مخصوص نشستیں کیس؛ ’’لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا‘‘ جسٹس محمد علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ میں مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ہیں کہ لگتا ہے پی ٹی آئی میں کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔
مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں سندھ ہائیکورٹ بار کیس کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ یہ فیصلہ مثال ہے کہ عدالت آئین بحالی کے لیے مداخلت کرتی رہی ہے۔ 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد کئی اقدامات کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی کہا۔ اس ایمرجنسی کے بعد کیے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم کیے گئے۔
سلمان اکرم راجا نے مشرف دور کی ایمرجنسی کالعدم قرار دینے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا کہ ایمرجنسی کے بعد لگائے گئے ججز کی حیثیت نہیں تھی۔ عدالت نے ججز کو ہٹائے جانا بھی غلط قرار دے کر بحال کیا۔ الیکشن ایکٹ سیکشن 66 کے مطابق کسی بھی پارٹی کا امیدوار بننے کے لیے 2 اصول ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پارٹی ٹکٹ فائل کرنا چاہیے یا نہیں۔ کیا اس کا کوئی ثبوت ہو گا؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کوئی ثبوت ججمنٹ میں ڈسکس ہوا ہے؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کتنے امیدواروں نے مینشن کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے؟، جس پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے جو ریکارڈ پیش کیا اس کے مطابق 39 نے مینشن کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں 39 آپ کی اس 80 کی لسٹ سے لیا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ یا ثبوت عدالت کے سامنے پہلے نہیں تھے۔ وکیل نے کہا کہ میں نے وہ لسٹ اپنی سی ایم اے کے ساتھ فائل کی ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ سیکڑوں ڈاکومنٹس فائل کر سکتے ہیں، آپ کو کوئی روک نہیں سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی شخص پارٹی ٹکٹ فائل کرنے میں ناکام ہو وہ آزاد تصور ہو گا۔
دوران سماعت سلمان اکرم راجا نے 2013، 2018 اور 2024 کے عام انتخابات میں مخصوص نشستوں کے تناسب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے جتنی جنرل نشستیں لیں تقریباً اسی تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں، لیکن حالیہ عام انتخابات میں صورتحال مختلف ہے۔ خیبر پختونخوا میں 83 فیصد جنرل نشستیں لینے والی پارٹی کو صفر مخصوص نشستیں ملیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی سیاست دان کو آزاد الیکشن لڑنے سے کیسے روک سکتی ہے؟۔ فرض کریں عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمن پارٹی کے بڑے لیڈرز ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کہے ہم نے آزاد الیکشن لڑنا ہے تو ہم کیسے انہیں روک سکتے ہیں؟۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پارٹی نشان نہ ملنے سے سیاسی جماعت کی رجسٹریشن ختم نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی لیکن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیس فیصلے کا حوالہ دیا، وہاں تو تسلیم شدہ حقائق تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 1985 کے انتخابات میں ایک سیاسی جماعت نے کہا ہم عوام دوست جماعت ہیں۔ کیا آپ نے بھی ایسی کوئی اصطلاح متعارف کرائی، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہاں! ہم نے کپتان کا سپاہی کی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ لگتا ہے پی ٹی آئی کے اندر کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے جن 39 اراکین اسمبلی نے سیاسی وابستگی پی ٹی آئی ظاہر کی وہ زیادہ عقل مند تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیادہ عقل مند تھے یا پھر زیادہ دباؤ برداشت کرنے والے تھے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کیخلاف آپ نے مکمل قانونی جنگ لڑی یا راستے میں سب چھوڑ دی؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے ادھوری نہیں چھوڑی، آپ الزام لگانا چاہیں تو بے شک لگائیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا،ہم نے سوچا اب الیکشن کے بعد دیکھیں گے۔ ہمیں الزام نہ دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اپیل آپ فائل نہ کریں تو الزام کسے دیں پھر؟۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 12 جولائی کے مختصر حکم نامے میں الیکشن رول 94 کو غیر آئینی قرار نہیں دیا گیا۔ رول 94 کو تفصیلی فیصلے میں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ جو شارٹ آرڈر میں نہ ہو کیا اسے تفصیلی وجوہات میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے؟ ۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں ایسے سوالات سامنے آئیں۔ تفصیلی وجوہات تو شارٹ آرڈر پر ہی ہوتی ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت بعض اوقات شارٹ آرڈر میں درخواست مسترد یا منظور کرتی ہے۔ پھر تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جاتی ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان اکرم راجا نے مندوخیل نے کہا کہ نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستیں سپریم کورٹ پی ٹی آئی لگتا ہے کے بعد
پڑھیں:
اسلام آباد پٹوار خانوں میں بھرتیوں کا کیس، ڈپٹی کمشنر نے وقت مانگ لیا
اسلام آباد پٹوار خانوں میں بھرتیوں کا کیس، ڈپٹی کمشنر نے وقت مانگ لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 11 August, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ میں اسلام آباد کے پٹوار خانوں میں خالی نشستوں پر بھرتیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے بھرتیوں کا مجوزہ طریقہ کار جمع کرانے کے لیے وقت مانگ لیا۔ کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔
پرائیویٹ افراد کے پٹوار خانوں میں کام کرنے کی تفتیش کے لیے مقرر اسسٹنٹ کمشنر انڈسٹریل ایریا عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے اسسٹنٹ کمشنر سے سٹیٹ کونسل کی رپورٹ سے متعلق استفسار کیا، جس پر اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا کہ انہوں نے رپورٹ نہیں دیکھی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پورا ریونیو ڈیپارٹمنٹ اس معاملے میں شامل ہے اور اسلام آباد میں بلدیاتی حکومت بھی موجود نہیں ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت نے مؤقف اختیار کیا کہ کچھ وقت دیا جائے، ہم تعیناتیاں کر دیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پٹوار سرکلز میں سرکاری افسر تعینات کرنے ہیں تاکہ عوام کو سہولت ملے، عوام پٹوار خانوں میں بیٹھے پرائیویٹ افراد کو رشوت دے رہے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کوٹے سے متعلق سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے موجود ہیں، رولز الگ اور عدالتی فیصلے الگ ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ رولز میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آئینی ترمیم بھی کرنا پڑے گی۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ 27ویں ترمیم آ جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بغیر پڑھے لکھے اور بغیر کوالیفکیشن کے لوگ کام کر رہے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ایاز شوکت نے کہا کہ اگر پٹواری نہ بچے تو کام رک جائے گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کوئی شخص کسی پوزیشن کے لیے ناگزیر نہیں ہے، پاکستان 25 کروڑ کا ملک ہے، لوگ ریٹائر بھی ہوتے ہیں، فوت بھی اور ڈسمس بھی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کچھ وقت دیا جائے، تعیناتیوں تک نظام چلانا ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت 17 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعمران خان کے طبی معائنہ کیلئے علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع عمران خان کے طبی معائنہ کیلئے علی امین گنڈاپور کا اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع پاکستان میں گدھوں کی گنتی مکمل، پنجاب تمام صوبوں پر بازی لے گیا آسٹریلیا کا ستمبر میں جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان ترکیہ سمیت مختلف ممالک میں اسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاج، غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ گلگت: دنیور نالے میں مٹی کا تودہ گر گیا، ملبے تلے دب کر8 رضاکار جاں بحق امریکی صدر کے مشکور ہیں جن کی وجہ سے پاک بھارت سمیت کئی جنگیں رکیں، فیلڈ مارشل عاصم منیرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم