اسرائیل انجام کی طرف بڑھ رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ان حالات میں خطے کی صورتحال اور پاکستان کی پوزیشن بھی زبان زدعام ہے، اس تناظر میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکا بڑا اہم سمجھا جارہا ہے اس دورے کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور فوج مخالف حلقوں میں تو یہی کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو امریکا کوئی نیا ہدف دینے والا ہے، لیکن اس دورے کے ساتھ ہی کچھ اشارے ملے تھے، مثال کے طور پر امریکا نے ایران پر براہ راست حملے کا ارادہ موخر کردیا ہے۔ بظاہر یہ خبر سفارتی تھی اور سفارتی خبروں کا معاملہ بھی کچھ یوں ہوتا ہے کہ جب کبھی دو دشمن ملکوں کے حکام یا حاکم و محکوم ملک کے حکام ملاقات کرتے ہیں تو خبر یوں ہی نشر ہوتی ہے کہ دونوں رہنمائوں نے نہایت خوشگوار ماحول میں ملاقات کی، دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا اور تنازعات کو افہام وتفہیم سے طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ خواہ ملاقات میں ایک دوسرے کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی باتیں ہوئی ہوں یا یہ پوچھا گیا ہو کہ بتائو دوست ہو یا دشمن۔ ابھی بتائو۔ لیکن سفارتی بیان ایسا ہی جاری ہوتا ہے اس لیے آگے کے اقدامات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بات ہوئی کیا تھی۔ دو ہی دن بعد امریکی حملے نے بتادیا کہ کیا منصوبہ تھا، اس بارے میں آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا ہے، بیان یوں ہے!!
ترجمان پاک فوج کے مطابق امریکا کی طرف سے ملاقات میں صدر ٹرمپ کے ساتھ سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو ویٹکوف بھی موجود تھے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ساتھ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اس ملاقات میں شریک تھے۔ فیلڈ مارشل نے پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی کے بعد جنگ بندی میں مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی اقوام عالم کو در پیش متعدد چیلنجز کو سمجھنے اور اْن سے نبرد آزما ہونے کی قائدانہ صلاحیتوں کی تعریف کی جب کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان اور امریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے جاری تعاون اور خطے میں پاکستان کی قیام امن کی کوششوں کو سراہا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق صدر ٹرمپ کے ساتھ فیلڈ مارشل کی ایران اسرائیل تنازع پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قائدانہ اور فیصلہ کن صلاحیتوں کو سراہا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صدر ٹرمپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے دورۂ پاکستان کی دعوت بھی دی۔ پہلے سے طے شدہ ایک گھنٹہ دورانیہ کی یہ اہم ملاقات 2 گھنٹے تک جاری رہی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان ہونے والی یہ اہم ملاقات پاکستان اور امریکا کے درمیان دیرینہ شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، جس کی بنیاد مشترکہ مقاصد، امن، استحکام اور خوشحالی پر رکھی گئی ہے۔ اس بیان میں بھی سب اچھا ہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اسرائیل جنگ میں کیا موڑ آتا ہے، پاکستان ایران کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے، کیا وہاں رجیم چینج میں پاکستان بھی اپنا حصہ ڈالے گا، کیا اسرائیل کو خطے میں قدم جمانے کا موقع مل جائے گا؟؟ ان تمام سوالات کا جواب آنے والا وقت دے گا۔ فی الحال ایرانی جوابی حملوں نے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے، جس طرح حماس کے سات اکتوبر کے حملوں نے پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست پلٹ دی تھی اور آج تک یہ مخالف سمت میں چل رہی ہے، اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو تیار ممالک کو بریک لگ گیا تھا، اسی طرح ایران کے خلاف محاذ بنانے والے، عرب وعجم کی تفریق پر تعلقات بنانے بگاڑنے والے ممالک امریکا کو کھربوں ڈالر دینے والے ممالک بھی ایران کی حمایت اور اسرائیل کی مذمت میں بیان دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ امریکا کی جانب سے رجیم چینج کا منصوبہ بھی ناکام ہوتا نظر آرہا ہے، اس ساری صورتحال کو تماشے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسلامی ممالک کو مشترکہ متحدہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی ورنہ ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی۔ خصوصاً پاکستان کو وہی رول اختیار کرنا ہوگا جو اس نے افغانستان پر روسی جارحیت اور امریکی قبضے کے دوران اختیار کیا پاکستان کے پڑوس میں اسرائیل و امریکا کی پٹھو حکومت کسی طور بھی پاکستان کے لیے سود مند نہیں ہوگی، خواہ اس کام کے عوض کھربوں ڈالر مل جائیں، ایسے خطرات کو سرحدوں سے دور رکھنا ہی بہتر ہوگا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ایران کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے اسرائیل سے یہ چھیڑ چھاڑ کروائی گئی تھی، سو اب اس کا اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا، عجلت میں جنگ بندی کا اعلان اور ایران اور اسرائیل کے لیے جنگ بندی کے الگ الگ وقت مقرر کرنے سے بھی دوسری طرف کا حال نظر آرہا ہے، اس مرتبہ ایران نے وہ کیا جو اب تک اسرائیل اور بھارت کرتے رہے ہیں کہ جنگ بندی کے امریکی اعلان کے باوجود ایران نے اسرائیلی علاقے بئر شیبہ پر میزائلوں سے حملہ کردیا اور سیکڑوں گاڑیوں اور درجنوں عمارتوں کو تباہ کردیا، اس میں ہلاکتیں بھی ہوئیں، اسرائیل تو جنگ بندی سمیت تمام ہی عالمی معاہدوں کی ہمیشہ خلاف ورزی کرتا رہا ہے اور اب بھی کی ہے۔ اسرائیل کے تسلط کے اسی برسوں میں پہلی مرتبہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے تباہی کے یہ مناظر دیکھے ہیں، ورنہ اب تک لبنان، شام، غزہ، بیروت وغیرہ یہ دیکھتے تھے۔ عالمی سازش کاروں نے جو منصوبہ بھی بنایا ہو وہ اپنی جگہ لیکن رفتہ رفتہ اب اسرائیل کے لیے اللہ کے اس منصوبے کے حالات سازگار ہورہے ہیں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے بہت پہلے ذکر کردیا ہے۔ اسرائیل کا انجام تو اسی کے مطابق ہوگا، تم لاکھ منصوبے بنالو، واللہ خیرالماکرین۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پاکستان کی کے ساتھ رہا ہے کے لیے اور اس
پڑھیں:
ایران اسرائیل کشیدگی اور پاکستان کا تزویراتی تدبر
شرق اوسط میں جنگی کشیدگی اس تیزی سے پھیلی ہے کہ درست راستے کا تعین کرنا آسان نہیں رہا۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد امریکی صدر نے سیز فائر کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ایران کے جانب سے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد حیران کن انداز میں سامنے آیا۔ آئندہ حالات کا اندازہ لگانا بے حد دشوار ہے۔ تاہم اس بحران کے دوران پاکستان کے تعمیری اور متوازن کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایران سے اظہارِ یکجہتی، اسرائیلی جارحیت کی مذمت، اور فیلڈ مارشل کی صدر ٹرمپ سے سفارتی ملاقات کا مجموعی تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ پاکستان نے بالغ نظری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ایران اور اسرائیل جنگ کے تناظر میں پاکستان ایک ذمہ دار اور پراعتماد ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ حالیہ بحران کو حل کرنے کی حکمت عملی نے پاکستان کی سفارتی پختگی، اسٹریٹجک دانش اور سیاسی بصیرت کو مثبت انداز میں ابھارا ہے ۔ پاکستان نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے خطے میں باہمی تعلقات کو خاص اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان ایک ایسے کلیدی سفارتی ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے پس پردہ رہ سرگرم کردار ادا کیاہے۔ پس پردہ سفارت کاری اور اصولی عوامی مقف کے ذریعے پاکستان نے کشیدگی کے خاتمے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔
پاکستان نے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھا تاکہ تحمل اور بات چیت کو فروغ دیا جا سکے۔ اسلام آباد کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی پرزور مذمت نے جارحیت پر مبنی کشیدگی کے خلاف اصولی مقف کو نمایاں کیا۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی نے برادر ملک کو تنہائی کا شکار ہونے سے بچایا اور پرامن حل کی کوششوں کو تقویت دی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی فعال سفارت کاری قابل تعریف رہی ۔ انہوں نے ایران کے صدر سمیت سعودی عرب و قطر کے اہم نمائندوں سے براہِ راست بات چیت کی جس کے نتیجے میں پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ریاست کے طور پر نمایاں دکھائی دیا۔
آرمی چیف کی صدر ٹرمپ سے طویل ملاقات کے مثبت اثرات واضح طور پر نظر آئے۔ امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر محدود حملے کر کے اسرائیل کو سیزفائر کا راستہ فراہم کیا۔ ان حملوں کے بعد صدر ٹرمپ نے فوری طور پر کشیدگی کو کم کرنے کیلئے قطر اور عراق میں ایران کے میزائل حملوں کا جواب نہیں دیا۔ سب سے اہم بات یہ کہ مشرق وسطی میں ’ریجیم چینج‘ کی پالیسی سے گریز کیا۔ صدر ٹرمپ کا آرمی چیف سے ملاقات کے بعد یہ کہنا کہ ’’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں‘‘ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عسکری قیادت نے انہیں خطے میں غیر مستحکم ریاست کے مضمرات سے بروقت خبردار کیا۔ پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی بھی حکمت عملی پر مبنی سفارتی اقدام دکھائی دیتا ہے۔ ممکنہ طور پر اس اقدام کے بعد ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں کے باوجود سیزفائر کا اعلان کیا۔ اگرچہ اس نامزدگی پر کئی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا، لیکن پاکستان کی جانب سے صدر ٹرمپ کی نامزدگی سفارتی دوراندیشی کی عمدہ مثال ہے۔ پاک بھارت جنگی کشیدگی میں سیزفائر کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان نے ٹرمپ کو ایک ممکنہ عالمی امن ساز کے طور پر پیش کرتے ہوئے انہیں ایران اسرائیل تنازع کے خاتمے میں موثر کردار ادا کرنے کی جانب مائل کیا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایران کی جانب سے قطر میں امریکی اڈے پر میزائل حملے کے باوجود صدر ٹرمپ نے جوابی کارروائی سے گریز کیا، جو پاکستان کی سفارتی کوششوں کے اثرات کا مظہر ہے۔ پاکستان نے چین اور روس کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فوری اور غیر مشروط سیزفائر کی قرارداد پیش کر کے امن سے وابستگی کا واضح پیغام دیا۔ پاکستان کی اصولی سفارت کاری، اسٹریٹجک بصیرت، اور متوازن حکمت عملی نے اسے ایک قابل اعتماد، امن دوست ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جو خطے میں استحکام کا پیغام دے رہی ہے۔