اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27جون 2025)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کی سماعت کے درمیان جسٹس جمال مندوخیل اور وکیل حامد خان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ،سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں حامد خان کا بینچ پر اعتراض مسترد کردیا،سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران حامد خان نے کہا کہ مثالیں موجود ہیں آپ یہ سماعت نہیں کر سکتے اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہاں لکھا ہے کہ ہم کیس کی سماعت نہیں کر سکتے؟ سپریم کورٹ رولزمیں دکھائیں کیسے نہیں کرسکتے سماعت؟،جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر آپ نے دلائل دینا ہیں تو دیں ورنہ واپس کرسی پر بیٹھ جائیں یہ سپریم کورٹ ہے مذاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ اچھے وکیل ہیں مگر جو آپ نے کیاہے یہ اچھے وکیل کارویہ نہیں ہے۔

(جاری ہے)

حامد خان نے جواب دیا آپ کو کوئی حق نہیں ایسی بات کہیں آپ اتنی سختی کیسے کرسکتے ہیں؟ میں سپریم کورٹ کی عزت کرتا ہوں آپ میرے کنڈکٹ پر بات کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ دوسروں کو بات نہیں کرنے دیتے سن تو لیں، عزت سے بات کریں۔ جسٹس مندوخیل نے تنبیہ کی کہ ایسا نہیں کہ ہمیں سختی کرنا نہیں آتی۔وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مثال ہے۔

قاضی فائزعیسیٰ کیس میں طے ہوا اصل کیس سے کم ججز نظرثانی کیس کی سماعت نہیں کرسکتے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قاضی فائز عیسی کا نام نہ لیں آپ سپریم کورٹ رول پڑھیں۔ حامد خان نے جواب دیا میں کیوں قاضی فائز عیسی کا نام نہ لوں؟ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ہمیں سختی کرنا آتی ہے۔ آپ کو کہا ہے رول پڑھیں۔ حامد خان نے جسٹس جمال مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ غصے کی حالت میں ہیں یہ سماعت نہ کریں۔

اس پر جسٹس مندوخیل نے جواب دیا ''مائنڈ یور لینگویج''! میں کس حالت میں ہوں مجھے معلوم ہے، میں اس ادارے کی خاطر اپنی والدہ کی فاتحہ چھوڑ کرآیا ہوں آپ مذاق پر تلے ہیں۔وکیل حامد خان نے دلائل دئیے کہ 13 ججز کے فیصلے کے خلاف 10 جج بیٹھ کر سماعت نہیں کرسکتے اس پر جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ 13 میں سے الگ ہونے والے ججز کی رائے بھی شمار ہوگی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ عزت سے عزت ملتی ہے۔ آج آپ کی عزت ہے تو سپریم کورٹ کی وجہ سے ہے، آج ہم ہیں، کل ہم نہیں ہوں گے۔وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا ہم احترام کرتے ہیں مگر 26 ویں ترمیم ہم نے نہیں پارلیمنٹ نے کی۔ آپ نے 26 ویں ترمیم کے خلاف ووٹ نہیں دیا، آپ نے بائیکاٹ کیا جب تک 26 ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے ہم اس کے پابند ہیں یا تو آپ اس سسٹم کو تسلیم کر لیں یا پھر وکالت چھوڑ دیں۔

سماعت کے دوران جسٹس ہاشم نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ نے گزشتہ روز میرے مینٹور قاضی فائز عیسیٰ کا نام لیا، سٹنگ ججز پر الزامات عائد کئے آپ کو کس نے حق دیا؟ آپ نے کل سپریم کورٹ کو ڈی چوک بنا دیا۔بعدازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں حامد خان کا بینچ پر اعتراض مسترد کردیا۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس پر جسٹس مندوخیل نے جسٹس جمال مندوخیل قاضی فائز عیسی سماعت نہیں کر وکیل حامد خان مخصوص نشستوں کیس کی سماعت سپریم کورٹ دئیے کہ

پڑھیں:

27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ

اسلام آباد:

پارلیمان میں پیش 27 ویں آئینی ترمیمی بل نے رواں ہفتے کو سپریم کورٹ کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کن بنا دیا۔ مجوزہ ترمیم کے تحت سپریم کورٹ وفاقی آئینی عدالت کے ماتحت بن جائیگی، جس کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری انتظامیہ کرے گی۔

سپریم کورٹ نئی وفاقی آئینی عدالت کے دائرہ اختیار کی پیروی کے پابندی ہو گی۔ امکان ہے کہ رواں ہفتہ ملک کی موجودہ عدالتی عظمیٰ کیلیے آخری ہو گا، مجوزہ ترمیم میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے نام کیساتھ بھی لفظ  پاکستان ختم کر دیا جائیگا۔ 

ذرائع کے مطابق حکومت آئینی ترمیمی بل رواں ہفتے منظور کرانے کیلئے پرعزم ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا 12 نومبر کو ترکی کے دورہ پر جا رہے ہیں، ان کی غیر موجودگی میں سینئر ترین جج سید منظور علی شاہ قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھائیں گے۔

اس دوران اگر 27 ویں ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو حکومت کسی بھی سپریم کورٹ کے جج کو قائم مقام چیف جسٹس لگا سکتی ہے۔

آج تمام نظریں سپریم کورٹ کے ججز پر ہیں کہ مجوزہ 27 ویں ترمیم کیا ردعمل  دیتے ہیں، جوکہ 27 ویں ترمیمی بل پارلیمان میں پیش ہونے کے بعد ان کا پہلا ورکنگ ڈے ہے۔

وکلاء کی نظر میں مجوزہ آئینی ترمیم پر سپریم کورٹ سے ردعمل آئے گا۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ ردعمل بطور ادارہ ہو گا، یا پھر کچھ جج اپنی آواز بلند کریں گے؟

وکلاء کی نظر میں تمام سپریم کورٹ ججز کو عدلیہ کی خودمختاری کیلئے ہم آواز ہونا چاہیے جوکہ  آئین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے۔

کم از کم چیف جسٹس آفریدی کو 27 ویں ترمیمی بل کی منظوری سے قبل فل کورٹ اجلاس طلب کرنا چاہیے۔

حکمران اتحاد کے قانونی ماہرین  اپنی قیادت کو سمجھانے سے قاصر ہیں کہ ایسی عدالت کی ساکھ کیا ہو گی جس کے سربراہ کا تقرر حکومت کرے گی۔

وفاقی آئینی عدالت میں تقرری کے امیدوار سپریم کورٹ کے ججز کو بھی  موجودہ پارلیمنٹ کی ساکھ سے متعلق سنگین شکوک وشہبات سمجھنے کی ضرورت ہے۔

نئی وفاقی آئینی عدالت کیلئے حکومت کے زیر اثر کام نہ کرنے کا تاثر ختم کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے رابطے پر کہا کہ  سپریم کورٹ کے ججز کو اصولی طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں، ایک کھلی حقیقت ہے: جسٹس اطہر من اللّٰہ کا چیف جسٹس کو خط
  • سپریم کورٹ نے اکثر طاقتور کا ساتھ دیا عوام کا نہیں: جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو خط
  • ’عدلیہ میں بیرونی مداخلت اب کوئی راز نہیں‘ جسٹس اطہر من اللہ کا چیف جسٹس کو لکھا خط منظر عام پر
  • 27ویں ترمیم سے سپریم کورٹ  کو شید ید خطرہ ، کنو نشن بلایا جائے 
  • 27ویں آئینی ترمیم پر ریٹائرڈ ججز کیا کہتے ہیں؟
  • 27ویں آئینی ترمیم پر سینئر وکلا ‘حاضر اور ریٹائرڈ ججز کا چیف جسٹس پاکستان کو خط
  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت آئینی عدالت پر جسٹس منصور کے دلچسپ ریمارکس پر قہقہے
  • چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی والدہ کاانتقال
  • 27 ویں ترمیم، سپریم کورٹ کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن ہفتہ
  • بیوی کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا،احسن خان نے شادی کے بعد کی قربانیاں پہلی بار بتا دیں