر مذہبی و ثقافتی رشتوں تک محیط رہی۔
2011 کے بعد عرب دنیا میں جب نظریاتی دھارے تیزی سے بدلنے لگے، قطر نے اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحریکوں کی حمایت کا فیصلہ کیا جبکہ ایران شام میں بشارالاسد کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا۔ اختلافات کے باوجود دونوں ممالک نے اپنے باہمی تعلقات کو کشیدگی سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ 2017 میں جب سعودی عرب، امارات، بحرین اور مصر نے قطر کا مکمل بائیکاٹ کر دیا، ایران وہ واحد ملک تھا جس نے قطر کو فضائی راہداری، خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی میں تعاون فراہم کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایران قطر تعلقات ایک نئی بلندی پر پہنچے۔ تاہم 23 جون 2025 کو ایران کی جانب سے قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے ’’العدید‘‘ پر میزائل حملے نے خطے میں ہلچل مچا دی۔ قطر نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، مگر ساتھ ہی واضح کر دیا کہ یہ واقعہ ایران سے تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا۔ قطری وزیر ِ خارجہ نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ’’بہترین تعلقات‘‘ کا اصول اب بھی قائم ہے۔
عالمی سطح پر اس واقعے پر ردعمل متنوع رہا۔ امریکا نے اس حملے کو ’’کمزور‘‘ قرار دے کر ایران پر طنز کیا، جبکہ سعودی عرب، امارات، اردن اور دیگر عرب ریاستوں نے قطر کی حمایت اور ایران کی مذمت کی۔ اقوامِ متحدہ نے گہری تشویش ظاہر کی، روس اور چین نے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی، جبکہ پاکستان اور ترکی نے حسبِ روایت محتاط رویہ اختیار کیا۔ قطر کے اندر عوامی رائے بھی تقسیم دکھائی دی۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے تجزیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قطری عوام کا ایک حلقہ ایران کے دفاعی اقدام کو امریکی و اسرائیلی دبائو کے خلاف ایک علامتی پیغام سمجھتا ہے، جبکہ دوسرا حلقہ قطر کی متوازن خارجہ پالیسی اور سفارتی حکمت ِ عملی کی حمایت کرتا ہے، جو ایران سے دوستی اور خلیجی ہم آہنگی دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایرانی قیادت کا موقف بھی دو ٹوک رہا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کیا کہ ایران نے کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت نہیں رکھی، تاہم اپنی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ ایران نے اس حملے کو مکمل جنگ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ تنبیہ اور جوابی دفاع کا پیغام قرار دیا ’’جو مداخلت کرے گا، اسے جواب ضرور ملے گا‘‘۔ قطر نے اسی موقف کو سفارتی زبان میں دہرایا: ’’ہمارا مقصد تعلقات کو متاثر کرنا نہیں تھا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ تجزیہ نگاروں کے مطابق قطر اپنی دفاعی تیاریوں کو ضرور مضبوط کرے گا، تاہم ایران سے سفارتی روابط بھی برقرار رکھے گا۔ ایران کو بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اْس کے اقدامات خطے میں تشویش کا سبب بن سکتے ہیں، مگر قطر جیسے ممالک آج بھی اعتدال، مصالحت اور حکمتِ عملی کے قائل ہیں۔
یہ توازن نہ صرف خلیج میں امن کی ضمانت ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی سیاست میں قطر کی منفرد شناخت کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ ایران اور قطر کا باہمی رشتہ ایک ایسے پْل کی مانند ہے جس کا ایک سرا نظریاتی و ثقافتی ہم آہنگی سے جڑا ہے اور دوسرا علاقائی کشیدگیوں سے لرزتا ہے۔ اس وقت دونوں ممالک نے جس دانش مندی اور فہم و فراست کا مظاہرہ کیا ہے، وہ امید دلاتا ہے کہ خلیج کی سیاست میں سفارت، توازن اور تدبر کا سفر جاری رہے گا اور جنگ کی آندھیاں، عقل کی ہواؤں میں تحلیل ہو جائیں گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کی دہائی ایران سے
پڑھیں:
ایران: اسرائیل تنازع کے تناظر میں گرفتاریوں اور پھانسیوں کا سلسلہ جاری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) گرفتاریوں اور پھانسیوں کا یہ سلسلہ ان واقعات کے بعد شروع ہوا ہے جسے ایرانی حکام نے اسرائیلی ایجنٹوں کی جانب سے ایرانی سکیورٹی سروسز میں غیر معمولی دراندازی قرار دیا ہے۔
حکام کو شبہ ہے کہ اسرائیل کو فراہم کی گئی معلومات نے تنازع کے دوران انتہائی اہم شخصیات کے قتل کے سلسلے میں بڑا کردار ادا کیا۔
ان میں سپاه پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کے اعلیٰ کمانڈروں اور جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ بھی شامل تھی، جسے ایران ملک کے اندر سرگرم اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد کے کارندوں سے منسوب کرتا ہے۔اسرائیل کے لیے جاسوسی، ایران میں ایک اور شخص کو سزائے موت دے دی گئی
ان ہلاکتوں نے ایران کو متزلزل کر دیا اور حکام ہر ایسے شخص کو نشانہ بنا رہے ہیں جس پر غیر ملکی انٹیلیجنس کے ساتھ کام کرنے کا شبہ ہے۔
(جاری ہے)
ان کی دلیل ہے کی یہ قومی سلامتی کی خاطر کیا جا رہا ہے۔جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ایرانی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تنازع کے آغاز کے ساتھ ہی ایران میں جاسوسی کے الزامات کے سلسلے میں پھانسیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
ایران میں گزشتہ برس 975 افراد کو سزائے موت دی گئی
ڈی پی اے نے ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کے حوالے سے کہا، ’’فوجی کارروائیوں کے خاتمے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ (اسرائیل کی) دشمنانہ اور بدنیتی پر مبنی سرگرمیاں بھی ختم ہو گئی ہیں۔
‘‘خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بتایا کہ ایک ایرانی انسانی حقوق گروپ ایچ آر این اے کے مطابق تنازع شروع ہونے کے بعد سے پیر کے روز تک سیاسی یا سکیورٹی الزامات میں 705 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ایچ آر این اے نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں میں سے کئی پر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا الزام ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ منگل کو ترک سرحد کے قریب ارمیا میں تین افراد کو پھانسی دے دی گئی ایرانی-کرد حقوق گروپ ہینگاو نے بتایا کہ وہ سب کرد تھے۔
ایران کی وزارت خارجہ اور داخلہ نے تبصرہ کی درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کا الزامبہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ اختلاف رائے کو خاموش کرنے اور عوام پر گرفت سخت کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔
بارہ روزہ تنازعے کے دوران، ایرانی حکام نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں تین افراد کو پھانسی دے دی۔
بدھ کو فائر بندی کے صرف ایک دن بعد مزید تین افراد کو اسی طرح کے الزامات پر پھانسی دی گئی۔ایران: رواں سال اب تک چار سو سے زائد افراد کو پھانسی دے دی گئی
اس کے بعد حکام نے جاسوسی کے الزام میں ملک بھر میں سینکڑوں مشتبہ افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے متعدد زیر حراست افراد کے مبینہ اعترافات نشر کیے ہیں، جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی انٹیلیجنس کے ساتھ تعاون کا اعتراف کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں اور کارکنوں نے تازہ ترین پیش رفت پر خدشات کا اظہار کیا ہے، ایران کے جبری اعترافات لینے اور غیر منصفانہ ٹرائل کی دیرینہ روایت کا حوالہ دیتے ہوئے خدشات ہیں کہ مزید سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
ایران کی وزارت انٹیلیجنس کا دعویٰ ہے کہ وہ مغربی اور اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورکس کے خلاف ’’انتھک جنگ‘‘ میں مصروف ہے۔
اسّی کی دہائی سے مماثلتجنگ کے دوران ایرانی حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی کو سختی سے روک دیا تھا اور فائر بندی کے بعد بھی مکمل رسائی ابھی تک بحال نہیں ہو سکی ہے۔
بحران کے دوران انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کرنا، خاص طور پر حکومت کے خلاف ملک گیر مظاہروں کے دوران، ایران کا ایک عام رویہ بن گیا ہے۔ مزید برآں، زیادہ تر سوشل نیٹ ورکس جیسے انسٹاگرام، ٹیلیگرام، ایکس اور یوٹیوب کے ساتھ ساتھ بعض غیر ملکی نیوز ویب سائٹس کو ایران میں طویل عرصے سے بلاک کر دیا گیا ہے۔
ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) استعمال کیے بغیر ان تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔حالیہ گرفتاریوں اور پھانسی دینے کے واقعات کو انسانی حقوق کے حامی اور سیاسی مبصرین 1980 کی دہائی سے مماثل قرار دے رہے ہیں، جب ایران عراق جنگ کے دوران ایرانی حکام نے سیاسی مخالفت کو بے دردی سے کچل دیا تھا۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تنازعہ کے بعد، ایرانی حکام ایک بار پھر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، پھانسیوں اور جبر کا سہارا لے سکتے ہیں۔
ناقدین 1988 کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جب، انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، ہزاروں سیاسی قیدیوں کو، جن میں سے بہت سے پہلے ہی سزا کاٹ رہے تھے، کو نام نہاد ’’ڈیتھ کمیشن‘‘ کے ذریعے سرسری اور خفیہ ٹرائلز کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ ان میں سے بیشتر کو بے نشان اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔
ادارت: صلاح الدین زین